ولید بن مغیرہ عرب قبیلے بنی مخزوم کے سردار تھے اور جنگ کے معاملات اس کے سپرد تھے۔

ولید بن مغیرہ
معلومات شخصیت
پیدائش 530ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 622ء (91–92 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ لبابہ صغرى   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ولید بن ولید ،  عمارہ بن ولید ،  خالد بن ولید ،  ناجیہ بنت ولید بن مغیرہ ،  عمارہ بن ولید ،  ہشام بن ولید   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد مغیرہ بن عبد اللہ مخزومی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ذاتی زندگی

ترمیم

اس کے والد مغیرہ بن عبد اللہ تھے،ان کی زوجہ حضرت خالد بن ولید کی والدہ لبابہ تھیں اور خالد بن ولید، ہشام بن ولید اور عمارہ بن ولید ان کے بیٹے تھے۔ ان کی ایک بیٹی ناجیہ بنت ولید تھی جنھوں نے صفوان بن امیہ سے نکاح کیا۔ ولید بن مغیرہ کی موت تک حضرت خالد بن ولید نے اسلام قبول نہ کیا تھا۔

ولید کا شمار مکہ کے دولت مند اور سرمایہ دار افراد میں ہوتا تھا۔ ان کے تجارتی کاروان میں 100 اونٹ ہوتے تھے ایام حج میں روزانہ 10 اونٹ ذبح کر کے حجاج کو کھانا کھلاتا تھا یہ سلسلہ 40 روز تک جاری رہتاتھا۔606ء میں ولید بن مغیرہ نے خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کے لیے سب سے زیادہ رقم کی دائیگی کی تعمیر کعبہ کے وقت ولید نے قریش کے افراد سے کہا کہ وہ ناجائز کمائی کو اس کام میں نہ لائیں۔ خانہ کعبہ کی عمارت کو گراتے وقت ہر شخص خوف زدہ تھا کہ کہیں عذاب نازل نہ ہو جائے مگر ولید بن مغیرہ نے یہ کہہ کر پہلی ضرب لگائی "یارب کعبہ ! ہم نیک کام کرنا چاہتے ہیں"اس نے کعبہ شریف کے دو کونے گرائے۔ اس پر عوام نے کہا "ہم رات کو دیکھیں گے اگر کوئی اثر(عذاب) ولید پر نازل ہوا تو ہم کعبہ کی عمارت کو نہیں گرائیں گے۔ اگر ولید کو کچھ نہ ہوا تو اس کا مطلب کہ اللہ اس کام سے خوش ہے"اگلے دن ولید بخیروعافیت کعبہ میں داخل ہوا تو لوگ مطمئن ہو کر اس کا ساتھ دینے لگے۔

مخالف اسلام

ترمیم

جب قریش مکہ نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ تبلیغ اسلام زور وشور سے کر رہے ہیں اور قریش کے منع کرنے کا کوئی اثر نہیں ہو رہا اور ابو طالب ان کے سرپرست ہیں تو ولید بن مغیرہ نے فیصلہ کیا کہ ابو طالب کے پاس وفد بھیجا جائے جس میں ابوسفیان بن حرب، شیبہ بن ربیعہ، ابولبختری بن ہشام، اسود بن عبد المطلب، ابوجہل، منبہ بن حجاج اور نبیاح بن حجاج شامل تھے وفد نے ابو طالب سے کہا "اگر آپ کا بھتیجا (محمد ﷺ) چاہتے ہیں تو ہم انھیں اپنا سردار مان لیتے ہیں اگر کسی خوب صورت عورت سے شادی کرنا چاہیں تو ہم تیار ہیں کہ ان کی شادی کروا دیں اس کے بدلے میں وہ (محمد ﷺ) تبلیغ اسلام چھوڑ دیں۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا: اگر آپ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو بھی میں اسلام کی تبلیغ نہیں چھوڑوں گا"۔

وفد کی ناکامی کے بعد قریش نے ابوطالب کے پاس ایک وفد بھیجا جس میں یہ کہا گیا کہ آپ اپنے بھتیجے محمد ﷺ کی سرپرستی چھوڑ دیں اور محمد ﷺ کو ہمارے حوالے کر دیں ہم آپ کو محمد ﷺ کے بدلے میں ولید کے بیٹے عمار کو قبول کر لیں جو قریش کے جوانوں میں طاقت ور، عقل مند اور پر کشش جوان ہے اس جوان کی وجہ سے عزت اور ادب و احترام میں اضافہ ہو گا جبکہ آپ کا بھتیجا محمد ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہہ رہا ہے اور ہمارے آبا و اجداد کے دین سے لوگوں کو متنفر کر رہا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم