احسن مارہروی
سید شاہ علی احسن المعروف احسن مارہروی (پیدائش: 9 نومبر 1876ء— وفات: 30 اگست 1940ء) اردو زبان کے شاعر تھے۔
احسن مارہروی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 9 نومبر 1876ء مارہرہ ، ضلع ایٹاہ ، برطانوی ہند |
وفات | 30 اگست 1940ء (64 سال) پٹنہ ، برطانوی ہند |
شہریت | برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، لیکچرر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
ملازمت | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیماحسن مارہروی بروز جمعرات 21 شوال 1293ھ مطابق 9 نومبر 1876ء کو مارہرہ میں پیدا ہوئے۔[1] اردو، فارسی اور عربی خانقاہ برکاتیہ میں پڑھی جس کی اپنی ایک بڑی لائبریری تھی۔ 1893ء میں داغ دہلوی کے شاگرد ہوئے اور ان سے اصلاح لینے لگے۔ 1895ء میں ماہنامہ گلدستہ ریاض سخن جاری کیا۔ 1898ء میں مارہرہ سے حیدر آباد دکن چلے گئے۔ 1904ءمیں پاکستان کے شہر لاہور آئے اور لالہ سری رام کے تذکرہ خمخانہ جاوید کا مسودہ لکھا۔ بعد ازاں استاد داغ کی یاد میں رسالہ فصیح الملک جاری کیا۔ 1921ء تا 1938ء مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو سے وابستہ ہو گئے۔ احسن مارہروی پہلے انٹرمیڈیٹ کالج اور بعد ازاں یونیورسٹی میں استاد رہے۔
اردو زبان کے ارتقا کی ان کیفیات کو اردو کے نامور ادیب احسن مارہروی نے 1929ء میں نمونۂ منثورات کے نام سے یکجا کرکے امر کر دیا۔اردو زبان کی شعبہ وار تاریخی ترقی کے نقطۂ نظر سے اس مجموعۂ دستاویزات کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1930ء میں شائع کیا گیا۔ احسن مارہروی کے مرتبہ دفاتر سلطنت سے متعلق احکام، عرائض،تجاویز ،اطلاع نامہ جات، سمن اور تمسکات کے ان نمونہ جات میں 1841ء سے 1926ء تک کے نمونے شامل ہیں۔ انھیں باقاعدہ دو ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اولین دور (1841ء تا 1859ء) کے چھ جبکہ دوسرے دور (1860ء تا 1929ء) کے سولہ نمونہ جات شامل ہیں۔ فاضل مرتب نے صرف نمونے دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے تبصرہ و کیفیت میں اس دور کے دوران دفتری اردو میں ہونے والی لسانی تبدیلیوں کو بیان کرتے ہوئے دفتری نظام کے ارتقأ کا مفصل جائزہ بھی لیا ہے۔فصیح اللغات، کسوف الشمسین، اردو لشکر ، شاہکار عثمانی اور نمونۂ منثورات کے علاوہ کئی دیگر یادگار تصانیف و تالیفات ان کی علمی یادگار ہیں۔
وفات
ترمیماحسن مارہروی 64 سال کی عمر میں بعارضہ سرطان 30 اگست 1940ء کو پٹنہ میں انتقال کرگئے۔[1]