محمد احمد سعید خان چھتاری

لیفٹینٹ کرنل سعید الملک نواب سر محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری جی بی ای، کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای[4][5] کو عرفِ عام میں نواب چھتاری کہا جاتا ہے (پیدائش 12 دسمبر 1888ء[6][7] - وفات 1982ء) صوبجات متحدہ کے گورنر[8][9]، صوبجاتِ متحدہ کے وزیرِ اعلی،[10] نظام حیدرآباد کی مجلس عاملہ کے صدر (وزیر اعظم حیدرآباد)[11] کے علاوہ ہندوستان کے چیف سکاؤٹ تھے۔

محمد احمد سعید خان چھتاری
 

صوبجات متحدہ کے کابینی وزیر
مدت منصب
17 مئی 1923ء – 11 جنوری 1926ء
دستیاب نہیں
دستیاب نہیں
صوبجات متحدہ کے گورنر
مدت منصب
7 اپریل 1933ء – 26 نومبر 1933ء
Sir Alexander Phillips Muddiman
Sir William Malcolm Hailey
صوبجات متحدہ کے وزیر اعظم
مدت منصب
3 اپریل 1937ء – 16 جولائی 1937ء
نیا انتخاب
گووند ولبھ پنت
قومی دفاعی کونسل کے رکن
مدت منصب
جولائی 1941ء – ستمبر 1941ء
نیا انتخاب
خالی
صدر المہام
نظام حیدرآباد
(یعنی وزیر اعظم حیدرآباد)
(دو اصطلاحیں)
مدت منصب
ستمبر 1941ء – اگست 1946ء
سر اکبر حیدری
مرزا محمد اسماعیل
مدت منصب
مئی 1947ء – 1 نومبر 1947ء
مرزا محمد اسماعیل
سر مہدی یار جنگ
ہندوستان کے چیف اسکاؤٹ
مدت منصب
1955ء – 1982ء
نیا انتخاب
جسٹس محمد ہدایت اللہ
معلومات شخصیت
پیدائش 12 دسمبر 1888ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چھتاری   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1982ء (93–94 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 نائٹ کمانڈر آف دی آرڈر آف دی انڈین ایمپائر   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی اور خاندان

ترمیم

نواب احمد سعید نواب محمد عبد العلی خان نواب چھتاری کے گھر[12] برطانوی ہندوستان کے صوبجات متحدہ میں چھتاری میں 12 دسمبر 1888ء[6] کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی۔[6] ان کی شادی اپنے چچا اور نواب طالب نگر عبد الصمد خان بہادر کی بیٹی سے ہوئی۔[6] ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام فرحت سعید خان رکھا گیا جو ہندوستانی کلاسیکل موسیقی میں اپنی دلچسپی اور شغف کی بنا پر معروف تھے۔[13]

گول میز کانفرنس

ترمیم

نواب چھتاری نے 12 نومبر 1930 کو لندن میں سینٹ جیمز محل میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔[14] مسلمان وفد کی صدارت آغا خان سوم اور محمد علی جناح، سر محمد شفیع، مولانا محمد علی، ڈاکٹر شفاعت علی، سر محمد ظفراللہ خان، نواب چھتاری کے ساتھ فضل الحق کر رہے تھے۔[15]

حکومتی کونسل

ترمیم

17 مئی 1923 سے 11 جنوری 1926 تک نواب چھتاری متحدہ صوبجات کی کابینہ میں وزارت کے عہدہ پر فائز رہے[16] اور پھر 1931 میں وزیرِ زراعت بھی بنے۔[17] دوسرے بڑے مسلمان زمینداروں بشمول راجا سلیم پور کی مانند نواب چھتاری بھی متحدہ صوبجات میں برطانوی انتظامیہ کے قابلِ بھروسا ساتھی تھے۔[18] انھیں اپریل سے نومبر 1933 تک اس کا گورنر بھی مقرر کیا گیا۔ گورنمنٹ آف ہندوستان ایکٹ 1935ء کو گول میز کانفرنس کی روشنی میں بنایا گیا، یکم اپریل 1937ء کو لاگو کیا گیا اور نواب چھتاری کو قومی زراعتی پارٹیوں کے رہنما کے طور پر کابینہ تشکیل دینے کی دعوت دی گئی۔ 1937 کے دوران وہ کچھ عرصے کے لیے وزیرِ اعلیٰ بھی رہے۔[19] جلد ہی انھوں نے وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ چھوڑ کر متحدہ صوبجات کی حکومت میں وزیرِ داخلہ کا عہدہ سنبھال لیا جہاں ان کی تنخواہ 2٫500 روپے مقرر کی گئی۔[20]

نواب چھتاری ہندوستان کی قومی دفاعی کونسل کے جولائی سے اگست 1941 تک رکن رہے۔ انھوں نے اس عہدے سے مستعفی ہو کر حیدرآباد کی مجلس عاملہ کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا جو اس ریاست کے وزیرِ اعظم کے مترادف تھا۔[21][22]

جناح کے ساتھ اختلاف

ترمیم

17 اکتوبر 1936ء بروز اتوار نواب چھتاری نے آل انڈیا مسلم لیگ کے تیسرے عام اجلاس مین شرکت کی جو لکھنؤ کے لال باغ کے پنڈال میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت جناح نے کی تھی۔ اجلاس میں مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر سید حسین، راجا غضنفر علی خان، خان بہادر قلی خان، فضل حق، نواب جمشید علی خان وغیرہ بھی شریک تھے۔[23][24]

صدر المہام حیدرآباد

ترمیم

نواب چھتاری کو نظام حیدرآباد کی مجلس عاملہ کے صدر کا عہدہ (یعنی حیدرآباد کی وزارت عظمی) اگست 1941ء کو دیا گیا۔[25] انھوں نے ستمبر 1941 سے یکم نومبر 1947 تک اس عہدے پر کام کیا۔[26]

6 ستمبر 1941 کو بہادر یار جنگ اور نظام حیدرآباد نے نواب چھتاری کو قابل منتظم کے طور پر سراہا۔ 1944ء میں نواب چھتاری کو نظام حیدرآباد نے سعید الملک کا خطاب عطا کیا۔[27] 25 نومبر 1945ء کو نواب چھتاری نے انسٹی ٹیوٹ آف انجینیرز (بھارت) کا سنگِ بنیاد رکھا۔[28]

1946 میں نظام حیدرآباد نے گورنر جنرل ہند کو تجویز دی کہ نواب چھتاری کو وسطی صوبجات اور برار کا گورنر مقرر کیا جائے۔[29]

چھتاری وفد

ترمیم

11 جولائی 1947ء میں جب نظام نے ہندوستان کے آزادی کے بل کے التوا کو دیکھا تو انھیں پتہ چل گیا کہ ان کے اصرار کے باوجود ریاستوں کو ڈومینین کی حیثیت نہیں دی جا رہی ہے، انھوں نے دہلی وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا جس کی سربراہی نواب چھتاری کو سونپی گئی۔ اس وفد کو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، برما سے ملاقات کرنی تھی۔[30][31] 17 اگست 1947ء کو نواب چھتاری نے ماؤنٹ بیٹن کو تحریری طور پر یہ خواہش پیش کی کہ وہ حیدرآباد کے مستقبل کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔[32]

اگست 1947 میں سر والٹر مونکٹن جو نظام کے آئینی مشیر تھے اور نواب چھتاری نے رضاکاروں اور اتحاد المسلمین کے حملوں کے بعد استعفیٰ دیا مگر اسے قبول نہیں کیا گیا۔[33]

27 اکتوبر 1947ء کو رضاکاروں اور اتحاد المسلمین نے وفد کے اراکین، مونکٹن، نواب اور سر سلطان احمد کی رہائش گاہوں کے باہر مظاہرے کا بندوبست کیا اور اس طرح ان اراکین کی دہلی روانگی کو ناممکن بنا دیا۔[34] بعد میں ہونے والی گفتگو سے کوئی نتیجہ نہ نکل پایا اور یکم نومبر کو نواب چھتاری نے اپنی حیثیت کا اندازہ کرتے ہوئے ایگزیکٹو کونسل کے صدر کے عہدے کو چھوڑ دیا۔ مونکٹن نے بھی استعفے پر اصرار کیا۔

21 دسمبر 1947 کو گاندھی نے نواب چھتاری، حسین شہید سہروردی، برج لعل نہرو، رمیشوری نہرو، شیخ عبد اللہ، بیگم عبد اللہ، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، بکشی غلام محمد، کچھ کے شہزادے، مہاراجا بھاؤنگر، اننت رائی پٹانی اور دیگر افراد کے ساتھ گفت و شنید کی۔

23 ستمبر 1948 میں نظام نے ریڈیو کی تقریر میں کہا: پچھلے نومبر میں ملیشیا نما اداروں نے وزیرِ اعظم نواب چھتاری کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کیا۔ نواب چھتاری -جن کی ذہانت پر مجھے پورا بھروسا ہے-، سر ولیم مونکٹن جو میرے آئینی مشیر ہیں اور دیگر وزرا کو اپنے عہدے سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس گروہ کی سربراہی قاسم رضوی نے کی تھی جس کا اس ملک سے کوئی مفاد نہیں تھا اور نہ ہی اس ملک کی کوئی خدمت کی تھی۔ انہی طریقوں کو اپنا کر ہی ہٹلر نے جرمنی میں عنانِ حکومت سنبھالی اور ملک میں دہشت پھیلا دی تھی۔ اس طرح ان لوگوں نے مجھے ناکام کر دیا۔[35]

عوامی زندگی

ترمیم

23 اکتوبر 1931 کو نواب چھتاری نے عشائیہ دیا جس میں علامہ اقبال نے بھی شرکت کی۔[36] 1935 میں انھوں نے لندن میں ہندوستانی آموں کی نمائش کی اور وہاں رٹول قسم کا آم پیش کیا جسے پہلا انعام ملا اور اسے دنیا کا بہترین آم مانا گیا۔[37] 15 جنوری 1939 میں ان کا ایک پیغام ایک پمفلٹ میں چھاپا گیا جو "یومِ خواندگی" پر ایجوکیشن ایکسپینشن ڈیپارٹمنٹ نے منایا تھا۔[38] 1945 میں مہاتما گاندھی نے نواب کو دو خط بھیجے، پہلا خط پنچ گنی اور دوسرا سیوسگرام سے بھیجا۔[39] نواب چھتاری جامعہ اردو، علی گڑھ کے پیٹرن بھی رہے۔[40] انھوں نے دسمبر 1965 تا 6 جنوری 1982 تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر کے طور پر بھی فرائض سر انجام دیے۔ اس کے علاوہ 1955 تا 1982 آل انڈیا بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن کے چیف سکاؤٹ بھی رہے۔[41]

القاب

ترمیم
  • 1888–1919: نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری
  • 1919–1921 نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، ایم بی ای
  • 1921–1922: نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی آئی ای،[42] ایم بی ای
  • 1922–1927: سیکنڈ لیفٹننٹ[43] نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی آئی ای، ایم بی ای
  • 1927–1928: لیفٹیننٹ[44] نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، سی آئی ای، ایم بی ای
  • 1928–1931: لیفٹیننٹ نواب سر محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی آئی ای،[45] ایم بی ای
  • 1931–1933: کیپٹن نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی آئی ای، ایم بی ای
  • 1933–1936: کیپٹن نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی ایس آئی،[46] کے سی آئی ای، ایم بی ای
  • 1936–1944: میجر[47] نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای، ایم بی ای
  • 1944–1946: میجر سعید الملک نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای، ایم بی ای
  • 1946–1982: لیفٹینٹ کرنل سعید الملک نواب محمد احمد سعید خان، نواب چھتاری، جی بی ای،[48] کے سی ایس آئی، کے سی آئی ای

خط زمانی

ترمیم
سرکاری عہدہ
ماقبل 
دستیاب نہیں
صوبجات متحدہ کے کابینی وزیر
17 مئی 1923 – 11 جنوری 1926
مابعد 
دستیاب نہیں
ماقبل  صوبجات متحدہ کے گورنر
7 اپریل 1933 – 26 نومبر 1933
مابعد 
سیاسی عہدے
ماقبل 
نیا انتخاب
صوبجات متحدہ کے وزیر اعلی
3 اپریل 1937 – 16 جولائی 1937
مابعد 
سرکاری عہدہ
ماقبل 
نیا انتخاب
قومی دفاعی کونسل کے رکن
جولائی 1941 – ستمبر 1941
مابعد 
خالی
ماقبل  صدر مجلس عاملہ
نظام حیدر آباد
(i.e. وزیر اعظم حیدرآباد)
(پہلی دفعہ)

ستمبر 1941 – اگست 1946
مابعد 
ماقبل  صدر مجلس عاملہ
نظام حیدر آباد
(i.e. وزیر اعظم حیدرآباد)
(دوسری دفعہ)

مئی 1947 – نومبر 1947
مابعد 
Mehdi Yar Jung
اسکاؤٹ
ماقبل 
نیا انتخاب
بھارت کے چیف اسکاؤٹ
1955–1982
مابعد 

خودنوشت سوانح عمری

ترمیم
  • یاد ایام (1949ء) نواب احمد سعید خان نواب چھتاری کی خودنوشت سوانح عمری ہے، جس میں انھوں نے انتہائی فنکارانہ انداز میں اپنی زندگی کی جھلکیاں اور تجربات پیش کیے ہیں۔[49]

حوالہ جات

ترمیم
  1. بنام: Nawab Sir Muhammad Ahmad Said Khan Chhatari — National Portrait Gallery (London) person ID: https://www.npg.org.uk/collections/search/person/mp86451 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. Archive Site Trinity College Cambridge ID: https://archives.trin.cam.ac.uk/index.php/khan-sir-muhammad-ahmad-said-1888-1982-knight-indian-politician — بنام: Sir Muhammad Ahmad Said Khan
  3. "The Sunday Tribune - Spectrum - Books"۔ Tribuneindia.com۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2014 
  4. [1] Separatism Among Indian Muslims: The Politics of the United Provinces By Francis Robinson
  5. "آرکائیو کاپی"۔ 11 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  6. ^ ا ب پ ت Who's who in India, Burma & Ceylon. Who's who Publishers India. 1936. ص. 307.تصنيف:صيانة الاستشهاد: استشهادات بمسارات غير مؤرشفة
  7. "National Portrait Gallery - Person - Nawab Sir Muhammad Ahmad Said Khan Chhatari"۔ Npg.org.uk۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2014 
  8. "Kashmir Information website"۔ 05 ستمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  9. Constructing Post-Colonial India: National Character and the Doon School By Sanjay Srivastava by Sanjay Srivastava - 2005
  10. "Chief Minister"۔ Uplegisassembly.gov.in۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2014 
  11. "Ibid."۔ 05 ستمبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  12. Celebrities: a comprehensive biographical thesaurus of important men and women in India-by Jagdish Bhatia - 1952 Page 27.
  13. The Lost World of Hindustani Music by Kumāraprasāda Mukhopādhyāẏa - 2006 -- Page 216
  14. "Round Table Conferences"۔ Story of Pakistan۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2014 
  15. Muslim Delegation at 1930 Round Table Conference
  16. "United Provinces Assembly website"۔ 10 اپریل 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  17. Journey to Forever.org
  18. Nawab of Chhatari (گوگل کیش شدہ نسخہ)
  19. Tribune India website
  20. "Hansard"۔ 03 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  21. "Ibid."۔ 03 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  22. "Ibid."۔ 04 جولا‎ئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  23. "Muslim League meeting 17 October 1936 (گوگل کیش شدہ نسخہ)"۔ 26 جون 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  24. "www.chowk.com"۔ 07 اکتوبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  25. Nawab of Chhatari appointed President of the Executive Council of the Nizam of Hyderabad
  26. "www.atlaswords.com"۔ 25 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  27. File 34(3)-G/1944 IOR/R/1/4/327 1944-1945 UK National Archives website
  28. "IEIAPSC.org"۔ 19 نومبر 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  29. UK National Archives
  30. "www.telangana.com"۔ 16 جولا‎ئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  31. www.telangana.com
  32. #11 Letter to Mountbatten (گوگل کیش شدہ نسخہ)[مردہ ربط]
  33. #11 Resignation of Sir Walter Monckton to Nizam (گوگل کیش شدہ نسخہ)[مردہ ربط]
  34. #12 Razakar/Ittehad-ul-Muslimeen demonstrations[مردہ ربط]
  35. Autocracy to Integration, Lucien D Benichou, Orient Longman (2000), p. 237
  36. "www.allamaiqbal.com"۔ 11 جون 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  37. "www.rataulmangoking.com"۔ 16 مارچ 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  38. "Dept. of Education, India website"۔ 10 اپریل 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  39. "www.gandhiserve.org (PDF)" (PDF)۔ 03 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  40. Urdunetwork آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ groups.yahoo.com (Error: unknown archive URL) at Yahoo.com
  41. "Boy Scouts of India website"۔ 22 اکتوبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جولا‎ئی 2016 
  42. Gazette Issue 32346 published on the 4 June 1921.
  43. Gazette Issue 32598 published on the 3 February 1922.
  44. Gazette Issue 33276 published on the 20 May 1927.
  45. Gazette Issue 33390 published on the 1 June 1928.
  46. Gazette Issue 33898 published on the 30 December 1932.
  47. Gazette Issue 34379 published on the 12 March 1937.
  48. Gazette Issue 37598 published on the 4 June 1946.
  49. Yad-e-Ayyam (گوگل کیش شدہ نسخہ)

بیرونی روابط

ترمیم