بازارِ حسن (ہندی: सेवासदन‎) اردو زبان میں لکھا گیا پریم چند کا ناول ہے۔

بازار حسن
مصنفپریم چند
اصل عنواناردو: بازارِ حسن، ہندی: सेवासदन
ملکبرطانوی ہند
زباناردو-ہندی
صنفناول
تاریخ اشاعت
کلکتہ (ہندی، 1919ء) اور لاہور (اردو، 1924ء)
طرز طباعتشائع شدہ (مجلد اور پیپر بیک)

یہ ناول اصل میں اردو زبان میں بازار حسن کے نام سے لکھا گیا، لیکن کولکاتہ سے پہلی بار یہ ہندی زبان میں سیوا سدن کے نام سے 1919ء میں شائع ہوا۔ [1] ،پریم چند نے نظر ثانی کے بعد دوبارہ اردو مسودہ تیار کر کے اسے دارالاشاعت پنجاب لاہور سے دو جلدوں میں 1921ء میں شائع کیا۔[2]

بازار حسن پریم چند کا پہلا بڑا ناول تھا۔ اس سے پہلے، اس نے 4 ناول لکھے تھے، جو 100 صفحات پر محیط تھے۔

کے سبرامنیم نے ناول کی بنیاد پر تمل زبان میں فلم سیواسدنم (1938) بنائی، جو کرناٹک گلوکار، سبو لکشمی کی پہلی فلم تھی۔[3]

اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے اس ناول کا انگریزی ترجمہ، 2005ء دہلی، بھارت سے شائع کیا۔[4] 2005ء منشی پریم چند کی 125 سالگرہ کا سال تھا۔[5]

کہانی

ترمیم

بازار حسن کا موضوع شہری زندگی کی معاشرتی تباہ کاریوں اور شہر میں رہنے والے متوسط طبقے کے مسائل ہیں۔ بالخصوص ہندو عورت کی سماجی پستی اور بے چارگی۔اس ناول میں پریم چند نے معاشرتی خرابیوں کو ان کے وسیع سماجی، اخلاقی اور اقتصادی پس منظر میں دکھایا ہے اور نفسیاتی پہلوئوں پر بھی غور کیا ہے۔ ناول کی ہیروئن سمن کا ایک طوائف کی خوش حال زندگی سے متاثر ہوکر طوائف بننا بدلے کی انتہا ہے۔ عورت بدلہ لینے میں اس قدر گر سکتی ہے لیکن اس کا بازار میں بیٹھ کر اپنی عصمت کی حفاظت کرنا اور پھر دوبارہ شرافت کی زندگی کی طرف آنا، مایوسی اور بے سہارا ہو کر آشرم میں جانا ہندی سماج میں عورت کی بے چارگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ناول میں طوائف کو مسلمان ظاہر کرنا بھی معنی خیز ہے ۔ سماج کا عجیب جبر ہے کہ سمن کا عاشق ہی اس کا ہونے والا بہنوئی ہے۔سمن کا شوہر گناہوں کا پرائسچت کرنے کے لیے سادھو بن چکا ہے۔ وہ جو بیوائوں کی لڑکیوں کو پالنے کے لیے آشرم تعمیر کرتا ہے، سمن اس کی نگران اور معلمہ ہو جاتی ہے۔پلاٹ کو پریم چند نے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ناول میں کچھ چیزیں اضافی ہیں جیسے بازار حسن کو ہٹانے کی تحریک ،میونسپلٹی میں دلچسپ مباحثہ وغیرہ۔ پریم چند کیونکہ آریہ سماجی تحریک سے متاثر ہیں اس لیے وہ ہر چیز میں سماج سدھار شامل کر لیتے ہیں۔ وہ طوائف کی اصلاح کر کے اسے معاشرے کے لیے باعزت فرد بنانا چاہتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سمن باعصمت ہونے کے باوجود معاشرے میں باعزت مقام نہیں حاصل کر پاتی۔ پریم چند طوائفوں کو بارونق جگہوں سے ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ متوسط طبقہ کے رنگین مزاج نوجوانوں کے اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ تاہم یہ ایک سطحی زاویہء نظر ہے۔ بیسوائوں کی لڑکیوں کو تعلیم دینا ایک الگ مسئلہ ہے اور معاشرے کا ان کو قبول کرنا دوسرا۔ کیا ان پڑھی لکھی لڑکیوں کو کوئی شمع حرم بنانے پر تیار ہے۔ پریم چند نے اس ناول میں ایک سوال اٹھایا ہے کہ عورت مرد سے کیا چاہتی ہے۔ اس کی قدر، خودداری کی حفاظت، اس پر اعتماد اور اس کے احساسات کا احترام۔یہ نہ ملے تو وہ باغی ہو سکتی ہے اور سمن سے سمن بائی بن سکتی ہے۔لیکن کیا وہ طلاق نہیں لے سکتی۔ہندو سماج میں طلاق کا وجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک عورت کا سانحہ ہے۔ اگر وہ والدین کے گھر چلی جائے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے لیکن خودداری کا خون کر کے عزت اور عفت کو بچانا بہتر ہے۔اگر یہ ناول عورت کے حقوق اور آزادی کی جنگ ہے تو وہ کون سے حقوق ہیں جو پریم چند اس ناول کے ذریعے عورت کو دلانا چاہتے ہیں۔ اس ناول میں سمن کی نسبت اس کی بہن شانتا کا کردار جاندار ہے۔سمن اس وقت تک کامیاب اور باوقار ہے جب تک وہ مصنف کے آدرش واد کے ہتھے نہیں چڑھی۔اس کا کردار گناہ کا پرائسچت کر کے آب و تاب کھو بیٹھتا ہے۔ شانتا آخری لمحوں تک منفرد ہے۔سمن کے کردار میں کشمکش کا پہلو بہت کمزور ہے۔پریم چند نے اس ناول میں بے شمار غلطیاں کی ہیں ۔ مثلاً سمن کو جلد سے جلد طوائف بنانا، سمن جیسی شریف لڑکی کا اتنی جلدی بازار میں بیٹھنے پر راضی ہو جانا،ساری دال منڈی کو ایک ہی دن میں خالی کر دینا، پھر ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کرکے متفقہ طور پر طوائفوں کا بے شرمی، ذلت اور عیش پرستی کی زندگی ترک کر کے شرافت کی زندگی کا آغاز کرنا، سب مصنوعی لگتا ہے۔پریم چند کے سماجی مقاصد مروجہ اخلاقیات کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔ طوائفوں کا یہ کہنا کہ انھوں نے سماجی اور معاشی حالات سے نہیں بلکہ شہوت پرستی سے تنگ آکر یہ پیشہ اختیار کیا، حقائق کے خلاف ہے۔پریم چند طوائفوں کو گناہوں کی غلامی سے نجات تو دلاتے ہیں لیکن وجوہات تلاش نہیں کرتے جس کی وجہ سے لاکھوں عورتیں دال منڈی میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ پریم چند کے کردار کھوکھلے ہیں وہ کردار کی تعمیر پر توجہ نہیں دیتے ان کی نظر مقصد پر رہتی ہے اور ان کے کردار موم کی ناک کی طرح لگتے ہیں۔[6]

حواجات

ترمیم
  1. Harish Trivedi (2 مئی 2004)۔ "The power of Premchand (Literary Review of The Oxford India Premchand)"۔ دی ہندو۔ 02 جون 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2016 
  2. 5۔ نگم،دیانرائن (مترجم)،'منشی پریم چند کی کہانی ان کی زبانی'،ص375
  3. Sevasadanam آئی ایم ڈی بی پر
  4. Snehal Shingavi (2005)۔ Premchand Sevasadan۔ New Delhi, India: Oxford University Press۔ صفحہ: 205۔ ISBN 0-19-566899-5۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2016 
  5. Ravi Bathia (14 اگست 2005)۔ "Tribute to Premchand"۔ The Tribune۔ The English translation of Munshi Premchand’s famous novel, Sevasadan, was launched here last week as fans of the legendary Hindi writer celebrated his 125 th birth anniversary 
  6. http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/february2013/Feb_9.html