البابرتی
البابرتی (714ھ – 786ھ = 1314ء – 1384ء) انھیں صاحب العنایہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا نام محمد بن محمد بن محمود یا محمد بن محمود بن احمد بابرتی ہے۔ اكمل الدين ابو عبد اللہ ابن الشيخ شمس الدين ابن الشيخ جمال الدين الرومی البابرتی یہ رومی ہیں بغداد کے اطراف میں ایک گاؤں "بابرتا"کی طرف نسبت سے البابرتی مشہور ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ (بابرت) ارزن الروم - أرض روم کے گرد و نواح میں سے ہے جو تركی میں واقع ہے۔ حنفی فقیہ، امام، محقق، باریک بین، ماہر علم حدیث اور عربی اصول و ادب کے اساتذہ میں سے ہیں۔ علم حاصل کرنے کے لیے پہلے حلب اور پھر قاہرہ کے سفر کیے۔ کئی مرتبہ عہدہ قضاء پیش کیا گیا مگر آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔ ان کی وفات مصر میں ہوئی۔
علامہ | |
---|---|
البابرتی | |
(عربی میں: مُحمَّد بن مُحمَّد بن محمود بن أحمد الرومي البَابِرْتي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1314ء بایبورت |
وفات | سنہ 1384ء (69–70 سال)[1] قاہرہ |
عملی زندگی | |
استاذ | ابو حیان الغرناطی |
تلمیذ خاص | ملا شمس الدین فناری |
پیشہ | عالم ، ماہرِ لسانیات ، فقیہ ، محدث |
پیشہ ورانہ زبان | عربی [2] |
شعبۂ عمل | علم کلام |
کارہائے نمایاں | العنایہ |
درستی - ترمیم |
شیوخ
ترمیم- قوام الدين الكاكی.
- ابو حیان غرناطی.
- شمس الدين الاصفہانی.
- ابن عبد الہادی.
- الدلاصی.
تلامذہ
ترمیم- ابو حسن جرجانی.
- شمس الدين الفناری.
- ابن قاضی سماونہ.
- سراج الدين الكنانی.[3]
تصنیفات
ترمیم- شرح تلخيص الجامع الكبير للخلاطی (فقہ)
- العقيدة(توحيد)
- العنایۃ في شرح الہدایہ(فقہ)
- شرح مشارق الانوار
- التقريرعلى اصول البزدوی
- شرح وصیۃ الامام ابی حنيفہ
- شرح المنار
- شرح مختصر ابن الحاجب
- شرح تلخيص المعانی
- شرح الفیہ ابن معطی
- النقود والردود
- حاشیۃ على الكشاف
- الارشاد( شرح الفقہ الاكبر لابی حنیفۃ)[4]
وفات
ترمیمالبابرتی کا انتقال جمعہ کی رات 19 رمضان 786ھ بمطابق 1384ھ کو ہوا جس کی عمر ستر سے زائد تھی اور سلطان نے ان کے جنازے میں شرکت کی ۔ شیخ شہاب الدین بن ابی حجلہ نے ان کی بہت تعریف کی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سی ای آر ایل - آئی ڈی: https://data.cerl.org/thesaurus/cnp00847671 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اگست 2018
- ↑ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/132053403 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 جولائی 2021
- ↑ المكتبة الشاملة: البابرتي. آرکائیو شدہ 2018-02-07 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ موسوعۃ الفقہیہ جلد1،صفحہ451،اسلامی فقہ اکیڈمی دہلی انڈیا