رومیلا تھاپر (انگریزی: Romila Thapar; ہندی: रोमिला थापर‎) ایک بھارتی مؤرخ ہیں جن کا بنیادی موضوع قدیم ہندوستان ہے۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ وہ فی الوقت جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی متقاعد پروفیسر ہیں۔ انھیں دو مرتبہ پدم بھوشن کی پیش کش ہوئی، لیکن انھوں نے دونوں مرتبہ انکار کر دیا۔

رومیلا تھاپر
 

معلومات شخصیت
پیدائش 30 نومبر 1931ء (93 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (15 اگست 1947–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکنیت امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون ،  برٹش اکیڈمی ،  امریکن فلوسوفیکل سوسائٹی   ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی پنجاب یونیورسٹی
اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ تاریخ دان ،  استاد جامعہ ،  مصنفہ [2]،  پروفیسر [3][4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی [6]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نوکریاں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
کولگے انعام (2008)
ایڈن برگ رائل سوسائٹی فیلو شپ (2006)[7]
فوکوکا ایشیائی ثقافت انعام   (1997)
فیلو آف امریکن اکیڈمی آف آرٹ اینڈ سائنسز
جواہر لعل نہرو فیلوشپ   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

رومیلا نے 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے ادب میں کیا، اس کے بعد لندن چلی گیئں، وہاں لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن میں ممتاز مؤرخ و ماہر ہندویات اے آر باشم کے ساتھ تاریخ پر کام کیا اور علم تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی سند 1958ء میں حاصل کی۔[8] رومیلا 1961 اور 1962 مین جامعہ کروکشیتر میں ریڈر کے عہدے پر کام کرتی رئیں اس کے بعد اسی عہدے پر جامعہ دہلی میں 1963ء سے 1970ء تک کام کیا۔ اس کے بعد جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی میں قدیم ہندوستان کی تاریخ کی پروفیسر مقرر ہوئیں، آپ اس وقت بھی امریطس پروفیسر (اعزازی حیثیت) ہیں۔[9]

تاریخ نویسی پر نظر ثانی

ترمیم

تھاپر قدیم ہندوستان کی تاریخ پر سامراجی تشریحات کی شدید ناقد ہیں، ان کا ماننا ہے کہ انگریز سامراج کے آنے سے پہلے کوئی نہیں کہتا تھا کہ وہ ہندو کمیونٹی سے ہے یا مسلمان کیمونٹی سے اس کا تعلق ہے، تب لوگ اپنی ذات، مذہب اور زبان سے تعارف کراتے تھے، برطانوی سامراج نے مذہب کی بنیاد پر تفریق کی اور اسے گہرا کیا اور سارے ہندوستان میں پھیلا دیا، اسے تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ تھاپر سومنات پر محمود غزنوی کے حملے سے متعلق بہت سی باتوں کو اور اس پر انیسویں صدی میں شروع ہونے والے ہندو مسلم تنازع کو بھی انگریز کی چال اور فرقہ واریت پیدا کرنے کی سازش قرار دیتی ہیں۔[10]

تنازعات

ترمیم

تھاپر کی 2003ء میں کتب خانہ کانگریس کی کولگے چیئر میں تقرری ہوئی تو ایک آن لائن استدعا جس پر دو ہزار لوگوں نے اپنے دستخط کیے تھے، اس وجہ سے روک دی گئی، اس استدعا (پٹیشن) کی بنیاد یہ تھی کہ رومیلا تھاپر مارکسی اور ہندو مخالف ہے اور یہ بائیں بازو والوں کے لیے امریکی پیسے کا ضیاع ہے۔[11]

بیرونی روابط

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6md19sz — بنام: Romila Thapar — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. عنوان : The Times of India — دی ٹائم آف انڈیا ٹاپک آئی ڈی: https://timesofindia.indiatimes.com/topic/Romila-Thapar/quotes
  3. http://www.manipalworldnews.com/2015/01/22/speak-religion-used-political-gains-prof-romila-thapar/
  4. http://www.cpiml.org/liberation/year_2003/july/romila_thapar.htm
  5. http://india.indymedia.org/en/2003/05/5009.shtml
  6. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12045505k — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  7. https://www.rse.org.uk/fellow/romila-thapar/
  8. "Romila Thapar"۔ Penguin India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 دسمبر 2014 
  9. "Romila Thapar, Professor Emerita" (PDF)۔ JNU۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 دسمبر 2014 
  10. ڈاکٹر مبارک علی (2005ء)۔ "رومیلا تھاپر سے گفتگو"۔ سہ ماہی تاریخ۔ 7 (25): 133 
  11. "Romila Thapar's appointment to Library of Congress opposed"- ریڈف ڈاٹ کوم article dated 25 اپریل 2003