اختر حسین جعفری

پاکستانی شاعر

اختر حسین جعفری (پیدائش: 15 اگست، 1932ء - وفات: 3 جون، 1992ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کی جدید نظم کے ممتاز شاعر تھے۔

اختر حسین جعفری
معلومات شخصیت
پیدائش 15 اگست 1932ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہوشیارپور ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 جون 1992ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
باب ادب

حالات زندگی

ترمیم

اختر حسین جعفری 15 اگست، 1932ء کو موضع بی بی پنڈوری، ہوشیارپور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2]۔ ان کے والد محمد علی محکمہ مال میں قانون گو تھے۔ ابتدائی تعلیم موضع سرسولی، ہوشیارپور میں حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کیا۔ اسی دوران والدہ کا انتقال ہو گیا اور وہ اپنے دادا شاہ محمد کے پاس گجرات (پاکستان) چلے آئے اور پانچویں سے دسویں جماعت تک سناتن دھرم ہائی اسکول جی ٹی روڈ گجرات سے تعلیم حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد آپ کے والد گوجرانوالہ آ گئے مگر اختر حسین جعفری گجرات ہی میں مزید تعلیم حاصل کرتے رہے۔ 1949ء میں زمیندار کالج گجرات سے انٹر کیا اور پھر اسی کالج میں بی اے میں داخلہ لے لیا۔ اسی دوران آپ نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم کی۔ 1950ء میں ترقی پسندوں کے ساتھ تعلقات کی بنا پر انھیں اور ان کے استاد پروفیسر صفدر میر کو کالج سے نکال دیا گیا چنانچہ بی اے کا امتحان گوجرانوالہ کالج سے پاس کیا۔ گریجویشن کے بعد محکمہ کسٹم سے منسلک ہو گئے اور ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے۔[3]

ادبی خدمات

ترمیم

اختر حسین جعفری اردو کے جدید نظم نگاروں میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں۔ انھیں بیسویں صدی کا غالب کے طور پہچانا جاتا ہے اور بعض نقادوں کے مطابق اختر حسین جعفری بیدل کے بعدسب سے اہم شاعر کے درجے پر فائز ہیں۔ اختر حسین جعفری نے فنِ شاعری اور بالخصوص آزاد تلازمے کی شاعری کو نئی جہات سے روشناس کیا۔ اختر حسین جعفری ان معدودے چند شعرا میں سے تھے جنہیں بحیثیت ایک نظم گو آناً فاناً شہرت ملی اور انھوں نے آخری وقت تک خود کو اس شہرت کا اہل بلکہ اس سے بھی زیادہ شہرت کا حق دار ثابت کیا۔ ان کا مجموعہ آئینہ خانہ شعری فن پاروں کی ایک ایسی گیلری ہے جو ہم عصری اردو شاعری کی اعلیٰ پختگی اور اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کے لیے سرمایہ افتخار ٹھہرے گی۔ ایک ایسے دور میں جب زبان اور شاعری سے روایت اور تاریخ کو جلا وطن کیا جا رہا تھا اختر حسین جعفری نے اپنی شاعری سے یہ ثابت کیا کہ ہر شاعر کی اپنی شعری روایت بھی ہوتی ہے جس سے روگردانی ممکن نہیں ہو پاتی۔ اختر حسین جعفری نے مشرق و مغرب کے جن بزرگ شعرا کی ہنرمندی، فکری صلابت اور قوت متخیلہ کا ذکر کیا ہے وہ غالباً خود ان کی شاعری کے تخلیقی مثلث کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مشرقی انتقادیات کے لیے خصوصی رغبت نہیں ملتی۔ وہ آخری چند برسوں میں اپنے قارئین کو اپنی پختہ کاری اور گہری نظریاتی وابستگی کے ساتھ ہم عصری دور کی نیرنگیوں کی گہری معنویت کا سراغ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔[3]

ان کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے کے نام شامل ہیں۔ ان کی کلیات آخری اجالا کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔[3]

تصانیف

ترمیم
  • آئینہ خانہ
  • جہاں دریا اترتا ہے
  • آخری اجالا (کلیات)

نمونۂ کلام

ترمیم

غزل

سب خیال اس کے لیے ہیں سب سوال اس کے لیےرکھ دیا ہم نے حساب ماہ و سال اس کے لیے
اس کی خوشبو کے تعاقب میں نکل آیا چمنجھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے
شاخِ تنہائی سے پھر نکلی بہار فصل ذاتاپنی صورت پر ہوئےہم پھر بحال اس کے لیے
وصل کے بدلے میں کیا داغ ستارہ مانگنااس شب بے خانماں سے کر سوال اس کے لیے

غزل

ہجر اک حسن ہے اس حسن میں رہنا اچھاچشم بے خواب کو خوں ناب کا گہنا اچھا
کوئی تشبیہ کا خورشید نہ تلمیح کا چاند سر قرطاس لگا حرف برہنہ اچھا
پار اترنے میں بھی اک صورت غرقابی ہےکشتیٔ خواب میں رہ موج پہ بہنا اچھا
یوں نشمین نہیں ہر روز اٹھائے جاتے اسی گلشن میں اسی ڈال پہ رہنااچھا
بے دلی شرطِ وفا ٹھہری ہے معیار تو دیکھمیں برا اور مرا رنج سہنا اچھا
دھوپ اس حسن کی یک لحظہ میسر تو ہوئیپھر نہ تا عمر لگا سائے میں رہنا اچھا

غزل

تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیاچراغِ خود کلامی کا دھواں بازار تک آیا
ہوا کاغذ مصور ایک پیغام زبانی سےسخن تصویر تک پہنچا ہنر پرکار تک آیا
محبت کا بھنورراپنا، شکایت کی جہت اپنیوہ محور دوسرا تھا جو مرے پندار تک آیا
عجب چہرا سفر کا تھا ہوس کے زرد پانی میںقدم دلدل سے نکلا تو خِط رفتار تک آیا
پھر اس کے بعد طنبور و علم نا معتبر ٹھہرےکوئی قاصد نہ اس شام شکست آثار تک آیا

اعزازات

ترمیم

اختر حسین جعفری کو ان کی گراں قدر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے 2002ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی (بعد از مرگ) کا اعزاز عطا کیا۔ اس کے علاوہ ان کی تصنیف آئینہ خانہ کو آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔[3]

وفات

ترمیم

اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو لاہور ، پاکستان 60 سال کی عمر میں وفات پا گئے اور لاہور میں شادمان کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔[3][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. اختر حسین جعفری، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
  2. ^ ا ب ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات ناموران پاکستان، لاہور، اردو سائنس بورڈ لاہور، 2006ء، ص 114
  3. ^ ا ب پ ت ٹ پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 705