احتشام الحق تھانوی
خطیب پاکستان مولانا احتشام الحق تھانوی (پیدائش: 15 مئی 1915ء — وفات: 11 اپریل 1980ء) تقسیم ہندوستان سے قبل اور بعد ازاں پاکستان کے مشہور نامور خطیب، عالم، فقیہ اور محقق تھے۔ وہ دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل عالم تھے اور 1980ء تک پاکستان کے علما کے حلقوں میں اُن کی موجودگی بطور نمائندہ کے تسلیم کی جاتی تھی۔
احتشام الحق تھانوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 15 مئی 1915ء تھانہ بھون |
وفات | 11 اپریل 1980ء (65 سال) چنئی |
شہریت | برطانوی ہند (1915–اگست 1947) پاکستان (9 اگست 1947–11 اپریل 1980) |
اولاد | مولانا تنویرالحق تھانوی ، مولانا نظام الحق تھانوی ، احترام الحق تھانوی |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم دیوبند مدرسہ اسلامی میرٹھ مظاہر علوم سہارنپور پنجاب یونیورسٹی الہ آباد یونیورسٹی |
استاذ | حسین احمد مدنی ، شبیر احمد عثمانی ، محمد اعزاز علی امروہوی |
پیشہ | عالم ، محقق ، فقیہ ، خطیب |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمعالم دین قصبہ تھانہ بھون (یو۔ پی، بھارت ) میں پیداہوئے۔ دارلعلوم دیوبند سے دینی علوم میں سند فضیلت لی۔ تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا۔ 1948ء میں کراچی آ گئے اور جیکب لائن میں مسجد تعمیر کرائی۔ حافظ قرآن اور خوش الحان قاری تھے۔ 1948ء میں ٹنڈوالہہ یار (سندھ) میں دیوبند کے نمونے پر ایک دارلعلوم قائم کیا۔ مدراس (ہندوستان) میں، جہاں سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کیا۔[1] اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ کمالات سے نوازا تھا، آپ کی تلاوت اور شعر خوانی میں عجیب حسن پایا جاتا تھا کہ سامع مسحور ہوجاتا تھا۔[2] ان کی تلاوت قرآن شبکہ پر دستیاب ہے۔[3] 15مارچ 2019ء کو سانحہ کرائسٹ چرچ (نیوزی لینڈ) مسجد میں 50مسلمانوں کی شہادت کے بعد ہونے والے نیوزی لینڈ پارلیمنٹ کے اجلاس کے شروع میں آپ کے فرزند مولانا نظام الحق تھانوی نے قرآن کی تلاوت کا شرف حاصل کیا یہ نیوزی لینڈ کی تاریخ کا پہلا موقع تھا۔
وفات
ترمیمخطیب پاکستان کے مداحوں اور عشاق نے حضرت کے روحانی علوم و فیوض سے خوب استفادہ کیا اور 3 اپریل سے 10 اپریل تک خطیب پاکستان کو روز و شب مصروف رکھا، 10 اپریل 1980ی کو بعد نماز عشا ایک عظیم الشان سیرت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مولانا کے سحر انگیز بیان نے اہل مدراس کے ایمان کو نئی جلابخشی، یہ خطاب اور عام اجتماع مولانا احتشام الحق تھانوی کی زندگی کا آخری خطاب اور آخری اجتماع بھی ثابت ہوا اور 11 اپریل 1980ء کو نماز جمعہ کی تیاری میں مصروف تھے کہ اچانک حضرت کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔