مقدسہ الفونسا (پیدائشی نام انّا مُٹاتُو پاڈاتو؛ 19 اگست 1910ء – 28 جولائی 1946ء) ایک ہندوستانی مسیحی راہبہ اور معلمہ تھیں۔ الفونسا پہلی ہندوستانی نژاد خاتون تھی جنھیں کاتھولک کلیسیا نے مقدسہ (ولیہ) کا رتبہ عطا کیا، نیز وہ بھارت میں واقع مشرقی کاتھولک شامی مالابار کاتھولک کلیسیا کی پہلی مقدسہ تھیں۔ الفونسا کی یاد میں 28 جولائی کو یوم تہوار منایا جاتا ہے۔

مقدسہ الفونسا
پیدائش19 اگست 1910(1910-08-19)
وفات28 جولائی 1946(1946-70-28) (عمر  35 سال)
سعادت ابدی8 فروی 1986ء
قداست12 اکتوبر 2008ء, ویٹیکن سٹی بدست پوپ بینڈکٹ XVI
مزارسینٹ میری شامی مالابار چرچ، بھرننگانم، کیرلا، بھارت
تہوار28 جولائی (شامی مالابار)
منسوب خصوصیاتکاتھولک مقدسہ
سرپرستیبیماری اور پاؤں سے متعلق امراض کے خلاف، چیروپُشپا مشن لیگ، ہندوستان

ابتدائی زندگی

ترمیم

الفونسا ایک شامی مالابار نصرانی خاندان میں چیریان اوزیف اور میری مُٹاتو پاڈاتو کے یہاں کوٹایم کے قریب واقع کوڈاملور میں 19 اگست 1910ء کو پیدا ہوئیں[1] اور 27 اگست کو انھیں بپتسمہ دیا گیا۔ الفونسا کی جائے پیدائش کیرالا کی نوابی ریاست تراونکور کے ایک گاؤں ارپوکارا ہے۔ یہ علاقہ آرچ ڈائیوسیز آف چنگناشیری میں پڑتا ہے۔

ان کے والدین انھیں پیار سے انّاکُٹی (چھوٹی انا) پکارا کرتے تھے۔ ان کا بچپن خاصی مشکلوں میں گذرا اور اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں ہی میں انھیں تکلیفوں اور مصائب کا خاصا تجربہ ہوا۔ ان کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ بچپن میں انھیں ان کی سخت گیر اور درشت رضاعی ماں بہت پریشان کرتیں اور اسکول کے بچے بھی انھیں ستایا کرتے تھے۔[2] انا کو ان کے تایا پادری جوزف پڑھاتے تھے۔ جب انّا تین برس کی تھیں تو انھیں چھاجن کا مرض لاحق ہو گیا جو ایک سال تک رہا۔[3]

سنہ 1916ء میں انّا نے آرپوکرا کے اسکول میں داخلہ لیا۔ 27 نومبر 1917ء کو الفونسا نے پہلی بار عشائے ربانی تناول کیا۔ سنہ 1918ء میں انھیں مٹوچیرا کے اسکول میں منتقل کر دیا گیا۔ چونکہ انا ایک صاحبِ ثروت خاندان سے تھیں اس لیے انھیں اونچے گھرانوں سے شادی کی متعدد پیشکش کی گئی۔ ان کی رضاعی ماں چاہتی تھیں کہ وہ کسی مالدار گھر میں بیاہی جائے۔ تاہم انّا نے ان تمام مادی ترغیبات اور آسائشوں کو ٹھکرا کر اپنی زندگی یسوع مسیح کے نام پر قربان کرنے کا عزم کر لیا تھا۔ سنہ 1923ء میں جلتے بھوسے کے ایک گڑھے میں گرنے سے انّا کے پیر جل گئے۔ مقامی افراد کے مطابق یہ سانحہ دانستہ پیش آیا تھا، انّا کی رضاعی ماں ان کی شادی کرنا چاہتی تھی جبکہ وہ اس پر رضامند نہیں تھیں، ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنی زندگی مذہب کے لیے وقف کر دیں،[2] چنانچہ اس سانحے کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے کچھ معذور ہو گئی۔

معجزات

ترمیم

ان کے ہاتھوں کئی سو کراماتی علاج رونما ہوئے ہیں جن میں بہت سے مڑے پیروں والے مریض بھی تھے، ان کے پیر سیدھے ہوئے۔ شاید اس لیے کہ وہ خود بھی بگڑے پیروں کے ساتھ رہی تھیں۔ ان میں سے دو واقعات کو ان کی کرامات کے ثبوت کے طور پر اجتماع برائے امور مقدسین (Congregation for the Causes of Saints) میں پیش کیا گیا ہے اور مزید کرامات کو "PassionFlower" مجلے میں پیش کیا گیا ہے۔[3]

وفات

ترمیم

صحت کے انتہائی سنگین مسائل سے دوچار ہونے کے بعد الفونسا نے 28 جولائی 1946ء کو دار فانی سے کوچ کیا۔ اس وقت ان کی عمر چھتیس برس تھی۔ الفونسا سینٹ میری کاتھولک چرچ، بھرننگانم، ٹریونکور میں پالا ڈایوسیز میں دفن ہوئیں۔[4]

مزار

ترمیم
 
مقدسہ الفونسا کی قبر

ان کا مزار سینٹ میری کاتھولک چرچ، بھرننگانم میں واقع ہے، جہاں مسیحی زائرین بڑی تعداد میں آتے ہیں اور یہاں کئی معجزات بھی دیکھے گئے ہیں، مثلاً مریضوں کی معجزاتی شفا یابی وغیرہ۔[5]

الفونسا - سنگ میل

ترمیم
واقعہ تاریخ
پیدائش 19 اگست 1910ء
بپتسمہ 27 اگست 1910ء
پہلی بار عشائے ربانی تناول فرمایا 27 نومبر 1917ء
سر ڈھانپا 2 اگست 1928ء
کیتھولک کلیسیا کے نویٹایٹ میں داخل ہوئیں 19 مئی 1930ء
اپنا ابدی اقرار یا عہد کیا 12 اگست 1936ء
وفات 28 جولائی 1946ء
قیام عدالت کے لیے نامزدگی 2 دسمبر 1953ء
رسولی عدالت کا آغاز 15 جولائی 1980ء
سعادت ابدی 8 فروری 1986ء
قداست 12 اکتوبر 2008ء

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Hacked by HEx | Team Blackleets"۔ stalphonsachurch.in (بزبان انگریزی)۔ 22 فروری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 دسمبر 2017 
  2. ^ ا ب Corinne G. Dempsey. Lessons in Miracles from Kerala, South India: Stories of Three "Christian" Saints. History of Religions, Vol. 39, No. 2, Christianity in India (Nov.، 1999)، pp. 150-176
  3. ^ ا ب "Patron Saints Index"۔ SQPN۔ 15 اکتوبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. ""St. Alphonsa"، Kerala Catholic Times"۔ 25 نومبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 مئی 2018 
  5. "Sister Alphonsa's canonisation date to be decided on مارچ 1"۔ Chennai, India: The Hindu۔ 26 فروری 2008۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2009 

بیرونی روابط

ترمیم