ہوتچند مولچند گربخشانی
ڈاکٹر ہوتچند مولچند گربخشانی (پیدائش: 8 مارچ 1884ء - وفات: 11 فروری 1947ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف محقق، سندھی زبان کے ماہر، ڈی جے کالج کراچی کے سابق پرنسپل اور فارسی کے پروفیسر تھے۔ وہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کے محقق، مرتب، شارح، مفسر اور نقاد کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کی جدید تشریح و توضیح میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
ہوتچند مولچند گربخشانی | |
---|---|
(سندھی میں: هوتچند مولچند گربخشاڻي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 8 مارچ 1884ء حیدرآباد ، سندھ |
وفات | 11 فروری 1947ء (63 سال) حیدرآباد ، سندھ |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ولسن کالج، بمبئی جامعہ لندن |
تعلیمی اسناد | ایم اے ، پی ایچ ڈی |
پیشہ | ادبی نقاد ، پروفیسر |
پیشہ ورانہ زبان | سندھی ، انگریزی |
کارہائے نمایاں | شاہ جو رسالو |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمہوتچند مولچند گربخشانی 8 مارچ 1884ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔[1] 1900ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ڈی جے کالج کراچی میں داخلہ لیا۔ 1905ء میں بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔اسی سال ایم اے کے لیے ولسن کالج بمبئی میں داخل ہوئے۔ 1907ء میں ایم اے کرنے کے بعد اسی کالج میں انگریزی اور فارسی کے اسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور ایک ہی سال بعد ڈی جے کالج کراچی میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہو گئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1928ء میں لندن یونیورسٹی گئے، جہاں MYSTICISM IN THE EARLY 19th CENTURY POETRY OF ENGLAND (انگلستان کی ابتدائی انیسویں صدی کی شاعری میں تصوف)کے عنوان سے مقالہ لکھا جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی سند تفویض ہوئی۔[2]۔ یہ مقالہ بعد ازاں ڈاکٹر گربخشانی کی صدی تقریبات کی مناسبت سے بھارت سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔
ادبی خدمات
ترمیمڈاکٹر گربخشانی نے ہر چند سندھی ادب میں متنوع اضافے کیے ہیں اور فکشن میں اپنے کام کی بنیاد پر بھی اپنے ہم عصروں میں انفرادیت رکھتے ہیں لیکن دراصل وہ تحقیق کے آدمی تھے، چناں چہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کو ریزہ ریزہ جمع کر کے محققانہ چھان بین کے بعد انھوں نے اس طرح مرتب کیا ہے کہ اب ان کی دی ہوئی ترتیب ہی مستند قرار پائی ہے۔[2] شاہ جو رسالو کی پہلی جلد 1930ء میں، دوسری 1932ء اور تیرسی جلد 1934ء میں مرتب ہوئی تھی، لیکن چوتھی جلد اشاعت پزیر نہ ہو سکی، جسے بعد میں مشہور محقق ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے مکمل کیا ہے۔ڈاکٹر میمن عبد المجید سندھی سندھی ادب جی مختصر تاریخ میں ڈاکٹر گربخشانی کے مرتب کردہ نسخے کی بابت لکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے شاہ لطیف کا رسالہ محققانہ انداز میں مرتب کر کے غیر فانی شہرت اور اہمیت حاصل کی ہے۔ اس رسالہ کو کوئی بھی مرتب نہ کر سکا۔ پیر علی محمد راشدی نے ڈاکٹر گربخشانی کے مرتب کردہ شاہ جو رسالو سے زیادہ انھیں ان کے تحقیقی مضامین اور شاہ لطیف کے کلام کی جدید تشریح و توضیح پر خصوصی داد دیتے ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر عبد الجبار جونیجو شاہ کے کلام سے الحاقی کلام کی چھان پھٹک کی داد دیتے ہیں۔ ڈاکٹر گربخشانی کا دوسرا تحقیقی کارنامہ لواری جا لال نامی کتاب کی تالیف ہے۔ یہ کتاب دراصل سوانحی کتاب ہے جس میں ڈاکٹر گربخشانی نے لواری سلسلے کے بعض شخصیتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر گربخشانی کی تحقیقی و تنقیدی کتابوں اور مضامین کی فہرست بہت طویل ہے جس کی بنیاد پر ڈاکٹر ہوتچند مولچند گربخشانی کو سندھی تنقید کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا ایک اور اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے سندھی تنقید نگاری کو اپنے اظہار کے لیے ایک خاص زبان اور اسلوب بھی بخشا ہے۔[3]
تصانیف / تالیف / تدوین
ترمیم- شاہ جو رسالو
- مقدمہ لطیفی[4]
- لواری جا لال
- نور جہاں
- MYSTICISM IN THE EARLY 19th CENTURY POETRY OF ENGLAND
- روح رھاڻ
وفات
ترمیمسندھی زبان و ادب کے محسن اور شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام کے شارح ڈاکٹر گربخشانی 11 فروری 1947ء کو حیدرآباد، سندھ میں وفات پاگئے۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ڈاکٹر ہدایت پریم، سندھی بولی کے محقق اور ان کی تحقیق (سندھی)، سندھی لینگویج اتھارٹی حیدرآباد، 2007ء
- ^ ا ب مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی، سید مظہر جمیل، ادارہ فروغ قومی زبان پاکستان، 2017ء، ص 262
- ↑ مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی، سید مظہر جمیل، ادارہ فروغ قومی زبان پاکستان، 2017ء، ص 263
- ↑ مقدمہ لطیفی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی لائبریری آن لائن کیٹلاگ[مردہ ربط]