بابو بھائی پٹیل، جو اپنی عرفیت بابو بجرنگی سے زیادہ جانا جاتا ہے،[1] گجرات کا ایک بجرنگ دل قائدہے جو بھارت میں ایک ہندو قوم پرست تنظیم ہے۔ 2002ء کے مسلم کش گجرات فسادات کی اس نے قیادت کی تھی۔[2] اسے ایک خصوصی عدالت نے نروڈا پاٹیا قتل عام میں ان کے رول کی وجہ سے عمرقید کی سزا سنائی تھی۔ اس قتل عام میں 97 بھارتی مسلمانوں کا قتل کر دیا گیا تھا۔[3]

بابو بجرنگی
 

معلومات شخصیت
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

2002ء کے دنگوں میں رول

ترمیم

2007ء میں بھارتی جریدے تہلکہ نے بجرنگی سے ایک خفیہ کیمرے کا انٹرویو شائع کیا جس میں بجرنگی نے اپنے گھنونے رول کا کھل کر اقبال کیا تھا۔[4]

ہم نے ایک بھی مسلمان دکان کو نہیں بخشا، ہر چیز کو آگ لگا دی … ہم نے کلہاڑی مارے، جلائے اور سپرد آتش کیے … ہم انہیں سپرد آتش کیے جانے پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ یہ حرامزادے اپنے مردوں کو آگ لگانے سے ڈرتے ہیں… میری ایک آخری خواہش ہے کہ … مجھے سزائے موت ملے، … مجھے پروا نہیں اگر میں سولی پر چڑھ جاؤں…مجھے صرف دو دن سولی دینے سے پہلے دو دن دو اور میں جوہاپورہ جاکر ایک میدان کا دن قائم کروں گا جہاں سات یا آتھ لاکھ لوگ بستے ہیں۔ ... میں انہیں ختم کروں گا... ان میں سے کچھ کو مرنے دو... کم ازکم 25,000 سے 50,000 کو تو مرنا چاہیے۔

اس ویڈیو میں بجرنگی نے دعوٰی کیا کہ قتل کی ان وارداتوں کے بعد وہ وزیر داخلہ گوردھان زڈافیا اور وشو ہندو پریشد کے معتمد عمومی جے دیپ پٹیل سے بات کی اور انھیں ان قتول کی اطلاع دی۔ کچھ گھنٹوں بعد بجرنگی کے خلاف ایف آئی آر درج ہوا اور پولیس کمیشنر نے اسے دیکھتے ہی گولی مار دینے کا حکم دیا۔[4] بجرنگی کو حراست میں لیا گیا، پھر ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔ تہلکہ انٹرویو کے وقت بھی وہ ضمانت پر تھا۔ اس کا دعوٰی ہے کہ نریندر مودی قانون کی عمل آوری کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔[5]

2012ء میں بجرنگی کو نروڈا پاٹیا قتل عام مقدمے میں مایا کوڈنانی اور تیس دیگر ملزمین کے ساتھ خاطی قرار دیا گیا تھا۔ سبھی 32 کو قتل، اقدام قتل، سازش، نفرت پھیلانے اور فرقہ وارانہ نفرت اور غیر قانونی اجتماع کا قصوروار پایا گیا۔[3][6]

بابو بجرنگی کو 31 اگست 2012ء کو سزائے عمرقید کی سزا سنائی گئی۔[7]

2016ء تک بجرنگی کو 14 بار عارضی ضمانتیں اپنی بیوی اور خود اس کی خراب صحت کی وجہ سے فراہم کی گئی تھی۔[8]

چونکہ بجرنگی جزوی نابینائی اور سماعت کے فقدان سے متاثر ہو چکا ہے، اس لیے سابرمتی سنٹرل جیل میں اس کے لیے حکومت کی طرف سے ایک خدمت گزار مامور کیا گیا ہے۔[9]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "BJP MLA among 32 guilty in Naroda Paitya Massacre"۔ Indian Express۔ 30 Aug 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2014 
  2. "Riot witness names MLA, says she led Naroda mob"۔ Times of India۔ 30 Sep 2003۔ 11 اگست 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2014 
  3. ^ ا ب "Naroda Patiya massacre: Ex-minister Kodnani, 31 convicted"۔ Worldsnap۔ 29 Aug 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2017 
  4. ^ ا ب "'After Killing Them, I Felt Like Maharana Pratap'"۔ Tehelka۔ 1 Sep 2007۔ 07 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2014 
  5. "Tehelka:: Free. Fair. Fearless"۔ Archive.tehelka.com۔ 10 Aug 2007۔ 15 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2014 
  6. "Ex-BJP Minister among 32 convicted of Naroda-Patiya massacre"۔ The Hindu۔ August 29, 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ August 30, 2012 
  7. "Naroda Patiya riots: BJP MLA Maya Kodnani sentenced to 28 yrs in jail, Babu Bajrangi life"۔ Indian Express۔ 31 Aug 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2014 
  8. "Naroda patiya case: Babu Bajrangi gets 7 day-bail, 14th time since conviction"۔ Indian Express۔ 28 Oct 2016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2017 
  9. "Babu Bajrangi withdraws bail application from Gujarat HC"۔ DNA India۔ 17 Jan 2017۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2017