آبھیرے افسانوی شخصیات تھے جن کا ذکر قدیم ہندوستانی مہاکاویہ اور مقدس کِتابوں میں موجود ہے۔ اسی نام سے تاریخی لوگوں کا تذکرہ 'پیری پلس آف دی اریتھرین سی' (Periplus of the Erythraean Sea) میں ملتا ہے۔ مہابھارت میں ذکر ہے کہ یہ لوگ سمندر کے کنارے اور دریائے سرسوتی کے کنارے کے نزدیک، گجرات میں سومناتھ کے قریب اور متسیہ کے خطہ میں بھی رہتے تھے۔[1][2]

تاریخ

ترمیم

سنیل کمار بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ آبھیروں کا ذکر پہلی صدی عیسوی کی کلاسیکی قدیمی تصنیف 'پیری پلس آف دی اریتھرین سی' میں ملتا ہے۔ وہ انھیں قبیلے کی بجائے ایک نسل یا قوم تصور کرتے ہیں۔[3] رام پرساد چَند جیسے محققین کا خیال ہے کہ وہ ہند آریائی لوگ تھے۔[4] لیکن دوسرے محققین حضرات جیسے کہ رومیلا تھاپر کا خیال ہے کہ وہ مَقامی تھے۔[5] پورانک آبھیروں نے ہرات کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا، وہ ہمیشہ افغانستان کے لوگوں، کالتویکوں (कालतोयक) اور ہارِیتوں کے ساتھ مل کر رہے۔[6]

پدم پرُانوں اور بعض دوسری تصنیفات میں ذکر ہے کہ آبھیرے کرشن بھگوان کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔[7]

آبھیروں کی پیشہ ورانہ حیثیت کے بارے میں کچھ یقینی نہیں ہے، قدیم تصنیفات میں بعض جگہ انھیں بطور جنگجوؤں، گوالیوں کے طور پر، اور بعض جگہ لوٹ مار کرنے والے قبائل کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔[8]

وِرشنیوں، سات وَتوں (सात्वत) اور یادوؤں کے ساتھ ساتھ، آبھیرے بھی ویدوں کے پیروکار تھے، اور کرشن کی پوجا کرتے تھے، یہ قبیلے والوں کا خیال تھا کہ کرشن ان کے سربراہ اور پیشوا ہیں۔[9][7]

آثار قدیمہ کے نقوش میں مذکور ہے کہ آبھیرے کرشن کی نسل سے تھے۔[10][7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Gaṅgā Rām Garg (1992)۔ Encyclopaedia of the Hindu World (بزبان انگریزی)۔ Concept Publishing Company۔ ISBN 978-81-7022-374-0 
  2. Gaṅgā Rām Garg (1992)۔ Encyclopaedia of the Hindu World (بزبان انگریزی)۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 113۔ ISBN 978-81-7022-374-0 
  3. Sunil Kumar Bhattacharya (1996)۔ Krishna — Cult in Indian Art۔ M.D. Publications۔ صفحہ: 126۔ ISBN 9788175330016 
  4. Ramaprasad Chanda (1969)۔ The Indo-Aryan races: a study of the origin of Indo-Aryan people and institutions۔ Indian Studies: Past & Present۔ صفحہ: 55 
  5. Romila Thapar (1978)۔ Ancient Indian Social History: Some Interpretations۔ Orient Blackswan۔ صفحہ: 165۔ ISBN 978-81-250-0808-8 
  6. Sudāmā Miśra (1973)۔ Janapada state in ancient India۔ Bhāratīya Vidyā Prakāśana 
  7. ^ ا ب پ Dr Ganga Ram Garg (1992)۔ Encyclopaedia of Hindu world۔ Concept Publishing۔ صفحہ: 113۔ ISBN 9788170223740 
  8. Aditya Malik (1990)۔ "The Puskara Mahatmya: A Short Report"۔ $1 میں Hans Bakker۔ The History of Sacred Places in India As Reflected in Traditional Literature۔ Leiden: BRILL and the International Association of Sanskrit Studies۔ صفحہ: 200۔ ISBN 9789004093188 
  9. S. Radhakrishnan (2007)۔ Identity And Ethos۔ Orient Paperbacks۔ صفحہ: 31–32۔ ISBN 978-8-12220-455-1 
  10. Padmaja T (2002)۔ Ay velirs and Krsna۔ University of Mysore۔ صفحہ: 34۔ ISBN 9788170173984