انسانی ارتقا ایک ایسا ارتقائی عمل ہے جس کے نتیجے میں جسمانی طور پر جدید انسانوں کے ظہور کا آغاز ہوا، جس کی ابتدا پریمیٹوں کی خاص ارتقائی تاریخ - خاص طور پر نسل ہومو سے ہوئی اور ہومو سیپینوں کے ظہور میں امتیازی طور پر ہومینڈ خاندان کی ایک الگ نوع ہے۔ بندر۔ اس عمل میں انسانی بائیپیڈلائزم اور زبان جیسے خصائص کی بتدریج نشو و نما شامل تھی، اسی طرح دیگر ہومینز کے ساتھ مداخلت بھی کی گئی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی ارتقا خطیر نہیں تھا بلکہ ایک ویب تھا۔

زندگی کی ابتدا ترمیم

کرہ ارض کی عمر تقریباً پانچ ارب سال ہے۔ زمین پر زندگی کا آغاز تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پہلے ہوا۔ حیوانات اور نباتات کی علیحدگی تقریباً ایک ارب سال پہلے ہوئی۔ تقریباً پچاس کروڑ سال پہلے زندگی سمندر سے زمین پر آئی۔

ابتدائی جد ترمیم

انسان کے جد کا سلسلہ چھ سے سات کروڑ سال پہلے چار پاؤں والے شجری جانور سے شروع ہوا۔ جو درخت کے قدیم چھچھوندر سے ملتا جلتا تھا۔ یہ ایک لمبی ناک والا گلہری نما جانور تھا۔ جس کے چار پاؤں اور دم بھی تھی۔ یہ دم جد انسان کے قدیم بالغ جد کی نہیں بلکہ جینی جد کی نمائندگی کرتی ہے۔

انسان، گائے، مرغی، کچھوے اور مچھلی کے موازنہ کریں تو یہ اپنے آغاز میں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ بعد میں جوں جوں ان کی نشو و نما ہوتی ہے ان کی شکل و صورت مختلف ہوتی جاتی ہے۔

دوسرا مرحلہ ترمیم

اگلا مرحلے میں اس مخلوق کے جسمانی حجم میں اضافہ اس کے تنے پر چمٹ کر چڑھنے کے باعث ہوا۔ جس میں اس کے اگلے پاؤں بطور بازو اور پچھلے پاؤں بطور پاؤں کے استعمال ہوتے تھے۔ اس کے بعد شاخ در شاخ چھولنے لگا تو اس سے اس کی چھاتی چوڑی اور کمر سیدھی ہو گئی، ٹانگیں بدن کی سیدھ میں آگئیں اور پاؤں کا کندھوں کے ساتھ جوڑ آزاد ہو گیا۔ جس کی بدولت بازو دائیں بائیں اور اوپر نیچے آگے، پیچھے حرکت کرنے کے قابل ہو گیا۔ اس عمل سے گزرنے باعث دوسرے چوپایوں کے اگلے پاؤں ایسی حرکت نہیں کرسکتے ہیں۔ حلانکہ گھوڑے کا ظہور چھ کروڑ سال قبل ہوا تھا۔ لیکن ان کا ارتقا دوسرے رخ پر ہوا۔ قدیم گھوڑے کے پاؤں میں چار کھڑ تھے اور اس کا قد کندھے تک ایک فٹ سے بھی کم تھا۔ اس دانت چھوٹے تھے اور وہ نرم گھاس کھاتا تھا۔ اس سے ترقی کرکے آج کے گھوڑے کی صورت میں سامنے آیا۔ جو سخت گھاس کھا سکتے ہیں۔

انسان کے اجداد شاخ در شاخ جھولنے کے مرحلے میں زیادہ نہیں رہے۔ جھولنے کی عادت بندروں کے اجداد میں طویل عرصہ تک رہی۔ جس کے باعث ان کی آئندہ نسلوں کے بازوں میں بے جا طوالت پیدا ہو گئی اور ٹانگیں کمزور ہو گئیں۔

تیسرا مرحلہ ترمیم

تیسرے زمانے کے شروع میں آب و ہوا گرم تھی۔ گرم خطہ استوا کے دونوں طرف خطہ جدی اور سرطان تک پھیلا ہوا تھا۔ پہلے نذدیکی زمانے میں ( چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل تا پانچ کروڑ نوے لاکھ قبل ) آزاد شیر دار جانوروں PRIMATES کی کئی نسلیں پھیلیں تھیں۔ اسی زمانے میں ( چار کروڑ سال قبل ) ماقبل مانس PROSMIAN مخلوق زمین پر رہتی تھی۔ اس کے چونتیس دانت تھے۔ یہ ترقی کر کے مانس نما مخلوق بنی۔ جسے دوطرفہ مانس AMPHIPITHECUS کہتے ہیں۔ اس کی جبڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا برما سے ملا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ کوئی اور قابل ذکر ثبوت اس کے بعد آنے والے زمانے یعنی فجری نزدیکی زمانہ Eocene تک نہیں مل سکا۔

چوتھا مرحلہ ترمیم

اس کے بعد خفیف نزدیکی زمانہ Oligocene ( تین کروڑ چالیس لاکھ سال سے دو کروڑ پچاس لاکھ سال قبل ) قدیم بندر اور انتہائی قدیم انسان نما مانس وجود میں آئے۔ دو طرفہ مانس کے بعد اس دور میں یعنی لگ بھگ تین کروڑ سال پہلے خفیف مانس OLIGOPITHECUS وجود میں آیا۔ یعنی ایسی مخلوق کس قدر مانس تھی اور زیادہ تر ماقبل مانس یہ پرانی دنیا کا بندر تھا۔ اس کے دانت انسانوں کی طرح 32 تھے اور یوں یہ ماقبل مانس سے ایک قدم آگے تھا۔ خفیف مانس سے براہ راست بندر پیدا ہوا یعنی آج کل کے بندر کا جد امجد۔ خفیف مانس کا قدم تقریباً ایک فٹ اونچا تھا اور چوپایہ تھا اور شاید یہ براہ راست انسانوں کے جدوں میں نہیں آتا ہے اور یہ تین کروڑ سال قبل دنیا میں موجود تھا۔ اس کے مجہرات FOSSILES مصر سے جنوب و مغرب میں ایک جگہ فایوم سے ملے ہیں۔ فایوم سے جو مجہرات ملے ہیں ان میں جھاڑیوں کے وافر مجہرات ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس عہد میں وسیع جنگلات تھے اور جن میں کترنے والے جانور، کھر دار سبزی خور شیر دار جانور، سور، چھوٹے ہاتھی اور شیر دار جانورں بکثرت تھے۔ ان میں بعض مشہور قسموں میں سے ایک شیر دار پیرا پتھے کس PARAPITHECUS کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اسے افریقی بندروں کا پیشرو سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح پیرا پتھے کس کی ایک قسم اپیڈیم کے مجہرات بھی ملے ہیں۔ جس سے بعد میں میں آنے والے (زیادہ نزدیکی زمانہPliocene) میں یوپتھے کس جنم لیا۔ جو ایک گبن نما مخلوق تھی۔

مصر میں فایوم ہی سے خفیف نزدیکی زمانہ کے جو مجہرات ملے ہیں ان میں کئی قسم کے بن مانس بھی شامل ہیں۔ انہی میں ایک مشہور بن مانس ہے جس کو ماقبل زائد مانس پروپلا یوپتھے کس PIEROLALPITHECUS کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تین کروڑ سال قبل کی مخلوق ہے۔ شروع شروع میں اسے موجودہ گبن کے شجرہ نسب میں رکھا گیا۔ لیکن بعد کی تحقیقات سے اس بات کا امکان پیدا ہوا کہ یہ موجودہ انسان کے شجرہ نسب میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس خیال کو اس کے دانتوں کی ساخت سے مزید تقویت ملی ہے۔ اس کی جسمانی ساخت بندروں سے زیادہ مانس سے مشابہ تھی۔ لیکن یہ بات ابھی قیاس آرائی ہے اور اس کو فیصلہ کن طور پر تسلیم کرلینے کے لیے مزید شواہد کی ضرورت ہے۔ یہ جاندار بھی چوپایہ تھا۔

پانچواں مرحلہ ترمیم

کم نزدیکی زمانہ Mioicene (دو کروڑپچاس لاکھ سال تا ایک بیس ہزار سال قبل) آزاد شیر دارں کے ارتقا میں زبر دست اہمیت کا حامل ہے۔ اسی زمانے میں بڑے بڑے قد و قامت کے آزاد شیر دار دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ خاص کر ایشیا، افریقہ اور یورپ میں ان کی پچاس انواع کے ڈھانچے ملے ہیں۔ جن کو بیس قسموں میں تقسیم کیا گیا۔ انہی میں مشہور دیو قامت مانس DRYOIPATHCUS بھی شامل ہیں۔ اس کا ڈھانچے فرانس میں 1852ء میں ملے۔ اس کے کثیر تعداد میں ڈھانچے مشرقی افریقہ میں ملے جو اسی زمانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سارے جانور آتش فشاں پٹھنے اور لاوے میں دب جانے کی وجہ سے مخجر کی شکل میں محفوظ ہو گئے۔

اسی زمانے میں کرہ ارض کی تاریخ کا سب سے دراز قامت کا جانور بلوچی تھریم baluchitherium پاکستان میں پایا جاتا تھا۔ اس کا زمانہ دوکروڑ ساٹھ لاکھ سال قبل کا ہے۔ یہ درختوں کے پتے کھاتا تھا اور بغیر سینگ کا جانور تھا۔ اس قد کندھے تک 5.5 میٹر ( 18 فٹ ) تھا، ارتقائے حیات میں شروع سے اب تک کا یہ سب سے بھاری بھرکم اور دراز قامت جانور ہے۔ اس کی کھوپڑی گو جسم کے مقابلے میں چھوٹی ہے لیکن پھر بھی چار فٹ تھی۔ اس کی اگلی ٹانگیں نسبتاً لمبی تھیں اور یہ اونچے درختوں کے پتے کھاتا تھا۔ انڈیکو تھریم Indicotherium اس جانور کا رشتہ دار تھا۔ جدید گینڈے جس کے چہرے پر سامنے ایک یا دو سینگ ہوتے ہیں اسی کی نسل سے مانے گئے ہیں۔

اس عہد کے انسان نما مانس ANTHROPOID APE کو انسان کا پیش رو تسلیم کیا گیا ہے۔ قدیم انسان نما مانس ارتقا کے مراحل سے گزرتا ہوا مختلف خارجی حالات کے تحت دو شکلوں میں منقسم ہوا۔ ایک وہ جو موجودہ انسان تک پہنچی اور دوسری وہ جو موجود مانس تک پہنچی۔ مانس کی چار قسمیں اب بھی موجود ہیں۔ یعنی گبن، چمپائزی، گوریلا اورنگوتان۔

اولین اجداد ترمیم

یہ مسئلہ کہ کب اور کس وقت نسل آدم نسل مانس سے علاحدہ ہوئی۔ ابھی تک یہ طے نہیں ہوا۔ ماہرین کی اکثریت نے جو تحقیقات کیں ہیں ان کی بنا پر جو تخمینے لگائے گئے ہیں، ان کے مطابق غالباً دو کروڑ سال قبل اور اقلیتی رائے کے مطابق صرف پچاس لاکھ سال پہلے انسان کی نسل مانس نسل سے علاحدہ ہوئی اور انسانی نسل کا آغاز کا رام مانس RAMAPITECUS سے تسلیم کیا گیا ہے۔ رام مانس وہ مخلوق ہے جس نسل سے صرف انسان زندہ ہے۔ باقی شاخیں جو کوئی بھی بنیں وہ راستے میں ہی معدوم ہوگئیں۔ گو رام مانس بذات خود انسان نہیں ہے، لیکن انسان کا پیش رو ضرور ہے اور دوسرے کسی ہم عصر کا پیش رو نہیں ہے۔ یوں وہ انسان کا قدیم ترین جد ہے اور انسانیت کا نقطہ آغاز تھا۔ وہ حیوانی سرحد کو پھلانگ کر انسانی دائرے میں داخل ہونے والی سب سے پہلی مخلوق ہے۔

راما مانس کو نسل انسانی کی طرف آنے کا نقطہ آغاز تسلیم کریں تو اس کا شجرہ نسب کچھ یوں بنتا ہے۔

( 1 ) راما پتھے کس Ramapithecus رام مانس یا پوٹھوہار مانس دو کروڑ اسی لاکھ قبل۔ 1.1 میٹر یا 1.2 میٹر وزن 40 پونڈ نیم ایستادہ اوزار ساز نہیں تھا۔ انسان نما مانس میں یہ پہلی کیفیتی تبدیلی تھی۔ جانوروں کی دنیا میں انسانی نسل کا آغاز۔ ابتدائی شکل میں۔

( 2 ) آسٹریلو پتھے کس Australopithecus۔ جنوبی مانس 28 لاکھ تا 10 لاکھ سال قبل۔ اس کی تین قسمیں تھیں۔

1 = افریقی جنوبی مانس۔ آسٹریلو پتھے کس افریکانس Australopithecus Africanos۔ نسل انسانی کا جد امجد۔ 20 لاکھ تا 15 لاکھ سال قبل۔ وزن 45 تا 60 کلو گرام۔ دماغ 519 کیوبک سینٹی میٹر۔ اوزار ساز تھا اور انسانی مانس تھا۔

2 = ہو مور ہیسیس Homeorhesis۔ نازک اندام مانس۔ قابل آدمی۔ چالیس لاکھ تا 25 لاکھ قبل۔ دماغ 640 کیوبک سینٹی میٹر۔ اوزار ساز تھا۔ ساڑھے تین تا ساڑھے فٹ لمبا اور دو پایہ تھا۔ ناطق ہونے کا امکان ہے۔ اس کی نسل معدوم ہو چکی ہے۔

3 = گرانڈ جنوبی مانس۔ وزن 150 پونڈ۔ دوپایہ۔ دس لاکھ قبل۔ دماغ 435 تا 530 کیوبک سینٹی میٹر۔ یہ مانس نہیں تھا انسان تھا۔ اس کی نسل معدوم ہو چکی ہے۔

( 3 ) ہوموار کٹس Homo Erectus۔ کھڑا آدمی = ظہور آدم دوسری کیفیتی تبدیلی۔ ارتقا کے بعد انقلاب کا مرحلہ۔ 15 لاکھ تا ایک لاکھ سال قبل۔ یہ انسان تھا مانس نہیں رہا تھا۔ اوزار ساز تھا۔ آگ استعمال کرتا تھا۔ ناطق نہ تھا۔ اس کی شکلیں جاوا انسان اور پیکنگ انسان ہے۔

( 4 ) ہوموسیپئین باشعور آدمی Homo Sapines۔ چھ لاکھ سال سے پندرہ ہزار قبل۔ یعنی قدیم ہجری دور۔ اس کی شاخیں نی اینڈرتھال انسان Neanderthal۔ کرومیگنان انسان Cor Magnon Man۔ چلاس انسان، شنگھاؤ انسان۔

( 5 ) ہومو سیپیئن سیپیئن Homo Sapines Sapines۔ باشعور باشعور انسان = موجودہ انسان۔

جنوبی مانس نے اوزار بنانے سیکھے۔ اوزار بنانے کی محنت نے اس کو مزید ترقی دی اور آئندہ زمانے میں ) یعنی چوتھے زمانے میں ( وہ ارتقا کے بلند ترین مرحلے میں داخل ہوا، یعنی جدید انسان بنا۔ چوتھا زمانہ The Quarternary peroid میں انتہائی نزدیکی زمانہ Pleistocene میں زمین پر بار بار زبر دست موسمی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ بار بار زمین کے بیشتر حصوں پر خصوصاً شمالی علاقوں پر برف کی موٹی دبیز تہیں چھاگئیں۔ جن کی موٹائی دس ہزار فٹ ( تین ہزار میٹر ) یا اس سے بھی زیادہ ہوتی تھی اور پھر بار بار یہ برف پگھل گئیں۔ اسی زمانے کے دوران میں برف جمنے اور پگھلنے کے آٹھ ادوار کی نشان دہی ہوتی ہے۔ آخری برف آج سے دس ہزار سال پہلے پگھل کر ختم ہوئی۔ یوں اس پورے دور کو برفانی دور کہا جاتا ہے۔ جس میں بار بار برف پگھلی اور جمی۔ اس شدید موسمی کایا پلٹ کی بنا پر بہت سے جانوروں کی اقسامیں معدوم ہوگئیں اور بہتوں میں زبردست ارتقا ہوا اور ارتقا کا انقلابی مرحلہ یعنی کیفیتی تبدیلی کا مرحلہ اسی دور میں ہوا۔ اسی دور میں جدید انسان اپنی موجودہ شکل میں سامنے آیا۔ انسانیت کی صبح صادق اسی عہد میں طلوع ہوئی۔ قدیم پتھر کا زمانہ اسی دور سے تعلق رکھتا ہے۔ جو تقریباً! پچیس تیس لاکھ سال قبل سے شروع ہو کر بارہ ہزار سال قبل ختم ہوتا ہے۔ قدیم پتھر کے زمانے کے علی الترتیب تین حصہ کیے جاتے ہیں۔ (1) نچلا قدیم پتھر کا دور۔ (2) درمیانہ قدیم پتھر کا دور۔ (3) بالائی قدیم پتھر کا زمانہ۔

پتھر کے ادوار کے بعد انسان کا جسمانی ارتقا اس مرحلے پر پہنچ گیا جہاں سے آگے ذہنی، فکری اور سماجی ارتقا کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ مقام جسمانی ارتقا کی انتہا اور سماجی اور فکری ارتقا کی ابتدا ہے۔

ارتقا کے مرحلے ترمیم

ماہرین ارتقائے انسانی کے اسباب عموماً خارجی بتاتے ہیں۔ مثلاً زمین کی پرتوں کا ابھرنا، لاوے کا زمین میں پھٹ پڑنا اور آب و ہوا میں نمی کا کم ہوجانا۔ مگر یہ اسباب اپنی حد تک ناکافی ہیں۔ کیوں کہ ضروری ہے کہ تبدیلی کے لیے مخلوق کے جسم کے اندر بھی تبدیلی کے اسباب موجود ہوں، جو ان کو اس قابل بنائیں کہ وہ بدلتے ہوئے خارجی حالات کے دباؤ کے تحت اپنے آپ کو تبدیل کرسکیں اور حالات سے مطابقت اختیار کرسکیں۔ جدولیات کا سادہ سا اصول ہے کہ خارجی حالات تبدیلی شرائط یا ماحول ہیں اور اندرونی اسباب تبدیلی کی بنیاد ہیں اور یہ کہ بیرونی اثرات اندرونی اسباب کے ذریعے عمل پزیر ہوتے ہیں۔

طبعی سائنس کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے سائنس دان بھی بعض اوقات عینی نقطہ نظر کے حامل ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سارے طبعی شواہد سے جب نتیجہ نکالتے ہیں تو عینی سوچ کی وجہ سے غلط نتائج کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بہر حال حیات و کائنات کے بارے میں جدولیاتی نقطہ نظر رکھنے کی وجہ سے ماہرین کے نذدیک مانس سے انسان تک پہنچنے میں محنت کے کردار کو مرکزی اور بنیادی عنصر تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ محنت اوزار اور ان کے استعمال اور ان کے بنانے کی شکل میں بھی ہوتی ہے اور دیگر متعلقہ شکلوں میں بھی مندرجہ ذیل باتیں اس انقلابی تبدیلی کے لیے ضروری ہے۔

1 = مانس سے انسان کی سطح تک ترقی کرنے والے لوگ اپنی زندگی کا لازمی حصہ زمین پر رہے ہوں گے۔ جس میں انھوں نے درختوں کی زندگی کے طور و طریقوں کو چھوڑ کر زمینی زندگی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا ہوگا۔ درختوں پر چلنے کی نسبت زمین پر چلنے کا وقت زیادہ رہا ہو گا۔ جس میں لازمی طور پر ان کے ہاتھ آزاد ہوئے ہوں گے۔

2 = بیٹھ بھی سکتے ہوں گے، جس میں ان کے ہاتھ آزاد رہتے ہوں گے اور کبھی کبھی سیدھے کھڑے ہوتے ہوں گے یا دو پاؤں پر چلتے ہوں گے۔ جس سے ہاتھوں کو چلنے کے عمل سے آزادی ملی ہوگی۔

3 = قدرتی اشیاء کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوں گے۔ مثلاً چھڑی یا پتھر کو اپنے دفاع یا خوراک کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہوں گے۔

4 = ان کے ذہن کم از کم اتنی ترقی کر گئے ہوں گے کہ معروضی دنیا سے کچھ نہ کچھ اثرات قبول کریں اور انھیں تصورات کی شکل میں ڈھال دیں۔ چاہے وہ تصورات کتنے ہی بھدے اور بھوندے کیوں نہ ہوں۔

5 = سامنے کی طرف سیدھا دیکھ سکتے ہوں گے۔ جس سے ان کا حیطہ بصارت وسیع ہوا ہوگا اور قوت مشاہدہ میں اضافہ ہوا ہوگا۔

6 = اپنے بچوں کی طویل عرصہ تک نگہداشت کرتے ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں انھیں بڑوں کے تجربہ سے سیکھنے اور ذہن کو ترقی دینے کے مواقع ملتے ہوں گے۔

7 = نسلوں کی افزائش اس مرحلے پر پہنچ گئی ہوگی کہ ایک ایسی آبادی وجود میں آگئی ہوگی۔ جس میں لوگ اجتماعی طور پر رہتے ہوں گے۔ انسان تمام جانداروں میں سب سے زیادہ اجتماعیت پسند ہے۔ اس لیے یہ باور کرنا کہ کہ ہمارے اسلاف اجتماعیت پسند نہیں ہوں گے۔ انسان یقیناً غیر اجتماعیت پسند ماضی سے تعلق نہیں رکھتا۔

8 = یقینا پودوں کی خوراک کے علاوہ گوشت بھی کھایا جاتا ہوگا۔ اولین اوزار ساز یعنی جنوبی مانس شکاری اور گوشت خور تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک کروڑ سال قبل کینیا میں مانس پتھر کے ذریعہ ہڈیوں کو ٹور کو مغز نکالنے کا فن جانتے تھے۔

9 = آواز اور جسمانی حرکات کو اظہار مدعا کے لیے استعمال کرتے ہوں گے۔ یعنی یہ ان کی صلاحیت گفتگو تھی۔ چاہے کتنی ہی پسماندہ اور وقت طلب ہو۔ یہ زبان کی شروعات تھی۔

10 = ان اندرونی اسباب کے علاوہ خارجی اسباب بھی تبدیلی کے لیے لازمی ہیں۔ کیوں کہ خارجی اسباب کے بغیر بھی تبدیلی ناممکن ہے۔ حقیقت کے صرف ایک رخ کو تسلیم کرنا اور دوسرے کو نظر انداز کرنا صداقت سے آنکھیں چرانا ہے۔

مانس کے انسان بننے کے جو خارجی عوامل بتائے گئے ہیں۔ ان میں کئی قسم کی تفصیلی توجیہات ہیں۔ لیکن ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ’ موسم میں تبدیلی ‘ واقع ہو گئی۔ موسم میں تبدیلی کے متفرق نظریات میں سب سے مقبول زمین کے بہت سارے حصوں پر برف کی تہ چڑھ جانے سے کا نظریہ ہے۔ جسے ’ برف بندی ‘ کہنا چاہیے۔ برف بندی معتدد بار ہوئی اور یہ برف معتدد بار پگھلی۔ ان زبردت تبدیلیوں کے دوران میں صرف وہی نسلیں بچ سکتی تھیں جو حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتی تھیں اور نئی سمتوں میں ترقی پاسکتی تھیں۔ اولین اوزار ساز نسلوں کے شواہد تیس لاکھ سال سے بیس لاکھ سال قبل ملے ہیں اس سے پہلے نہیں۔ یہ زمانہ ارضی تبدیلیوں کا زمانہ تھا بہ نسبت کسی اور زمانے کے اور اسی عہد کی عظیم “جدوجہد برائے بقاء“ میں مانسی نسلوں نے وہ عظیم انقلاب برپا کیا، جس میں انسان ظہور آیا۔ یوں انسانی ماقبل تاریخ کا ابتدائی دور محنت اور جدو جہد برائے بقاء سے عبارت ہے۔

قانون تعدیم ترمیم

بقائے اصلح کا قانون اس طرح سے عمل کرتا ہے کہ کسی بھی ایک نوع کی جتنی بھی اولادیں ہوئیں وہ کبھی بھی ساری کی ساری پروان نہیں چڑھتی ہیں۔ ان میں سے بے شمار بچے اندرونی کمزوریوں اور بیرونی نامساعد حالات کے دباؤ کے تحت ختم ہو گئے۔ کئی بچے جنین کی حالت میں فناء ہو گئے۔ کئی بچپن، چھٹپن اور کئی لڑکپن میں۔ البتہ کچھ ضرور ایسے ہوتے ہیں جو جوان اور بالغ ہوئے اور انھوں نے پھر اپنے بچوں کو جنم دیا۔ بلوغت سے پہلے مرجانے والوں میں کوئی نہ کوئی ایسی اندرونی کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں کہ وہ خارجی مشکلات کے زور سے تلف ہو گئے اور ان مشکلات سے جنگ کرتے ہوئے اپنے آپ کو حالات کے تقاضوں کے تحت ڈھالتے ہوئے زندہ بچ نکلنے والوں میں ضرور کچھ اندرونی خصوصیات تھیں جنھوں نے ان میں مقابلے کی بہترین صلاحیت پیدا کی۔ حالانکہ راہ میں مر جانے والوں اور بچ نکلنے والوں کی نوع ایک ہی تھی۔ بعض افراد کے والدین مشترک ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان باقی گروہوں میں کوئی نہ کوئی امتیازی صفات تھیں۔ جو ایک کی تباہی اور دوسرے کی بقاء کا باعث بنیں۔ یہی صفات بقائے اصلح کی بنیاد ہیں۔ ان صفات میں ضروری خصوصیت ضروری یہ بھی تھی کہ یہ وراثتاً قابل انتقال تھیں۔ یہ صرف محض اتفاق نہیں تھیں۔

یوں درجہ بہ درجہ ایک نوع مقداری تبدیلی سے ہمکنار ہوتی رہی اور زبردست جدوجہد نے اسے انقلابی تبدیلی سے ہمکنار کر دیا۔

پرانی مخلوق کے معدوم ہوجانے کا ایک طریقہ تو یہی ہے تھا کہ جب حالات بدل گئے اور وہ اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق نہ ڈھال سکیں تو فنا ہوگئیں۔

ایک طریقہ تعدیم کا یہ رہا کہ ایک مخلوق کی اولادیں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے کو تبدیل کرتی رہیں اور بچ نکلیں۔ جب کہ ان کے بے شمار ہم نسل راہ ہی میں فنا ہو گئے۔ بچ نکلنے والوں کی اندرونی صفات کے علاوہ خارجی اعضاء میں بھی اتنا فرق پیدا ہو گیا کہ وہ اپنے اجداد کے مماثل نہ رہیں۔ ایک وقت وہ آگیا کہ پوری نئی نسل اپنے اجداد کی پوری نسل سے ممتاز نظر آنے لگی۔ یوں ایک نسل معدوم ہو گئی اور اس کی جگہ ایک اور نسل نے لے لی۔ گو کہ ان ہی کہ جنم دی ہوئی تھی۔

ایک طریقہ تعدیم کا یہ رہا کہ کوئی اور طاقت ور مخلوق کسی دوسری مخلوق کا قتل عام شروع کر دیتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں نسلیں تقریباً ایک درجہ حیات کی مخلوقات ہوں، ان کے رہن سہن کے گیاہستان، جنگلات اور میدان وغیرہ قریب قریب ہوں یا مشترک ہوں۔ ان میں خوراک کی قلت ہوئی ہو اور یوں مخاصمت اور پھر بقاء کی جنگ شروع ہوئی ہو۔ جس کا طریقہ یہ رہا ہوگا کہ طاقتور مخلوق کے افراد نے کمزور مخالفین کو جہاں دیکھا، حملہ کیا اور مار دیا۔ اس طرح ہزاروں بلکہ لاکھوں برس میں ایک ہی مخلوق معدوم ہوئی ہوگی۔ یہ طریقہ تاریخ میں رہا تو ہے مگر بہت کم۔ زیادہ تر پہلے طریقوں سے ہی نسلیں معدوم ہوئی ہیں۔ بہر حال ماہرین کا خیال ہے کہ نازک اندام جنوبی مانس کو ہزاروں گرانڈیل جنوبی مانسوں نے چن چن کر مارا یا ختم کیا ہے۔

گمشدہ کڑی ترمیم

اگر انسان قدیم مانس سے ترقی پا کر بنا ہے تو پھر مانس اور انسان کے درمیان میں رابطہ کی کڑی کون سی ہے۔۔ وہ کون سی مخلوق تھی جو آدھی مانس آدھی انسان تھی۔ یہ سوال ماہرین کے درمیان میں خود ساختہ مفروضہ کے طور پر نکلا ہے۔ گویا کوئی ایسی رابطہ کی کڑی ہونا ضروری تھی۔ جہاں آدھا مانس اور آدھا انسان یک جا ہو۔ لیکن دریافت شدہ مجہرات میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو ان شرائط کو پورا کرتا ہو۔ لہذا اسے ’ گمشدہ کڑی ‘ کا نام دیا گیا اور کئی ماہرین اس گم شدہ کڑی ڈھوندنے نکلے۔ ان میں ایک جرمن ماہر حیاتیات ارنسٹ ہیکل نے اس کو ایک سائنسی نام پتھے کن تھروپس Pithecanthripus کا نام دیا۔ جس کا مطلب ہے مانس انسان Ape Man۔ ہیکل کا خیال تھا اس مخلوق کی ہڈیاں جنوبی ایشیا میں مل سکتی ہیں۔

ہالینڈ کا ماہر حیاتیات ڈُوبوا 1858ء تا 1940ء جس نے ایمسٹرڈیم یونیورسٹی سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی تھی اور وہیں حیاتیات کا لیکچرار ہو گیا۔ ہیکل کے اس خیال سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے مانس انسان کی ہڈیاں دھونڈنے کا تہیہ کر لیا۔ سب سے پہلے اس نے ملازمت ترک کی اور ڈچ آرمی میں بطور سرجن ملازمت اختیار کی اور اپنی تعیناتی ڈچ آرمی کے ان یونٹوں میں کروائی جو جاوا میں مقیم تھیں۔ جاوا میں اس نے مختلف علاقوں میں کھدائیاں کروا کر اس کی تلاش و جستجو شروع کی۔ بعض ماہرین نے اس کی اس کوشش کا مزاق بھی اڑایا کہ وہ چیز کہاں ملے گی جو ہی نہیں، ملے گی کہاں سے؟ لیکن وارفتگان جستجو نے آخر دھونڈ ہی لیا۔ ڈوبوا کو سماٹرا میں تری نیل گاؤں کے قریب کھدائیوں میں مانس انسان کی پتھرائی ہوئی ہڈیاں ملیں۔ ان میں سے ایک ران کی ہڈی، ایک کھوپڑی کا بالائی حصہ، کئی دانت اور ان کی ہڈیوں کے کئی ٹکرے تھے۔ اس کے مغز کا خانہ نیچا، پیشانی پیچھے کو ہٹی ہوئی اور بھوؤں کی ہڈی ابھری ہوئی تھی۔ آنکھوں کے رخنوں کے پیچھے کھوپڑی نمایاں طور پر سکڑی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ڈوبوا کو جو ران کی ہڈی ملی وہ لمبی اور سیدھی تھی۔ بالکل موجودہ انسان جیسی۔ گویا یہ جاندار سیدھا چلتا تھا۔ اس کی دماغ کی گنجائش بھی پرانے بن مانسوں سے زیادہ تھی۔ ڈوبوا نے اسے پچاس فیصد انسان اور پچاس فیصد مانس قرار دیا۔

متفرق ماہرین کی آراء اور نت نئی دریافتوں اور تحقیقات سے زیادہ معقول نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مانس انسان جس کی ہڈیاں ڈاکٹر ڈوبوا نے ڈھوندی تھیں۔ ہر گز گمشدہ کڑی نہیں تھی۔ نیز یہ بھی جب کسی نوع میں کیفیتی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو وہاں ترقی کی اتنی بڑی چھلانگ لگتی ہے کہ اسے ارتقا کے ضمن میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ وہ انقلاب ہوتا ہے، کایا پلٹ ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر کوئی گمشدہ کڑی نہیں ہوتی ہے۔ یعنی کوئی گمشدہ کڑی ہونا لازمی نہیں ہوتی ہے۔ لہذا اس مفروضہ کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ اگر کل کو دریافت ہو جائے اور سارے شواہد اس کا ساتھ دین تو تسلیم ہو جائے گی۔ قبل از وقت فرض کرنا غیر ضروری ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیر انسانی مانس سے لے کر جدید انسان تک کم از کم دو یا اس بھی زیادہ انقلابی مراحل آسکتے ہیں، جن کے ذریعہ ارتقائی تسلسل نئی کیفیتی تبدیلیوں سے ہم کنار ہوا ہے۔ پہلا تو اس وقت جب ہم رام مانس ( جس کو پوٹھوہار مانس بھی کہاگیا ہے ) وجود میں آیا۔ یہ ایک انقلاب تھا، ایک ایسی مخلوق وجود میں آگئی تھی جو انسان بننے جا رہی تھی اور اس میں بعض ایسی خصوصیات ختم ہوگئیں جو اس کی آئندہ نسلوں کو جانوروں کو جنم دیں گی۔ کچھ ایسی خصوصیات پیدا ہوگئیں جو اس کے سلسلے کو موجودہ انسان تک لے کر آنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔

دوسری کیفیتی تبدیلی اس وقت وجود میں آئی جب کھڑا آدمی Homo Erectus وجود میں آیا۔ یہ ایک ایسا جاندار تھا جو مکمل طور پر دو پایہ تھا اور مکمل طور مل جل کر رہتا تھا۔ آگ کا استعمال جانتا تھا اور اوزار بناسکتا تھا۔ اس کے انسان ہونے میں شبہ نہیں ہو سکتا ہے۔ بعض ماہریں نے تو اس کے ناطق ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ یقناً پوٹھوہار مانس اور جنوبی مانس کیفیتی اور معیاری طور پر ممتاز نسل ہے۔ کیوں کے دونوں اول الذکر دونوں مانس تھے۔ گو کہ انسانی سلسلہ نسل کے، لیکن یہ خود انسان تھا۔

پہلی کیفیتی تبدیلی کا تعلق تشریح الاعضاء Anatomy سے سمجھنا چاہیے۔ جس میں پوٹھوہار مانس کی اناٹومی میں انقلاب برپا ہوا۔ دوسری کیفیتی تبدیلی کا تعلق دماغ کے حجم اور اس کی اندورنی اور بیرونی ہیئت میں انقلاب سے سمجھنا چاہیے۔ جسم انسانی کا سارا کنٹرول دماغ میں ہے۔ خیالات، جذبات، تصورات اور توانائیاں سب کا مرکز دماغ ہے۔ اسی نے انسان کو دیگر انواع حیات پر شرفیت دی ہے۔ لہذا دماغ میں انقلاب زبردست تبدیلی کی حیثیت رکھتا ہے اور دماغ کی بے پناہ ترقی کو ارتقائی زمرے میں رکھنا مناسب ہوگا۔ اب یہ ہے دماغ کے اندر وہ خلیے اور خانے تو تھے ہی جو نطق کو ایجاد کرسکتے تھے۔ اس لیے نطق کو ایجاد انقلابی مرحلہ نہ ہوگی بلکہ ارتقائی مرحلہ ہوگی۔ کیوں کہ خفتہ صلاحیت کا بیدار ہونا انقلاب نہیں، اس کا پیدا ہونا انقلاب ہے۔[1]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور