گوہر علی خان
ان کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر سے ہے، بیرسٹر گوہر علی خان نے برطانیہ کی والورہیپمٹن یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور واشنگٹن اسکول آف لا سے ایل ایل ایم کر رکھا ہے جبکہ وہ کئی عرصے تک اعتزاز احسن اینڈ ایسوسی ایٹس کے ساتھ وابستہ رہے اور اعتزاز احسن کی براہ راست نگرانی میں وکالت کرتے رہے۔
گوہر علی خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 10 اکتوبر 1978ء (46 سال) ضلع بونیر |
شہریت | پاکستان |
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی (2008–2022) پاکستان تحریک انصاف (2022–) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | یونیورسٹی آف وولورہیمپٹن |
پیشہ | وکیل ، بیرسٹر ، سیاست دان |
درستی - ترمیم |
اس کے بعد وہ طویل عرصہ سیاسی میدان سے دور رہے اور سیاسی جماعتوں کے مقدمات میں وکیل کے طور پر عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔
اعتزاز احسن کے ساتھ بیرسٹر گوہر 2007ء میں وکلا تحریک میں بھی پیش پیش تھے، افتخار محمد چودھری کی بحالی کے سلسلے میں بھی مقدمہ لڑنے میں وہ اعتزاز احسن کے معاون رہے، تاہم وہ سیاست میں زیادہ فعال نہیں رہے۔
وہ پاکستان تحریک انصاف سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ رہے ہیں اور 2008ء کے عام انتخابات میں تیر کے نشان پر انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔
انھوں نے اپنے آبائی ضلع بونیر NA-28 (موجودہ NA-10) سے الیکشن لڑا تھا۔ تاہم، وہ یہ انتخاب تقریباً دو ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔
بیرسٹر گوہر کے مطابق 2008ء میں شکست کے بعد پھر انھوں نے خاموشی سے ہی اس جماعت سے دوری اختیار کر لی اور 2008ء میں معمولی مارجن سے شکست کے بعد ان کے پاس دو آپشن تھے یا سیاسی طور پر جدوجھد جاری رکھتے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے یا پھر کارپوریٹ اور آئینی امور پر وکالت کر کے لوگوں کی خدمت کرتے،
بیرسٹر گوہر خان گذشتہ ایک سال سے سابق وزیر اعظم عمران خان کی قانونی ٹیم کے اہم رکن ہیں جن کے ذمے تمام قانونی امور کو سنبھالنا ہے اور وہ پارٹی کے قانونی امور پر فوکل پرسن بھی ہیں۔
ابتدائی طور پر بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کے مقدمات کی پیروی کرتے تھے مگر پھر جب تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم کے خلاف مقدمات کی بھرمار ہوئی تو ایسے میں جہاں ان کے چیلنجز میں اضافہ ہوا وہیں پارٹی میں ان کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ گئی۔
بیرسٹر گوہر علی خان 2 دسمبر 2023ء کو بلامقابلہ چیئرمین پی ٹی آئی منتخب ہو گئے، سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے انھیں چیئرمین شپ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔