ریاست بھیکم پور و دتاؤلی
امارت بھیکم پور و دتاولی صوبہ اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں واقع ہندوستان کے عہد استعمار کی ایک نیم نوابی ریاست تھی جو آزادی ہند کے بعد ڈومینین بھارت میں ضم ہو گئی۔ ہندوستان میں برطانوی راج کی آمد سے قبل تقریباً چار صدیوں تک افغان شہر جلال آباد کے شیروانی پٹھانوں کی نسل اس کی حکمران رہی۔[1] مغلیہ سلطنت کے زوال اور برطانوی راج کے عروج کے درمیانی عرصے میں شیروانی پٹھانوں کی یہ نسل عملاً خود مختار ہو گئی تھی۔
بھیکم پور و دتاولی | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مغلیہ سلطنت کا زوال–1947 | |||||||||
تاریخ | |||||||||
تاریخ | |||||||||
• | مغلیہ سلطنت کا زوال | ||||||||
• | 1947 | ||||||||
| |||||||||
آج یہ اس کا حصہ ہے: | علی گڑھ، اتر پردیش، بھارت |
تاریخ
ترمیمشیروانی پٹھانوں کے اس قبیلے کی دو اہم شاخیں تھیں، بھیکم پوری شاخ اور دتاولی شاخ۔ ان دونوں شاخوں میں آپسی شادی کا رواج تھا۔ چنانچہ اس قبیلہ کا سلسلہ نسب باہمی قرابتوں کا ایک چیستاں معلوم ہوتا ہے۔ آپسی شادیوں کی بنا پر خاندانی جائداد اور اثاثے اسی قبیلہ میں محفوظ رہے۔ اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والا شیروانی خاندان جدت پسندی اور قدامت پسندی کا خوب صورت امتزاج معلوم ہوتا تھا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ شیروانی خاندان حصول تعلیم کا زبردست حامی رہا خواہ تعلیم اسلامی ہو یا مغربی۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ خاندان تعلیم نسواں کا بھی داعی تھا لیکن خاندان کی خواتین حصول تعلیم کے ساتھ سخت پردہ میں رہتیں اور گھر میں رہ کر تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ شیروانیوں کی وفادارانہ سیاست سول سروس اور اصلاحی انجمنوں میں رکنیت سے ظاہر ہوتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل اور بعد میں شیروانیوں نے برطانیہ مخالف تحریکات کی مخالفت بھی کی تھی۔[2]
مشہور ارکان خاندان
ترمیمضلع علی گڑھ میں آباد شیروانی خاندان کی معروف شخصیتیں حسب ذیل ہیں:
نواب شجاعت خان: مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے سپہ سالار۔[1]
نواب باز خان (1750ء – 1830ء): سنہ 1803ء میں معرکہ علی گڑھ میں لارڈ لیک کے ہاتھوں مرہٹوں کی شکست کے بعد نواب باز خان انگریزوں سے جا ملے تھے۔[3]
نواب داؤد خان (1785ء – 1866ء): سنہ 1833ء میں انگریزوں نے جب قلعہ آگرہ کی قیمتی اشیا کو نیلام کیا تو انھوں نے اس کا ایک دروازہ خرید کر سنہ 1835ء میں قلعہ بھیکم پور میں لگایا تھا۔ بعد ازاں سنہ 1961ء میں شیروانی خاندان نے یہ دروازہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بطور تحفہ پیش کیا جہاں اسے 1963ء کو نصب کر دیا گیا۔[4]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب "Heritage & History"۔ www.bhikampurlodge.in۔ 23 مئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2016
- ↑ "Zay Khay Sheen, Aligarh's Purdah-Nashin Poet" (PDF)۔ Columbia University (بزبان انگریزی)۔ Columbia University۔ صفحہ: 2۔ 23 مئی 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2016
- ↑ Separatism among Indian Muslims: The Politics of the United Provinces' Muslims, 1860–1923 by Francis Robinson: (Cambridge South Asian Studies, No. 16): New York: Cambridge University Press, 469 pp., Publication Date: February 28, 1975
- ↑ "Architectural History" (PDF)۔ Aligarh Muslim University۔ 23 مئی 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2016