ابن الابار – ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ القضاعی ابن الابَّار (پیدائش: فروری 1199ء– وفات: 6 جنوری 1260ء ) اندلس کے مسلمان عالم، مؤرخ اور ، شاعر، کاتب، خَطَّاط اور کثیر التصانیف مصنف تھے۔

ابن الابار
معلومات شخصیت
پیدائش فروری1199ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلنسیہ ،  اندلس   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 جنوری 1260ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تونس شہر ،  سلطنت حفصیہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سرعام پھانسی   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت طائفہ بلنسیہ (عہد سؤم) (فروری 1199–اپریل 1238)
تاج اراغون (اپریل 1238–اکتوبر 1238)
بجایہ (اکتوبر 1238–1240)
سلطنت حفصیہ (1240–6 جنوری 1260)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ ابن عسکر مالقی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سفارت کار ،  مورخ ،  شاعر ،  سوانح نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان ہسپانوی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

نام و نسب

ترمیم

ابن الابار کی کنیت ابو عبد اللہ جبکہ نام محمد ، والد کا نام عبد اللہ بن ابی بکر تھا۔ نسب یوں ہے: محمد بن عبد اللہ بن ابی بکر بن عبد اللہ بن عبد الرحمٰن بن احمد بن ابی بکر القضاعی۔ ابن الابار کا تعلق عرب قبیلے بنوقُضَاعہ سے تھا جس کی نسبت سے وہ قُضَاعی کہلاتے تھے۔ابن الابار کا خاندان اندلس میں اپنی آبائی جاگیر اوندہ میں آباد تھا۔[1]

پیدائش

ترمیم

ابن الابار کی پیدائش ماہِ ربیع الثانی 595ھ مطابق فروری 1199ء میں اندلس کے شہر بلنسیہ میں ہوئی۔

تعلیم

ترمیم

ابن الابار نے ابو عبد اللہ بن نوح، ابوجعفر الحَصَّار، ابو خطَّاب بن وَاجِب، ابو الحسن بن خَیرہ، ابوسلیمان حَوط، ابو عبد اللہ محمد بن عبد العزیز بن سعادہ سے تعلیم کی تحصیل کی۔

سرکاری ملازمت

ترمیم

تقریباً بیس سال سے زائد عرصے تک ابن الابار کا تعلق اندلس کے سب سے بڑے محدث ابوالربیع ابن سالم الکلاعی البلنسی (متوفی 634ھ) سے رہا جنھوں نے ابن الابار کو ابن بشکوال کی تصنیف الصلہ ابن بشکوال کو مکمل کرنے کی ترغیب دی جس پر ابن الابار نے تکملہ بھی لکھا اور اِسے مکمل کر دیا۔ بعد ازاں ابن الابار بلنسیہ کے گورنر ابو عبد اللہ محمد بن ابی حفص بن عبد المؤمن بن علی کے کاتب (سیکرٹری) کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ اِس کے بعد وہ ابو عبد اللہ محمد کے بیٹے ابوزید بن محمد اور اُس کے بعد ابو عبد اللہ کے پوتے ابن مردنیش کے کاتب (سیکرٹری) کے عہدہ پر فائز رہے۔

بطور سفارت کار اور تونس کی جانب ہجرت

ترمیم

رمضان 635ھ مطابق اپریل/ مئی 1238ء میں جب جیمز اول، شاہ اراغون نے بلنسیہ کا محاصرہ کر لیا تو ابن الابار ایک سفارت کے ہمراہ تونس کے حفصی سلطنت کے سلطان ابو زکریا یحییٰ بن عبدالواحد بن ابی حفص کے پاس گئے تاکہ اُسے ایک دستاویز پیش کرسکیں جس کے رُو سے اہل بلنسیہ نے حفصی سلطنت کے اِقتدار و سیادت کو قبول کر لیا تھا۔ 4 محرم الحرام 636ھ مطابق 17 اگست 1238ء کو ابن الابار نے سلطان ابو زکریا یحییٰ بن عبدالواحد بن ابی حفص سے ملاقات کی اور اُس کے سامنے ایک سینیہ قصیدہ پڑھا جس میں اہل بلنسیہ کی سلطان مذکور سے مدد کی التجاء کی گئی تھی۔ بلنسیہ واپس پہنچنے تک ابن الابار کو معلوم ہوا کہ جیمز اول، شاہ اراغون کی فوجیں بلنسیہ پر قابض ہو چکی ہیں اور عیسائی اقتدار قائم ہو چکا ہے، یہ خبر پاتے ہی ابن الابار ماہِ صفر 636ھ مطابق ستمبر / اکتوبر 1238ء کے کچھ ہی عرصے بعد اپنے پورے خاندان سمیت بلنسیہ سے ہجرت کرتے ہوئے بحری جہاز کے ذریعہ سے تونس چلے آئے۔ مؤرخ ابن خلدون کا بیان ہے کہ ابن الابار براہِ راست تونس گئے[2] لیکن مؤرخ احمد الغُبرِینی (متوفی 714ھ/ 1315ء) باوثوق خبر کے ذریعہ سے بیان کرتا ہے کہ ابن الابار پہلے بجایہ گئے (جو آج الجزائر میں واقع ہے) اور وہاں کچھ عرصے تک درس و تدریس میں مصروف رہے[3]۔ تونس کے حفصی سلطان نے بڑے اعزاز و اِکرام سے ابن الابار کا خیرمقدم کیا اور انھیں اپنا کاتب (سیکرٹری) مقرر کر دیا۔[1]

تونس ہجرت کے بعد ابن الابار چونکہ حفصی دربار میں بطور کاتب (سیکرٹری) مقرر ہوئے تھے، اِس لیے اُن کے سپرد یہ کام کیا گیا کہ وہ حفصی سلطان کے فرامین میں بسملہ کے عین نیچے سلطان کا طغریٰ اور القابات لکھا کریں۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد یہ عہدہ ابن الابار سے لے کر ابوالعباس الغَسَّانی کو دے دیا گیا جو مشرقی طرز کی خوش نویسی میں یدِ طُولیٰ رکھتا تھا اور اِس خط کو سلطان مغربی خطوط کے مقابلے میں زیادہ پسند کرتا تھا۔ ابن الابار نے اِس توہین کو بہت بری طرح محسوس کیا لیکن بار بار متنبہ کیے جانے کے باوجود وہ اپنی تحریرکردہ دستاویزات پر برابر طغرائے شاہی بناتے رہے۔ اِ س دوران ابن الابار نے اپنے گھر کی چاردیواری میں بند ہوکر اپنی تصنیف ’’ اِعتابُ الکُتَّاب‘‘ لکھی جس کا اِنتساب سلطان ابو زکریا یحییٰ بن عبدالواحد بن ابی حفص کے نام تھا۔ سلطان مذکور نے زیادہ تر اپنے فرزند المستنصر کی سفارش پر ابن الابار کا قصور معاف کر دیا اور انھیں دوبارہ سابقہ عہدہ پر بحال کر دیا گیا۔ 5 اکتوبر 1249ء کو سلطان ابو زکریا یحییٰ بن عبدالواحد بن ابی حفص کی وفات کے بعد اُس کے فرزند ابوعبداللہ محمد المستنصر نے ابن الابار کو اپنا معتمد مشیر مقرر کر دیا ۔[4]

وفات

ترمیم

ابن الابار کی طبیعت میں مستقل مزاجی نہ تھی جس کے سبب انھوں نے اپنی رَوِش سے سلطان ابوعبداللہ محمد المستنصر اور اُس کے درباریوں کو ناراض کر لیا جس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ انھیں مختلف ایذائے جسمانی دی گئیں۔ ابن الابار کی ضبط شدہ تحریروں میں سے سلطان کے خلاف ایک ہجو بھی برآمد ہوئی جسے دیکھ کر سلطان ایسا غضب ناک ہوا کہ اُس نے ابن الابار کو نیزے کے کچوکوں سے ہلاک کردینے کا حکم دیا۔ بروز منگل 21 محرم الحرام 658ھ مطابق 6 جنوری 1260ء کی علیٰ الصبح کو ابن الابار کو سزا دیتے ہوئے شاہی جلادوں نے ہلاک کر دیا جس سے موقع پر ہی ابن الابار کی وفات ہو گئی۔سلطان مذکور کے حکم کے مطابق دوسرے دن ابن الابار کی میت کو اُن کی کتابوں، نظموں اور دیگر تصانیف کے ساتھ رکھتے ہوئے جلا دیا گیا۔[5] بعد ازاں سلطان ابوعبداللہ محمد المستنصراِس حکم سے نہایت نادم و پریشان ہوا۔[6]

تصانیف

ترمیم

ابن الابار کثیر التصانیف ادیب تھے۔انھوں نے متعدد کتب تصنیف کیں جن میں سے اَب چند باقی رہ گئی ہیں۔ بوقت وفات 54 کتابیں اُن کی میت سمیت نذرِ آتش کردی گئی تھیں مگر اَب اِن 54 کتب میں سے متعدد اِمتدادِ زمانہ کے سبب سے ختم ہو چکی ہیں اور محض5 کتابیں باقی رہ گئی ہیں جوشائع ہو چکی ہیں ۔

تکملہ الصلہ ابن بشکوال

ترمیم

یہ ابن بشکوال کی تصنیف الصلہ ابن بشکوال کا تکملہ ہے جسے ابن الابار نے ابو الربیع ابن سالم الکلاعی کی ہدایت پر لکھا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 246۔
  2. ابن خلدون: تاریخ بربر، جلد2، صفحہ 307، صفحہ 347-350۔
  3. احمد الغُبرِینی: عنوان الدِّرایۃ فی مَن عُرف مِنَ العلماءِ فی المائۃ السابعۃ ببجایۃ ، صفحہ 183۔
  4. اردو دائرہ معارف اسلامیہ:جلد 1، صفحہ 247۔
  5. اردو دائرہ معارف اسلامیہ:جلد 1، صفحہ 247۔
  6. اردو دائرہ معارف اسلامیہ:جلد 1، صفحہ 247۔

مزید دیکھیے

ترمیم

کتابیات

ترمیم