یورینس
یورینس (انگریزی: Uranus) سورج سے 19.6 فلکیاتی اکائی (AU) کے فاصلے پر ہے اور زمین سے 14 گنا بھاری ہے۔ یہ چاروں بیرونی سیاروں میں سے سب سے کم کمیت کا حامل ہے۔ یورینس کی ایک منفرد بات اس کے محور کا اس کے مدار سے انتہائی ترچھا زاویہ ہے۔ اس کا محور سورج کے گرد اس کے مدار سے 98 درجے کا زاویہ بناتا ہے۔ اس منفرد زاویے کی وجہ سے یورینس پر دن اور رات کی تشکیل باقی سب سیاروں کی نسبت بالکل مختلف ہے۔اس کے قطبین پر بھی یورینسی سال میں ایک بار سورج عین سر پر آجاتا ہے اور لمبے عرصے تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا۔ اس کا مرکز باقی گیسی دیو سیاروں کی نسبت ٹھنڈا ہے اور اس سے بہت کم حرارت خلا میں خارج ہوتی ہے۔ یورینس کے 27 چاند ہیں جن میں سے سب سے بڑے ٹیٹانیہ، اوبیرون، امبریل، ایریل اور میرانڈہ ہیں۔
یہ تصویر وائجر 2 کے ذریعے لیے تھی۔ (24 جنوری 1986) | |||||||||||||
دریافت | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
دریافت از | ولیم ہرشل | ||||||||||||
تاریخ دریافت | مارچ 13, 1781 | ||||||||||||
تعین کاری | |||||||||||||
تلفُّظ | /ˈjʊərənəs/ ( سنیے) or /jʊˈreɪnəs/ ( سنیے) | ||||||||||||
صفات | یورینی | ||||||||||||
محوری خصوصیات[4][ا] | |||||||||||||
مفروضہ وقت J2000 | |||||||||||||
اوج شمسی |
| ||||||||||||
حضیض شمسی |
| ||||||||||||
| |||||||||||||
انحراف | 405586 0.044 | ||||||||||||
| |||||||||||||
369.66 days[2] | |||||||||||||
اوسط گردشی رفتار | 6.81 km/s[2] | ||||||||||||
717° 142.955 | |||||||||||||
میلانیت | 556° to 0.772دائرۃ البروج 6.48° to سورج's equator 1.02° to Invariable plane[3] | ||||||||||||
821° 73.989 | |||||||||||||
318° 96.541 | |||||||||||||
معلوم قدرتی سیارچہ | 27 | ||||||||||||
طبیعی خصوصیات | |||||||||||||
اوسط رداس | 362±7 کلومیٹر 25[5][ب] | ||||||||||||
خط استوائی رداس | 559±4 کلومیٹر 25 4.007 Earths[5][ب] | ||||||||||||
قطبی رداس | 973±20 کلومیٹر 24 3.929 Earths[5][ب] | ||||||||||||
چپٹا پن | ±0.0008 0.0229[پ] | ||||||||||||
محیط | 354.1 کلومیٹر 159[6] | ||||||||||||
×109 km2 8.1156[6][ب] 15.91 Earths | |||||||||||||
حجم | ×1013 km3 6.833[2][ب] 63.086 Earths | ||||||||||||
کمیت | ±0.0013)×1025 کلوg (8.6810 14.536 Earths[7] GM=793939±13 km3/s2 5 | ||||||||||||
اوسط کثافت | 1.27 g/cm3[2][ب] | ||||||||||||
m/s2 8.69 [2][ب] 0.886 g | |||||||||||||
21.3 km/s[2][ب] | |||||||||||||
فلکی محوری گردش | 33 d ( 0.718Retrograde) 17 h 14 min 24 s | ||||||||||||
استوائی گردشی_رفتار | 2.59 km/s 9,320 km/h | ||||||||||||
97.77°[5] | |||||||||||||
North_pole right ascension | 17h 9m 15s 257.311° | ||||||||||||
North_pole declination | −15.175° | ||||||||||||
Albedo | 0.300 (Bond) 0.51 (geom.) | ||||||||||||
| |||||||||||||
5.9[8] to 5.32 | |||||||||||||
3.3″ to 4.1″ | |||||||||||||
فضا | |||||||||||||
Composition by volume | (Below 1.3 bar)
Ices:
| ||||||||||||
ترتیب کے لحاظ سے سورج سے ساتواں سیارہ یورینس ہے۔ یہ سیارہ رقبے کے اعتبار سے ہمارے نظام شمسی کا تیسرا جبکہ وزن کے اعتبار سے چوتھا بڑا سیارہ ہے۔ اس کا نام یونانی دیوتا یورینس کے نام پر رکھا گیا ہے جو آسمان کا دیوتا کہلاتا تھا۔ اگرچہ دیگر پانچ روایتی سیاروں کی طرح یورینس بھی رات کو عام آنکھ سے دکھائی دیتا ہے لیکن زمانہ قدیم کے کسی سائنس دان نے اسے بطور سیارہ شناخت نہیں کیا تھا کیونکہ اس کی محوری گردش انتہائی سست ہوتی ہے۔سر ولیم ہرشل نے 13 مارچ 1871کو اس کی دریافت کا اعلان کیا جس سے ہمارے نظام شمسی کے حدود کو وسعت ملی۔ دوربین کی مدد سے دریافت ہونے والا پہلا سیارہ یورینس ہی ہے۔
بناوٹ کے اعتبار سے یورینس نیپچون سے بہت مشابہہ ہے اور دونوں ہی کیمیائی ساخت کے اعتبار سے دیگر دو بڑے گیسی دیو یعنی زحل اور مشتری سے فرق ہیں۔ اسی وجہ سے بعض اوقات ماہرین انھیں ایک الگ درجہ بندی میں رکھتے ہیں جو برفانی دیو ہے۔ یورینس کی فضاء زحل اور مشتری سے ملتی جلتی ہے اور اس میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم پائی جاتی ہے۔ اس کی فضاء میں پانی، امونیا اور میتھین سے بنی برف زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی کی یہ سرد ترین فضاء ہے جس کا کم سے کم درجہ حرارت منفی 224 ڈگری سینٹری گریڈ ہے۔ اس کی ساخت انتہائی پیچیدہ اور تہ دار بادلوں سے بنی ہے جس میں پانی سے بننے والے بادل زیریں تہ پر موجود ہیں جبکہ میتھین سے بننے والے بادل سب سے اوپر ہیں۔ اس کے برعکس یورینس اندر سے مختلف اقسام کی برفوں اور چٹانوں سے بنی ہے۔
دیگر گیسی دیوؤں کی مانند یورینس کے گرد بھی چھلے پائے جاتے ہیں اور اس کا اپنا مقناطیسی فضائی کرہ اور کئی چاند بھی ہیں۔ دیگر سیاروں کے برعکس یورینس اپنے افقی محور کی بجائے عمودی محور پر گھومتا ہے اس طرح اس کے شمالی اور جنوبی قطب جہاں ہیں، وہاں دیگر سیاروں کے خط استوا پائے جاتے ہیں۔ زمین سے دیکھا جائے تو اس کے چھلے اور چاند بھی دکھائی دیتے ہیں۔ 1986 میں جب وائجر 2 اس کے پاس سے گذرا تو تصاویر سے پتہ چلا کہ عام روشنی میں اس سیارے کے جغرافیائی خدوخال دکھائی نہیں دیتے اور بادل یا طوفان بھی نہیں ہیں جبکہ دیگر گیسی دیو ؤں پر بادل اور طوفان عام بات ہے۔ حالیہ برسوں میں زمینی مشاہدین کو یورینس پر موسمی تبدیلیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یورینس پر ہوا کی رفتار 250 میٹر فی سیکنڈ یعنی 900 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ سکتی ہے۔
تاریخ
ترمیمدریافت
ترمیمسیارے کے طور پر دریافت ہونے سے قبل یورینس کا کئی بار مشاہدہ کیا جا چکا تھا لیکن اسے ہمیشہ ستارہ سمجھ لیتے تھے۔ 1690 میں جان فلیمسٹیڈ نے کم از کم 6 بار اس کا مشاہدہ کر کے اسے بطور ستارہ 34 ٹوری کا نام بھی دیا۔ ایک فرانسیسی فلکیات دان نے 1750 سے 1769 کے دوران کم از کم 12 مرتبہ مشاہدہ کیا اور ایک بار تو 4 رات مسلسل اسے دیکھتا رہا۔
سر ولیم ہرشیل نے 13 مارچ 1781 میں اپنے باغیچے سے اس کا مشاہدہ کیا لیکن اسے ایک دمدار ستارہ سمجھا اور اپنے دوست کو بھی بتایا۔
عین اسی وقت روسی ماہر فلکیات اینڈریس جوہان لیگزیل نے اس نئے اجرام فلکی کا مدار معلوم کیا اور اس کے تقریباً گول مدار سے اس نے اندازہ لگایا کہ یہ دمدار ستارہ نہیں بلکہ سیارہ ہے۔ ایک جرمن فلکیات دان نے بھی ایک ایسے متحرک ستارے کا ذکر کیا جو نیپچون کے مدار کے آگے تقریباً گول مدار میں حرکت کر رہا ہے اور یہ کہ دمدار ستارے کی بجائے یہ کوئی سیارہ لگتا ہے۔
جلد ہی اسے دنیا بھر میں سیارہ مان لیا گیا۔
نام
ترمیمایک دوسرے فلکیات دان کے کہنے پر ہرشیل نے اس سیارے کو جارج کا سیارہ کہا کیونکہ اس دریافت پر بادشاہ جارج نے ہرشیل کو اپنے محل میں رہنے اور 200 پاؤنڈ سالانہ وظیفہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم برطانیہ سے باہر اس کا نام رکھنے کی الگ سے کوشش ہوئی اور کئی متبادل سامنے آئے۔ آخرکار اتفاق رائے سے یورینس کا نام چن لیا گیا کیونکہ یونانی دیومالائی داستان کے ایک کردار زحل کے باپ کا نام یورینس تھا۔ 1789 میں مارٹن کلیپروتھ نے اپنے نو دریافت کردہ عنصر یورینئم کا نام بھی اسی سیارے کی حمایت میں رکھا۔ جلد ہی یہ نام ساری دنیا میں مان لیا گیا۔
مدار اور گردش
ترمیمزمینی حساب سے 84 سال میں یورینس سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا ہے۔ سورج اس سے کا اوسط فاصلہ 3 ارب کلومیٹر رہتا ہے۔ زمین کی نسبت یورینس پر سورج کی روشنی کا 1/400 واں حصہ پہنچتا ہے۔ جلد ہی اس کے پیمائش کردہ مدار میں خامیاں نمودار ہونے لگیں جس کے بارے جان کاؤچ ایڈمز نے 1841 میں پیشین گوئی کی کہ یہ خامیاں کسی اور نامعلوم سیارے کی کشش کے باعث پیدا ہو رہی ہیں۔ 1845 میں اربین لی وریئر نے بھی اس یورینس کے مدار پر کام کیا۔23 ستمبر 1846 میں جان گوٹفرائیڈ نے لی وریئر کی پیشین گوئی کے مطابق اور بیان کردہ جگہ پر نیپچون دریافت کیا۔
یورینس کا اندرونی حصہ 17 گھنٹے اور 14 منٹ میں ایک گردش پوری کر لیتا ہے۔ دیگر گیسی دیوؤں کی مانند یورینس کی اوپری فضاء میں تیز ہوائیں گردش کی موافق سمت چلتی ہیں۔
محوری جھکاؤ
ترمیمیورینس کا محوری جھکاؤ 97.77 ڈگری ہے جو نظام شمسی کے تقریباً متوازی ہے۔ اسی وجہ سے موسمی تبدیلیاں بھی دیگر سیاروں کے برعکس ہوتی ہیں۔ اگر دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہوئے لٹو کی مانند حرکت کرتے ہیں تو یورینس کسی گیند کی طرح گھومتا ہے۔ یورینس پر سال کے طویل ترین اور مختصر دنوں میں ایک قطب مسلسل سورج کی سمت اور دوسرا اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ خط استوا کی ایک باریک سی پٹی پر دن اور رات انتہائی تیزی سے گذرتے رہتے ہیں۔ ہر قطب کو اوسطاً سورج کی روشنی 42 سال تک مسلسل ملتی رہتی ہے اور پھر 42 سال کی رات چھا جاتی ہے۔
اس وجہ سے سورج کی روشنی خط استوا کی بجائے قطبین پر زیادہ پڑتی ہے لیکن کسی نامعلوم وجہ سے قطبین کی نسبت خط استوا زیادہ گرم رہتا ہے۔ اگرچہ یورینس کے محوری جھکاؤ کی کوئی وجہ یقین سے نہیں کہی جا سکتی لیکن اندازہ ہے کہ نظام شمسی کے بننے کے وقت زمین کی جسامت کا کوئی سیارہ اس سے ٹکرایا ہوگا جس سے محوری جھکاؤ پیدا ہوا ہے۔ وائجر 2 جب 1986 میں اس کے پاس سے گذرا تو اس وقت جنوبی قطب سورج کی طرف تھا۔
مرئیت
ترمیم1995 تا 2006 یورینس اتنا روشن تھا کہ زمین سے عام آنکھ سے دیکھا جا سکتا تھا۔ تاہم عام حالات میں کسی بھی شہری مقام سے دوربین کی مدد سے اس کا مشاہدہ آسان ہوتا ہے۔ 15 سے 23 سینٹی میٹر قطر کی دوربین سے یہ سیارہ ہلکے نیلے رنگ کی تھالی کی شکل دکھائی دیتا ہے۔ 25 سینٹی میٹر قطر یا اس سے بھی بڑی دوربین سے اس کے بڑے چاند اور بادل بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔
اندرونی بناوٹ
ترمیمیورینس کی کمیت زمین سے تقریباً 14.5 گنا زیادہ ہے۔ اسے گیسی دیوؤں میں سب سے ہلکا سیارہ مانا جاتا ہے۔ اس کا قطر نیپچون سے ذرا بڑا اور زمین سے چار گنا زیادہ ہے۔ اس کی اوسط کمیت سوا گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا زیادہ تر حصہ مختلف برفوں مثلاً پانی، میتھین اور امونیا سے بنا ہے۔ اس کا غیر برفانی حصہ خیال کیا جاتا ہے کہ چٹانوں سے بنا ہے۔
عام اندازے کے مطابق یورینس کی تین تہیں ہیں جن میں سے ایک چٹانی تہ ہے جو سیلیکیٹ یا لوہے اور نکل سے بنی ہے اور وسطی تہ ہے۔ اس کے اوپر برفانی تہ اور پھر گیسی تہ جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنی ہے۔ اس کا مرکزہ زمین کی نصف کمیت سے کچھ زیادہ اور یورینس کے پانچویں حصے سے بھی کم ہے۔ یورینس کے مرکزے کی کمیت 9 گرام فی مکعب سینٹی میٹر بنتی ہے اور مرکزے پر دباؤ 8 ملین بار اور درجہ حرارت 5000 کیلون ہے۔ برفانی تہ بھی عام برف سے نہیں بنی بلکہ پانی اور امونیا اور دیگر بخارات کا گرم آمیزہ ہے۔ نیپچون اور یورینس کی ساخت زحل اور مشتری سے فرق ہے جہاں گیس سے زیادہ برف پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے انھیں برفانی دیو بھی کہا جاتا ہے۔
اندرونی حرارت
ترمیمدیگر دیوؤں کی نسبت یورینس کا اندرونی درجہ حرارت اتنا کم کیوں ہے، یہ سوال ابھی تشنہ ہے۔ یورینس کا تقریباً جڑواں سیارہ نیپچون اس کی نسبت اڑھائی گناشمسی حرارت واپس لوٹاتا ہے جبکہ یورینس سے شاید ہی کوئی حرارت واپس جاتی ہو۔ یورینس پر کم سے کم درجہ حرارت بالائی فضاء میں 49 کیلون یعنی منفی 224 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے جو نظام شمسی میں سب سے کم ہے۔
سیاراتی چھلے
ترمیمزحل کے بعد یورینس دوسرا سیارہ ہے جہاں یہ چھلے دریافت ہوئے ہیں اور ان کی ساخت بہت پیچیدہ ہے۔ ان کا بہت بڑا حصہ تاریک مادے سے بنا ہے اور اس مادے کی جسامت بھی بہت چھوٹی ہے اور بڑے سے بڑا ذرہ بھی ایک میٹر سے کم ہے۔ اس کے گرد کل 13 چھلے ہیں۔ دو کے سوا باقی سارے چھلے انتہائی مختصر ہیں اور ان کی چوڑائی چند کلومیٹر تک محدود ہے۔ تاہم مشاہدات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چھلے یورینس پر پائے جانے والے مادوں سے نہیں بنے۔
اگرچہ ہرشیل نے 1789 میں یورینس کے گرد ایک چھلے کی نشان دہی کی تھی لیکن یہ بات کافی مشکوک لگتی ہے کہ اگلی دو صدیوں تک کسی کو بھی یہ چھلے دکھائی نہیں دیے۔ تاہم ہرشیل کی دی گئی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بات درست رہی ہوگی۔ 10 مارچ 1977 کو چند سائنس دانوں نے یورینس کے چھلوں کے نظام کو دریافت کیا۔ یہ دریافت حادثاتی تھی کہ یہ سائنس دان ایک ستارے کے بارے مشاہدات میں مصروف تھے کہ یورینس کے پیچھے اس کے چھپنے سے وہ اس کے بارے معلومات جمع کر رہے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ یورینس کے پیچھے چھپنے کے علاوہ بھی یہ ستارہ 5 بار مزید بھی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔ اس سے انھوں نے اندازہ لگا یا کہ یورینس پر بھی چھلے موجود ہیں۔ بعد میں انھوں نے 4 مزید چھلے دریافت کیے۔ ان چھلوں کی براہ راست لی گئی تصویر پہلی بار 1986 میں وائجر 2 نے اس کے پاس سے گذرتے ہوئے کھینچ کر بھیجی۔ وائجر نے دو مزید نئے چھلے دریافت کیے اور کل چھلوں کی تعداد 11 ہو گئی۔ دسمبر 2005 میں ہبل خلائی دوربین نے دو مزید چھلے دریافت کیے جو دیگر چھلوں سے بہت زیادہ دور تھے۔ ہبل نے دو نئے چاند بھی دریافت کیے۔ اس طرح چھلوں کی تعداد 13 ہو گئی ہے۔ تصویروں کے مطابق دو بیرونی چھلوں میں سے اندر والا سرخ اور دوسرا نیلے رنگ کا ہے۔
مقناطیسی میدان
ترمیموائجر دوم سے قبل فلکیات دان محض اندازہ لگاتے تھے کہ یورینس کا اپنا مقناطیسی میدان ہے اور اس کا رخ شمسی ہوا کے رخ پر ہے۔
وائجر 2 کے مشاہدے سے پتہ چلا ہے کہ مقناطیسی مرکزہ قطب جنوبی کی طرف تین چوتھائی فاصلے پر موجود ہے۔ اس وجہ سے سیارے کا مقناطیسی میدان بہت بے ترتیب ہے۔
اس فرق کے علاوہ مقناطیسی میدان دیگر سیاروں سے مماثل ہے۔
موسم
ترمیمدیگر سیاروں کے برعکس یورینس کے موسمیاتی خدوخال نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب وائجر 2 اس کے پاس سے گذرا تو پورے سیارے پر محض 10 بادل دکھائی دیے تھے۔
یورینس کے خط استوا پر ہوائیں اس کی گردش کی مخالف سمت چلتی ہیں اور قطبین پر ہواؤں کا رخ گردش کی جانب رہتا ہے۔ ہوا کی رفتار زیادہ سے زیادہ 240 میٹر فی سیکنڈ تک پہنچ جاتی ہے۔
موسمی تبدیلیاں
ترمیممارچ سے مئی 2004 تک یورینس کی فضاء میں بادلوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ اسے نیپچون سے تشبیہ دی جانے لگی۔ ہواؤں کی رفتار 229 میٹر فی سیکنڈ یعنی 824 کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی۔ 23 اگست 2006 کو سطح پر ایک دھبہ بھی دکھائی دیا۔ تاہم یورینس کا موسمیاتی ڈیٹا جمع کرنے کے عمل کو ابھی 84 سال کا بھی نہیں ہوئے جواس کے ایک سال سے بھی کم عرصے پر مشتمل ہے۔
بناوٹ کا عمل
ترمیمکئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ برفانی اور گیسی دیوؤں کے درمیان کا فرق ان کے بننے کے عمل سے شروع ہوا تھا۔ ابتدا میں جب نظام شمسی محض ایک برفانی نیبولا پر مشتمل تھا تو اس میں گیس اور گرد موجود تھی۔ گیس بالخصوص ہیلئم اور ہائیڈروجن کا زیادہ تر حصہ سورج بنا جبکہ دیگر جگہوں پر گرد اور برف کے جمع ہونے سے سیاروں کے بننے کا عمل شروع ہوا۔ جوں جوں سیارے بڑے ہوتے گئے، کشش ثقل کے باعث زیادہ گیس جمع کرتے گئے۔ ایک خاص حد کو پہنچ کر بعض سیاروں کا حجم انتہائی تیزی سے بڑھنے لگا جبکہ برفانی دیو کبھی اس مرحلے تک نہ پہنچ پائے۔
چاند
ترمیمیورینس کے کل 27 قدرتی چاند ہیں۔ ان کے نام شیکسپیئر اور الیگزینڈر پوپ کی تحاریر سے لیے گئے ہیں۔ پانچ بڑے چاندوں کے نام میرانڈا، ایریل، امبریل، ٹائیٹانیہ اور اوبیرون ہیں۔ تاہم سارے چاند مجموعی طور پر بہت کم وزن رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ پانچ سب سے بڑے چاند مل کر بھی ٹریٹن کے وزن کے نصف سے بھی کم ہیں۔ سب سے بڑے چاند کا رداس ہمارے چاند کا نصف ہے اور 788.9 کلومیٹر ہے۔ یہ چاند بہت کم روشنی منعکس کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا مشاہدہ آسان نہیں۔ ان چاندوں کا نصف حصہ چٹانی جبکہ نصف حصہ برفانی ہے۔ سطح کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ ایریل سب سے کم عمر ہے کیونکہ اس پر بہت کم گڑھے پڑے ہیں جبکہ امبریل سب سے پرانا ہے۔ میرانڈا کی کھائیاں 20 کلومیٹر تک بھی گہری ہیں۔
1986 میں ناسا کے وائجر 2 کا گذر یورینس کے پاس سے ہوا۔ تاہم یہ دورہ بہت مختصر تھا اور فی الوقت مستقبل قریب میں ایسی کوئی مہم ترتیب نہیں دی گئی۔ 1977 میں روانہ ہوئے وائجر 2 نے 24 جنوری 1986 کو بادلوں کی اوپری تہ سے 81500 کلومیٹر کے فاصلے سے تصاویر بھیجی تھیں اور پھر آگے نیپچون کو روانہ ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ بادلوں اور سیارے کی کیمیائی ساخت کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے 5 بڑے چاندوں کا مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ 10 نئے چاند بھی دریافت کیے۔
ناسا کے منصوبوں میں یورینس کے محور میں گردش کرنے والے ایک خلائی جہاز اور اس پر اتارنے والی ایک مشین کا منصوبہ 2020 سے 2023 کے درمیان بھیجنا شامل ہے جو 13 سال کے سفر کے بعد یورینس پر جا پہنچے گا۔
لوا خطا ماڈیول:Navbox_with_columns میں 228 سطر پر: bad argument #1 to 'inArray' (table expected, got nil)۔
نگار خانہ
ترمیمحوالہ جات
ترمیم