یشیؤ
اس صفحے میں موجود سرخ روابط اور اسکے مضمون بارے مزید مواد مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہے، ترجمہ[1] کر کے ویکیپیڈیا اردو کی مدد کریں۔ |
یشیؤ ( عبرانی: ישוב لفظاًً، ’’آبادکاری‘‘) یا (ہا-یشیؤ، عبرانی: הישוב ) یا ہا-یشیؤ ہا-ایوری (عبرانی: הישוב העברי) قبل از قیام ریاست اسرائیل ارض مقدسہ میں یہودی رہائشیوں کی آبادی تھی (جو 1917ء تک عثمانی شام کی متماثل رہی، 1920ء–1917ء تک مقبوضہ دشمن علاقہ کی جنوبی انتظامیہ اور بعد ازاں 1948ء– 1920ء تک انتداب فلسطین کا حصہ رہی) ۔ یہ اصطلاح 1880ء کی دہائی میں استعمال ہونا شروع ہوئی، جب عثمانی شام کے آس پاس 25ہزار کے قریب یہودی رہتے تھے، جو اس وقت عثمانی شام کے جنوبی حصے پر آباد تھے اور 1948ء تک یہ آبادی تقریبا 630،000 یہودی تک جاپہنچی تھی۔ [2] یہ اصطلاح آج کل عبرانی زبان میں بھی استعمال کی جاتی ہے جو ارض مقدسہ میں قبل از قبضہ یہودی باشندوں کی آبادیوں اور بستیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ [3]
پرانے یشیو اور نئے یشیو کے درمیان کبھی کبھی تفریق بھی کی جاتی ہے۔ پرانے یشو سے مراد 1882ء سے پہلے وہاں بسنے والے تمام یہودی ہیں جو صیہونی تحریک کی علیا (نقل مکانی کی لہر) سے پہلے وہاں رہتے رہے۔ پرانے یشیو کے رہائشی مذہبی یہودی تھے، جو بنیادی طور پر یروشلم ، صفد ، طبریہ اور الخلیل میں رہتے تھے۔ یافا، حیفہ ، بقیعہ، عکا ، نابلس ، شفا عمرو اور غزہ میں بھی 1779ء تک چھوٹی چھوٹی برادریاں موجود تھیں۔ حتمی صدیوں میں جدید صہیونیت سے پہلے، پرانے یشیو کا ایک بڑا طبقہ مطالعۂ تورات کرتے اور تارکین وطن یہود کی عطیہ کردہ صدقات (ہلاکہ ) پر گذر بسر کرتے تھے ۔ [4]
نو یشیو سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے 1860ء کی دہائی میں یروشلم کے قدیم شہر کی فصیل سے باہر مکانات کی تعمیر کا آغاز فتح تکو کے علاقے کی بستی کے بانیوں اور 1882ء کے پہلی علیا کرنے والوں کے ساتھ ملکر کیا تھا ، جو بعد ازاں 1948ء کے ریاست اسرائیل کے قیام تک محلوں اور دیہاتوں میں تبدیل ہوا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "ترجمہ سکھلائی"
- ↑ Ethnicity, Religion and Class in Israeli Society, Eliezer Ben-Rafael and Stephen Sharo, Cambridge University Press, pages 26-27
- ↑ Deepak Tripathi (2013)۔ Imperial Designs: War, Humiliation & the Making of History۔ Potomac Books۔ ISBN 9781612346243
- ↑ From Empire To Empire: Jerusalem Between Ottoman and British Rule, Abigail Jacobson, Syracuse University Press, page 51