ایم ایم کلبرگی

بھارتی مصنف

ملّیشَپا ماڈِوَلَپا کلبُرگی ((کنڑا: ಮಲ್ಲೇಶಪ್ಪ ಮಡಿವಾಳಪ್ಪ ಕಲಬುರ್ಗಿ)‏; 28 نومبر 1938 – 30 اگست 2015)[1] ایک بھارتی اسکالر ہیں، جو وچنا ساہتیہ (وچَنا ادب) کے لیے مشہور و معروف ہیں۔ یہ ہمپی کے کنڑا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کو اپنی خدمات کے لیے 2006ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔[2] یہ کنڑا زبان کے مشہور ادیب تھے۔ 1980ء میں لِنگایت طبقے نے یہ الزام لگایا کہ انھوں نے بارہویں صدی کے فلسفی بساوا پر تنقید کی ہے۔ بساوا کے پیروکار لِنگایت ہیں۔ 2014 میں بھی اننت مورتی کے خلاف بات کی تھی، جس کا اہم موضوع تھا کہ مورتی پوجا توہم پرستی کے سوا کچھ نہیں۔ مقتول کلبرگی اور ہندوتوا کے گروہ کے درمیان ہمیشہ رسّہ کشی ہوتی رہی۔[3] 30 اگست 2015 کی صبح کو دھارواڑ میں ان کے گھر کے قریب دو نامعلوم آدمیوں نے اسلحہ سے وار کیا اور ان کا قتل کر دیا۔[4]

ایم ایم کلبرگی
ملیشپا ماڈیوالپا کلبرگی
Malleshappa Madivalappa Kalburgi

معلومات شخصیت
پیدائش 28 نومبر 1938(1938-11-28)ء
یراگال، بمبئی پریذیڈنسی، برطانوی ہند
وفات 30 اگست 2015(2015-80-30) (عمر  76 سال)
دھارواڑ، کرناٹک، بھارت
طرز وفات قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی کرناٹک یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان کنڑ زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیشہ وران سفر

ترمیم

1966ء میں، کلبرگی کو کرناٹک یونیورسٹی کے کنڑ شعبہ میں پروفیسر کے طور پر پرموشن ملا۔ 1982ء میں کنڑ شعبہ کے چیئرمن منتخب ہوئے۔ بعد ازیں اُسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تقرر پائے۔

مورتی پوجا تنارعہ

ترمیم

کلبرگی نے توہم پرستی کے خلاف ایک مہم شروع کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ توہم پرستی، اندھ وشواس کے خلاف ایک بِل بنا کر قانون بنایا جائے۔ انھوں نے یو۔ آر۔ اننت مورتی نامی مصنف کی کتاب کا بھی ذکر کیا۔ یہ کتاب 1996ء میں شائع ہوئی تھی، جس کا نام بیتھلے پوجے یاکے کوداڑو (ننگے مورتیوں کی عبادت کیوں منع ہے)، اس میں مصنف نے اپنے بچپن کے تجربات کو پیش کیا اور لکھا تھا کہ ہم مورتیوں پر پیشاب کرتے تھے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرتے کہ ان میں (مورتیوں میں) کونسی آسمانی طاقتیں بسی ہیں۔ کلبرگینے اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی توہم پرستیوں سے کیا انجام نکل آتے ہیں۔[5] یہ بات کو لے کر ہندوتوا رائٹ ونگ گروہ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شری رام سینانے احتجاج شروع کیا اور دونوں مصنفوں کے خلاف نعرے بازی کی۔[6] کنڑ زبان کے نقاد نٹراج ہولیار نے یہ الزام لگایا کہ کلبرگی نے جان بوچھ کر اننت مورتی کی باتوں کو توڑ موڑ کر پیش کیا۔[7]

کرناٹک کے شہر دھارواڑ میں کلبرگی کے گھر کے قریب، صبح 8:40 تاریخ 30 اگست، 2015ء کو نامعلوم آدمی جو یہ نقل کر رہاتھا کہ وہ کلبرگی کا شاگرد ہے، کلبرگی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کلبرگی کی اہلیہ اوما دیوی نے دروازہ کھولا انھیں اندر بلایا اور دونوں کے لیے کافی تیار کرنے اندر گئیں۔ دونوں میں سے ایک آدمی نے کلبرگی پر قریب سے گولی چلادی، وہ اور اس کا ساتھی موٹر سائکل پر فرار ہو گئے۔[8] فوراً انھیں ضلع سِوِل ہسپتال دھارواڑ لے جایا گیا۔ ڈاکٹرس نے یہ اعلان کیا کہ کلبرگی راستے ہی میں انتقال کر گئے۔[9]

تفتیشات

ترمیم

30 اگست ہی سے تفتیشات شروع کردی گئیں جس دن ان کا قتل ہوا تھا۔ اس کی تفتیش کے لیے ہبلی دھارواڑ پولیس نے اسسٹنٹ کمیشنر کی سربراہی میں پانچ انسپکٹروں پر مشتمل ایک اسپیشل ٹیم کو تشکیل دی ہے اور تفتیش جاری ہے۔[9][10]

تصانیف

ترمیم

کلبرگی تقریباً 20 کتابیں لکھی، جس میں درج ذیل کتابیں مشہور ہیں :

  • نیرو نیرادی سِتو : Neeru Neeradisittu
  • سارنگرشی : Sarangarshi
  • کاچیٹور کلیان : Kachhittu Kalyan

اعزازات

ترمیم
  • تصنیف: مارگا 4، کے لیے کرناٹک ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ
  • مرکزی حکومت کی جانب سے ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ
  • جناپد ایوارڈ
  • یکشا گانا ایوارڈ
  • پمپا ایوارڈ
  • نروپاتُنگا ایوارڈ
  • رنّا ایوارڈ
  • بساوا پُرسکارا ایوارڈ - 2013
  • وچانا ساہتیہ ایوارڈ - 2013
  • ناڈوجا ایوارڈ

مزید دکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Kalburgi gets Sahitya Akademi award"۔ The Hindu۔ December 22, 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 فروری 2010 
  2. Sudipto Mondal (30 August 2015)۔ "Karnataka: Rationalist and scholar MM Kalburgi shot dead"۔ Hindustan Times۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2015 
  3. "Kannada scholar and former VC of Hampi University MM Kalburgi shot dead"۔ news.biharprabha.com۔ ANI۔ 30 August 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2015 
  4. "Kannada Scholar Kalburgi Shot Dead, Third Rationalist to be Killed in Three Years"۔ The Wire۔ 30 August 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2015 
  5. Jacob Koshy۔ "Anti-Superstition Academic Kalburgi Shot Dead In Karnataka"۔ The Huffington Post (30 August 2015)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2015 
  6. Nataraj Huliyar (16 June 2014)۔ "Scholar misquotes writer, starts humongous squabble"۔ The New Indian Express۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2015 
  7. Manu Aiyappa (30 August 2015)۔ "Malleshappa M Kalburgi, controversial writer and scholar shot dead"۔ The Times of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 اگست 2015 
  8. ^ ا ب Nayak, Dinesh (30 August 2015)۔ "Kannada writer M.M. Kalburgi shot dead"۔ The Hindu۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2015 
  9. "Former Karnatak University vice-chancellor M M Kalaburgi, who had run-ins with hardliners, shot"۔ The Indian Express۔ 31 August 2015۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 اگست 2015  الوسيط |first1= يفتقد |last1= في Authors list (معاونت)

سانچہ:ابتدائی ترتیب:Kalburgi, M. M.