یوکرین کے لاکھوں لوگ اپنی زندگیوں کی بقا کے لیے عالمی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ 2014ء سے اب تک مشرقی یوکرین میں روسی جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں گھر، تعلیمی ادارے اور ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں۔ پانی اور بجلی جیسی سہولتیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ بارودی سرنگوں اور غیر تباہ شدہ بارودی مواد سے بھی یوکرین کے شہریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔[1] تاہم جیسا کہ یوکرین سابق میں سوویت اتحاد کا حصہ رہا ہے، یوکرین میں خواتین (انگریزی: Women in Ukraine) اس معاشی بد حالی کے باوجود ہر شعبہ حیات میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہیں۔ وہ تعلیم اور روز گار کے معاملے میں مردوں کے مساوی قانونی حقوق رکھتی ہیں۔ اسی طرح سے وہ اپنی نجی زندگی کے فیصلے خود لے سکتی ہیں۔

یوکرینی خاتون شطرنج کھلاڑی نتالیا ژوکووا


سیاست اور وزارت عظمٰی میں خواتین ترمیم

دیگر میدانوں کی طرح یوکرین میں خواتین سیاسی میدان میں بھی کافی سرگرم رہی ہیں۔ 2005ء میں یولیا تائمو شینکو یوکرین کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی ہیں۔ تاہم یہ میعاد بہت مختصر تھی اور جلد ہی وہ بر طرف کر دی گئیں۔ وہ اس عہدے پر 2007ء میں دو بارہ منتخب ہوئی ہیں اور وہ 2010ء تک بر سر اقتدار رہیں۔ 2019ء کے انتخابات میں وہ عوامی مقبولیت سے دو بارہ بر سر اقتدار ہوئیں۔

کرائے پر کوکھ ترمیم

یوکرین جس کا شمار یورپ کے غریب ممالک میں ہوتا ہے، وہ تیزی سے کرائے کی ماؤں کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے امیر ممالک کے ایسے جوڑے جو خود کسی وجہ سے بچے پیدا کرنے سے قاصر ہیں وہ یوکرین کی نوجوان عورتوں کی کوکھ کو کرائے پر حاصل رہے ہیں۔ملک میں سینکڑوں ایسی عورتیں ہیں جو سروگیسی کی صنعت کا حصہ بن چکی ہیں۔ جب بھارت، نیپال اور تھائی لینڈ میں سروگیسی کی صنعت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو ایسے لوگ جو عام ازدواجی یا قریبی تعلقات سے نچے حاصل نہیں کر سکتے ہیں، ان لوگوں نے یوکرین کا رخ کیا۔[2] اس کام میں معاشی بد حالی کی وجہ ملک کی جواں سال لڑکیاں بیرونی افراد کی طلب پر سروگیسی کی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم