احمد شاہ بخاری چوکیروی

سید احمد شاہ بخاری چوکیروی پاکستانی سنی عالم دین،مناظر،مبلغ،مدرس،محقق اور مصنف تھے۔ آپ نے تاریخ،سیرت،صحابہ واہل بیت اور تقابلی موضوعات کے ضمن میں علمی و تحقیقی نگارشات کی اشاعت کے لیے پندرہ روزہ رسالہ الفاروق کا اجرا کیا۔

سید احمد شاہ بخاری
معلومات شخصیت
پیدائشی نام محمد احمد
پیدائش 1907ء
بمقام ویگو وال، اجنالہ، ضلع سرگودھا، برطانوی ہند (موجودہ ضلع سرگودھا، پنجاب، پاکستان)
وفات 24 مارچ1969ء
بمقام ضلع سرگودھا
قومیت  برطانوی ہند
 پاکستان
عرفیت محقق اہلسنت حضرت مولانا سید احمد شاہ بخاری چوکیروی
مذہب اسلام
رشتے دار سید محمد قاسم (بیٹا)
پیشہ مناظر ،دعوت وتبلیغ ،تحقیق، تصنیف وتالیف
کارہائے نمایاں دفاع صحابہ واہلبیت ، تصانیف: تحقیق فدک، ثانی اثنین
باب ادب

ولادت ترمیم

آپ کی پیدائش 1907ء میں ویگووال،اجنالہ ضلع سرگودھا میں ہوئی۔

نام ترمیم

آپ کا نام سید احمد شاہ بخاری اور والد کا نام سید غلام شاہ ہے۔

وطن ترمیم

آپ کا آبائی وطن مقام دیگو وال اور اجنالہ ہے۔ اجنالہ شہر سرگودھا کے شرقی مضافات میں واقع ہے۔آپ کے قبیلہ ساداتِ اجنالہ کے ہاں زرعی رقبہ جات تھے اور کاشتکاری پیشہ تھا۔

حصول تعلیم ترمیم

علاقہ شاہ پور میں ننگیانہ قوم کی ایک مشہور بستی جلال پور ننگیانہ میں ایک حافظ قرآن سلطان احمد قریشی معروف بہ قدیمی استاذ کے پاس بچپن میں آپ نے قرآن حفظ کیا ۔ خوشاب شہر میں نورحسین خوشابی فارسی درسیات کے بہترین فاضل تھے۔ ان کے درس میں آپ نے ابتدائی فارسی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد موضع بندیال میں فضل کریم بندیالوی کے ہاں بقایا فارسی درسیات مکمل کیں اور نظم فارسی کی کتابوں میں دسترس پیدا کی۔ پھر آپ نے صرف کی کتاب ” قانونچہ امیری" فن صرف کے ماہر استاد محمد عبد اللہ سے پڑھا۔صرف پڑھ لینے کے بعد ابتدائی فنون نحو وغیرہ کی تعلیم کے لیے عبد العزیز گل اور عطا محمد قریشی ( مقیم کوٹ اللہ یار) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ دونوں حضرات عالم بھی تھے اور طبیب یونانی تھی۔ ان حضرات سے آپ نے ابتدائی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ اور ان کی نیک تربیت سے مستفید ہوئے۔

بیعت و خلافت ترمیم

درسی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے روحانی تربیت کے سلسلہ میں رشتہ عقیدت قائم کرنے کی طلب محسوس کی تو آنجناب نے اس دور کے سلسلہ نقشبندیہ میں مشہور بزرگ غلام حسن دایملی ( سواگ والے) سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ بمقام لعل عیسن کروڑ ضلع مظفر گڑھ(موجودہ تحصیل لعل عیسن کروڑ ضلع لیہ) کے ساتھ نسبت طریقت کا تعلق قائم کیا اور ان کی خدمت میں وقتاً فوقتاً حاضر ہو کر روحانی فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہے۔انھوں نے اپنے انتقال سے قبل آپ کو اس سلسلہ کی خلافت کا منصب بھی تفویض فرمایا۔ غلام حسن کے انتقال کے بعد مزید روحانی تربیت کے حصول کے لیے سلسلہ قادریہ میں تعلق قائم کرنے کے لیے احمد علی لاہوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ سے نسبت قائم کی۔[1]

تدریس ترمیم

اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد روحانی مشاغل کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم و تدریس ہمیشہ قائم رکھی۔ چنانچہ ابتدائی دور 1935ء میں آپ نے جامعہ محمدی شریف ضلع جھنگ (موجوہ ضلع چینیوٹ)سے اپنی دینی تعلیم و تدریس کا آغاز کیا۔ اور اس قدیمی درسگاہ کے صدر مدرس کی حیثیت سے قریباً چار سال تک اپنے فرائض منصبی سر انجام دیے۔آپ مسئلہ کے افہام و تفہیم میں اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے کتاب سمجھانے کا حق ادا کرتے تھے اور مشکل سے مشکل مقامات کو نہایت سہل طریقے سے حل فرما دیتے تھے۔ اور درسی تعلیم میں کامل دستگاہ رکھنے کی بنا پر اپنے معاصرین میں فائق سمجھے جاتے تھے۔ دار العلوم جامعہ محمدی جھنگ سے تشریف لے جانے کے بعد دیگر مختلف مواضع مثلاً مدرسہ احیاء العلوم چنیوٹ اور جھنگ صدر وغیرہ میں آپ تعلیم و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔[2]

چوکیرہ میں قیام ترمیم

1948ء میں مدرسہ عربیہ دارالہدی کی بنیاد رکھی،اور وہاں کم و بیش 18 سال تک دینی تعلیم و تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ مدرسہ کے قیام کی ابتدا ہی سے آپ نے اپنے ہم درس بزرگ قطب الدین اچھالوی کو معاون مدرس متعین کیا۔

تحریک ختم نبوت میں شرکت ترمیم

مارچ 1953ء میں ختم نبوت کی تحریک شروع ہوئی اور اس کا مقصد مرزائیوں کو حکومتی امور میں کلیدی اسامیوں سے الگ کرنے کا حکومت پاکستان سے مطالبہ تھا۔ صوبہ پنجاب میں اس تحریک کا بہت بڑا زور تھا اور ہر مکتب فکر کے علما تحریک میں شامل تھے۔ عوام الناس ان کی رہنمائی اور زیر قیادت جلسے کرتے اور جلوس نکالتے تھے۔ مگر حکومت نے مسلمانوں کے جائز مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے ان پر سخت تشدد کیا حتی کہ 2 مارچ 1953ء سے 14 مئی 1953ء تک پنجاب میں مارشل لا نافذ کر کے تحریک ہذا کو کچل دیا گیا۔ اس تحریک میں سرگودھا کے علما کرام کو بھی سول نافرمانی کے تحت گرفتار کیا گیا تو اس سلسلہ میں آپ بھی گرفتار ہوئے اور آپ کو شاہ پور صدر جیل میں قید کر دیا گیا۔ اور پھر قریباً ساڑھے تین ماہ کے بعد رہا کیا گیا۔ آپ نے ایام اسیری کے دوران شاہ پور صدر جیل میں بھی اپنا تحقیقی علمی کام جاری رکھا۔ اور مسئلہ فدک پر ایک کتاب تحقیق فدک کے نام سے مرتب فرمائی۔ جس کی تکمیل جون 1955ء میں کی گئی تھی۔ مسئلہ ہذا پر یہ لاجواب کتاب ہے۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ یہ آپ کی زندگی میں اور بعد میں بھی متعدد بار طبع ہوئی۔ اور اہل علم نے اس کی بہت قدر دانی کی ہے۔[3]

رسالہ الفاروق کا اجرا ترمیم

احمد شاہ بخاری نے دار الہدی چوکیرہ میں قیام کے دوران اپنے تدریسی مشاغل کے ساتھ ساتھ ایک پندرہ روزہ تبلیغی رسالہ "الفاروق" کے نام سے نومبر 1952ء میں دارالہدی چوکیرہ سے جاری کیا جس میں علمی و تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس میں آپ کی علمی نگارشات و تحقیقات کو بھی نشر کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ رسالہ ہذا میں شیعہ کے سوالات اور مطاعن کے تسلی بخش جوابات تحریر کیے جاتے تھے۔ یہ پندرہ روزہ رسالہ الفاروق چند ماہ کم چار سال تک اشاعت پزیر رہا اور اس میں علمی تحقیقات اور مخالفین کے سوالات کے مدلل و مسکت جوابات طبع ہو کر شائع ہوتے رہے۔ مگر نامساعد حالات اور چند دیگر مجبوریوں کے باعث جولائی 1960ء کے بعد اس کی اشاعت کو معرض التواء میں ڈال دیا گیا۔

تبلیغی کورس ترمیم

آپ نے طلبہ کی تربیت کے لیے تبلیغی کورس کا آغاز کیا۔ مدرسہ دارالہدی چوکیرہ میں شعبان رمضان 1386ھ موافق دسمبر 1966ء میں ایک تبلیغی کورس کا اجرا کیا۔ کورس ہذا کی تعلیم و تدریس کے لیے آپ نے محمد نافع محمدی شریف جھنگ کو بھی مدعو کیا۔ اس کورس کے اہم موضوعات میں عظمت وتعلقات صحابہؓ واہل بیت ،مسلۂ خلافت،فدک اور ردرفض وغیرہ کے مباحث شامل تھے۔ 1968ء میں آپ چوکیرہ سے ترک سکونت کر کے بی بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں قیام پزیر ہو گئے۔ سرگودھا میں تشریف لانے کے بعد آپ نے مسجد فاروق اعظم کی تعمیر وتکمیل کے لیے مساعی جاری رکھیں اور مسجد ہذا میں دار العلوم فاروق اعظم کا اجرا کیا۔ دسمبر 1968ء میں یہاں بھی حسب سابق تبلیغی کورس کا اجرا فرمایا۔ اور اپنے منتخب مضامین کی طلباءکو تعلیم دی۔ اواخر رمضان المبارک 1388ھ بمطابق دسمبر 1968ء میں اس تبلیغی کورس کا اختتام ہوا۔[4]

تصانیف ترمیم

  • تحقیق فدک
  • ثانی اثنین

آپ کی مستقل تصانیف منظر عام پر دو ہی ہیں۔ جبکہ الفاروق میں آپ کے شائع شدہ علمی و تحقیقی مضامین کو اگر کتابی صورت میں مرتب کیا جائے تو کئی جلدیں مرتب ہو سکتی ہیں۔

وفات ترمیم

آپ 15 محرم الحرام 1389ھ بمطابق 24 / مارچ 1969ء بروز سوموار قریباً تریسٹھ سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

جنازہ وتدفین ترمیم

آپ کی نماز جنازہ آپ کے دیرینہ رفیق قطب الدین اچھالوی نے مسجد فاروق اعظم (سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا۔ بی بلاک) میں پڑھائی۔

تدفین ترمیم

آپ کی تدفین اجنالہ (ضلع سرگودھا) میں ہوئی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. سعد اللہ (2018ء)۔ حیات نافع،صفحہ66۔ رحمہا بینھم ٹرسٹ چینیوٹ 
  2. سعد اللہ (2018ء)۔ حیات نافع،صفحہ 67۔ رحہما بینھم ٹرسٹ چینیوٹ 
  3. عبدالجبار سلفی (2016ء)۔ تذکرہ مولانامحمدنافع ،صفحہ 70۔ ادارہ مظہرالتحقیق لاہور 
  4. تذکرہ مولانامحمدنافع ،صفحہ 78۔ ادارہ مظہرالتحقیق۔ اگست 2016ء