ہندوستان کی تاریخ
اس مضمون یا قطعے کو تاریخ ہند میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
ہندوستان کی تاریخ کئی ادوار پر مشتمل ہے ہے۔ اس میں پتھر کا دور اور اس کی ثقافت بھی شامل ہے، تو دوسری جانب ہندوستان کی تاریخ سے بھی قبل مطالعات کیے جاتے ہیں۔ مثلًا آندھرا پردیش اور گجرات میں ڈائناسور کے انڈے ملے ہیں۔ اسی طرح سے ڈائناسور کی مختلف قسموں کی ہڈیاں ملی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہندوستان کسی دور میں ان جانوروں کا گہوارہ رہا ہے۔ سائنس دانوں یہ بات پر اختلاف ہے کہ کیا انسان اور ڈائناسور کبھی ایک ہی دور میں تھے یا نہیں۔ زیادہ تر لوگ اس پر مصر ہیں کہ یہ الگ الگ دور میں رہے ہیں۔ اس طرح انسانی تاریخ سے قبل ہندوستان میں حیوانی اور نباتی تواریخ رہ چکی ہیں۔ ہندوستان اگر چیکہ موجودہ طور پر ایشیا میں ہے، مگر ماہرین ارضیات یہ مانتے ہیں کہ کبھی ہندوستان افریقہ سے جڑا تھا۔ ہندوستان کا افریقہ سے الگ وجود بر اعظموں کی تبعید (Continental drift) کی وجہ سے ہے۔ اس طرح ہندوستان جغرافیائی تاریخ دانوں کے لیے بھی ایک پر لطف موضوع پیش کرتا ہے۔
ہندوستان کا یہ المیہ ہے کہ اس کی زیادہ تر تاریخ یا تو زبانی اور دیومالائی روایتوں پر مشتمل ہے یا پھر بیرونی سیاحوں کی مرہون منت ہے۔ اس میں چینی سیاح ہیون سینگ بھی ہے، االبیرونی بھی اور کئی برطانوی مورخین بھی اس میں شامل ہیں۔ اس کی وجہ تاریخ کے موٹے سوالات کا جدید دور تک بھی کوئی تشفی نخش جواب کبھی دیا نہیں گیا۔ مثلًا یہ سوال کا کوئی مؤرخ جواب نہیں دے سکا ہے کہ ہندوستان کا سب سے عظیم حکم ران کون ہے۔ کسی نے یہ اعزاز ہرشا کو دیا،کوئی گرجر پتہارا،، کسی نے چندر گپت موریا کو، کسی نے اکبر کو یہ خطاب دیا ہے تو کوئی یہ خطاب اورنگ زیب کو دیا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کے مطالعے کو بھی مختلف نظریوں کا اسیر پایا گیا ہے۔ جہاں ہندوستان کی ہندوتوا طاقتیں ویدی اور ہندو دور کو بہترین دور قرار دیتی ہیں اور مسلمانوں کو ظالم بتاتی ہیں، وہیں نامور ہندوستانی مؤرخہ رومیلا تھاپر تاریخ کا ایک ایسا منظر پیش کرتی ہیں جس میں مسلمان حکمران خود عام مسلمانوں سے زیادہ شریف النفس بتائے جاتے ہیں۔ مثلًا ان کا یہ دعوٰی ہے کہ محمود غزنوی نے سومناتھ مندر کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا تھا، کیوں کہ اس کے حملے کے اگلے ہی سال ہندو زائرین کا بیان تاریخ میں لکھا ہے کہ مندر صحیح حالت میں۔ یہ بیان کچھ مسلمان مؤرخین کے بیان سے عدم اتفاق کرتا ہے جو محمود غزنوی کی بت شکنی یا انہدام منادر کا فخریہ طور پر بیان کرتے ہیں۔ تھاپر نے یہ بھی محیر کن بات لکھی کہ محمود نے اپنی سلطنت میں جزیہ نافذ کیا اور کچھ ہندوؤں افغانستان بسنے کا موقع دیا تھا اور یہ کہ ان کے ساتھ مکمل رواداری برتی گئی۔
بہر حال ہندوستان کی تاریخ کے اہم دور میں ویدی دور، ہرپا دور، گپتا دور، گرجر دور ،موریا دور، راجپوت دور، عرب دور، سلاطین دہلی کا دور، مغلیہ دور، مراٹھا دور انگریز دور رہے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی چھوٹی بڑی سلطنتیں اور علاقائی عمل داریاں قائم ہوتی رہی ہیں۔[1][2][3][4]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ کیا تاج محل ہندوستانی تہذیب کا حصہ نہیں ہے؟ - The Wire – Urdu
- ↑ "ہندوستان میں اسلامی سامراج – Niazamana"۔ 27 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2018
- ↑ https://fridayspecial.com.pk/2017/12/01/ہندوستان-کی-تاریخ-سے-فریب-یا-تجاہل-عارف/[مردہ ربط]
- ↑ "صوفیا کی برصغیر پاک و ہند میں آمد (تاریخ کے آئينے سے) | اردو مجلس فورم"۔ 22 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 مئی 2018
«ہندوستان کی تاریخ» دیگر زبانوں کے ویکیپیڈیا میں بھی ہوسکتا ہے۔ ان سے مربوط کرنے کے لیے ویکی ڈیٹا کرنے کی ضرورت ہے، طریقہ ملاحظہ فرمائیں:معاونت:بین اللسانی روابط۔ |