ارسلان بن سلجوق

قبیلہ قنق کا سربراہ اور سلجوقیوں کا جد اعلیٰ

ارسلان بن سلجوق (وفات: 1032ء) سلجوقی سلطنت کے حکمرانوں کا جدِّ اعلیٰ تھا جو اولاً قبیلہ قنق کا سربراہ بھی تھا۔

ارسلان بن سلجوق
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 10ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1032ء (81–82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلخ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد قتلمش   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد سلجوق   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

خاندان

ترمیم

ارسلان کو سلجوقی سلطنت کا مؤسس، بانی اور جدِّاعلیٰ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ارسلان سلجوق خانوادوں کے نام گزار (Eponym) سلجوق کا منجھلا بیٹا تھا۔ اِس سے قبل خاندان سلجوق کی تاریخ گمنام ہے اور تقریباً تمام احوال و واقعات وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں کے ساتھ اوغوز قوم کے ساتھ مدغم ہیں جن کی قیادت ارسلان کا خاندان کرتا چلا آ رہا تھا۔

نام و نسب اور ابتدائی حالات

ترمیم

ارسلان کا پیدائشی نام اسرائیل تھا اور اُسے ارسلان اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ ارسلان کے بھائیوں کے نام میخائیل اور موسیٰ تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِن ناموں میں خَزَری یہودیوں یا وسطی ایشیا کے نسطوریوں کا اثر غالب رہا ہے ۔ ارسلان کے احوال کے متعلق اور اُس کی ابتدائی زندگی کے واقعات بڑے الجھے ہوئے ہیں۔ اُس کی زندگی ہی میں سلجوقی خاندان جو شہر جَند میں آباد ہو گیا تھا، وہیں ارسلان نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اُس نے اپنے آپ کو اوغز کے یبغو (Yabghu) کی حکومت سے آزاد کروا لیا تھا۔ اِس بات میں کسی کو اِختلاف نہیں کہ بعد ازاں اُس کے باپ سلجوق نے اُسے سامانیوں کے آخری بادشاہوں میں سے کسی ایک کی مدد کے لیے روانہ کیا تھا۔ یہ سامانی بادشاہ اُس وقت قراخانیوں سے بر سر پیکار تھا۔ اِس بات کی توثیق مَلِک نامہ کی روایت سے ہوتی ہے کہ جو خانوادۂ سلجوق کی تاریخ ہے اور 1060ء کے قریب الپ ارسلان کی سرپرستی میں لکھی گئی تھی۔غزنوی عہد کے مؤرخ گردیزی نے یبغو (Yabhgu) نامی لقب والے ایک شخص کے متعلق لکھا ہے کہ اُس نے 1003ء میں سامانیوں کی آخری مہم میں جو وہ قراخانیوں کی مدافعت میں کر رہے تھے، انھیں مدد دی تھی۔ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اِس سے مراد ارسلان بن سلجوق ہی ہے لیکن حال میں مؤرخ پرتساک (O. Pritsak) نے اِس خیال کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: یبغو کے لقب سے صرف ایک ہی شخص مراد ہو سکتا ہے اور وہ بحیرہ ارال کے شمال کی سلطنت اوغز کا آخری یبغو ہے۔ یہ سچ ہے کہ عربی اور فارسی کے مخطوطات ہائے تاریخ میں منفرد سلجوقی بادشاہوں کے نام کے ساتھ ایک لقب کا اِضافہ کرتے ہیں جسے یبغو پڑھ سکتے ہیں، لیکن پرتساک نے ثابت کیا ہے کہ لقب یبغو کے ساتھ ساتھ ایک طوطمی نام پیغو بھی رائج تھا اور غالب اِمکان یہی ہے کہ بعض صورتوں میں یبغو کو ہی پیغو لکھا گیا ہے ۔ حالانکہ موجودہ زمانے میں یبغو کی ہی جانب مؤرخین و محققین کی نظر رہی ہے اور پیغو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔لیکن جہاں تک ارسلان اسرائیل کا تعلق ہے تو دو نام اُس کے طوطمی نام ہرگز نہیں ہو سکتے، اُس کا لقب واقعۃً یَبغُو ہی تھا اور یہ اِس بات کی علامت تھی کہ شمال کی بت پرست سلطنت کے خلاف اُس کے خاندان نے بغاوت کردی تھی اور اغلب یہی ہے، گو یقینی نہیں کہ یہ وہی شخص ہوگا جس کا گردیزی نے ذکر کیا ہے اور جس کی تائید روایتی بیان سے بھی ہوتی ہے۔ [1]
بعد ازاں ارسلان کی زندگی کے واقعات انتہائی کم پیچیدگی سے ملتے ہیں۔ سامانیوں کے خاتمہ کے بعد ہم ارسلان کو بخارا کے قراخانی باغی علی تگین سے وابستہ پاتے ہیں جس کی ملازمت میں بالآخر اُس کے بھتیجے طغرل اور چغری بھی شامل ہو چکے تھے۔ 416ھ مطابق 1025ء میں علی تگین کو قراخانیوں کے خانِ بزرگ قَدِر خان نے سلطان محمود غزنوی کے ساتھ مل کر شکست دی۔ علی تگین کی شکست کی زد ارسلان اور اُس کے بھتیجوں کی نسبت خود ارسلان پر زیادہ پڑی اور اُسے اُس کے ساتھی اوغوزوں سمیت طغرل اور چغری کے ا وغوزوں سے جدا کرتے ہوئے خراسان بھیج دیا گیا۔مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ جلاوطنی سلطان محمود غزنوی کے حکم پر عمل میں لائی گئی تھی تاکہ باغی علی تگین کا زور توڑا جاسکے۔[2]

وفات

ترمیم

خراسان جلاوطنی کی طرف بھیجے جانے اور وہیں اقامت اِختیار کرلینے پر ارسلان کو سلطان محمود غزنوی کے حکم پر ہندوستان کی کسی سرحدی قلعہ میں نظر بند رکھا گیا اور قید کی ہی حالت میں 1032ء میں ارسلان کا اِنتقال ہو گیا۔[3]

حوالہ جات

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم