اثنا عشری شیعیت پر تنقید

اثنا عشری شیعیت پر تنقید اتنی ہی پرانی ہے جتنی اہل سنت اور اہل تشیع کے اختلاف کی تاریخ، شیعوں کو علمائے اہلسنت، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانشینی، عقیدہ امامت اور ان جیسے امور سے متعلق چیزوں پر تنقید کرتے ہیں۔ اگرچہ دونوں فرقے اللہ‛نبیﷺ اور قرآن پر تقریباً ایک جیسا ہی ایمان رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے شیعہ علما بھی ہیں جو اپنے خیال میں تشیع مذہب میں در آنے والی خرابیوں پر تنقید اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں امام روح اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ، موسی الموسوی اور علی شریعتی قابل ذکر ہیں۔

شیعوں کے خلاف مختلف زمانوں میں گرادو، اڑادو، تباہ کر دو، فنا کر دو کی صدائیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ شیعوں کے بارے میں یہ مٹا دو اور انھیں ختم کر دو کا نظریہ کیسے پروان چڑھا؟ جب ہم اس کے پچھلے عوامل کا بنظر عمیق جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب اس غلیظ پراپیگنڈا کا رد عمل ہے جو شیعوں کے خلاف بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانے سے تسلسل سے جاری ہے۔ شیعوں کے بارے میں یہ طرز عمل کیوں اختیار کیا گیا؟ اس کی ایک بڑی وجہ بقول ایک شیعہ عالم یہ نظر آتی ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں نے جب یہ بات محسوس کی کہ ان میں بنی ہاشم جیسے فضائل و مناقب موجود نہیں ہیں جو ان کی عزت و تکریم کا سبب بن سکیں تو انھوں نے اپنے زر خرید اہل قلم سے، کبھی اپنے حق میں ویسے ہی فضائل و مناقب کی احادیث بنوائیں اور کبھی ایسی احادیث تیار کروائیں جن سے آل محمد علیہ السلام کی عزت و عظمت میں کمی واقع ہو سکے۔ جب انھیں اس سلسلے میں حسب منشا کامیابی نصیب نہ ہو سکی تو انھوں نے ایک تیسرا حربہ استعمال کیا اور وہ یہ کہ آل محمد علیہ السلام کے ماننے والوں کے خلاف طرح طرح کی تہمتیں تراشی گئیں۔ گھٹیا اور بے بنیاد الزامات ان پر عائد کیے گئے اور ایسے عقائد شیعوں کے ذمے لگائے گئے جن سے شیعوں کا دور کا بھی تعلق نہیں تھا اور بقول سید اسد حیدر نجفی شیعوں کے خلاف " تہمتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا"۔ خلاف واقعہ بیانات عام ہونے لگے۔ عوام کے ذہنوں میں خود ساختہ الزامات اتارے جانے لگے اور ان الزامات کی کوئی حد بھی معین نہ کی گئی بلکہ ہر دور میں ضرورت کے لحاظ سے ویسے ہی الزام تراشے گئے۔[1]

پھر صورت یہ بن گئی کہ لوگ ان من گھڑت الزامات کو شیعہ عقائد سمجھنے لگے اور اہلسنت مصنفین ان جھوٹے الزامات کو ہی شیعہ عقائد سمجھنے لگے اور برادران اہلسنت کی نئی آنے والی نسلوں نے شیعت کا وہی مفہوم سمجھا جو انھیں اپنے علما کی کتابوں میں نظر آیا چناچہہ شیعیت جو دراصل قرآن و سنت کی تعلیمات کا دوسرا نام ہے، لوگ اس کے اصل مفہوم سے ناواقف ہوتے چلے گئے۔[2]

ایسے میں شیعہ عالم اور مصنف سید نجم الدین العسکری نے درست لکھا ہے کہ

" برادران اہلسنت کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ متقدمین اور متاخرین (علمائے اہلسنت) کی ایک بڑی جماعت لفظ شیعہ کے معنی سے بالکل بے خبر اور ناواقف تھی ان کو یہ تک پتہ نہیں تھا کہ شیعہ کی نشو و نما کس زمانے میں ہوئی ان کے عقائد کیا ہیں اور انھوں نے اپنے عقائد کس سے حاصل کیے اور وہ اس سے بھی بے خبر تھے کہ شیعوں کے عقائد قرآن و حدیث میں موجود ہیں اور ان کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ شیعوں کے اصول و فروع کیا ہیں؟ ان باتوں سے بے علم ہوتے ہوئے انھوں نے شیعوں کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دی ہیں جن کا شیعہ بالکل اعتقاد نہیں رکھتے۔[3]"

شیعہ عالم سید نجم الدین العسکری کا یہ بیان بڑی حد تک حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اکثر بڑے بڑے علمائے اہلسنت نے شیعہ کتب کو دیکھنے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔[4] مثلًا اہل سنت کی ایک نامور علمی شخصیت فلسفہ تاریخ کے ماہر مشہور زمانہ مورخ ابن خلدون کا بیان ہے جو انھوں نے اپنے مقدمہ تاریخ میں لکھا ہے۔ شیعوں کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ

کتب شیعہ ان شہروں میں پائی جاتی ہیں جہاں ان کی حکومت رہ چکی ہے۔ وہاں مشرق و مغرب اور یمن میں پائی جاتی ہیں۔[5]

اہل سنت مصنف علامہ محمد حنیف ندوی نے شیعوں کے بارے میں ابن خلدون کا بیان نقل کیا ہے کہ

نہ ہم ان کے مذاہب کی تفصیلات سے آگاہ ہیں نہ ان کی کتابوں کی روایت کرتے ہیں اور نہ کوئی چیز منقولات ہی کی سی ان کی ہمارے ہاں پائی جاتی ہے۔ ان کا ذخیرہ کتب صرف ان علاقوں میں ہے جہاں ان کی حکومت ہے۔[6]

ابن خلدون کی ایک مضحکہ خیز غلطی

ترمیم

امام محمد تقی علیہ السلام کی وفات کے حالات بیان کرتے ہوئے ابن خلدون نے لکھا ہے کہ

220ھ میں انھوں نے انتقال کیا اور مقابر قریش میں دفن کیے گئے۔ اثنا عشری شیعہ نے گمان کیا کہ ان کے بیٹے علی ملقب بہ ہادی امام ہوئے جو جواد کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ 254ھ میں انھوں نے انتقال کیا اور قم میں مدفون ہوئے۔[7]

ابن خلدون کی لاعلمی ملاحظہ ہو کہ قم میں سرے سے کوئی امام دفن ہی نہیں جب اس ماہر تاریخ دان کا یہ عالم ہے تو باقی لوگوں کا کیا حال ہو گا؟

شیعوں کے بارے میں اچھے خاصے بزرگ علمائے اہلسنت تحریر و تقریر میں جس طرح بے تکی اور بے بنیاد باتیں کہہ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ واقعاً یہی ہے کہ ان لوگوں نے زندگی بھر شیعہ عقائد کی کتب کو دیکھنے کی کبھی زحمت کی گوارا نہیں کی ہوتی۔[8]

اس سلسلے میں یہاں برصغیر پاک و ہند کے ایک جید دیو بند عالم اور مصنف مولانا محمد منظور نعمانی کا ایک بیان نقل کیا جاتا ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی حمایت تمام اسلامی مکاتب فکر کے لوگوں نے کی۔ یہ بات مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کی طبیعت پر گراں گذری اور اس کے خلاف انھوں نے ایک کتاب لکھ ڈالی اس میں لکھتے ہیں کہ:

" راقم سطور اس واقعی حقیقت کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا کہ ہمارے عوام اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ حضرات اور صحافیوں اور دانشوروں کا کیا ذکر ہم جیسے لوگ جنھوں نے دینی مدارس اور دارالعلوموں میں دینی تعلیم حاصل کی اور عالم دین کہے اور سمجھے جاتے ہیں عام طور پر شیعہ مذہب کے بنیادی اصول و عقائد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ سوائے ان کے جنھوں نے خاص ضرورت سے ان کی کتب کا مطالعہ کیا ہو۔ خود اس عاجز راقم سطور کا یہ حال ہے کہ اپنی مدرسی تعلیم اور اس کے بعد تدریس کے دور میں بھی شیعہ مذہب سے اس سے زیادہ واقف نہیں تھا جتنا عام پڑھے لکھے لوگ واقف ہوتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ اس کو واقفیت سمجھنا ہی غلط ہے"۔[9]

اس کے بعد یہ دیوبندی عالم لکھتے ہیں کہ پھر میں نے قاضی احتشام الدین مراد آبادی اور مولانا عبدالشکور لکھنوی کی مذہب شیعہ کے خلاف لکھی گئی کتب پڑھیں۔ اس کے بعد میں سمجھنے لگا کہ میں شیعہ سے واقف ہو گیا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

مولانا منظور احمد نعمانی صاحب یہ بھی لکھتے ہیں کہ اب میری عمر 80 سال سے متجاوز ہو چکی ہے اور ساتھ اپنی خرابی صحت کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایسی حالت میں اور عمر کے اس حصے میں انھیں شیعیت کے خلاف لکھنے کا شوق پیدا ہوا لیکن تقریبا وہی باتیں جن کا متعدد بار اور صدیوں سے شیعہ علما جواب دیتے چلے آ رہے ہیں۔ کچھ وہی جھوٹے اور بے بنیاد الزامات اور کچھ کمزور روایات کچھ ادھر اُدھر سے سنے سنائے اور اپنا دل بہلانے والے قصے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 80 سال تک یہ سکّے بند دیو بندی مولانا صاحب شیعہ مذہب سے ناواقف رہے لیکن دوسرے علما کی طرح مذہب شیعہ کے خلاف معاشرے میں انھوں نے کتنی غلط فہمیاں پھیلائی ہوں گی اور کتنے لوگ ان سے متاثر ہوئے ہوں گے۔[10][11]

اسی طرح ماضی کے قریب کے نامور مصنف احمد امین مصری نے اپنی کتاب فجر الاسلام میں بہت ساری بے بنیاد اور غلط باتیں شیعہ مذہب سے منسوب کر دیں اور جب یہی احمد امین ایک ثقافتی وفد کے ہمراہ عراق کے دورے پر گئے وہاں یہ وفد شیعہ علما سے بھی ملا۔ اس سلسلے میں آیت اللہ محمد حسین کاشف الغطاء لکھتے ہیں کہ جب یہ وفد میرے ہاں آیا تو میں نے دبے لفظوں میں اور انتہائی نرم لہجے میں ایسی بے بنیاد باتیں لکھنے کا شکوہ کیا تو احمد امین مصری نے جو سب سے بڑا عذر پیش کیا۔ وہ یہی تھا کہ شیعیت کے بارے میں " عدم واقفیت اور کتابوں کی قلت"۔[12]

حوالہ جات

ترمیم
  1. الامام الصادق و المذاہب الاربعہ جلد نمبر 1 صفحہ 261 مطبوعہ لاہور
  2. شیعت کا مقدمہ، صفحہ 26، سترھواں ایڈیشن، مؤلف حسین الامینی، مطبوعہ کریم پبلیکشنز سمیع سینٹر 38 اردو بازار لاہور
  3. علی و الشیعہ ص 1، مطبوعہ ملتان، ترجمہ مفتی عنایت علی شاہ
  4. شیعت کا مقدمہ، صفحہ 26، سترھواں ایڈیشن، مؤلف حسین الامینی، مطبوعہ کریم پبلیکشنز سمیع سینٹر 38 اردو بازار لاہور
  5. مقدمہ ابن خلدون ج1، 342، مطبوعہ کراچی
  6. مقدمہ ابن خلدون ج1، ص 342، مطبوعہ کراچی
  7. تاریخ ابن خلدون ج5، ص87 شائع کردہ نفیس اکیڈمی کراچی
  8. شیعت کا مقدمہ، صفحہ 27، سترھواں ایڈیشن، مؤلف حسین الامینی، مطبوعہ کریم پبلیکشنز سمیع سینٹر 38 اردو بازار لاہور
  9. "ایرانی انقلاب امام خمینی اور شیعیت " از مولانا محمد منظور نعمانی ص 21 مطبوعہ لاہور
  10. واضح رہے کہ قاضی احتشام الدین کتاب نصیحتہ الشیعہ کے جواب میں شیعہ علما نے روشنی اور انتصار الشیعہ نامی کتب لکھ کر قاضی صاحب کے الزامات کو غلط ثابت کر دیا۔ اس کے علاوہ مولانا عبدالشکور لکھنوی کی کتب کا جواب بھی شیعہ علما نے مدلل انداز میں دے دیا تھا اور یہ ثابت کیا تھا کی یہ لوگ شیعہ مذہب کے بارے میں غلظ فہمی کا شکار ہو گئے تھے۔
  11. شیعت کا مقدمہ، صفحہ 28, 29، سترھواں ایڈیشن، مؤلف حسین الامینی، مطبوعہ کریم پبلیکشنز سمیع سینٹر 38 اردو بازار لاہور
  12. رسائل و مسائل ج 3، ص 370 طبع لاہور