فہرست مسلمہ
فہرست مسلمہ بائبل مقدس کے عہد عتیق کی 39 کتابوں اور عہد جدید کی 27 کتابوں کے مجموعہ کی فہرست ہے۔ یہ کتابیں مستند کلام الٰہی مانی جاتی ہیں۔ کسی ایک کلیسیا نے اس کو مرتب نہیں کیا مگر مختلف کلیسیاؤں اور مسیحی کلیسیائی مجالس نے اس کو قبول کیا کہ یہ مسلمہ ہے۔ 367ء عیسوی میں ایک کلیسیائی بزرگ اتھناسیس نے اس فہرست کو فراہم کیا۔[1]۔
عہد عتیق کی فہرست
ترمیمعہد عتیق کی پہلی پانچ کتابیں جنہیں تورہ، تورات ، توریت یا اسفارِ خمسہ کہا جاتا ہے، انھیں اولاً فہرست میں شامل کیا گیا۔ اس کی شامل کیے جانے کی درست تاریخ تو معلوم نہیں ہے۔غالباً یسوع مسیح کی پیدایش سے پانچ صدی پہلے ایسا کیا گیا۔ انبیا عزرا اور نحمیاہ نے کتابوں کو محفوظ رکھا۔ انبیا کی کتابوں کو 200 قبل از مسیح اکٹھا کیا گیا۔تاہم عہد عتیق کی فہرست مسیح کی پیدایش سے کچھ پہلے تک حتمی نہیں کی گئی تھی۔ 90 اور 100 عیسوی میں اسرائیل کے ایک علاقے یمنیہ میں یہودی عالموں کی مجلس کا انعقاد ہوا جس میں عبرانی صحائف کے اکھٹے کیے جانے پر سوچ و بچار کیا گیا اور جن کتابوں پر اتفاق کیا گیا وہ بائبل مقدس کی عہد عتیق کی فہرست کا حصہ ہیں۔ اس بات کا ذکر یہودی مورخ یوسیفس اپنی کتاب میں بھی کرتا ہے[2]۔ جمنیہ کی مجلس کا مقصد صرف کتابوں کے ناموں پر غور کرنا ہی نہیں بلکہ ان کی پڑتال کرنا بھی تھا[3]۔
عہد جدید کی فہرست
ترمیمپہلی اور دوسری صدی عیسوی میں مسیحیوں میں بہت سی مذہبی کتابیں اور رسولوں کے خطوط پائے جاتے تھے۔ بعض کلیسیاؤں میں کچھ کتب اور خطوط رائج تھے جو جعلی تھیں مثلاً مقدس توما کی انجیل، ہرمس کا عصاء مقدس پطرس رسول کا مکاشفہ اور مقدس برنباس رسول کی انجیل وغیرہ۔ مسیحی کلیسیا میں بدعات بھی سر اٹھا رہی تھیں لہذا مناسب سمجھا گیا کہ کتب مسلمہ کو منظرِ عام پر لایا جائے[4]۔ عہد جدید کی کتابوں کی ابتدائی فہرست ماراطورین فہرست کے نام سے بھی جانی جاتی ہے جو سنہ 150عیسوی میں رائج تھی۔ اس میں انجیل اربعہ (متی، مرقس ، لوقا اور یوحنا)، رسولوں کے اعمال، مقدس بزرگ پولس رسول کے تیرہ خطوط، مقدس بزرگ یہوداہ کا عام خط، مقدس بزرگ یوحنا رسول کے دو خطوط اور یوحنا عارف کا مکاشفہ شامل تھے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ فہرست عالم گیر کلیسیا نے قبول کی تھی۔ مقدس بزرگ پطرس رسول کے دو خطوط، مقدس بزرگ یعقوب کا عام خط اور عبرانیوں کے نام خط بعد میں شامل کیے گئے۔ 240 عیسوی میں اسکندریہ کے اوریجن ان ستائیس کتب کو ہی نیا عہد نامہ کہتا ہے[5]۔وہ اسے الٰہی تحریک سے لکھا گیا قراردیتا ہے جس کا الہام بذریعہ روح القدس شاگردوں پر ہوا[6]۔ بعد از اسکندریہ کےاتھناسیس نے 367ء عیسوی میں کتب کی مکمل فہرست فراہم کی جو بائبل مقدس کے عہد جدید کا حصہ ہے[7]۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "How were the books of the Bible chosen? | Biblica - The International Bible Society"۔ 18 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2018
- ↑ Josephus, Against Apion, trans. William Whiston (London: Ward, Lock & Co.), bk. 1, ch. His 22 books consisted of exactly the same as our 39 for the reasons given in the text.
- ↑ This is a widespread view. See for example R. Beckwith, The Old Testament Canon of the New Testament Church (London: SPCK, 1985), p. 276. Also, A. Bentzen, Introduction to the Old Testament, vol. 1 (Copenhagen: G.E.C. Gad, 1948), p. 31; Bruce Metzger, The Canon of the New Testament (Oxford: Oxford University Press, 1987), p. 110; John Wenham, Christ and the Bible (London: Tyndale Press, 1972), p.138–139.
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 10 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2018
- ↑ Origen De Principiis (Concerning Principles), pref. 4. He used the title “New Testament” six times in De Principiis.
- ↑ Origen De Principiis, pref. 4, ch. 3:1.
- ↑ From the Festal Epistle of Athanasius XXXIX. Translated in Nicene and Post-Nicene Fathers, vol. IV. p. 551–552. This is what he wrote: “As the heretics are quoting apocryphal writings, an evil which was rife even as early as when St. Luke wrote his gospel, therefore I have thought good to set forth clearly what books have been received by us through tradition as belonging to the Canon, and which we believe to be divine. [Then follows the books of the Old Testament with the unusual addition of the Epistle of Baruch.] Of the New Testament these are the books . . . [then follows the 27 books of our New Testament, and no more]. These are the fountains of salvation, that whoever thirsts, may be satisfied by the eloquence which is in them. In them alone is set forth the doctrine of piety. Let no one add to them, nor take anything from them.”