اکبر حیدری
اس مضمون یا قطعے کو سر اکبر حیدری میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
سر محمد اکبر نذر علی حیدری صدر المہام[1] (8 نومبر 1869ء – نومبر 1941ء)[2] ایک ہندوستانی سیاست دان تھے۔ سر اکبر حیدری 18 مارچ سنہ 1937ء سے ستمبر 1941ء تک ریاست حیدرآباد کے صدر المہام (وزیر اعظم) رہے۔[3]
اکبر حیدری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 8 نومبر 1869ء ممبئی، برطانوی ہند |
تاریخ وفات | نومبر 1941ء |
قومیت | ہندوستانی |
زوجہ | آمنہ حیدری |
عملی زندگی | |
پیشہ | ریاست حیدرآباد کے صدر المہام (وزیر اعظم) |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
نجی زندگی
ترمیماکبر حیدری 8 نومبر 1869ء کو ممبئی شہر کے ایک مسلم خاندان میں پیدا ہوئے۔ ریاست حیدرآباد جانے سے قبل وہ انڈین آڈٹ اینڈ اکاؤنٹینسی سروس (Indian Audit and Accountancy Service) میں کام کرتے تھے، حیدرآباد پہنچ کر وہ ریاست کے محکمہ عدالت، کوتوالی وامور عامہ کے معتمد اور پھر صدر المہام مقرر ہوئے۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام میں سرگرم کردار ادا کیا اور اجنتا غاروں کو بحال کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔[4] نیز انھوں نے نومبر 1930 – جنوری 1931ء کے درمیان پہلی گول میز کانفرنس میں ریاست حیدرآباد کی نمائندگی کی۔
جنوری 1936ء میں پریوی کونسل مملکت متحدہ کے رکن مقرر ہوئے۔[5] بعد ازاں 1941ء میں وہ وائسرائے کی مجلس عاملہ (Viceroy's Executive Council) کے رکن بنے۔ محمد صالح اکبر حیدری ان کے فرزند تھے۔[6]
اعزازات
ترمیماکبر حیدری کو برطانوی حکومت نے نائٹ کے خطاب سے نوازا تھا۔[1][4]
اقبال سے مراسم
ترمیمسراکبر حیدری علاّمہ اقبال کے دوستوں میں سے تھے۔ تعلقات کا آغاز غالباً مارچ 1910ء میں اقبالؔ کے پہلے سفرِ حیدرآباد کے موقع پر ہوا۔ اس زمانے میں سراکبر حیدری ‘ حیدرآباد دکن میں محکمہ مالیات کے معتمد تھے۔ انھوں نے علاّمہ اقبال کی بڑی خاطر مدارات کی اور ایک چاندنی شب وہ علاّمہ کو سلاطین شاہیہ کے مقبرے دکھانے لے گئے۔ اقبالؔ کی نظم ’’گورستانِ شاہی‘‘ [7] اسی واقعے کی یادگار ہے۔ علاّمہ نے اس نظم کو سر اکبر اور ان کی بیگم کے نام نامی سے منسوب کیا۔
1914ء میں علاّمہ کے بڑے بھائی شیخ عطامحمد پنشن یاب ہونے کے بعد دوبارہ حیدرآباد میں ملازمت کے متلاشی تھے۔ دکن میں سراکبر حیدری کی بااثر حیثیت کے پیش نظر علاّمہ نے اس سلسلے میں ان کی مدد چاہی۔ غالباً سراکبر اس بارے میں کچھ نہ کر سکے۔ اسی دوران حیدرآباد ہائی کورٹ میں عہدٔ ججی کے لیے بہت سے دوسرے ناموں کے ساتھ اقبال کا نام بھی پیش ہوا۔ عدالت عالیہ میں جج کامنصب اقبالؔ کے لیے ایک باوقار ملازمت تھی۔ مہاراجا سرکشن پرشاد شادؔ ریاست حیدرآباد میں اہم عہدے پر فائز تھے۔ اس لیے اقبالؔ کا خیال تھا کہ ان کے تقرر کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ کئی ماہ تک فیصلہ نہ ہو سکا۔ اس دوران دو واقعات رونما ہوئے جن سے علاّمہ قدرے مایوس ہو گئے۔ اوّل :حیدرآباد سے قبالؔ کے نام ایک گم نام خط آیا جس کا خلاصہ یہ تھاکہ ہم تو آپ کے یہاں آنے کے لیے شب و روز دعا کر رہے ہیں مگربعض آدمی جو بظاہر آپ کے دوست ہیں‘ حقیقت میں آپ کے یہاں آنے پر خوش نہیں ہیں۔ اس خط میں نام لیے بغیر سراکبر کی طرف واضح اشارہ موجود تھا۔ دوم: اسی اثنا میں اکبر حیدری نے اقبالؔ کو عثمانیہ یونی ورسٹی میں قانون کی پروفیسری کی پیش کش کی۔ اقبالؔ کو سراکبر کی یہ پیش کش اچھی نہیں لگی۔ ممکن ہے اس نئی پیش کش کواقبال نے متذکرہ بالا مخالفانہ خط کے پس منظر میں دیکھا ہو۔ پہلے ’’یومِ اقبال‘‘ (یکم جنوری 1938ء) کے موقع پرحضور نظام کی طرف سے‘ جو صاحب صدر اعظم کے ماتحت ہے‘ ایک ہزار روپیہ کا چیک موصول ہوا تو علاّمہ کی خودداری کو ٹھیس پہنچی‘ چنانچہ آپ نے چنداشعار میں اس کااظہار کیا: ؎
غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکوۃ
علاّمہ نے چیک واپس کر دیا۔ اکبر حیدریؔ سے اقبالؔ کے تعلقات کے پورے پس منظر کو نگاہ میں رکھا جائے تو اقبالؔ کا یہ تلخ ردِ عمل فطری معلوم ہوتا ہے۔ یہ واقعہ 5 جنوری 1938ء کے آخر یا فروری 1938ء کے اوائل میں پیش آیا۔ اس واقعہ نے اقبال اور سراکبر کے درمیان رہے سہے تعلقات کو بہت متاثر کیا۔ وفات سے تین چار ہفتے پہلے سراکبر نے اقبالؔ سے اشعار کی فرمایش کی۔ انھوں نے اشعار براہِ راست سراکبر کو بھیجنے کی بجائے ڈاکٹر]] مظفر الدین قریشی]] کی وساطت سے روانہ کیے۔ سراکبر اور اقبالؔ کے قدیمی پُرجوش روابط برقرار نہ رہ سکے۔ روابط میں کمی آگئی تھی‘ مگر قطعِ تعلق کی نوبت کبھی نہیں آئی۔[8] [9]
"" "اقبال کی نظم بعنوان سر اکبر حیدری" ""
تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز
دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات
مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر
حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات
مَیں تو اس بارِ امانت کو اُٹھاتا سرِ دوش
کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات
غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اُس نے یہ ہے میری خدائی کی زکوۃ!
گاندھی سے مراسم
ترمیمبرٹش حکومت نے 7 ستمبر 1931 ء کو لندن میں بعنوان ’ ہندوستان میں بہترین انتظامیہ ‘ کے ایک سمینار منعقد ہوا تھا جس میں کل جماعتی وفود شامل ہوئے تھے اور سراکبر حیدری نے نظام سرکار کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور اس کانفرنس میں گاندھی جی بھی شریک تھے جہاں دونوں کا آپس میں تعارف ہوا اور واپسی کے سفر میں دونوں قائدین ایک پانی کے جہاز سے سفر کرنے کی وجہ سے دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے تھے اور اس کے بعد سے دونوں کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ جاری تھا ۔۔ پرسہ ( تسلی ) دیتے ہوئے مراسلہ
سر اکبر حیدری کی شریک حیات آمنہ طیبہ ناسازی طبیعت کی بنا فریش ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے گاندھی جی نے کئی مرتبہ آپ کی مزاج پرسی کرتے ہوئے خطوط لکھے تھے اور اس بات کے ثبوت تاریخی اوراق میں دستیاب ہیں اور گاندھی جی کے اس خط کے جواب میں سر اکبر حیدری نے مراسلہ لکھا کہ میری شریک حیات کی طبیعت میں تھوڑا سا افاقہ ہوا ہے اور اس خط کتابت کا تذکرہ تلگو زبان کی تاریخی کتاب ’ تلگو ناٹا مھاتموڈی یاترا ‘ میں تذکرہ کیا گیا ہے ۔ نظام سرکار کی جانب سے نظام اسٹیٹ کانگریس پر امتناع عائد کیے گئے وقت دونوں قائدین کے درمیان اختلاف رائے ہونے کا بھی بعض مراسلوں سے پتہ چلتا ہے البتہ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں طویل عرصے تک جاری نہ رہیں ۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ 2 اکٹوبر 1939 کو عابڈس میں واقع ریڈی ہاسٹل میں گاندھی جی یوم پیدائش پروگرام منعقد کیا گیا تھا اور اس پروگرام میں سر اکبر حیدری نے شرکت کرتے ہوئے ہریجن سیوا سنگھم کو 500 سو روپیوں کا عطیہ بھی دیا تھا اور آپ کا یہ عمل گاندھی جی کے ساتھ دوستی کا ثبوت ہے ۔ سر اکبر حیدری کو گاندھی جی کا خراج عقیدت سر اکبر حیدری کی اچانک وفات کی اطلاع ملنے پر گاندھی جی نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ میں نے ایک بہترین قابل دوست کو کھو دیا ہے ‘ ۔ اور اتنا ہی نہیں گاندھی جی نے بذات خود سر اکبر حیدری کی وفات پر قلمی خراج عقیدت بھی ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ان میں بے شمار فضائل موجود تھے اور اس طرح ایک ہی شخص میں کئی فضائل کا پایا جانا شاذ و نادر ہی ہے ۔ وہ ایک بہترین اسکالر ، فلسفی ، اصلاح پسند عقیدت مند ، اصول پسند اور وہ تمام مذاہب کا علم رکھنے والے تھے جن کے تعلقات تمام مذاہب والوں کے ساتھ تھے اور ہم دونوں دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ لندن کے اختتام کے بعد ایک پانی کے جہاز سے سفر کیا تھا اور میں روزانہ شام میں جو عبادت کیا کرتا تھا وہ برابر شریک ہوا کرتے تھے ۔ علاوہ ازیں گیتا کے اشلوک اور ہمارے بھجن کو سمجھنے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اکبر حیدری ان تمام کا مہادیو دیتائی کے ذریعہ ترجمہ بھی کروایا کرتے تھے ۔ مگر خدا کی مرضی کچھ اور ہی تھی اور مجھے سیول نافرمانی سنگرام میں بے حد مصروف ہونا پڑا تھا ، پڈوچیری کے مہارشی تین ماہ میں ایک مرتبہ اپنے شرد قالووں کو اپنے درشن کا موقع دیا کرتے تھے اور اکبر حیدری اس دن بلا ناغہ حاضر ہوا کرتے تھے ۔ سر اکبر حیدری کی وفات سارے ملک کے لیے ایک عظیم و ناقابل تلافی نقصان ہے اور آپ کی موت سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی ہے اور میں آپ کے افراد خاندان سے دلی طور پر اظہار تعزیت کرتا ہوں ۔ مذکورہ خراج عقیدت پر مشتمل مضمون گاندھی جی نے 14 جنوری 1942 ء کے روزنامہ ہریجن اخبار میں بذات خود لکھا تھا
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Edinburgh Gazette, 8 June 1928[مردہ ربط]
- ↑ "Mohammed Akbar Nazar Ali Hydari (1869 - c.1941)"۔ Geni.com۔ 2011-09-30۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جولائی 2013
- ↑ Hyderabad, Princely States of India, WorldStatesmen.org
- ^ ا ب Gunther, John. Inside Asia - 1942 War Edition. READ BOOKS, 2007, pp. 471-472
- ↑ Edinburgh Gazette, 7 January 1936[مردہ ربط]
- ↑ Sulaymani Bohra: South Asia, accessed July 5, 2010
- ↑ (کلیات‘ اُردو‘ ص:149۔153)
- ↑ نظرحیدرآباد‘ ’’اقبال اور حیدرآبادی‘‘ ص:208۔214۔
- ↑ رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر، ’’خطوطِ اقبال‘‘، ص:275
بیرونی روابط
ترمیمسرکاری عہدہ | ||
---|---|---|
ماقبل | وزیر اعظم حیدرآباد 1937–1941 |
مابعد |