زمرہ جات

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو دنیائے اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ آپ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا تھے اور دنیاوی امور میں بھی ان کی رہنمائی فرماتے تھے۔ افواج کی سپہ سالاری، بیت المال کی نگرانی اور نظم و نسق کے جملہ فیصلے آنحضرت کی مرضی اور ہدایت کے بموجب ہوتے تھے۔

مختلف ادوار میں مسلم فتوحات

خلافت راشدہ

آنحضرت کی وفات کے بعد اس اسلامی مرکزیت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کے جانشین مقرر کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا اسے خلافت کہتے ہیں۔ پہلے چار خلفاء ’’ حضرت ابوبکر رض، حضرت عمر رض، حضرت عثمان رض، حضرت علی رض‘‘ کو عہد خلافت راشدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے نائبین رسول نے قرآن و سنت کے مطابق حکومت کی اور مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی بھی احسن طریقے سے کی۔ اور ہر طرح سے یہ خلفاء اللہ تعالیٰ کے بعد اہل اسلام کے سامنے جوابدہ تھے۔ اور ان کا چناؤ موروثی نہیں تھا بلکہ وصیت/اکابر اصحابہ رض کی مشاورت سے ان کا انتخاب کیا جاتا رہا۔

خلافت بنو امیہ و بنو عباس

مگر خلافت راشدہ کی مدت فقط 30 سال رہی۔ حضرت علی رض کی شہادت کے بعد شام کے حاکم حضرت امیر معاویہ رض خلیفہ بن گئے۔ اور اس طرح یہ خلافت ملوکیت کی طرف چلی گئی۔ اور خلیفہ نے ایک بادشاہ کی حیثیت اختیار کر لی۔ جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ خلیفہ کا چناؤ موروثی بنیادوں پر ہونے لگا۔ عالم اسلام پر تقربیا نوے سال تک بنو امیہ نے حکومت کی جن کا دار الخلافہ دمشق رہا۔۔ بنو امیہ کے دور میں عمر بن عبدالعزیز رح ایک ایسے خلیفہ تھے جنھوں نے خلافت راشدہ کے طرز پر حکومت کی اور پانچویں خلیفہ راشد کہلائے۔ اس کے بعد بنو عباس بر سر اقتدار آئے۔ ان کا دار الخلافہ بغداد تھا۔ انھوں نے تقریباً 500 سال تک حکومت کی۔ خاندان بنو عباس کی حکومت کا خاتمہ ہلاکو خان کے ہاتھوں ہوا۔

عباسی دور حکومت کے آخری دنوں میں خلافت کی حیثیت برائے نام رہ گئی تھی۔ ہر جگہ خود مختار سلطانوں یا امیروں کی حکومت تھی۔ جو رسمی طور پر اپنے آپ کو عباسی خلافت کے تابع کہتے تھے۔ البتہ خطبہ خلیفہ ہی کے نام کا پڑھا جاتا تھا۔ مگر بغداد کی تباہی کے بعد یہ صورت بھی باقی نہ رہی۔ اس وقت مصر کے سلطان بیبرس نے ایک عباسی شہزادے کو جو قتل ہونے سے بچ گیا تھا، المستنصر باللہ کے لقب سے قاہرہ میں خلیفہ بنا دیا۔ مگر مصر کا آخری خلیفہ سولہویں صدی عیسوی میں ترکی کے فرمانروا سلطان سلیم اول کے حق میں خلافت سے دستبردار ہو گیا۔

خلافت عثمانیہ

عثمانی خاندان کے تحت عثمانی خلافت (1517-1924)، آخری قرون وسطی اور ابتدائی جدید زمانے کی آخری سنی اسلامی خلافت تھا۔ عثمانی سلطنت کی مدت کے دوران، عثمانی سلطنت نے 1362 ء میں مراد کی فتح ادرنہ کے بعد خلافت کا دعویٰ کیا۔ بعد ازاں سلیم یاوز، مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کے محافظ بن گئے جس نے مسلم دنیا میں خلافت کے لیے سلطنت عثمانيہ کے دعویٰ کو مزید مضبوط کیا ۔

عثمانی خلافت کا خاتمہ مغربی یورپ کے سلسلے میں طاقت کی سست کشیدگی کی وجہ سے ہوا اور مجلس الاقوام کے مینڈیٹ کے ذریعہ عثمانی ریاست کے اختتام کے نتیجے میں آخری عثمانی خلیفہ عبد المجید کو صرف خلیفہ کا درجہ دے دیا گیا ، لیکن کمال اتاترک کی سیکولر اصلاحات اور 1924 ء میں ترکی جمہوریہ کے قیام کے بعد خلافت کو ختم کر دیا گیا۔

دیگر خلافتیں

اسلامی تاریخ میں چند دیگر خلافتوں کا تذکرہ بھی آتا ہے۔ ان میں اندلس کی خلافت امویہ، مصر کی خلافت فاطمیہ اور مراکش کی خلافت موحدین قابل ذکر ہیں۔ مگر یہ خلافتیں ایک مخصوص علاقے تک محدود رہیں۔ اندلس کی اموی خلافت عبدالرحمن اول نے 138ھ میں قائم کی تھی جو دراصل بادشاہت تھی۔ اس کا خاتمہ 1037ء میں المعتز باللہ کے عہد میں ہوا۔ فاطمی خلافت المہدی نے 377ھ میں قائم کی تھی۔ اس کا خاتمہ خلیفہ ابو الحمد عبد اللہ کے عہد میں 656ھ میں ہوا۔ خلافت موحدین کے بانی دراصل معروف عالم دین ابن تومرت تھے تاہم اس کے پہلے حکمران عبد المومن تھے جو 1145ء میں مسند اقتدار پر بیٹھے۔ اس خلافت کا خاتمہ 1269ء میں ادریس ثانی کے دور میں ہوا۔

بیرونی روابط

خلافت کا اسلامی نقطہ نظرآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ scribd.com (Error: unknown archive URL)

مزید دیکھیے