یگیہ
یجن یا یگیہ (یعنی قربانی) ویدوں کی روح ہے۔ یہ منتروں سے بھی زیادہ قدیم ہے کیونکہ منتر ان کی بجا آوری کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ”وشنو اور اندر نے یہ وسیع جہان قربانی (یجن) کے لیے بنایا۔[1] اور مخلوقات کے خداوند (پرجاپتی) نے شروع میں قربانی کو داخل کیا۔ جس کے وسیلے اس نے جہان کو بنایا۔ منو نے طوفان کے بعد کشتی سے اتر کر پہلا یہی کام کیا کہ قربانی چڑھائی۔ قربانی جہان کے پہیے کی دُھری ہے اور ساری چیزوں کے خلق کی قوت ہے۔[2] یہ ازلی، ابدی اور عالمگیر ہے۔ دیوتا اور انسان دونوں قربانی چڑھاتے ہیں۔[3]
قربانی کی اقسام
ترمیم1. پھلوں وغیرہ کی قربانی
2. حیوانوں کی قربانی
3. سوم کی قربانی
چنانچہ پنچ وش براہمن (पंचविश ब्राह्मण) میں یہ ذکر ہے کہ پھلوں کی قربانی سے دینداروں نے اس جہان کو فتح کیا۔ حیوانوں کی قربانی کے ذریعہ وسطی جہان کو اور سوم کی قربانی کے ذریعہ اعلیٰ جہان کو۔
ایک چوتھی قسم کی قربانی بھی تھی جس میں کچھ پھل پھلواری اور کچھ گوشت ہوتا تھا، یہ خانگی قربانی کہلاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ منو نے یہ چوتھی قسم کی قربانی یعنی پاک یجن چڑھائی۔[4]
قربانی کے ذبح کرنے والوں کو یہ ہدایت ہوتی تھی کہ جانوروں کو حتی الامکان کم تکلیف دیں۔ انسانی قربانی کا ذکر وید کے قدیم منتروں میں آیا ہے لیکن یہ انسانی قربانی عام نہیں تھی۔ رگ وید دسویں منڈل کے نوے منتر میں پرش کا ذکر ہے، جس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور دیوتاؤں کے آگے اس کی قربانی چڑھائی گئی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کی قربانی قدیم آریاؤں کو معلوم تھی۔
براہمن میں انسانی قربانی کا ذکر بار بار آتا ہے۔ ”سب کچھ انسانی قربانی ہے، سب کچھ حاصل کرنے کے لیے، سب کچھ پانے کے لیے۔“ اس قربانی کے ذریعے قربانی چڑھانے والا سب کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ ”پرش نارائن ساری چیزوں پر سبقت لے گیا اور پرش میدھ کی قربانی کے ذریعے سب کچھ ہو گیا۔ اس لیے کچھ تعجب نہیں کہ یہ کہا گیا : بے شک انسانی قربانی کے جانوروں میں سے ایک ہے۔“[5] شت پتھ براہمن کے مطابق کیاپرن سانکانیا وہ آخری شخص تھا جس نے انسانی قربانی کے لیے مذبح کھڑا کیا۔
قربانی کے مقاصد
ترمیم1. دیوتاؤں کو خوش کرنا
”کاش کہ یہ قربانیاں اسے خوش کریں“[6]
”کاش کہ ہم اپنی قربانی کے ذریعے تجھے خوش کریں“[7]
”جس دیوتا کے لیے جانور ذبح کیا جاتا ہے وہ خوش ہو جاتا ہے“[8]
2. قربانی چڑھانے والے کی خوش حالی
”کاش کہ سخی مرد ہمیشہ اقبال مندر ہے جو قربانیوں اور تعریفوں کے ذریعے ہمیشہ تجھے خوش کرتا رہتا ہے۔ کاش کہ اس کی سرگرم زندگی سارے دن اقبال مندی سے کٹیں اور اس کی یہ قربانی اجر پیدا کرتے۔“[9]
3. خطاؤں کا دور ہونا
جب قربانی کے جانور کو آگ کے لیے تیار کیا جاتا ہے تو ان الفاظ سے مخاطب کیا جاتا ہے: ”جو خطائیں دیوتاؤں سے سرزد ہوئیں تو ان کو دور کرتا ہے۔ جو خطائیں تیروں سے سرزد ہوئیں تو ان کو دور کرتا ہے۔ جو خطائیں ہم سے سرزد ہوئیں تو ان کو دور کرتا ہے۔ جو خطائیں دن یا رات کو سرزد ہوئیں تو ان کو دور کرتا ہے۔ جو خطائیں سوتے یا جاگتے ہوئے سرزد ہوئیں تو ان کو دور کرتا ہے۔ جو خطائیں ہم سے دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوئیں تو ان کو دور کرتا ہے تو گناہ کو دور کرنے والا ہے۔“[10]
4. مشکلات اور مصائب سے بچنا
”گناہ آلوده نہیں کرتا، مشکلات حملہ نہیں کرتیں، نہ مصیبتیں اس شخص کو دکھ دیتی ہیں جس کی قبربانی پر اندر اور ورُن حاضر ہوتے ہیں۔“[11]
ویدوں میں
ترمیمویدوں کی قربانیاں دو قسم کی تھیں۔
1.نیتا یعنی دائمی قربانیاں۔ یہ لازمی ہوتی تھیں۔ خاص اوقات اور موقع پر ان کو چڑھانا فرض تھا۔
2. انیتا یعنی اختیاری قربانیاں۔ چڑھانے والے کی مرضی پر موقوف تھیں۔ کسی منت کے لیے یا کسی خواہش کے پورا ہونے پر۔
رگ وید میں ذکر ہے کہ دن میں تین دفعہ دعائیں اور قربانیاں ادا کی جاتی تھیں۔ صبح، دوپہر اور تیسرے پہر کو۔[12]