ابو بکر احمد حلیم
پروفیسر ابو بکر احمد حلیم ، اے بی اے حلیم ، عرف ابا حلیم (انگریزی: Abu Bakr Ahmad Haleem) (پیدائش: یکم مارچ، 1897ء - وفات: 20 اپریل، 1975ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف ماہر تعلیم، شعبہ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سربراہ، وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر، آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے اکابرین میں شامل تھے۔
ابو بکر احمد حلیم | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 مارچ 1897 ارکی، بہار، برطانوی ہند |
وفات | 20 اپریل 1975 (78 سال) کراچی، پاکستان |
وجہ وفات | دورۂ قلب |
طرز وفات | طبعی موت |
رہائش | کراچی |
شہریت | ![]() ![]() |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ اوکسفرڈ جامعہ پٹنہ |
تعلیمی اسناد | ایم اے |
پیشہ | ماہر سیاسیات، وائس چانسلر، پروفیسر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو، انگریزی |
شعبۂ عمل | سیاسیات، تاریخ |
ملازمت | جامعہ کراچی، جامعہ علی گڑھ |
تحریک | آل انڈیا مسلم لیگ |
درستی - ترمیم ![]() |
حالات زندگی ترميم
ابو بکر احمد حلیم یکم مارچ، 1897ء[1] کو ارکی، جہان آباد (بہار)، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[2] انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 1921 ء میں ہندوستان واپس آئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معلم کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا، 1923 ء میں اسی یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ اور سیاسیات کے پروفیسر اور پھر صدر نشین بن گئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انہوں نے 1944ء تک خدمات انجام دیں۔ اس مدت کے دوران میں انہوں نے آل انڈیا مسلم تعلیمی کانفرنس 1940ء میں پونہ میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کی۔ 1942ء میں انہیں متحدہ ہندوستان کے انٹر یونیورسٹی بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے 1944ء میں اسلامی تاریخ اور ثقافت کے سیکشن کی آل انڈیا مسلم تعلیمی کانفرنس ،ناگپور میں منعقد اجلاس کی صدارت بھی کی۔[3]
نومبر 1942ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دورے پر آئے تو پروفیسر حلیم نے ان کی خدمت میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے وہ یادگار جملہ کہا جو تاریخ کا حصہ بن گیا۔ انہوں نے قائد اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ
” | میں آج کل مسلمانوں کی سب سے بڑی درس گاہ میں تاریخ پڑھا رہا ہوں اور آپ مسلمانوں کی تاریخ بنا رہے ہیں۔[2] | “ |
1944ء میں انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ انہوں نے تحریک پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 1944 ء سے 1945ء تک انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی منصوبہ بندی کمیٹی کے سیکرٹری کے عہدے پر رہے۔ 1945–1946 میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ وہ مسلم لیگ کی تعلیمی کمیٹی کے سیکرٹری بھی تھے۔ 1945ء میں شملہ کانفرنس کے دوران میں قائد اعظم محمد علی جناح نے انہیں اپنا آئینی مشیر بھی مقرر کیا۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا جہاں وہ 1951ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ پھر انہیں نو تشکیل کردہ کراچی یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا۔ 1962ء میں انہیں معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے کمیشن کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا تھا۔ 1965 ء میں وہ اسلامی مشاورتی نظریاتی کونسل کے رکن بنے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ موتمر عالم اسلامی سے وابستہ ہوئے اور آخری وقت تک اس تنظیم میں خدمات انجام دیتے رہے۔ پاکستان پوسٹ نے ان کی گراں قدر خدمات کے صلہ میں 20 اپریل 2003ء کو ان کایادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔[3]
وفات ترميم
پروفیسر اے بی اے حلیم 20 اپریل 1975ء میں کراچی، پاکستان میں دل کا دورہ پڑنے کے سبب انتقال کر گئے۔ انہیں کراچی کے سوسائٹی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔[2][1]
حوالہ جات ترميم
- ^ ا ب پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ خاک، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب لاہور، نومبر 1991، ص 232
- ^ ا ب پ پاکستان کرونیکل: عقیل عباس جعفری، ص 407، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء
- ^ ا ب احمد سہیل، ابو بکر احمد حلیم (عرف ابا حلیم): ایک ماہر تعلیم