آشٹہ
آشٹہ بھارتی صوبہ مدھیہ پردیش کے سیہور ضلع سے منسلک ایک بلدیہ ہے۔
आष्टा Ashtah | |
---|---|
شہر | |
سرکاری نام | |
مدھیہ پردیش، بھارت میں آشٹہ کا محل وقوع | |
متناسقات: 23°01′N 76°43′E / 23.02°N 76.72°E | |
ملک | بھارت |
بھارت کی ریاستیں اور یونین علاقے | مدھیہ پردیش |
ضلع | سیہور ضلع |
بلندی | 519 میل (1,703 فٹ) |
آبادی (2011) | |
• کل | 53,462 |
زبانیں | |
• دفتری | ہندی زبان |
منطقۂ وقت | بھارتی معیاری وقت (UTC+5:30) |
آیزو 3166 رمز | آیزو 3166-2:IN |
گاڑی کی نمبر پلیٹ | MP |
جائے وقوع
ترمیمآشٹہ 23ء2 طول البلد و 76ء72 ءعرض البلد پر واقع صوبہ مدھیہ پردیش کا ایک شہر ہے ،سطح سمندر سے اس کی دوری 519 میٹر [1702 فٹ 4 ہاتھ] ہے[1].
سياسى تاريخ
ترمیممسلم بادشاہوں نے میں سب سے پہلے سلطان شمس الدین التمش نے بھیلسہ{ودیشہ} کو فتح کیاپھر رائے سین کو [2] ہو سکتا ہے اس وقت آشٹہ آباد ہی نہ ہوا ہو یا رائے سین ہی کے ماتحت ہو۔
جب 938ھ میں سلطان بہار شاہ گجراتی نے مالوہ کے اکثر علاقے فتح کرلئے تو حبیب خاں کو آشٹہ کا والی بنایا اور خود بھیلسہ و رائسین کی جانب روانہ ہو گیا، حبیب خاں نے بہت سے پوربیوں کو آشٹہ پہنچ کرٹھکانے لاگایا اور آشٹہ پر قبضہ کر لیا[3]
شیر شاہ سوری نے 949ھ م 1542ء کو مالوہ پر حملہ کیا اور آگرہ، گوالیار ، گاگرون ہوتا ہوا سارنگ پور پہنچا، اس وقت مالوہ میں قادر شاہ کی مطلق العنانی تھی، آشٹہ بھی اسی کے زیر اقتدار تھا، مالوہ میں شیر شای سوری نے اپنے حکام مقرر کیے اور انتظام درست کیا اس نے شجاعت خاں کو ہنڈیہ اور ستواس کا حاکم حاجی خاں اور جنید خاں کو مانڈو شادی آباد اور دھار کا حاکم مقرر کیا ، 949ھ م مارچ 1543ء کو جب پوری سلطنت مالوہ اس کے قبضہ میں آگئی تو اس نے اپنے معتمد خاص شجاعت خاں کو مالوہ کا حکمراں بنادیا ، شیر شاہ کے انتقال بعد سلیم شاہ اس کا جانشین ہوا تو اس نے ذاتی رنجش کی بنا پر اس کو برطرف کر دیا اور عیسی خاں کو مالوہ کاصوبہ دار مقرر کر دیا ، کچھ عرصہ بعد شجاع خاں کو سارنگ پوراور رائے سین کی جاگیر عطا کی ، اس کے بعد سلطان محمد عادل شاہ سوری نے شجاع خاں کو پورے مالوہ کا حکمراں مقرر کر دیا، شجاع خاں نے اپنے لڑکے دولت خاں کو اجین ، ملک مصطفی کو رائسین اور میاں ملک بایزید کو ہنڈیا اور آشٹہ کا حاکم مقرر کیا اور خود سارنگ پور میں حکومت کرنے لگا[4]۔
پھر اس کے بیٹے ملک بایزید نے پوری ریاست مالوہ پر قبضہ کر لیا اور باز بہادر کے نام سے حکمرانی کرنے لگا تو آشٹہ بھی اسی کی عمل داری میں آگیا ، ہمایوں کے حملہ کے بعد پوری ریاست مالوہ دہلی کے ماتحت ہو گئی اور سلطان اوررنگزیب عالمگیر کی وفات تک یہ مغلیہ سلطنت کے ماتحت رہا ،اورنگزیب کے انتقال کے بعد خود مختار ریاستیں قائم ہونے لگیں تو آشٹہ ریاست بھوپال کے بانی سردار دوست محمد خان کے قبضہ میں چلا گیا۔
سردار دوست محمد خاں بانی ریاست بھوپال {1121ھ-1153ھ} نے بھیلسہ فتح کیا اس کے مغربی پرگنوں {محل پور ،غیاث پور، سیہور ، اچھاور اور دوراہا کے بعد آشٹہ کا رخ کیا حاکم آشٹہ نے تھوڑا بہت مقابلہ کیا مگر شکست کھائی اس طرح آشٹہ پر بھی ان کا قبضہ ہو گیا[5]
جسونت راو جو اندور کے سب سے آخری ہولکر مرہٹہ حکمراں راجا تکاجی کی کنیز کا بیٹا تھا، اس کے انتقال کے بعد سلطنت میں جب افرا تفری مچی اور حکومت دشمنوں کے نرغہ میں آگئی تو بھاگنے والوں میں جسونت راو بھی تھا، ناگپور خاندیس کے علاقوں میں تین سال تک بھٹکنے کے بعد مالوہ آیا اور ایک بڑا لشکر فراہم کر لیا جب سارنگ پور پہنچا تو تو سید وزیر حسن نے اس کی تایید کی اور بھوپال میں مقیم امیر خان سے اعانت کا مشورہ دیا ، شجاعلپور میں دونوں کی ملاقات ہوئی ہمیشہ ساتھ رہنے کا تہیہ کیا 1803ء میں اسی امیر خان نے جو جسونت کا حلیف تھا آشٹہ ، شجاعلپور کو خوب لوٹا اور قتل و غارت گری عام کردی دولت راو سندھیا ، ہلکر کی فوجیں اور مرہٹیں جہاں کہیں جاتے تو جس شہر یا صوبے میں وہ داخل ہوتے یا اس پر حملہ کرتے تو وہاں کے انتظامی افسران سے ایک رقم تاوان عائد کرکے جبریہ وصول کرتے؛ چنانچہ اضلاع رائے سین {آشٹہ ، سیہور، دوراہا، اچھاور} دوبارہ فتح کیے اور نربدا کے شمال میں شجاعلپور ، بیرسیہ اور اس دریا کے جنوب میں چند اوراضلاع سے تاوان وصول کیے{تاریخ وسط ہند299}اسی دوران کریم خاں پنڈاری اٹھا اس نے امیر خاں سے درخواست کی کہ اسے اپنے ہم راہیوں میں شامل کر لے امیر خان نے شامل کر لیا اس دوران کہ دولت راو سندھیا اور امیر خان سرحد پر جنگ میں مصروف تھے کریم خان نے شجاعلپور پر قبضہ کر لیا 1804ء میں جب سندھیا واپس آیا تو اس نے بیرسیہ اور شجاعلپور پر قبضہ کرنے کی منظوری دے دی اور نواب کا خطاب بھی دے دیا ، پھر حیلہ سے اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا سندھیا اور ہلکر کی عدم موجودگی میں اس نے آشٹہ ، سیہور ،اچھاور اور شاہجہاں پور {شاجاپور}فتح کر لیے
1814ء-1818ء کے دوران نواب غوث محمد خاں کے دور میں جب ریاست بھوپال پر حالات آئے اور دشمنوں نے ہر چہار سمت سے بھوپال کو گھیر لیا تو اس وقت آشٹہ کے حاکم نواب وزیر محمد خاں صاحب تھے ؛ چنانچہ وہ بھوپال پہنچے اور بھوپال پر ہونے والے سات مشہور حملوں کا پا مردی سے مقابلہ کیا اور ریاست کوبحران سے نکالا، اس دوران سارا زور دار السلطنت کی حفاظت میں لگا ہوا تھا اس لیے یہ سارے پرگنے مرہٹوں کے قبضہ میں چلے گئے تھے ؛ چنانچہ 1818ء کے ایک معاہدہ کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی نے سابقہ پرگنے آشٹہ ، سیہور ، اچھاور ، دوراہہ ، دیبی پورہ پیشوا سے لے کر واپس ریاست کے حوالہ کردئے
جب سکندر بیگم کی نواب جہانگیر محمد خاں کے ساتھ شادی کر دی گئی تو جہانگیر نے امرا کے اکسانے پرسکندر بیگم کو قتل کرنا چاہا لیکن نہ کر سکا آخر کار نظر بند کر دیا گیا پھر کمپنی کے اثر سے چھٹکارا ملا تو سیہور بھاگ گئے ، وہاں ان کے مامو نواب اسد علی خاں اور قدسیہ بیگم کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے کسی بنا پر نہ بن پائی اور نواب اسد علی نے آشٹہ کے قلعہ دار شہامت خاں کو اپنے ساتھ ملا کر آشٹہ پر قبضہ کر لیا جب بھوپال اس کی اطلاع پہنچی تو بیگم کی طرف سے راجا خشونت رائے فوج لے کر پہنچے ، موضع مغلئی پر 1837ء میں دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا آشٹہ کی پاربتی ندی باڑھ پر آئی ہوئی تھی ، اس لیے بھوپال کی فوجوں کو تھوڑی پریشانی ہوئی ؛ لیکن نواب آشٹہ کی فوج نہ ٹھہر سکی اور سب قلعہ بند ہو گئے ، نواب کی درخواست پر گورنر جنرل نے ایجنٹ کے ذریعہ مداخلت کی اور دسمبر 1837ء میں بھوپال کی فوج کو واپس ہونا پڑا کمپنی نے نواب جہانگیر محمد کوسیہور بلا لیا اور آشٹہ پر اپنی طرف سے حاکم مقرر کر دیا [6]اور انضمام ریاست تک یہ پرگنہ انگریزوں کی عمل داری میں رہا چنانچہ انضمام کے وقت یہ مرزا امجد بیگ کی عملداری میں تھا جنہیں آج کے آشٹہ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
کچھ خاص
ترمیمآشٹہ ایک پاروتی نامی دریا کے کنارے آباد ہے ، جو وہاں آباد لوگوں کے لیے پانی کی رسد کا اہم ذریعہ ہے ، پاروتی اس ندی کا نام اس بنا پر ہے کہ اس کے قریب میں ایک شیو کا مندر ہے جس کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ وہ 3500 برس پرانا ہے ، شیو ہندووں کے ایک خدا کا نام ہے اور پاروتی اس کی بیوی کا اور اسی کے نام پر دریا کو بھی پاروتی کہا جاتا ہے ، آشٹہ میں ایک دلچسپ عقیدہ یہ بھی مشہور ہے کہ ساون کے مہینہ [ موسم باراں] میں جب دریائے پاروتی لبریز ہو جاتی ہے تو سطح آب شیو لنگ [ لنگم/ lingam ] تک پہنچ جاتی ہے جو دریا کے کنارے ایک مندر میں واقع ہے۔ دریائے پاروتی کا ایک منظر
سہولیات
ترمیمآشٹہ ایک خوبصورت علاقہ ہے جو بہت سے شعبہائے ضروریات پر مشتمل ہے ، خاص طور سے ہسپتال ، اسکولز ، سینیما ہال ، اسٹیڈیم اور روڈ ٹرانسپورٹ وغیرہ ، آشٹہ بلاک میں تقریباً 300 گاؤں آتے ہیں ، آشٹہ اپنے اناج بازار کی بنا پر بھی مشہور ہے جسے مقامی زبان میں منڈی کہا جاتا ہے ، بنیادی طور پر یہاں کا اناج بازارسویابین اور گیہوں کی رسد کی بنا پر مشہور ہے۔
مردم شماری
ترمیمبھارتی قومی مردم شماری 2011ء کے مطابق آشٹہ کی آبادی 59773 تھی جس میں مردوں کا تناسب کل آبادی کا 52 فی صد جبکہ عورتیں 48 فی صد تھیں ، اوسط شرح خواندگی 63 فی صد تھا جس میں 58 فی صد مرد اور 42 فی صد عورتیں خواندہ تھیں اور 17 فی صد 6 برس سے کم عمر کے تھے۔
بلدیہ
ترمیمآشٹہ 19 وارڈز میں تقسیم ہے جن میں ہر پانچ سال میں انتخابات ہوتے ہیں۔