بابا پدمن جی مُلے (1831ء–29 اگست 1906ء) مراٹھی کے اولین ناول نگار، لغت نگار اور مقالہ نگار ہونے کے علاوہ مراٹھی میں مسیحی ادب کے بانی ہونے کی حیثیت سے بھی بابا پدمن جی ممتاز مقام کے مالک ہیں۔ وہ برہمن تھے اور ان کا خاندانی لقب ”ملے“ تھا۔ ان کا جنم اور ابتدائی تعلیم بیلگاؤں میں ہوئی اور ثانوی تعلیم بیلگاؤں کے مشن ہائی اسکول اور ممبئی کے چرچ اسکول میں ہوئی جہاں انھیں مہادیوشاستری کولھٹکر، دادا بھائی نوروجی اور گووند ناراین ماڈگاوکر جیسے عالموں سے سے شرف تلمذ حاصل رہا۔ بعد میں جان ولسن اور رابرٹ نسبٹ جیسے مسیحی مشنریوں کی صحبت میں وہ مسیحیت سے متاثر ہوئے۔ ہندو مت اور برہمنوں کی اجارہ داری سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا اور 3 ستمبر 1854 کو انھوں نے بپتسمہ لے لیا۔

بابا پدمن جی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1831ء [1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلگام   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 29 اگست 1906ء (74–75 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

پونے کے فری چرچ مشن اسکول میں کئی سال تک بحثیت استاد پڑھانے کے بعد 1867ء میں وہ اس ادارے کے پیٹرن مقرر کیے گئے۔ 1873ء میں اس عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ 1877 میں "بابل سوسائٹی" اور "ٹریکٹ سوسائٹی" میں بحثیت مدیر کام کیا۔ نیا عہد نامہ کا مراٹھی ایڈیشن بابا پدمن جی کی نگرانی میں تیار ہو کر شائع ہوا۔ ان دو اداروں سے نکلنے والے رسالوں کے بھی وہ مدیر تھے۔

بابا پدمن جی کی خدمات متنوع رہیں۔ انھوں نے نصابی کتابیں مرتب کیں، فرہنگیں تیار کیں، طویل مکالے اور انشائیے لکھے۔ ان کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد سو سے اوپر تھی جن میں سے 38 دستیاب ہیں۔

جیسی فرہنگوں سے ان کی علمی و لسانی خدمات کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے نیا عہد نامہ کی تفسیر بھی لکھی ہے۔ مراٹھی میں طبع زاد ناول نگاری کا آغاز بابا پدمن جی کے ناول "یمنا پرٹین" (یمنا کا سفر) سے ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1854ء میں ان کے مسیحی ہو جانے پر ان کی ہندو بیوی تبدیلی مذہب پر راضی نہ ہوتے ہوئے علیحدگی کی طالب ہوئی اور اس نے نان نفقے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بابا پدمن جی کو مقدمے کا خرچ چلانے کے لیے یہ ناول لکھنا پڑا۔ اس ناول میں جگہ جگہ ہندو بیواؤں کی حالت زار کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یمنا پرٹین نذیر احمد کے ناولوں کی طرح واقعات سے زیادہ پند و نصائح سے مملو مکالموں پر مشتمل ہے اور ناول کے مسلمہ معیار پر پورا نہیں اترتا لیکن مافوق فطرت مترجمہ قصوں اور داستانوں کے دور میں سماجی تھیم اور پلاٹ پر مبنی اس قصے کو ناول کے دائرے سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا۔[4]

تصنیفات ترمیم

  1. ہندوؤں کے تہواروں پر مقالہ (1853ء)
  2. اصلاح خاندان (1855ء)
  3. یمنا پرٹین (یمنا کا سفر)
  4. ارنودیی
  5. شبد رتناولی (1860ء)
  6. انگریزی مراٹھی کوش (1863ء)
  7. سنسکرت مراٹھی کوش (1871ء)

حوالہ جات ترمیم