ادب لطیف (جریدہ)
ادب لطیف 1935ء میں لاہور سے جاری ہونے والا ایک ماہانہ علمی و ادبی مجلہ ہے۔ اس کے بانی چودھری برکت علی تھے۔ اس جریدے کی مدیرہ ان کی صاحبزادی صدیقہ بیگم بھی رہیں اور معاونین شاہد بخاری اور ڈاکٹر شمائلہ اسد رہے۔ یہ جرہدہ ترقی پسند تحریک کا آرگن تھا۔ اس کا مقصد اردو زبان کے اعلیٰ نمونوں کی اشاعت، علمی و تنقیدی مضامین کے ذریعے کے ذریعے پاکیزہ ادب کی اشاعت اور ابنائے وطن زبانِ اردو کی کی قدردانی کی طرف مائل کرنا تھا۔ ہندوستان کے تمام ترقی پسند ادیب اس جریدے میں لکھتے رہے ہیں۔[1] یہ جریدے اب تک عصمت چغتائی نمبر، اشفاق نمبر، فیض نمبر، میرزا ادیب نمبر، 55 سالہ نمبر، لاطینی امریکی افسانے نمبر، گولڈن جوبلی، نمبر، سالنامہ 1994ء، افسانہ نمبر 1995ء، غزل نظم نمبر 1995ء، تراجم کہانیاں 1998ء اور دو جلدوں میں 75 سالہ نمبر جاری کر چکا ہے۔ یہ جریدے کی اشاعت اب تک جاری ہے۔ جولائی 2020ء کو اس کے مدیر مظہر سلیم مجوکہ مقرر کیے گئے،
مدیرہ | صدیقہ بیگم |
---|---|
معاونین | شاہد بخاری ڈاکٹر شمائلہ اسد |
سابق مدیران | انتظار حسین صدیق جاوید طارق ناصر زیدی ذکاء الرحمٰن سید جاوید اختر چودھری افتخار علی |
زمرہ | علمی و ادبی جریدہ |
دورانیہ | ماہانہ |
ناشر | آفتاب احمد چودھری |
بانی | چودھری برکت علی |
تاسیس | 1935ء |
ملک | پاکستان |
مقام اشاعت | لاہور |
زبان | اردو |
حکیم احمد شجاع نے چودھری برکت علی کے منصوبے کو عملی طور پر مہمیز لگائی کہ جریدے کا نام "ادب لطیف" تجویز کر دیا اور پہلے مدیر کے طور پر اپنے بچوں کے اتالیق ، ایک اسکول ٹیچر، شاعر و ادیب طالب انصاری بدایونی کا تقرر کروا دیا ۔ یوں مارچ 1935ء میں طالب انصاری بدایونی کی ادارت میں ادب لطیف کا پہلا شمارہ 64 صفحات پر مشتمل منظر عام پر آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارچ ، اپریل، مئی 1935ء کے تین شمارے ہی طالب انصاری کی ادارت میں چھپ سکے کیونکہ جون 1935ء میں میرزا ادیب (بی اے آنرز) اس جریدے کے مدیر مقرر ہو گئے۔ طالب انصاری ان دنوں فلموں کے لیے گیت بھی لکھتے تھے ، اسکول میں ٹیچر بھی تھے اور پرائیویٹ طور پر ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے ۔ اتنی بہت مصروفیات میں وہ ادیب لطیف کے لیے بھرپور انداز میں وقت نہ دے سکتے تھے ، جب کہ میرزا ادیب کل وقتی مدیر کے طور پر دستیاب ہو گئے تھے۔ یوں ادب لطیف کے بانی مدیر ہونے کا اعزاز پنجاب کے دل لاہور میں فانی بدایونی کے شہر بدایوں کے ایک صاحب فن شاعر طالب انصاری کو حاصل ہے ۔ میزا طالب کا نمبر دوسرا ہے ، جو لوگ انھیں اولیت دیتے ہوئے ادب لطیف کا پہلا مدیر قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ دراصل پہلا مدیر ہی 'ٹرینڈ سیٹر [trend setter]' ہوتا ہے ، چنانچہ ابتدائی شماروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے شمارے سے جو معیار، بانئ ادارہ، چودھری برکت علی کی رہنمائی میں مدیر اول نے قائم کیا اسی طرز پر میرزا ادیب اور ان کے بعد میں آنے والے مدیروں نے بھی معیار نہ صرف برقرار رکھا بلکہ آگے بڑھایا ۔ اس ادبی لیجنڈ، عہد ساز جریدے کے نامور مدیران میں طالب انصاری بدایونی کے علاوہ فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، فکر تونسوی ، قتیل شفائی ، عارف عبدالمتین ، دو بار میرزا ادیب ، سید فخر الدین بلے علیگ کے فرزند ظفر معین بلے بھی کم و بیش دس برس ( 1986ءتا 1996ء)ماہنامہ ادب لطیف لاہور کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے اس دور میں بھی ادب لطیف کی مدیر اعلی صدیقہ بیگم ہی تھیں اور اس سے قبل انتظار حسین اور یہ ناصر زیدی شامل ہیں۔۔۔۔۔۔ ناصر زیدی کا دور ادارت 1966ء تا 1980ء تک طویل ترین دور ہے جب کہ میرزا ادیب تو دو قسطوں میں کل دس بارہ سال مدیرر ہے ۔۔ اور ناصر کے بعد تو مدیران کی ایک لمبی لائن لگی رہی ۔ ایک ہی شمارے میں بطور مدیران آدھی آدھی درجن نام بھی دیکھنے کو ملے ۔ صدیقہ بیگم ، کشور ناہید اور ان کا چار کاٹولہ۔ پھر صدیقہ بیگم کے ساتھ مسعود اشعر اور پھر ان کے ساتھ اظہر جاوید۔ پھر چودھری برکت علی کی صاحبزادی صدیقہ بیگم مدیر رہیں اور بڑے عزم و استقلال کے ساتھ مختلف ادوار کے معروف سائز سے ہٹ کر چھوٹے کتابی سائز پر رسالے کو باقاعدگی سے شائع کرتی رہیں 75 سالہ نمبر ان کی مدیرانہ کاوش کا یقیناً نقطہ عروج ہے،
"ادب لطیف" کا موجودہ کتابی سائز دراصل انتظار حسین کے فوری بعد آنے والے ایک مدیر قاسم محمود نے رائج کیا تھا ۔ وہ کل چھ ماہ مدیر رہے اور اس عرصے میں ادب لطیف کا اکصل قدیم اور معیاری حلیہ بگاڑ کے اسے صرف اور صرف افسانوں کے لیے مخصوص کر دیا کہ وہ خود بھی افسانہ نگار تھے ۔ شاعری، ادب لطیف کے اس ششماہی تاریک دور میں ممنوع رہی۔ چودھری برکت علی کے بڑے صاحبزادے افتخار علی چودھری کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ وہ 'پنجاب بک ڈپو ' کے مالک اور ادب لطیف کے مینجنگ ایڈیٹر تھے ۔ انھوں نے کبھی ایڈیٹر کے کام میں مداخلت نہیں کی،
ڈاکٹر شگفتہ حسین نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پی ایچ ڈی مقالہ "ماہنامہ ادب لطیف کی ادبی خدمات " لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی،
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ روشن آرا راؤ، مجلاتی صحافت کے ادارتی مسائل، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، جون 1989ء، ص 39