اقبال منزل
اقبال منزل (انگریزی: Iqbal Manzil) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیت علامہ محمد اقبال کی جائے پیدائش ہے۔ یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں واقع ہے۔ [1]
انیسویں صدی کے اوائل میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے بزرگ کشمیر سے سیالکوٹ کے محلہ کھٹیکاں میں آکر آباد ہوئے۔ علامہ محمد اقبال کے پردادا شیخ جمال الدین اپنے چار بیٹے شیخ عبدالرحمن ، شیخ محمد رمضان ، شیخ محمد رفیق اور شیخ عبداللہ سیالکوٹ آئے تھے۔ شیخ محمد رفیق اور شیخ عبداللہ نے فروری1861ء میں کشمیری محلہ میں تین کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سے امکان خریدا جسے اب "اقبال منزل "کہا جاتا ہے۔گھرچھوٹا پڑنے پر بعد ازاں شیخ عبد اللہ تحصیل سمبڑیال کے قصبہ جیٹھی کے ہجرت کر گئے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ محمد اقبال کی والدہ ماجدہ امام بی بی بھی شیخ عبد اللہ کی اولاد میں سے تھیں۔ 1892ء میں علامہ اقبال کے والد شیخ نور محمد نے ملحقہ دو کمروں پر مشتمل دو منزلہ گھر خرید کر اس میں شامل کر لیا۔ تین سال بعد مارچ 1895ء میں مکان کے سامنے والی دو دوکانیں خرید کر مکان کا راستہ گلی کی بجائے سڑک طرف نکال لیا۔ اس مکان کا پہلے راستہ موجودہ اقبال منزل کے عقب والی گلی سے تھا۔ 1912، 13میں علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد جو پیشہ کے لحاظ سے سول انجینئر تھے گورنمنٹ ملازمت سے ریٹائر ہو کر واپس سیالکوٹ آئے تو انھوں نے مکان کو گرا کر ازسر نو تعمیر کیا۔ ساڑھے آٹھ مرلہ پر محیط جگہ پر دس کمروں، باورچی خانہ، دو غسل خانوں اور دالان پر تین منزلہ عمارت تعمیر کروائی۔سڑک کی جانب لکڑی کی بالکونی بنائی گئی اور اس پر لوہے کی خوبصورت گرل بھی نصب کرائی ۔ اس مکان کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کا خواب دکھانے والے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال 9 نومبر 1877ء کو پیدا ہوئے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ علامہ اقبال اس گھر کے کس کمرہ میں پیدا ہوئے لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اقبال منزل کے پچھلی جانب تین کمروں میں سے ایک میں آپ پیدا ہوئے۔علامہ اقبال کے صاحبزادے و سابق جسٹس جاوید اقبال بھی 5 اکتوبر 1924ء میں اسی اقبال منزل میں پیدا ہوئے تھے۔
شیخ نور محمد کی وفات کے ایک ماہ بعدعلامہ اقبال نے اپنے بڑے بھائی شیخ عطاءمحمد کی دستار بندی کرکے ان کو خاندان کا سربراہ بنا کر مکان ان کے نام کر دیا۔ بعد ازاں شیخ عطاءمحمد نے 15اکتوبر 1937کو شیخ عطاءمحمد نے مکان کے نیچے تعمیر ہونے والی دوکانیں اپنے بیٹوں شیخ اعجاز احمد، شیخ امتیاز احمد اور شیخ مختار احمد کے نام کر دیں۔
حکومت پاکستان نے 1971ء میں یہ قومی ورثہ سوا لاکھ روپے میں خرید کر محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا تاکہ اس کو محفوظ بنایا جا سکے۔ کافی عرصہ تک اقبال منزل کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی جاتی رہی۔ آخر کار ضلعی حکومت نے اقبال منزل کو تباہی سے بچانے کے لیے ایک حصہ کی مرمت کروائی تاکہ اس قومی ورثہ کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ ایک عرصہ تک اقبال منزل قومی ورثہ کے ذمہ دار محکمہ کی لاپروائی کی وجہ سے خراب ہوتا رہا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد اس قیمتی قومی ورثہ کی دیواروں کی دراڑوں کو بھرا گیا اور سفیدی وغیرہ کروانے کے بعد پردے وغیرہ لگا کر عمارت کی تزئین و آرائش کی گئی۔ اقبال منزل کی عقبی دیوار بہت خستہ حالت میں ہے اور اس کے ساتھ لوہے کے گاڈروں سے دیوار کو سہارا دے کر دیوار کو گرنے سے روکا گیا ہے۔ عمارت کی چھتیں لکڑی کے شہتیروں اور لکڑی کے بالوں سے بنی ہوئی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی میعاد پوری کر چکے ہیں۔ ایک صدی قبل تعمیرہونے والی اس عمارت "اقبال منزل" کی سڑک کی طرف کی ایک کھڑکی کا پٹ ٹوٹ گیا ہے اور عقبی حصہ جو کبھی اس گھر کا فرنٹ ہوا کرتا تھا اس کی اور اندرو مرمت اشد ضروری ہے۔ اقبال منزل کے اندرونی حصے کی مرمت ہونی چاہیے۔
اس عمارت کے دونوں اطراف میں 1872ء میں تعمیر ہونے والی پانی کی نالیاں مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے نالیوں کا پانی بلڈنگ کی بنیادوں کو کمزور کر رہا ہے۔ کشمیری محلہ میں واقع اقبال منزل کے سامنے ٹریفک کا رش لگا رہتا اور گاڑیوں کے خارج ہونے والے دھوئیں کی وجہ سے بلڈنگ کی بالائی منزل پر بنی ہوئی بالکنی پر لگی ہوئی لکڑی خراب ہو رہی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے جس طرح بھارت نے تاج محل کو محفوظ رکھنے اور دھوئیں سے بچانے کے لیے اس کے قریب سے گزرنے ٹریفک کو روک دیا ہے اسی طرح اقبال منزل کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس عمارت کے سامنے بجلی کی لاتعداد تارگزر رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے بجلی کی تاروں کو آگ لگ گئی تو وہ اقبال منزل کے لیے اچھانہیں ہو گا۔ اس لیے ان بجلی کی تاروں کو اقبال منزل سے دور کرنا چاہیے۔
علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے والے اقبال منزل آتے ہیں اور ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پارکنگ کا ہے۔ لوگوں کو ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور اپنی کاریں کھڑی کرکے آنا پڑتا ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ پیپلز پارٹی کے حالیہ دور میں وزیر داخلہ رحمن ملک جن کا تعلق بھی سیالکوٹ کے نواحی گاؤں ججے سائیاں سے ہے سیالکوٹ آئے تھے اور اقبال منزل بھی گئے تھے ۔ اس موقع پر انھوں نے اقبال منزل کی تزئین و آرائش کے لیے تین ملین روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن وہی ہوا جو ان سے پہلے فوٹو سیشن کے لیے پہلے آنے والے وزراءاور دیگر اعلیٰ حکام آکر کہتے رہے لیکن وہ ہوا نہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس شہر سے منتخب ہونے والے ایکادوکا عوامی نمائندہ علامہ اقبال کے یوم پیدائش پر اقبال منزل آتے ہیں لیکن انھیں کبھی یہ توفیق نہیںہوئی کہ حکومت سے فنڈ لے کر اقبال منزل کی حالت کو مزید بہتر کر یں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے لیے اس نادر قومی ورثہ کو محفوظ بنائیں ۔
یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اقبال منزل کے کیوریٹر ریاض حسین نقوی گذشتہ 27 سالوں سے اپنی ذمہ داریاں نہایت ہی احسن انداز میں نبھا رہے ہیں اور وہ اقبال منزل کی تزئین و آرائش کرنے اور نادر تصاویر اکٹھی کرکے اس تاریخی ورثہ میں سجانے کا کام بخوبی کر رہے ہیں۔ یہ تمام کام وہ علامہ اقبال سے دلی عقیدت رکھتے ہوئے کر رہے ہیں وہ یہاں کام ڈیوٹی سمجھ کر نہیں کر رہے بلکہ اقبال اور اقبال منزل سے عشق کے لیے رات گئے تک یہاں رہتے ہیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ حکومت اقبال منزل کی بلڈنگ کو اس کی اصل حالت میں دوبارہ تعمیر کرکے اس قومی ورثہ کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرے اور اقبالیات پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک بڑی لائبریری قائم کرے۔
حکومت کو چاہیے کہ اس قیمتی قومی ورثہ کو دوبارہ سے تعمیر کرکے اس کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ بلڈنگ میں علامہ محمد اقبال ، ان کے اہل خانہ، اساتذہ، کلاس فیلوز اور آل انڈیا مسلم لیگ کے لیڈروں کی نادر تصاویر لگی ہوئی ہیں جو آنے والے مہمان کو تاریخ کے بارے میں جاننے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ بہت ساری ان نادر تصاویر پر علامہ اقبال کے دستخط بھی موجود ہیں۔ اقبال منزل میں ایک چھوٹی سے خوبصورت لائبریری بھی موجود ہے جس میں چار ہزار سے زائد نادر کتب ہیں جن میں سے دو ہزار کتب اقبالیات پر ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ کتابوں کی خرید کے لیے کبھی کوئی سپیشل بجٹ نہیں دیا لیکن اپنی مدد آپ اور مخیر لوگوں کی مدد سے یہ کتب خریدی گئی ہیں۔ آفیشلز نے بتایا کہ اقبال منزل کی تزئین و آرائش کی وجہ سے روزانہ آنے والے مہمانوں کی تعداد دو سو سے بھی بڑھ گئی ہے۔ بہت سے اقبال کے شیدائی پاکستان کے دور دراز کے علاقوں سے خاص طور پر سیالکوٹ آتے ہیں تاکہ وہ اقبال منزل دیکھ سکیں اور اقبال سے اپنی عقیدت کا اظہار کر سکیں،