30 جولائی 2023ء کو پاکستان کے خیبر پختونخواہ کے ضلع باجوڑ کے علاقے خار میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے میں ایک خودکش بم دھماکہ ہوا، جس میں کم از کم 63 افراد شہید اور تقریباً 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ [2] [3] [4]

2023 خار بم دھماکا
بسلسلہ خیبرپختونخوا میں یورش
2023ء خار بم دھماکہ is located in پاکستان
خار
خار
2023ء خار بم دھماکہ (پاکستان)
مقامخار، باجوڑ، پاکستان
متناسقات34°43′57″N 71°31′25″E / 34.73250°N 71.52361°E / 34.73250; 71.52361
تاریخ30 جولائی 2023؛ 8 مہینہ قبل (2023-07-30)
4 p.m.[1] (PKT (UTC+05:00))
نشانہجمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین اور حامی
حملے کی قسمخودکش حملہ
ہلاکتیں54
زخمی≤200
مرتکبینداعش خراسان

پس منظر ترمیم

جمعیت علمائے اسلام (ف) جے یو آئی (ف)ایک قدامت پسند سیاسی اور مذہبی جماعت ہے جس کی قیادت مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں۔ وہ افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ جے یو آئی (ف) قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ انتہا پسند جماعتوں نے معاشی بحران اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

خیبر پختونخواہ میں شورش 2004ء میں شروع ہوئی۔ یہ 2000ء کی دہائی کے آخر اور 2010ء کی دہائی کے اوائل میں جنوری اور دسمبر 2010ء میں خار میں دو خودکش بم دھماکوں کے ساتھ۔ عروج پر پہنچ گئی۔ یہ جنگ 2017ء میں کم شدت والے تنازعے کی طرف آ گئی۔ تاہم، خطے میں 2020ء کی دہائی کے دوران دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جنوری 2023ء میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے خلاف بڑے مظاہرے شروع ہوئے

بمباری ترمیم

جمیعت علمائے اسلام نے 30 جولائی 2023ء کو ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا۔ شام 4 بجے کے قریب جب پارٹی کے 400 سے زائد ارکان اور حامی موجود تھے، ایک خودکش حملہ آور نے سٹیج کے قریب پہنچ کر دھماکا خیز جیکٹ سے دھماکا کر دیا۔ [5] کم از کم 54 افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہوئے جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔ [2] حملے میں جے یو آئی (ف) کے مقامی رہنما مولانا ضیاء اللہ مارے گئے۔ [6]

اسلامک اسٹیٹ – خراسان سے وابستہ (داعش) نے خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

رد عمل ترمیم

پاکستانی طالبان نے بم دھماکے کی مذمت کی، جیسا کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کیا۔ ٹویٹر پر ایک پیغام میں مجاہد نے لکھا، ’’اس طرح کے جرائم کو کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘۔ [5] وزیر اعظم شہباز شریف نے بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری نے ایک بیان میں "قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ کا اظہار کیا" اور یہ بھی کہا کہ "دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن قائم ہو"۔ پاکستان کے وزیر داخلہ مریم اورنگزیب نے سوشل میڈیا پر کہا کہ دہشت گردوں کا مذہب صرف دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لیے بہت ضروری ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "Bomb at political rally in Pakistan kills at least 40 people"۔ Politico۔ 30 July 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2023 
  2. ^ ا ب "Pakistan explosion: At least 54 dead in suicide bombing at political rally in northwest province"۔ 30 July 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2023 
  3. "Suspected Pakistan suicide bombing kills at least 55, injures 135 more at political rally"۔ NBC News (بزبان انگریزی)۔ 30 July 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2023 
  4. Stacey Scott (30 July 2023)۔ "Bomb Attack at Political Rally in Pakistan Kills 55, Injures 135"۔ Gillett News (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2023 
  5. ^ ا ب "A bombing at a political rally in Pakistan has killed at least 40 people"۔ NPR۔ 30 July 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2023 
  6. "Suspected Pakistan suicide bombing kills at least 54, injures 135 more at political rally"۔ NBC News (بزبان انگریزی)۔ 30 July 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولا‎ئی 2023