ہرمزان
ہرمزان (انگریزی: Hormuzan عربی:الهرمزان؛ فارسی: ھرمزان) ایران کے مشہور و معروف سپہ سالار تھے۔
ہرمزان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 6ویں صدی |
وفات | سنہ 644ء (43–44 سال) مدینہ منورہ |
وجہ وفات | قتل |
قاتل | عبیداللہ ابن عمر ابن خطاب |
طرز وفات | قتل |
شہریت | ساسانی سلطنت خلافت راشدہ |
عملی زندگی | |
پیشہ | عسکری قائد ، مقتدر اعلیٰ |
مادری زبان | فارسی |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی ، عربی |
عسکری خدمات | |
وفاداری | ساسانی سلطنت |
لڑائیاں اور جنگیں | قادسیہ کی لڑائی ، جنگ جلولا ، فتح تستر |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمایرانیوں کا نامی سردار ہرمزان جنگ قادسیہ سے فرار ہو کر صوبہ اہواز کے دارالصدر خوزستان میں آ کر فوجیں جمع کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا جس نے اپنی حدود حکومت کو وسیع کرنا شروع کیا کوفہ و بصرہ کی چھاؤنیوں سے اسلامی افواج نے اس پر حملہ کیا اور شکست پر شکست دے کر صوبہ اہواز پر اپنا قبضہ کر لیا اس نے جزیہ دے کر مسلمانوں سے صلح کر لی‘ پھرچند روز کے بعد ہرمزان نے بغاوت اختیار کی اور مقام سوق اہواز میں اسلامی فوج سے شکست کھا کر مقام رام ہرمز میں جا کر پناہ لی۔ دوسری مرتبہ ہرمزان نے عاجز ہو کر پھر صلح کی درخواست کی اور ادائے جزیہ کی شرط پر مسلمانوں نے باقی علاقہ ہرمزان کے قبضہ میں چھوڑ کر اس سے پھر صلح کر لی‘ سیدنا حرقوص بن زہیر سعدی فاتح اہواز نے جبل اہواز پر ڈیرے ڈال کرعلاقہ اہواز کے ویران شدہ شہروں کی آبادی کا کام شروع کیا۔ تیسری مرتبہ ہرمزان میدان میں نکلا‘ لڑائی ہوئی‘ ہرمزان کو شکست فاش حاصل ہوئی اور مسلمانوں نے رام ہرمز پر قبضہ کر لیا‘ ہرمزان شکست خوردہ فرار ہو کر مقام تستر میں پہنچ کر مسلمانوں کے خلاف فوجیں جمع کرنے لگا تستر کے قلعہ کی مرمت بھی کرا لی‘ چاروں طرف خندق کو بھی درست کر لیا اور برجوں کی پورے طور پر مضبوطی کر لی‘ ایرانی فوجیں بھی تستر میں اس کے پاس آ کر جمع ہونے لگیں‘ ان حالات سے مطلع ہو کر فاروق اعظم نے سیدنا ابو موسیٰ اشعری کو بصرہ کی افواج کا سردار بنا کر بھیجا۔
ہرمزان بطور قیدی
ترمیمابو موسیٰ اشعری نے تسترکی جانب حرکت کے قریب پہنچ کر لڑائیوں کا سلسلہ جاری کیا‘ ہرمزان نے اول کئی معرکے میدان میں کیے‘ پھر تستر میں محصور ہو کر مدافعت میں مستعد ہوا‘ بہت سی لڑائیوں اور حملہ آوریوں کے بعد شہر تستر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا‘ ہرمزان نے تستر کے قلعہ میں پناہ لی‘ قریب تھا کہ قلعہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے کہ ہرمزان نے ابوموسیٰ کی خدمت میں یہ درخواست بھیجی کہ میں اپنے آپ کو اس شرط پر تمھارے سپرد کرتا ہوں کہ مجھ کو فاروق اعظم کی خدمت میں بھیج دیا جائے اور میرے معاملہ کو انھیں کے فیصلہ پر چھوڑ دیا جائے‘ ابو موسیٰ نے اس شرط کو منظور کر لیا‘ چنانچہ ہرمزان کو انس بن مالک اور احنف بن قیس وغیرہ کی ایک سفارت کے ہمراہ مدینہ منورہ کی جانب روانہ کیا گیا۔
ہرمزان کا حیلہ
ترمیممدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر ہرمزان نے مرصع تاج سر پر رکھا اور زرق برق لباس پہنا‘ فاروق اعظم نے جب ایسے بڑے سردار کو اس طرح گرفتار دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا‘ ہرمزان سے پوچھا تم نے کئی مرتبہ بد عہدی کی ہے‘ اس کی سزا میں تمھارے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا جائے اور بتاؤ کہ تم اپنی برأت اور معذرت میں کیا کہنا چاہتے ہو؟۔ ہرمزان نے کہا مجھے خوف ہے کہ کہیں تم میری طرف سے معذرت سنے بغیر ہی مجھ کو قتل نہ کر دو‘ فاروق اعظم نے فرمایا نہیں تم خوف نہ کرو‘ تمھاری معذرت ضرور سنی جائے گی‘ پھر ہرمزان نے پانی مانگا‘ پانی آیا تو ہرمزان نے پیالہ ہاتھ میں لے کر کہا‘ مجھے خوف معلوم ہوتا ہے کہ کہیں تم مجھ کو پانی پینے کی حالت میں قتل نہ کر دو‘ فاروق اعظم نے فرمایا‘ تم مطلق خوف نہ کرو جب تک پانی نہ پی لو گے اس وقت تک تم کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے گا‘ ہرمزان نے یہ سنتے ہی پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا کہ میں پانی نہیں پیتا اور اس شرط کے موافق اب تم مجھ کو قتل نہیں کر سکتے‘ کیوں کہ تم نے مجھ کو امان دے دی ہے۔
سیدنا عمر فاروق کا حسن سلوک
ترمیمفاروق اعظم نے یہ سن کر فرمایا کہ تو جھوٹ بولتا ہے‘ ہم نے تجھ کو امان نہیں دی‘ سیدنا انس بن مالک فوراً بول اٹھے کہ امیر المومنین ہرمزان سچ کہتا ہے‘ آپ نے ابھی فرمایا ہے کہ جب تک پورا حال نہ کہہ لو گے اور پانی نہ پی لو گے کسی خطرہ میں نہ ڈالے جاؤ گے‘ فاروق اعظم سن کر حیران رہ گئے اور ہرمزان سے مخاطب ہو کر بولے کہ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے‘ مگر میں تم کو کوئی دھوکا نہ دوں گا‘ مناسب ہے کہ تم مسلمان ہو جا ‘
قبول اسلام
ترمیماس حسن سلوک پر ہرمزان نے اسی وقت کلمہ توحید پڑھا‘ فاروق اعظم بہت خوش ہوئے‘ ہرمزان کو مدینے میں رہنے کی جگہ دی‘ دو ہزار سالانہ تنخواہ مقرر کر دی‘ اور اس کے بعد مہم فارس میں اکثر ہرمزان سے مشورہ لیتے رہتے تھے اس کے بعد فاروق اعظم نے انس بن مالک اور احنف بن قیس وغیرہ ارکان سفارت سے مخاطب ہو کر کہا کہ شاید تم لوگ ذمیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ہو‘ اسی لیے یہ بار بار بغاوت اختیار کرتے ہیں۔ یہ سن کر سیدنا احنف بن قیس نے جواباً عرض کیا کہ امیر المومنین ہم ہمیشہ اپنے وعدوں کا ایفاء کرتے اور ذمیوں کے ساتھ نہایت رافت و محبت کا برتاؤ کرتے ہیں‘ لیکن ان لوگوں کی بار بار بغاوت و سرکشی کا سبب صرف یہ ہے کہ آپ نے ہم کو بلاد فارس میں آگے بڑھنے کی ممانعت کر دی ہے‘ اہل فارس کا بادشاہ یزدگرد فارس کے ملک میں زندہ موجود ہے‘ جب تک یزدگرد فارس کے ملک میں زندہ و سلامت موجود رہے گا اس وقت تک اہل فارس لڑنے اور ہمارا مقابلہ کرنے سے کبھی باز نہ آئیں گے۔ فاروق اعظم نے احنف کے کلام کی تصدیق کی اور اس کے بعد بلاد فارس میں اسلامی فوجوں کو پیش قدمی کی اجازت دے دی۔[1][2]
وفات
ترمیمہرمزان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبید اللہ نے خلیفہ دوم کے قتل کی سازش میں شریک ہونے پر قتل کر دیا۔ خلفیہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہرمزان کے عرب حمایتیوں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، کی مخالفت کے باوجود معاف کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنتے ہی عبید اللہ ابن عمر کے خلاف کارروائی کی لیکن وہ فرار ہو کر شام میں حضرت معاویہ کے پاس چلے گئے۔