ابو ادریس الخولانی
ابو ادریس الخولانی ، (پیدائش 8 ہجری - وفات 80 ہجری ) خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں دمشق کے تابعین اور حدیث کے راویوں میں سے ایک ہیں، مبلغ، فقیہ اور قاضی تھے۔ ان کے والد صحابہ میں سے تھے۔
ابو ادریس الخولانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | عائذ الله بن عبد الله بن عمرو |
تاریخ پیدائش | سنہ 629ء [1] |
تاریخ وفات | سنہ 699ء (69–70 سال)[2] |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | شام |
شہریت | خلافت راشدہ |
کنیت | ابو ادریس |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عملی زندگی | |
طبقہ | 2 |
نسب | العوذي، الشامي، العيذي، الخولاني |
ابن حجر کی رائے | ثقہ |
ذہبی کی رائے | ثقہ |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعائذ نام،ابو ادریس کنیت،کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں،نسب نامہ یہ ہے عائذ ابن عبد اللہ بن عمر،بعض روایات میں نام عبد اللہ اورنسب نامہ اس طرح ہے عبد اللہ بن ادریس بن عائذ بن عبد اللہ بن غیلان خولانی۔
پیدائش
ترمیمغزوۂ حنین کے سال پیدا ہوئے۔ [3]
فضل وکمال
ترمیمصاحبِ علم وعمل تابعین میں تھے،شام کے ممتاز علما میں شمار تھا،حافظ ذہبی لکھتے ہیں، ابوادریس خولانی عالم اھل الشام الفقیہ احد من جمع بین العلم العمل ،مشہور صحابی حضرت ابودرداء کے بعد جو شام میں مقیم تھے،ابو ادریس ہی ان کے جانشین ہوئے تھے۔ [4]
حدیث
ترمیمحدیث میں انھوں نے حضرت عمرؓ،ابودرداء،معاذ بن جبلؓ،ابو زر غفاریؓ،بلالؓ ،ثوبانؓ، حذیفہ بن یمانؓ عبادہ بن صامتؓ،عوف بن مالکؓ، مغیرہ بن شعبہؓ،معاویہؓ بن ابی سفیان ،ابوہریرہؓ ،ابو سعید خدریؓ وغیرہ سے روایتیں کی ہیں،حافظ ذہبی نے اکابر حفاظ کے زمرہ میں ان کے حالات لکھے ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں امام زہری،ربیعہ بن یزید،بسر بن عبیداللہ،عبد اللہ بن ربیعہ بن یزید،قاسم بن محمد،ولید بن عبد الرحمن،یونس بن میسرہ،ابوعون انصاری،یونس بن سیف مکحول، شہر بن حوشب اور سلمہ بن دینار وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ [5]
فقہ
ترمیمشام کے مشہور فقہا میں تھے،امام زہری ان کو شام کے فقیہ علما میں شمار کرتے تھے [6] طبری نے ان کا ذکر شام کے ان علما کے ساتھ کیا ہے،جو فقیہ حلال وحرام کے عالم تھے۔ [7]
وعظ گوئی اور قضاءت
ترمیمان کے فقہی کمال کی سند یہ ہے کہ عبد الملک کے زمانہ میں وہ دار الخلافہ دمشق کے قاضی تھے اور قضاءت کے ساتھ وعظ وپند کی خدمت بھی انجام دیتے تھے،پھر عبد الملک نے وعظ کی خدمت ان سے الگ کرلی،ان کو قضاءت کے مقابلہ میں وعظ گوئی کاشغل زیادہ مرغوب تھا، اس لیے اس سے علیحدگی کے بعد کہتے تھے،میری مرغوب چیز سے مجھے معزول کر دیا گیا اورجس چیز سے میں ڈرتا ہوں اسے رہنے دیا گیا۔ [8]
علما کا اعتراف
ترمیمان کے ہمعصر ان کے کمالات کے اتنے معترف تھے کہ مکحول جو شام کے سب سے بڑے عالم تھے،کہتے تھے کہ میں نے ادریس سے بڑا عالم نہیں دیکھا،ابو زرعہ دمشقی ان کو جبیربن نضیر عالمِ شام پر ترجیح دیتے تھے۔ [9]
سیرت
ترمیمالذہبی نے ان کے بارے میں کہا: "دمشق کا قاضی، عالم اور مبلغ..." وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں فتح مکہ کے سال 8 ہجری میں پیدا ہوئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں دیا اور آپ کے والد کو صحابہ میں شمار کیا جاتا تھا، لیکن وہ ابوذر غفاری، ابو موسیٰ اشعری، عبادہ بن الصامت، ابوہریرہ اور معاویہ ابن ابو سفیان، معاذ جیسے صحابہ کی ایک بڑی تعداد سے ملے اور ان کے ساتھ رہے۔معاذ بن جبل اور مغیرہ بن شعبہ نے ان سے اور دوسرے صحابہ سے احادیث روایت کی ہیں۔ قاضی کے طور پر کام کرنے سے پہلے وہ ایک مبلغ اور قصہ گو تھے، اس لیے عبد الملک بن مروان نے انھیں برطرف کر کے دمشق کے قاضی کے عہدے پر مقرر کر دیا۔ابو ادریس نے کہا: "تم نے مجھے میری خواہش سے الگ تھلگ کر دیا اور مجھے اپنے گھر میں چھوڑ دیا۔" الذہبی نے بطور کہانی کار اپنے کام کے بارے میں کہا: "کہانی سنانے والے کے پاس پہلی بار سائنس اور کام کی عمدہ تصویر تھی۔[10]
روایت حدیث
ترمیماس کی حدیث کی روایت انھوں نے بہت سے صحابہ سے روایت کی ہے جیسے ابوذر غفاری، ابو دردا الانصاری، حذیفہ بن یمان، ابو موسیٰ اشعری، شداد بن اوس، عبادہ بن الصامت، ابوہریرہ، عوف بن مالک الاشجعی، عقبہ بن عامر الجہنی، المغیرہ بن شعبہ، ابن عباس، معاویہ بن ابی سفیان، عبد اللہ بن حولۃ الازدی اور ابو مسلم الخولانی۔اور معاذ بن جبل۔ . پیروکاروں میں ابو سلام الاسود، مخول الشامی، ابن شہاب الزہری، عبد اللہ ابن امیر الاحسبی، یحییٰ ابن یحییٰ الغسانی، عطاء ابن ابو مسلم، ابو قلابہ الجرمی، محمود ابن یزید۔ الرحبی، یونس بن میسرہ ابن حلباس، یزید ابن ابی مریم، ربیعہ قسیر وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے۔ [11]
جراح و تعدیل
ترمیمضحیم الدمشقی سے ابو ادریس اور جبیر بن نفیر کے بارے میں پوچھا گیا کہ ان میں سے کون زیادہ علم والا ہے تو انھوں نے کہا: "ابو ادریس مقدام ہیں..." انھوں نے جبیر بن نفیر کا مرتبہ بھی ان کے سلسلہ و نشر کی وجہ سے بلند کیا۔ احادیث الذہبی نے کہا: وہ کثیر بن مرہ، قبیصہ بن ذیب، عبد اللہ بن محیریز الجمعی اور ام الدرداء کے ساتھ تھے جو اپنے دور میں عبد الملک بن مروان کی حالت میں تھے۔ انھوں نے اپنی حدیث کے بارے میں یہ بھی کہا: "وہ سب سے زیادہ صحیح نہیں ہے، لیکن اس کی شان حیرت انگیز ہے۔" ابن شہاب الزہری کہتے ہیں: "مجھے ابو ادریس الخولانی نے بیان کیا اور وہ اہل شام کے فقہا میں سے تھے،" اور مخول الشامی نے کہا: "میں نے ابو ادریس الخولانی جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ " نسائی اور دیگر نے کہا: "ابو ادریس کو ثقہ کہا ہے۔" [12]
وفات
ترمیمآپ کی وفات 80 ہجری میں 72 سال کی عمر میں ہوئی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: ذہبی — عنوان : سير أعلام النبلاء — ناشر: مؤسسة الرسالة — اشاعت اول — جلد: 4 — صفحہ: 272 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://shamela.ws/book/10906
- ↑ مصنف: ذہبی — عنوان : سير أعلام النبلاء — ناشر: مؤسسة الرسالة — اشاعت اول — جلد: 4 — صفحہ: 276 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://shamela.ws/book/10906
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/48)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/48)
- ↑ (تہذیب التہذیب:5/85)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/49)
- ↑ (تہذیب التہذیب:5/49)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/49)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/49)
- ↑ جمال الدين المزي۔ تهذيب الكمال في أسماء الرجال۔ مؤسسة الرسالة۔ ج 14۔ ص 88
- ↑ جمال الدين المزي۔ تهذيب الكمال في أسماء الرجال۔ مؤسسة الرسالة۔ ج 14۔ ص 88
- ↑ جمال الدين المزي۔ تهذيب الكمال في أسماء الرجال۔ مؤسسة الرسالة۔ ج 14۔ ص 88