خواجہ ابو علی فضل فارمدی طوسی کا نام فضل بن محمد ہے

ابو علی فارمدی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1016ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طوس [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1084ء (67–68 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طوس [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ أبو منصور البغدادی [2]،  القشیری [2]  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ابو حامد غزالی [3]  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آرامگاہ شیخ ابو علی فارمدی

ولادت

ترمیم

آپ کی ولادت 407ھ 1043ء میں طوس کے نواحی گاؤں فارمد میں ہوئی جس کی نسبت سے فارمدی کہا جاتا ہے۔

نام و کنیت

ترمیم

اسم گرامی فضل بن محمد بن علی اور کنیت ابو علی اور فارمد کی طرف منسوب ہے جو طوس (موجودہ ایران) کے دیہات میں سے ایک گاؤں ہے۔ علم کا حصول فقہ کے امام ابو حامد غزالی سے ہوا اور ابو عبد اللہ بن باکو شیرازی ابو منصور تمیمی، ابو عبد الرحمن نیلی اور ابو عثمان صابونی سے حدیث کا سماع کیا۔[4]

مقام و مرتبہ

ترمیم

خراسان کے شیخ الشیوخ ہیں ا پنے وقت کے یکتا تھے۔ اوراپنی طریقت میں خاص تھے وعظ و نصیحت میں ابو القاسم کے شاگرد تھے۔ ان کی نسبت تصوف میں دوطرف کی ہے۔ ایک تو شیخ بزرگوار ابو القاسم گرگانی(جرجانی) کی طرف دوسری شیخ بزرگوار ابو الحسن خرقانی کی طرف جو مشائخ کے پیشوا اور وقت کے قطب ہیں۔ طریقہ نقشبندیہ میں خواجہ ابو القاسم گرگانی سے بیعت ہوئے لیکن اویسی طور پر ابو الحسن خرقانی سے فیض یاب ہوئے۔ آپ کے صاحب کمال ہونے کے لیے یہ دلیل کافی ہے کہ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی آپ کے مرید اور تربیت یافتہ تھے۔[5]

حصول علم باطن

ترمیم

آپ فرماتے ہیں کہ میں شروع جوانی میں نیشا پور میں طلب علم میں لگا تھا میں نے سنا کہ شیخ سعید ابوالخیر منہ سے آئے ہیں اور وعظ کہتے ہیں میں گیا تاکہ ان کو دیکھوں جب میری آنکھ ان کے جمال پر پڑی تو میں ان پر عاشق ہو گیااور صوفیہ کی محبت میرے دل میں بڑھ گئی۔ ایک مرتبہ شیخ کی زیارت کی آرزو ہوئی لیکن وہ زیارت کا وقت نہ تھا ایسے ہی باہر نکلا تو شیخ کو کثیر انبوہ میں دیکھا شیخ نے مجھے نہ دیکھا تھا میں چپکے سے پیچھے چل پڑا جب وہ سماع میں پہنچے میں بھی چھپ کر بیٹھ گیا۔ جب شیخ پر وجد کی حالت طاری ہوئی کپڑے پھاڑ دئے قمیص کا اگلا حصہ چاقو سے پھاڑا اور آواز دی اے ابو علی طوسی کہاں ہو میں سمجھا کسی اور کو بلا رہے ہیں تین دفعہ بلانے پر میں نہ گیا تولوگ کہنے لگے تمھیں بلاتے ہیں میں گیا تو شیخ نے وہ قمیص اور چاقو مجھے عنایت کیے اور فرمایا تم ہمیں اس قمیص اور چاقو کی طرح ہومیں نے انھیں بڑی عزت سے رکھ لیا۔

استاد کی خدمت

ترمیم

دوران میں طالب علمی ابو القاسم قشیری کی خدمت میں رہے جو حال مجھ پر ظاہر ہوتا انھیں عرض کرتا فرماتے علم سیکھو لیکن ہر روز روشنائی بڑھنے لگی ایک دن قلم کو دیکھا وہ سفید ہوگیااستاد سے عرض کی تو فرمایا جب علم نے تجھ سے علیحدگی کر لی تم بھی علاحدہ ہو جاؤریاضت میں مشغول ہو جاؤ میں خانقاہ میں استاد امام ابو القاسم کی خدمت میں مشغول ہو گیا ایک دن استاد حمام گئے میں نے پانی کے ڈول ان پر گرائے جب استاد ابو القاسم نماز سے فارغ ہوئے پوچھا یہ پانی کس نے گرایا تھا میں سمجھا شاید یہ بیوقوفی کی ہے خاموش رہا تیسری مرتبہ عرض کیا میں تھا تو استاد نے فرمایا اے بو علی جو کچھ ابو القاسم نے ستر سال میں پایا تم نے ایک ہی ڈول میں پا لیا۔[6][7] بوعلی فارمدی بڑے پر اثر خطیب اور شیریں گو واعظ تھے۔[8] طائفہ نقشبندیہ کے ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ شیخ بو علی کو خطرات قلب پر واقفیت دی گئی مگر اس کے اظہار کی اجازت نہ تھی۔[9]

مبارک ارشادات

ترمیم

خواجہ ابو علی فارمدی فرماتے ہیں کہ ؛ ” پیر و مرشد کی خدمت میں حاضری دینے سے نورِ معرفت کی روشنی ملتی ہے بشرط یہ کہ خلوصِ دل سے ہو۔ “ [10]

میں (ابو علی فارمدی) اوائل عمری میں نیشا پور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو کسی نے بتایا کہ شیخ ابوسعید ابی الخیر تشریف لائے ہوئے ہیں اور وعظ فرما رہے ہیں ۔ میں شوقِ زیارت سے بے تاب ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے مقدس اور نورانی چہرے پر پہلی نظر پڑتے ہی میں دل و جان سے شیدا ہو گیا اور حضرات صوفیہ کرام کی محبت میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی۔ [11] خواجہ ابو علی فارمدی فرماتے ہیں کہ ” آدمی کبھی خیالات کی قید سے رہائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے بندگی کرنا لازمی ہے۔ “ [12]

وصال

ترمیم

شیخ بو علی فارمدی کی تاریخ وصال حضرات القدس میں 511ھ درج ہے جب کی جواہرِ نقشبندیہ (تیسرا ایڈیشن) میں 4 ربیع الاول 477ھ 1084ء درج ہے اور یہی معتبر ہے۔ ایران کے مشہور شہر طوس جسے آج کل مشہد کہا جاتا ہے، میں آپ کا وصال ہوا۔ آپ کا مزار طوس یعنی مشہد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت https://www.ghazali.org/site/teachers.htm
  2. ^ ا ب پ مصنف: ذہبیhttps://books.google.kz/books?id=X0FJCwAAQBAJ&pg=PT564
  3. عنوان : Allah's Commonwealth: A History of Islam in the Near East, 600-1100 A.D. — صفحہ: 691 — گوگل بکس آئی ڈی: https://books.google.com/books?id=MikaAAAAMAAJ
  4. طبقات الشافعیہ التاج السبکی
  5. ^ ا ب جلوہ گاہِ دوست
  6. تذکرہ مشائخ نقشبندیہ، محمد نور بخش توکلی، صفحہ 90 ، مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور
  7. نفحات الانس، عبد الرحمن جامی، صفحہ400، شبیر برادرز اردو بازار لاہور
  8. مرآۃ الاسرار صفحہ 513
  9. حضرات القدس صفحہ 111
  10. ملفوظاتِ نقشبندیہ، صفحہ 55
  11. ملفوظاتِ نقشبندیہ، صفحہ 55
  12. ملفوظاتِ نقشبندیہ، صفحہ 56