اسرائیل زینگوئیل
اس صفحے میں موجود سرخ روابط اور اسکے مضمون بارے مزید مواد مساوی زبانوں کے ویکیپیڈیاؤں خصوصاً انگریزی ویکیپیڈیا میں موجود ہے، ترجمہ[1] کر کے ویکیپیڈیا اردو کی مدد کریں۔ |
اسرائیل زینگوئیل (21 جنوری 1864ء – 1 اگست 1926ء) 19 ویں صدی میں ثقافتی صیہونیت کا صف اول کا ایک برطانوی مصنف تھا اور تھیوڈور ہرتزل کا قریبی ساتھی تھا۔ بعد ازاں اس نے فلسطین میں یہودی وطن کی تلاش کو مسترد کر دیا اور علاقائی تحریک کا سب سے پہلا مفکر بنا۔
اسرائیل زینگوئیل | |
---|---|
پیدائش | 21 جنوری 1864 لندن, انگلستان, مملکت متحدہ |
وفات | 1 اگست 1926 میڈ ہرسٹ, مغربی سسیکس, انگلستان, مملکت متحدہ | (عمر 62 سال)
نمایاں کام | (1892) پگھلاتی ہنڈیا (1908 بڑے جھکاؤ کی رمز) |
شریک حیات | ایڈیتھ آئرٹن |
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیمزینگوئیل 21 جنوری 1864ء لندن میں روسی سلطنت سے تعلق رکھنے والے یہودی تارکین وطن کے ایک خاندان میں پیدا ہوئے ۔ اس کے والد ، موسی زینگوئیل کا تعلق موجودہ لٹویا سے تھا اور والدہ ایلن ہننا مارکس زینگوئیل،موجودہ پولستان سے تھیں۔ انھوں نے اپنی زندگی، ان لوگوں کے لیے وقف کی جنھیں وہ مظلوم سمجھتے تھے اور یہودی آزادی، یہودی انجذاب، یہودی وطنیت، صیہونیت اور خواتین کی حق رائےدہی جیسے موضوعات میں متحرک رہے- ان کا بھائی لوئس زینگول ناول نگار تھے۔ [2]
زینگوئیل نے ابتدائی اسکول کی تعلیم پلائماوتھ اور برسٹل میں حاصل کی۔ جب ان کی عمر نو سال تھی، زینگوئیل نے مشرقی لندن اسپیٹل فیلڈز میں یہودی تارکین وطن بچوں کے مفت یہودی اسکول میں داخلہ لیا تھا۔ اسکول میں سیکولر اور دینی دونوں ہی علوم کا سخت کورس پڑھایا جاتا تھا جبکہ طلبہ کے لیے لباس، کھانا اور صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس کے اعزاز میں اسکول کے چار ہاؤس میں سے ایک کا نام زینگوئیل رکھا گیا ہے۔ اس اسکول میں اس نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور یہاں تک کہ جز وقتی تعلیم بھی دی، بالآخر ایک مکمل استاد بنا ۔ تدریس کے دوران، اس نے لندن یونیورسٹی سے ڈگری کے لیے تعلیم حاصل کی، 1884ء میں ٹرپل آنرز کے ساتھ بی اے کیا۔
زینگوئیل اپنے کام کی بدولت " پاڑہ کا ڈکنز " کے نام سے مشہور ہوا۔ [3] انھوں نے ایک بہت ہی متاثر کن ناول "پاڑے کے بچے" : انوکھے لوگوں کا ایک مطالعہ (1892ء) لکھا ، جسے انیسویں صدی کے آخر میں انگریزی ناول نگار جارج گیسنگ نے "طاقتور کتاب" کہا۔ [4]
تارکین وطن کے امریکی انجذاب کو استعاراتی جملہ " پگھلاتی ہنڈیا " کے استعمال سے زینگوئیل کے ڈرامے دی میلٹنگ پاٹ نے شہرت دی [5] جو 1909-10 میں ریاستہائے متحدہ میں ایک کامیاب اور مقبول ہوا۔
جب 5 اکتوبر 1909ء کو واشنگٹن ڈی سی میں پگھلاتی ہنڈیا چلا تو سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ نے اپنے خانے کے کنارے سے جھانکا اور چلایا ، "یہ ایک زبردست ڈراما ہے ، مسٹر زینگوئیل ! یہ ایک بہت اچھا ڈراما ہے۔" [6]
اس ڈرامے کا مرکزی کردار ڈیوڈ ، کیشینیو پوگروم کے بعد امریکا ہجرت کرتا ہے جس میں اس کا پورا خاندان مارا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کے ایک بڑا نغمہ (سمفنی) جس کا نام "دی کروسیبل" جس میں ڈیوڈ اس دنیا کے لیے اپنی امید کا اظہار کرتا ہے جس میں تمام تر نسلیت ختم ہو چکی ہوتی ہے اور ڈیوڈ ویرا نامی ایک خوبصورت روسی عیسائی تارکین وطن کی طرف راغب ہوتا ہے۔ ڈراما اپنے عروج پر اس لمحے پہنچتا ہے جب ڈیوڈ ویرا کے والد سے ملتا ہے، جو ڈیوڈ کے اہل خانہ کے فنا ہونے کا ذمہ دار روسی افسر ہوتا ہے۔ ویرا کے والد جرم کا اعتراف کرتا ہے، سمفنی کو پزیرائی حاصل ہوتی ہے، ڈیوڈ اور ویرا ہنسی خوشی رہتے ہیں یا کم از کم پردہ پڑتے ہی بوسہ لینے پر شادی کے لیے راضی ہوجاتے ہیں۔
"پگھلاتی ہنڈیا نے اپنے تارکین وطن کی شراکت سے ترقی کرنے اور امریکا کی انجذابی صلاحیت کا جشن منایا۔" [7] زینگوئیل وہ یہودی بن کر لکھ رہے تھے "جو اب یہودی نہیں بننا چاہتا تھا"۔ اس کی اصل امید ایک ایسی دنیا کی تھی جس میں نسلی اور مذہبی تفریق کی پوری لغت کو پھینک دیا گیا ہو۔ " [8]
ذیل میں ان کی "یہودی پاڑہ" کی کتابوں کی فہرست ہے۔
- پاڑہ کے بچے: انوکھے لوگوں کا مطالعہ (1892)
- پاڑہ کے پوتے (1892)
- پاڑہ کے خواب دیکھنے والے (1898)
- پاڑہ کا المیہ ، (1899)
- پاڑہ کی مزاحیات ، (1907)
سیاست
ترمیمیہودی سیاست
ترمیمزینگوئیل سیاست خصوصا یہودی معاملات میں بطور انجذابی، ابتدائی صیہونی اور ایک علاقائی ماہر بھی شامل رہا۔ [9] کچھ عرصہ کے لیے تیوڈور ہرتزل کی توثیق کرنے کے بعد، بشمول مکبیین کلب کی صدارت جس میں 24 نومبر 1895 کو تیوڈور ہرتزل نے خطاب کیا اور فلسطین پر مبنی صیہونی تحریک کی تائید کرنے کے ساتھ، زینگوئیل نے اس قائم شدہ فلسفہ کو چھوڑا اور 1905ء میں اپنی الگ تنظیم یہودی علاقائی تنظیم کی بنیاد رکھی، جس کا نظریہ تھا کہ یہودی وطن کی وکالت میں دنیا میں کہیں بھی جو بھی زمین دستیاب ہو سکے [10]کینیڈا ، آسٹریلیا ، میسوپوٹیمیا ، یوگنڈا اور سائرینیکا سمیت جہاں ان کے لیے وطن قائم کیا جاسکے وہ کارآمد ہے۔
زییو جبوتنسکی کے مطابق، زینگوئیل نے 1916ء میں اس سے کہا کہ، " آپ کو بے زمین لوگوں کو ملک دینا چاہتے ہیں، تو یہ سراسر حماقت ہے کہ انھیں ایسا ملک دیں جس پر دو قوموں کا دعوی ہو. یہ صرف پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ یہودی پریشان ہوں گے اور ان کے ہمسایہ بھی۔ یا تو یہودیوں کے لیے یا ان کے پڑوسیوں کے لیے الگ جگہ ہونی چاہیے "۔ [11]
1917 میں انھوں نے لکھا "بے زمین لوگوں کو بے ملک لوگوں کی زمین دو ' لارڈ شفٹسبیری سے میری بڑی گزارش ہے کہ۔ ' افسوس ، یہ ایک گمراہ کن غلطی ہے۔ خدارا اس ملک میں 600،000 عرب آباد ہیں۔ " [12]
1921ء میں زینگوِئیل نے لکھا کہ "اگر لارڈ شفٹسبری فلسطین کو بے عوام ایک ملک قرار دینے میں حقیقتاً حق بجانب نہیں، لیکن بنیادی طور پر یوں درست تھا کہ وہاں کے عرب باشندوں کا ملک کے ساتھ گہرا ادغام نہیں، اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں اور اسپر ایک خاص تاثر کے ساتھ مہر ثبت کرتے ہیں : زیادہ سے زیادہ وہ ایک عربی پڑاؤ ہے، جس کے ٹوٹنے سے یہود پر کاشتکاری کی مشقت بڑھ جائے گی جو ان کو عرب کسانوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکے رکھے گا، جن کی تعداد زیادہ اور اجرت کم ہوتی ہے - جو پولستان و دیگر یورپی مراکزِ مصائب سے آمدہ ممکنہ مہاجرین کے لیے خاصی رکاوٹ کا باعث ہوگا"۔ [13]
زینگوئیل1926ء میں مڈہرسٹ ، مغربی سسیکس میں انتقال کر گئے.
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "ترجمہ سکھلائی"
- ↑ Louis Zangwill in Jewish Encyclopedia
- ↑ Israel Zangwill – A Sketch, by Emanuel Elzas; in the San Francisco Call; published 25 August 1895; retrieved 14 May 2013; archived at the کتب خانہ کانگریس
- ↑ Coustillas, Pierre ed. London and the Life of Literature in Late Victorian England: the Diary of George Gissing, Novelist. Brighton: Harvester Press, 1978, p.364.
- ↑ Werner Sollers, Beyond Ethnicity: Consent and Descent in American Culture (1986), Chapter 3 "Melting Pots"
- ↑ Guy Szuberla, "Zangwill's The Melting Pot Plays Chicago," MELUS, Vol. 20, No. 3, History and Memory. (Autumn, 1995), pp. 3–20.
- ↑ Kraus, Joe, "How The Melting Pot Stirred America: The Reception of Zangwill's Play and Theater's Role in the American Assimilation Experience," MELUS, Vol. 24, No. 3, Varieties of Ethnic Criticism. (Autumn, 1999), pp. 3–19.
- ↑ Jonathan Sacks The Home We build Together, Continium Books, 2007, P. 26
- ↑ Meri-Jane Rochelson (1 January 1992)۔ "Review of Dreamer of the Ghetto: The Life and Works of"۔ AJS Review۔ 17 (1): 120–123
- ↑ Israel Zangwill, Joseph Leftwich, Yoseloff, 1957, p. 219
- ↑ Cited in Yosef Gorny, Zionism and the Arabs, 1882–1948 (Oxford: Clarendon Press, 1987), p. 271
- ↑ I. Zangwill, The Voice of Jerusalem, MacMillan, 1921, p. 96
- ↑ Zangwill, Israel, The Voice of Jerusalem, Macmillan, New York, 1921, p. 109