بخت النساء بیگم

مغل شہنشاہ نصیرالدین محمد ہمایوں کی بیٹی اور مغل شہزادی

بخت النساء بیگم (پیدائش: 1547ء — وفات: 2 جون 1608ء) مغل شاہزادی اور مغل شہنشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں کی بیٹی اور مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی بہن تھیں۔

بخت النساء بیگم
(فارسی میں: بخت النسا بیگم‎ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1547ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدخشاں   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 2 جون 1608ء (60–61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مغلیہ سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد نصیر الدین محمد ہمایوں   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ماہ چوچک بیگم   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان تیموری خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
گورنر   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آغاز منصب
1581 
در صوبہ کابل  

سوانح

ترمیم

پیدائش

ترمیم

بخت النساء بیگم کی پیدائش 1547ء میں بدخشاں میں ہوئی۔ اُن کے والد مغل شہنشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں اور والدہ ماہ چوچک بیگم تھیں۔ گلبدن بیگم کی بیان کردہ ایک روایت میں ہے کہ مغل شہنشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں نے بخت النساء بیگم کی پیدائش سے ایک رات قبل خواب دیکھا تھا اور اِس سعد خواب کی تعبیر میں بیٹی کا نام بخت النساء رکھا۔[1] بخت النساء بیگم کے دو بھائی (مرزا محمد حکیم، فرخ فال مرزا) اور دو بہنیں (سکینہ بانو بیگم، آمنہ بانو بیگم) تھیں۔

ازدواج

ترمیم

شاہ ابوالمعالی سے نکاح

ترمیم

ماہ چوچک بیگم جو بخت النساء بیگم کی والدہ تھیں، ترمذ کے سادات خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اِسی خاندن سے تعلق رکھنے والا ایک امیر شاہ ابوالمعالی تھا جو ماہ چوچک بیگم کی کابل پر حکمرانی کے وقت لاہور بھاگ گیا تھا اور وہاں اُسے قید کر لیا گیا تھا۔ جب لاہور سے شاہ ابوالمعالی کو رہائی ملی تو وہ واپس کابل پہنچ گیا اور ماہ چوچک بیگم سے معافی کا طلب گار ہوا۔ ماہ چوچک بیگم نے اُسے خوش آمدید کہا اور بعد ازاں شاہ ابوالمعالی کا بخت النساء بیگم سے نکاح کر دیا گیا۔[2] [3] شاہ ابوالمعالی چونکہ کابل میں اپنی خود مختاری اور آزادانہ حکومت چاہتا تھا مگر اختیارات سب ماہ چوچک بیگم کے پاس ہوتے تھے جس سے شاہ ابوالمعالی پریشان حالی کا شکار رہا۔ اِسی کشمکش میں شاہ ابوالمعالی نے 1564ء میں ماہ چوچک بیگم کو قتل کروا دیا ۔ [4] خوش قسمتی سے اِس جنگ میں مرزا محمد حکیم کی جان والی بدخشاں سلیمان مرزا نے بچائی اور اُس نے شاہ ابوالمعالی کو شکست دے کر قتل کر دیا اور دوبارہ مرزا محمد حکیم کو کابل کی حکمرانی پر بحال کر دیا۔[5]

خواجہ حسن سے نکاح

ترمیم

شاہ ابوالمعالی کے قتل کے بعد کابل مرزا محمد حکیم کے ہاتھوں میں آگیا۔ بخت النساء بیگم کابل میں ہی مقیم تھیں، سو مرزا محمد حکیم نے بدخشاں سے تعلق رکھنے والے ایک امیر خواجہ حسن نقشبندی سے بخت النساء بیگم کا نکاح کر دیا۔[6] [7] خواجہ حسن سے دو بیٹے مرزا بدیع الزماں اور مرزا ولی پیدا ہوئے۔ مرزا محمد حکیم کی وفات کے بعد مرزا بدیع الزماں ماوراء النہر بھاگ گیا اور اُس نے وہیں وفات پائی جبکہ بخت النساء بیگم اور مرزا ولی ہندوستان چلے آئے اور کابل مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے سپرد کر دیا گیا۔ [8] جلال الدین اکبر نے دونوں افراد کو خوش آمدید کہا اور اپنے ساتھ حرم شاہی میں رکھا۔ 1619ء میں مغل شہنشاہ نور الدین جہانگیر نے مرزا ولی کی شادی بلاقی بیگم سے کردی جو دانیال مرزا کی بیٹی تھی۔[9]

وفات

ترمیم

بخت النساء بیگم نے 2 جون 1608ء کو آگرہ میں وفات پائی۔[10]

حوالہ جات

ترمیم
  1. گلبدن بیگم (1902)۔ The History of Humayun (Humayun-Nama)۔ Royal Asiatic Society۔ صفحہ: 185–6 
  2. Soma Mukherjee (2001)۔ Royal Mughal Ladies and Their Contributions۔ Gyan Books۔ صفحہ: 126۔ ISBN 978-8-121-20760-7 
  3. Harbans Mukhia (April 15, 2018)۔ The Mughals of India۔ John Wiley & Sons۔ صفحہ: 142۔ ISBN 978-0-470-75815-1 
  4. Annemarie Schimmel (2004)۔ The Empire of the Great Mughals: History, Art and Culture۔ Reaktion Books۔ ISBN 978-1-861-89185-3 
  5. Henry Beveridge (1907)۔ اکبر نامہ of Abu'l-Fazl ibn Mubarak - Volume II۔ Asiatic Society, Calcutta۔ صفحہ: 320–21 
  6. Harbans Mukhia (April 15, 2018)۔ The Mughals of India۔ John Wiley & Sons۔ صفحہ: 142۔ ISBN 978-0-470-75815-1 
  7. Henry Beveridge (1907)۔ اکبر نامہ of Abu'l-Fazl ibn Mubarak - Volume II۔ Asiatic Society, Calcutta۔ صفحہ: 364 
  8. Emperor Jahangir، Wheeler McIntosh Thackston (1999)۔ The Jahangirnama : memoirs of Jahangir, Emperor of India۔ Washington, D. C.: Freer Gallery of Art, Arthur M. Sackler Gallery, Smithsonian Institution; New York: Oxford University Press۔ صفحہ: 303–4 
  9. The Proceedings of the Indian History Congress۔ Indin History Congress۔ 2004۔ صفحہ: 599 
  10. Jahangir, Emperor; Rogers, Alexander; Beveridge, Henry (1909). The Tuzuk-i-Jahangiri; or, Memoirs of Jahangir. Translated by Alexander Rogers. Edited by Henry Beveridge. London Royal Asiatic Society. pp. 144