استحصالی سود
زمرہ جات | |
| |
|
تعارف
ترمیمایسا سود جس میں کسی کا استحصال ہو استحصالی سود کہلاتا ہے -کچھ لوگوں کی خیال میں صرف استحصالی سود منع ہے اور اگر باہمی رضا مند ی سے سود کا تعین ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ عام طو ر پر لوگ تجارتی مقاصد کے لیے قرض لیتے ہیں جبکہ استحصال کا عنصر عموماً نجی قرضوں میں پایا جاتا ہے
اس آیت سے یہ استنباط درست نہیں ہے کہ صرف استحصالی سود ہی منع ہے - آیت میں زبان کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ سود کی شناعت کو مزید واضح کرنے کے لیے ہے نہ کہ اس کی اجازت کے لیے - اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگرکوئی یہ کہے کہ خدا کے لیے اپنی بیوی کے سامنے تو دوسری عورتوں سے چھیڑ خانی سے باز رہا کرو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بیوی کی عدم موجودگی میں یہ چھیڑ خانی کر لیا کرو- اب قرآن کریم کی ایک مثال سے اس کو سمجھیے -
اب ظاہر ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں رضامندی سے پیشہ کریں تو ان کو اجازت ہے - یہ اسلوب تو ان لوگوں کے اس فعل کی شناخت کو واضح کے لیے ہے جو لونڈیوں کو اس قبیح کام پر مجبور کرتے تھے جبکہ وہ عفت کی زندگی گزارنا چاہتی تھیں -
قرآن نے ربا یا سود کے معنی واضح نہیں کیے اور اس کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی- جو لوگ قرآن کی عربی سے آشنا تھے وہ پہلے ہی سے اس سے آگاہ تھے - اسی طرح قرآن نے خمر کے معنی بھی واضح نہیں کیے کیونکہ یہ بھی لوگوں کو پہلے ہی سے معلوم تھے - قرآن نے تو صرف ان دونوں کی ممانعت کر دی- قرآنی عربی میں ربا اس مقررہ رقم (اصل زر کے علاوہ) کو کہتے ہیں جس کامطالبہ ایک قرض دینے والا معینہ مدت کے بعد مقروض سے کرتا ہے - مزید براں قرآن سے یہ بھی واضح ہے کہ اس زمانے میں بھی لوگ تجارتی مقاصد کے لیے قرض دیا کرتے تھے - کیونکہ تجارتی مقاصد کے لیے دیے گئے قرض میں ہی مال پروان چڑھتا ہے
سود مندرجہ ذیل سات کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے۔
حاصلِ بحث
ترمیمچنانچہ قرآن سے یہ واضح ہوا کہ تمام اقسام کا سود ممنوع ہے اور اس میں وہ بھی شامل ہے جو لوگ تجارتی مقاصد کے لیے لیتے ہیں اور جس میں استحصال کا کوئی پہلو نہیں ہوتا اور نہ کسی مجبور کی ضرورت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے -