ترمذ

شہر ترمذ صوبہ سرخان دریا ملک ازبکستان تاریخی شہر کی اہم ہستی امام ترمذی، ناصرترمذی، حکیم ترمذی،

ترمذ (انگریزی: Termez) ازبکستان کا ایک شہر جو سرخان دریا صوبہ میں واقع ہے۔[4]

ترمذ
(ازبک میں: Termiz ویکی ڈیٹا پر (P1448) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

تاریخ تاسیس 498 ق.م  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
انتظامی تقسیم
ملک ازبکستان (1991–)
سوویت اتحاد (1922–1991)
روسی سوویت وفاقی اشتراکی جمہوریہ (1920–1922)
امارت بخارا (1785–1920)
خانیت بخارا (1500–1785)
تیموری سلطنت (1370–1500)
خانیت چغتائی (1222–1370)
خانان قاراخانی (999–1222)
دولت سامانیہ (819–999)
دولت عباسیہ (750–819)  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1][2]
دار الحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ سرخان دریا صوبہ   ویکی ڈیٹا پر (P131) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 37°13′27″N 67°16′42″E / 37.224166666667°N 67.278333333333°E / 37.224166666667; 67.278333333333   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بلندی 302 میٹر   ویکی ڈیٹا پر (P2044) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
کل آبادی 136200 (2014)[3]  ویکی ڈیٹا پر (P1082) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مزید معلومات
اوقات متناسق عالمی وقت+05:00   ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان ازبک زبان   ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
732000  ویکی ڈیٹا پر (P281) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قابل ذکر
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جیو رمز 1215957  ویکی ڈیٹا پر (P1566) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

تفصیلات

ترمذ کی مجموعی آبادی 140,404 افراد پر مشتمل ہے۔

تاریخ

اسلامی عصرِ زرین

705ء میں یہ شہر عربوں نے فتح کر لیا اور یہ عباسیوں اور سامانیان کے دوران اسلام ک ایک اہم مرکز بن گیا ، جس میں ابوعیسی محمد امام الترمذی جیسے قابل ذکر عالم دین پیدا ہوئے۔

نویں سے بارہویں صدی عیسوی تک ترمذ ایک بڑا شہر اور ایک ثقافتی مرکز تھا اور خریداری اور دستکاری کے لیے مشہور تھا۔ اس وقت شہر کے قلعوں کی لمبائی نو دروازوں کے ساتھ 16 کلومیٹر (10 میل) لمبی تھی۔ اس عرصے کے دوران ترمذ غزنویوں ، سلجوق اور قاراخانیوں کے ریاستیں کا ایک حصہ تھا۔

منگول تباہی اور ویرانی

1206ء میں یہ شہر خوارزم شاہی سلطنت کا حصہ بن گیا۔

دو دن کے محاصرے کے بعد 1220ء میں ، چنگیز خان کی سپاہ نے شہر کو تباہ اور مسمار کر دیا۔

شہر برباد ہونے کے باوجود، ابن بطوطہ نے ذکر کیا کہ اس شہر میں "عمدہ عمارات اور بازار تھے ، نہروں سے گذرے تھے اور بہت سارے باغات تھے۔"

تیرہویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف حصے میں ، تیموری سلطنت اور سلسلہ شیبانیان نے سرخان دریا کے دائیں کنارے پر ترمذ کا مشرقی حصہ بحال کردی۔

افسوس سے 18 ویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں شہرمکمل طور پر ویران ہو گیا۔ قدیم شہر کے آس پاس صرف دو گاؤں آباد رہ گئے تھے: صلاوات اور پٹیکسار (پٹگیسار) تھے۔

جنوری 1893ء میں ، امارتِ بخارا نے روسی حکومت کو پٹیکسار گاؤں کی زمین پرایک روسی قلعہ، گیریژن اور ایک عسکری سرحدی قلعہ تعمیر کرنے کے لیے دی ، جہاں آمو دریا کا بندرگاہ بنایا گیا تھا۔

1928ء میں سوویت یونین نے پٹیکسار گاؤں کا نام تبدیل کرکہ شہر کا وآپس اس کا قدیم نام ترمذ رکھا گیا۔ 1929ء میں ، گاؤں ایک شہر بن گیا۔ سوویت حکمرانی کے سالوں کے دوران صنعتی کاروباری ادارے بنائے گئے اور ایک پیڈگوجیکل انسٹی ٹیوٹ اور ایک تھیتر کھول دیا گیا۔

 
ایک افغان سرحدی پولیس افسر پر افغانستان–ازبکستان دوستی کے پل پر کھڑے ہوئے.

سوویت – افغان جنگ (1979–1989) کے دوران ، افغانستان میں لشکرکشی کرنے کے لیے ترمذ سوویت اتحاد کے لیے ایک اہم عسکری اڈا رہا ۔

آمو دریا کے پار ایک عسکری ایئر فیلڈ اور"دوستی کا پل" تعمیر کیا گیا تھا۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1.    "صفحہ ترمذ في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 دسمبر 2024ء 
  2.     "صفحہ ترمذ في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 دسمبر 2024ء 
  3. http://www.stat.uz/upload/str2.jpg
  4. انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Termez"