یونانی اساطیر
یونانی اساطیر یا یونانی علم الاساطیر، قدیم یونانی مذہب سے وابستہ دیگر افسانوں اور فنون پر مبنی اساطیر کا مجمُوعہ ہے۔ اِن کا واسطہ اِس قدیم تہذیب اور مذہب میں پُوجے جانے والے دیوتاؤں اور اِن سے وابستہ مَسالک و رسُومات کی اہمیت، دُنیاوی قُدرت و دستُور اور علم الکائنات سے ہے۔ یونانی علم الاساطیر سے وابستہ تمام شہادتیں ہمیں واضح طور پر دیگر شاعروں اور افسانہ نِگاروں کے مجمُوعی بیانوں اور تحریروں سے ملتی ہیں۔ لیکن اِن اساطیر میں ضِمناٌ اضافہ دیگر فنون سے ہوا، جن میں گُلدانوں پر تصاویر یا مُقّدس کھنڈر سے دریافت ہونے والے نذرانے شامل ہیں۔ یہ اساطیر دراصل قدیم یونانی مُصنفین کا قُدرت اور دُنیا کے اِبتدا و اِرتَقا کو سمجھنے کی ایک خام کوشش تھی جس میں انھوں نے دیوتاؤں، سُورماؤں اور نایکوں کو اپنی اِن داستانوں میں جنم دیا۔ اِن کرداروں کے ذریعہ یہ مُصنفین قُدرتی آفات اور دیگر دستُوروں کو سمجھانے میں کُچھ حد تک کامیاب بھی رہے لیکن قارعین کی نظر میں اِن کرداروں کی عظمت اتنی بُلند ہوتی چلی گئی کہ انھوں نے اِن کرداروں کو اپنے دھَرم کا ہی حصّہ بنا لیا۔
اسطوری تاریخ کا جائزہ
ترمیمیونانی اساطیر وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج تبدیل ہوتی رہی۔ اِن تبدیلیوں کا باعث یونان کی بدلتی علمی، سیاسی اور سماجی صورتِ حال ہے۔ چنانچہ، اِن تبدیلیوں کی عکاسی اِن اساطیر میں بھی نُمایاں انداز میں ملتی ہے۔
قدیم بلقان میں رہائش پزیر لوگ پیشے کے اعتبار سے زَرعی اور کاشتکار تھے۔ یہ عموماً قُدرتی چیزوں میں سے ہی روحانیت اخذ کیا کرتے تھے۔ اِن کے سامنے درخت اور پتھر بھی خُدا ہی کے کئی رُوپ تھے۔ اِن کے مطابق یہ قدرتی اشیا انسانوں کا رُوپ بھی اختیار کر کے انسانوں کے درمیان چہل قدمی کر سکتی تھیں۔ اِس نظریے کو جب تقویت مِلی تو اِس علاقے میں پہلی مرتبہ انسان نُما دیوتاؤں کا تصّور سامنے آیا۔ جب بلقان کی سرزمین پر شُمال سے جنگی قبیلوں نے چڑھائی کی تو مقامی مذہب کے غیر متشدد دیوتاؤں میں حملہ آوروں کے تشدد پسند دیوتاؤں کا بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اِس طرح مقامی مذہب کے مُقدس ہڑوار میں دیوتاؤں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور آرس، آخیل اور پطروقل کے افسانوں کو اساطیری رُتبہ حاصل ہو گیا۔
اِس خطے کے قدیم شاعروں اور مُصنفین نے رزمی داستانوں اور نظموں کے ذریعے اپنے دیوتاؤں کے متعلق کُچھ اِس طرح لکھا کہ انسانوں اور دیوتاؤں میں آپس داری کو سمجھایا جا سکے۔ ایسا کرنے کے لیے، انھوں نے ”ارضی تاریخ“ کو تین مخصُوص حِصّوں میں بانٹ دیا:
- عصرِ خداوندی – اساطیر کا یہ حِصّہ، ابتدا کائنات اور دیوتاؤں کے جنم و زندگی کی داستانوں پر مرکوز ہے۔ اِن اساطیری داستانوں میں دیوتاؤں کے جنم کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اِن دیوتاؤں نے انسانوں کو کس طرح بنایا۔ اِس حِصّے میں دیوتاؤں کی تین مخصُوص پِیڑھیوں کا بھی ذکر مِلتا ہے جن میں ابتدائی دیوتا، تیتانی دیوتا اور اولمپوی دیوتا شامل ہیں۔
- عصرِ بشر – اساطیر کا یہ حِصّہ، دیوتاؤں اور انسانوں کے میل مِلاپ کی کہانیوں پر مرکوز ہے۔ اِس حِصّے میں زیادہ تر اولمپوی دیوتاؤں کا ہی ذکر ملتا ہے اور یہ اِن دیوتاؤں کے انسانوں سے جنسی تعلقات پر مرکوز کہانیوں کا مہور ہے۔ انسانوں سے جنسی مِلاپ میں پیدا ہونے والے ادھدیوتاؤں کا بھی ذکر اِس حِصّے میں ملتا ہے۔ کھنڈر سے دریافت کیے گئے اکثر مُقّدس نذرانے اور گُلدانوں پر کندہ تصاویر اِس اساطیری حِصّے کی شہادت بھی پیش کرتے ہیں۔ دراصل، یونان میں آج بھی کُچھ مُجسمے اور مندر اپنی جگہ موجود ہیں جو اِس عصر کی عکاسی کرتے ہیں۔
- عصرِ سُورما – اساطیر کا یہ حِصّہ، اُن انسانی کاوشوں پر مرکوز ہے جہاں دیوتاؤں نے اپنی الٰہی سرگرمیاں محدُود کر دیں اور صرف بہادر سُورما ہی انسانوں کی مدد کو پہنچ سکے۔ اِس میں ٹرائے کی جنگ جیسے قصّے شامل ہیں۔ اِس وقت تک لوگ پُوجے جانے والے دیوتاؤں کے رویے سے تنگ آ گئے تھے اور دیوتاؤں کے ہی خلاف ہو نکلے تھے۔ انسان کی دیوتاؤں کے خلاف اِس کاوش کو یونانی اساطیر میں سب سے عُمدہ درجہ حاصل ہے۔
اِبتداء کائنات اور دیوتاؤں کا جنم
ترمیم”اساطیر ھائے اِبتداء کائنات“ قدیم مُصنفین کی ایک خام کوشش تھی جس میں انھوں نے کائنات کی ابتدا کو آسان انسانی زُبان میں سمجھانے کی کوشش کی۔ اِبتداء ارض کا عمومی طور پر تسلیم شدہ نظریہ ہسیود کے تحریری بیان ’تھیوگنیا‘ سے آتا ہے۔
اساطیر کے مُطابق، کائنات کی اِبتدا میں صرف سُنسان تاریکی تھی اور اِس بے وُقعتی خالی پن میں صرف کاوس تھا۔ اِس تاریکی میں گایا کا جنم ہوا جو ارض کی علامتی دیوی ہے۔ گایا کے ہمراہ دیگر ابتدائی دیوتا اور سماوی مخلوقات وجود میں آئے جن میں ایروس (پیار کا علامتی دیوتا)، اربوس (اندھیرے کا علامتی دیوتا) اور طرطروس (اتھاہ خلیج یا گہری کھائی) شامل تھے۔ گایا نے اپنے تئیں ایروس اور اربوس کے سنگ ایک اور نر دیوتا کو تخلیق کیا؛ اِس دیوتا کا نام یورینس تھا اور یہ آسمانوں کا حاکم دیوتا ہوا۔ بعد از، گایا نے یورینس سے مِلاپ کے ذریعے دیگر دیوتاؤں کو جنم دیا۔ دیوتاؤں کی اِس اگلی پیڑھی کو تیتانی دیوتا کہا جاتا ہے۔
تیتانی دیوتا
ترمیمگایا اور یورینس کے مِلاپ سے پیدا ہونے والے دیوتاؤں کو ”تیتانی دیوتا“ کہتے ہیں۔ اِن میں چھہ نر دیوتا (کوئیوس، کریئس، کرونس، ہائپریون، یاپطوس، اوکیانس) اور چھہ مادہ دیویاں (نیموسینی، فیبی، ریہہ، تھیہ، تھیمس، تتیس) شامل ہیں۔ کرونس کی پیدائش کے بعد گایا اور یورینس نے یہ عہد کر لیا کہ اِن کے بعد کوئی تیتان پیدا نہ ہوگا۔ گایا اور یورینس کے بعد، دیگر اور بچے بھی پیدا ہوئے لیکن یہ اتنے بدصورت تھے کہ یورینس نے انھیں واپس گایا کی کوکھ میں ٹھونسنا شروع کر دیا۔ گایا نے بیحد تکلیف میں انھیں جَن تو لیا لیکن یورینس نے انھیں طرطروس کی گہری کھائی میں دکھیل دیا جہاں یہ ابد کی قید میں زندگی بَسر کرتے رہے۔ اِن لعنتی سپُوتوں میں یکچشم سائکلاپس اور صدبازو ہکاتونکائر شامل ہیں۔ اپنی ماں پر اِس قدر ظُلم ہوتا دیکھ کرونس طیش میں آ گیا اور اِس نے گایا کے کہنے پر اپنے باپ کا لِنگم خط کر دیا اور یُوں اپنے لیے آسمانی تخت بھی سَر کر لیا۔ درد کی کیفیت میں یورینس نے کرونس کو یہ لعنت دی کہ اِس کی اپنی اولاد میں سے ایک اِس کو بھسم کردیگا۔ کرونس نے اپنی بہن ریہہ سے شادی کر لی اور اپنے باپ کی اِس پیشین گوئی پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہر نومولود بچے کو کھاتا رہا۔ کرونس اور ریہہ کے اِن بچوں کو اولمپوی دیوتا کہتے ہیں۔
اولمپوی دیوتا
ترمیمباپ اور بیٹے میں یہ تکراریں یونانی اساطیر میں ایک اہم کِردار نبھاتی ہیں – جہاں کرونس اپنے باپ کو ہٹا کر آسمانی تخت پر قابض ہو گیا تھا، وہیں اِس کا بیٹا زیوس بعد از کرونس کو ہٹا کر آسمانی ریاست پر تخت نشیں ہوا۔ کرونس کے ہاں جو بچا بھی پیدا ہوتا، وہ اُسے کھا جاتا تھا۔ اِس کے ریہہ کے ساتھ چھہ بچے تھے جن کو ”اولمپوی دیوتا“ کہتے ہیں؛ اِن میں تین نر دیوتا (پوسائڈن، ہادس اور زیوس) اور تین مادہ دیویاں (ہیسٹیہ، ڈیمیٹر اور ہیرہ) شامل ہیں۔ زیوس کی پیدائش کے وقت ریہہ نے اپنے اِس بیٹے کو ایک غار میں چھپا کر کرونس کو کپڑے میں لپٹا پتھر کھِلا دیا۔ زیوس جب بڑا ہوا تو اِس نے اپنے باپ کو ایک عقِیق دِوا پلا دی جس سے وہ اُلٹیاں کرنے لگا اور اِس کی قَے میں اِس کے باقی بچے آ نکلے۔ اِن پانچ بہن بھائیوں نے زیوس کے ساتھ مل کر اپنے باپ سے بدلہ لیا اور تیتانی دیوتاؤں پر دھابہ بول دیا۔ تیتانی دیوتاؤں کے خلاف آئندہ جنگ میں لڑنے کے لیے زیوس طرطروس کی گہرایوں میں اُتر آیا اور یورینس کے بھُولے سپُوتوں، یعنی سائکلاپس اور ہکاتونکائر، کو آزاد کر کہ اِن کے ہمراہ تھیسیلی کے میدان میں جنگی کارروائی پر نِکل پڑا۔ اِس جنگ میں، زیوس اور اِس کے ساتھیوں نے اپنا ڈیرہ کوہِ اولمپس پر ڈالا؛ یہی وجہ ہے کہ انھیں اولمپوی دیوتا کہا جاتا ہے۔
جب کرونس نے تیتانوں کو جنگ میں ہارتے ہوئے پایا تو اِس نے طرطروس سے طائفون نامی دَرِندَے کو طلب کیا۔ اولمپوی دیوتاؤں نے اِس دَرِندَے کا قہر دیکھ کر واپس بھاگ جانا مناسب سمجھا لیکن زیوس نے میدان نہیں چوڑا۔ آخر کار اولمپوی دیوتا جنگ جیت گئے اور زیوس نے کرونس سمیت تیتانی دیوتاؤں کو طرطروس کی گہرایوں میں قید کر دیا۔ تیتانوں کی شِکست کے بعد زیوس نے آسمانی تخت سنبھال لیا اور سب دیوتاؤں کا بادشاہ بن کر کوہِ اولمپس سے راج کیا۔