فکر تونسوی
فکر تونسوی یا رام لال بھاٹیا (پیدائش: 7 اکتوبر 1918ء – وفات: 12 ستمبر 1987ء) بستی منگروٹھہ کی عظیم علمی و ادبی شخصیت اور اردو شاعر تھے۔
فکر تونسوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 17 اکتوبر 1918ء تونسہ |
وفات | 12 ستمبر 1986ء (68 سال) نئی دہلی |
شہریت | بھارت |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنف |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیم7 اکتوبر، 1918ء ان کی پیدائش بستی منگروٹھہ تونسہ شریف میں ہوئی تھی۔ لیکن محمد اعظم کے بقول اس کی پیدائش شجاع آباد، ضلع ملتان میں ہوئی تھی۔
نام
ترمیمفکر تونسوی کا اصل نام رام لال سوہیٹہ تھا۔ ان کے والد دھنپت رائے ایک زمیندار چوہدری نارائن سنگھ کے منشی تھے ۔
تعلیم
ترمیمفکرتونسوی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی میٹرک ہائی اسکول تونسہ سے کیا اس کے بعد ایمرسن کالج، ملتان میں داخلہ لیا لیکن ایک سال بعد والد کی وفات کے صدمے نے اس کا جینا دوبھر کر دیا۔ پھر مجبورًا اسے تعلیم چھوڑنا پڑی اور روزی روٹی کی فکر میں لگ گئے۔
عملی زندگی
ترمیمابتدا سے ہفتہ وار رسالے کسان میں کام شروع کیا لیکن کم معاوضہ کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان کے ایک پرائمری اسکول میں مدرس کے فرائض انجام دینا شروع کر دیے۔ وہاں بھی حالات نے ساتھ نہ دیا تو لاہور چلے گئے اور کتب خانہ میں ملازم ہو گئے۔ اور مختلف موضوعات کی کتب سے استفادہ بھی کرتے رہے۔ اور فکر تونسوی صاحب، سردار الله نواز خان چیف آف قبیلہ کھتران ( نواز درانی )بمقام وہوا، کی زیرِ ادارت ڈیرہ غازی خان سے نکلنے والے ہفت روزہ اصلاح میں بھی مضامین لکھتے رہے ہیں اور فکر تونسوی صاحب سردار صاحب کی مدیرانہ صلاحیت اور ان کے مقبولِ عام ہفت روزہ سے بہت متاثر ہوئے اور سردار الله نواز خان نواز درانی کی سحر انگیز شخصیت اور ان کی بدیہہ گو شاعرانہ خوبیوں سے متاثر ہوتے ہوئے نواز درانی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرتے ہوئے سردار الله نواز خان کھتران کی شاگردی اختیار کر لی اور ان سے اپنے کلام کی اصلاح لیتے رہے، جس کا اظہار انھوں نے مختلف مواقع پر کیا۔ اس کے بعد من کی موج، رسالہ کی ادارت بھی سنبھالی۔ پھر 1942ء میں ادبِ لطیف سے وابستہ ہو کر کیلاش وتی کو اپنا شریکِ سفر بھی بنا لیا۔ لیکن مذہبی اور سیاسی تعصب کے کالے طوفان نے برصغیر کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔ فکر تونسوی بھی اس تعصب سے نہ بچ سکے وہ بھی لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کے دلخراش مناظر دیکھ کر اپنے بیوی بچوں کے لیے فکر مند ہو گئے۔ اس حوالے سے ساحر لدھیانوی، قتیل شفائی اور احمد راہی تونسہ شریف آئے اور اس کے بچوں کو اپنی نگرانی میں لاہور لے گئے۔
ہندوستان میں
ترمیمہندوستان میں روزنامہ نیا زمانہ، میں طنزیہ کالم آ ج کی خبر، کے عنوان سے لکھنا شروع کر دیا۔ 1955ء میں دہلی کے اردو روزنامہ ملاپ میں پیاز کے چھلکے کے عنوان سے سیاسی و سماجی مسائل پر طنزیہ کالم لکھتے رہے۔ ریڈیو کے لیے ڈرامے بھی لکھے۔
وفات
ترمیمآخر ی عمر میں اس پر فالج کا حملہ ہو ا اور 12 ستمبر، 1987ء کو وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔[1][2][3] انھوں نے اردو میں 20 اور ہندی زبان میں 8 کتابیں لکھیں۔[4]
تصنیفات
ترمیمانھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور اس کے ساتھ ہی وہ اخبار اردو ملاپ میں لگاتار 27 سال روزانہ کالم پیاز کے چھلکے لکھتے رہے۔
- ہیولے
- چھٹا دریا
- پیاز کے چھلکے
- چوپٹ راجا
- فکر نامہ
- آدھا آدمی
- چھلکے ہی چھلکے
- بات میں گھات
- گھر میں چور،
- میں، میری بیوی وارنٹ گرفتاری
- ماڈرن الہ دین
- ماؤزے تنگ
- تیرِ نیم کش
- ہم ہندوستانی
- راجا راج کرے
- ڈارلنگ
- گمشدہ کی تلاش
اعزاز
ترمیمفکر تونسوی کو انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا جن کی تفصیل درج ذیل ہے
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Remembering the doyen of Urdu satire"۔ The Tribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2007
- ↑ "Urdu newspapers are beacons of light"۔ The Milli Gazette۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2007
- ↑ "A People's History of Partition"۔ The Sun۔ 12 اکتوبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2007
- ↑ http://www.taunsacity.com/fikr_taunsvi.html[مردہ ربط]
- ↑ تذکرہ شعرائے تونسہ شریف حصہ اول صفحہ 40،جسارت خیالی، رنگ ادب پبلیکیشنز کراچی