بنگلہ دیش کے قوانین (انگریزی: Laws in Bangladesh) کی جڑیں برطانوی ہند کے قوانین سے جاکر ملتی ہیں۔ یہ ملک دولت مشترکہ کا ایک رکن ہے اور 1971ء کی جنگِ آزادی میں جب یہ پاکستان سے الگ ہو کر ایک نئے ملک کے طور پر دنیا میں وجود میں آیا تھا، تب دیگر ممالک کے مقابلے دولت مشترکہ ممالک نے سب سے پہلے اسے تسلیم کیا تھا۔ آزادی کے بعد سے رائج الوقت قانون جاتیہ سنسد کی جانب سے بنایا جا رہا ہے، جو اس ملک کا پارلیمان ہے۔ ججوں کا تدوین کردہ قانون دستور کے معاملات میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ دیگر ممالک کے بر عکس بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ کے پاس نہ قانون کی تعبیر کا اختیاز ہے، بلکہ وہ حسب ضرورت انھیں منسوخ اور کالعدم بھی قرار دے سکتا ہے تاکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا نفاذ ممکن ہو سکے۔[1] بنگلہ دیش کے مجوعہ قوانین ان تمام قوانین کا مجموعہ ہے 1836ء سے بنائے گئے ہیں۔ بیشتر بنگلہ دیشی قوانین برطانوی دور سے تعلق رکھتے ہیں اور انگریزی میں ہیں۔ مگر 1987ء کے بعد بنائے گئے قوانین بنگالی میں ہیں۔ یہاں عائلی قانون مذہبی قانون سے ملا ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کے پاس قابل لحاظ بین الاقوامی قانون کے لوازم ہیں۔

1970ء اور 1980ء کے دہے کے بیچ سرکاری اعلانات اور حکم ناموں کو قوانین کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔ 2010ء میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا کہ مارشل لا غیر قانونی تھی، جس کی وجہ سے کچھ قوانین کو پارلیمان کے ذریعے باز تعین کیا گیا۔ ایک حق معلومات قانون بنایا جا چکا ہے۔ کئی بنگلہ دیشی قوانین متنازع، وقت سے کافی پیچھے یا خود آئین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ ان میں ملک کا خصوصی اختیارات قانون، قانون توہین، غداری کا قانون، انٹرنیٹ نگرانی قانون، غیر سرکاری تنظیموں کا قانون، ذرائع ابلاغ نگرانی قانون، فوجی انصاف اور اس کی املاک کا قانون شامل ہیں۔ کئی استعماری قوانین کو جدید زمانے سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی انصاف منصوبے کے مطابق بنگلہ دیش قانون کے نفاذ کے معاملے میں 2016ء میں دنیا کے 113 ممالک میں 103ویں مقام پر ہے۔[2]

بنگلہ دیش میں بنیادی حقوق

ترمیم

بنگلہ دیش کے آئین کا حصہ سوم بنیادی حقوق کی دفعات پر مشتمل ہے: [3]

  1. وہ قوانین جو بنیادی حقوق سے متصادم ہیں کالعدم ہیں (دفعہ-26)
  2. قانون کے آگے برابری (دفعہ-27)
  3. مذہب کی بنیاد پر امتیاز، وغیرہ۔ (دفعہ-28)
  4. عوامی ملازمت میں مساویانہ مواقع (دفعہ-29)
  5. بیرونی خطابات پر امتناع، وغیرہ (دفعہ-30)
  6. قانون کا مساوی تحفظ (دفعہ-31)
  7. حق حیات اور شخصی آزادی کا تحفظ (دفعہ-32)
  8. گرفتاری سے بچاؤ (دفعہ-33)
  9. جبری مزدوری پر امتناع (دفعہ-34)
  10. مقدمے اور سزا کے معاملے میں تحفظ (دفعہ-35)
  11. حرکت کی آزادی (دفعہ-36)
  12. اجلاس کی آزادی (دفعہ-37)
  13. وابستگی کی آزادی (دفعہ-38)
  14. خیال اور ضمیر کی آزادی، and of گفتگو کی آزادی (دفعہ-39)
  15. پیشے کی آزادی (دفعہ-40)
  16. مذہب کی آزادی (دفعہ-41)
  17. جائداد کی آزادی (دفعہ-42)
  18. گھر اور رابطے کا تحفظ (دفعہ-43)
  19. بنیادی حقوق کا نفاذ (دفعہ-44)
  20. ضابطے کے قانون کے معاملے میں حقوق پر نظر ثانی (دفعہ-45)
  21. پابجائی فراہم کرنے کا اختیار (دفعہ-46)
  22. کچھ قوانین کا استثنا (دفعہ-47)
  23. کچھ قوانین کا عدم نفوذ (دفعہ-47A)

مقدمے کا قانون

ترمیم

بنگلہ دیش کے آئین کی دفعہ 111 میں عدالتی نظیر کا تذکرہ موجود ہے۔[4]

بنگلہ دیش کی عدالتیں کافی اہم عدالتی نظیریں آئینی قانون کے معاملے میں فراہم کرتے ہیں جیسے کہ بنگلہ دیش اٹالین ماربل ورکس لیمیٹیڈ بمقابلہ حکومت بنگلہ دیش، جس میں کہ مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ معتمد، وزارت مالیہ بمقابلہ مصدر حسین کے فیصلے میں اختیارات کی علحدگی اور عدالتی آزادی کا دعوٰی کیا گیا ہے۔

اردونا سین بمقابلہ حکومت بنگلہ دیش میں سپریم کورٹ نے غیر قانونی گرفتاری اور ایذا رسانی کے خلاف ایک نظیر قائم کی۔ عدالت نے قدرتی قانون کے اصول کو عبد اللطیف مرزا بمقابلہ حکومت بنگلہ دیش کے فیصلے میں تسلیم کیا۔ یہ دو عدالتی فیصلے خصوصی اختیارات قانون، 1974ء کے تحت بیشتر گرفتاریوں کو کالعدم قرار دیا۔

عدالتی نظیر کی وجہ سے بنگلہ دیشی قانون میں جائز توقع کا نظریہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔

بنگلہ دیش کا مجوعہ قوانین اور زبان

ترمیم

بنگلہ دیش کا مجوعہ قوانین 1977ء سے چھپ چکا ہے۔ اس کے زیادہ تر قوانین 1836ء سے 1987ء کے بیچ بنائے گئے ہیں اور یہ انگریزی میں ہیں۔ 1987ء میں سرکاری گشتیے کے بعد قوانین بنگالی میں چھپنے لگے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی زبان انگریزی ہے۔ تاہم زیادہ تر مجسٹریٹ عدالتیں اور ضلعی عدالتیں بنگالی استعمال کرتی ہیں۔ یکساں زبان کا نہ ہونا فکر کی وجہ بنا ہوا ہے اور لوگ انگریزی اور بنگالی، دونوں کے حق میں آوازیں لگا چکے ہیں۔ ملک کا مالیہ شعبہ انگریزی پر منحصر ہے جب کہ ثقافتی قوم پرست بنگالی کو ترجیح دیتے ہیں۔

معلومات کی آزادی

ترمیم

حق معلومات قانون 2009ء میں جاتیہ سنسد کی جانب سے منظور کیا گیا تھا۔ اسے ایک اہم اصلاح کے طور پر دیکھا گیا۔ اس قانون کے تحت بیش تر سرکاری محکموں سے جانکاری طلب کی جا سکتی ہے، سوائے فوج کے۔ لہٰذا، حفاظتی معاہدے جو بیرونی مملک سے طے ہوں گے، اس کے دائرے میں نہیں آتے۔

2016ء تک 76,043 درخواستیں شہریوں اور ادارہ جات کی طرف اس قانون کے تحت معلومات فراہمی کے لیے پیش کی جا چکی ہیں۔[5]

تعزیرات

ترمیم

جرائم سے متعلق اصل قوانین مجموعۂ تعزیرات، 1860ء، فوجداری قوانین کا مجموعہ، چوپایوں کے قبضے کا قانون 1871ء، دھماکو مادوں کا قانون 1908ء، انسداد رشوت قانون 1947ء، مخالف رشوت قانون 1957ء، خصوصی اختیارات قانون 1947ء، جہیز پر پابندی قانون 1980ء، منشیات (روک تھام) قانون 1990ء، خواتین اور اطفال پر ظلم قانون 1995ء اور مخالف دہشت گردی قانون 2013ء ہیں۔[6][7]

کمپنی قانون

ترمیم

بنگلہ دیش کے کمپنی قانون کی جڑیں جوائنٹ اسٹاک کمپنی قانون 1844ء میں موجود ہیں جسے مملکت متحدہ کا پارلیمان منظور کر چکا تھا۔ اس کے بعد یہ کمپنی قانون 1857ء، کمپنی قانون 1913ء اور کمپنی قانون 1929ء سے متاثر ہوا۔ سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج حکمنامہ، 1969ء سب سے اہم قانون سازی تھی جو پاکستان سے الحاق کے دور میں ہوئی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ما بعد تقسیم بھارتی کمپنی قانون بعد کی اصلاحات کے لیے نمونے کے طور پر لیا گیا۔ 1979ء میں کمپنی قانون اصلاح کمیٹی قائم ہوئی جس میں سر کردہ سیول سروینٹ، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ اور ماہرین قانون شامل تھے۔ کمیٹی کی سفارشات کو 1994ء تک رو بہ عمل نہیں لایا گیا جب تک کہ کمپنی قانون (بنگلہ دیش)1994ء جاتیہ سنسد کی جانب سے منظور نہیں ہوا۔ سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج قانون 1993ء نے بنگلہ دیش سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی بنا ڈالی تا کہ ملک کی دو اسٹاک کمپنیوں پر نظر رکھی جا سکے۔[8]

قانون معاہدہ

ترمیم

بنگلہ دیش کا معاہدہ قانون قانون معاہدہ 1872ء پر اور اشیاء کی فروخت قانون 1930ء پر مشتمل ہے۔

عالمی بینک کی 2016ء میں جاری تجارت کرنے میں سہولت اشاریے کے مطابق بنگلہ دیش معاہدوں کے نفاذ میں 189ویں مقام پر ہے۔[9]

مذہبی قانون

ترمیم

بنگلہ دیشی مسلمانوں پر اسلامی قانون کا نفاذ خاندانی معاملات اور وراثت کے ضمن میں ہوتا ہے۔ ہندو پرسنل لا خاندان کے قوانین کے معاملوں میں ہندوؤں پر عائد ہوتا ہے۔ ملک کی بدھ متی اقلیتیں بھی اسی قانون پر عمل پیرا ہیں۔[10] مسیحیوں کی شادی کا قانون، 1872ء بنگلہ دیش کے مسیحیوں پر عائد ہوتا ہے۔[11]

محصولوں کا قانون

ترمیم

کسٹمز قانون 1969ء کسٹمز قانون کی اساس ہے۔[12] [13] محصول آمدنی کے اصول ایک حکمنامے کے ذریعے 1984ء میں جاری کیے گئے تھے۔ ویولیو ایڈیڈ ٹیکس پر ویولیو ایڈیڈ ٹیکس (ویٹ) اور ضمیمہ جاتی ادائیگی قانون 2012ء (Supplementary Duty (SD) Act 2012) کے تحت کے تحت نظر ثانی کی گئی۔[14]

بلدیہ محصول قانون 1881ء بلدیہ سے جڑے محصولوں کا احاطہ کرتا ہے۔[15]

مزدور قانون

ترمیم

بنگلہ دیش مزدور قانون 2006ء کی بنگلہ دیش مزدور (ترمیم) بل 2013ء کے ذریعے ترمیم کی گئی تا کہ ملازمین کے حقوق کو بہتر بنایا جا سکے، جس میں زائد مگر مزدور انجمنوں کے قائم کرنے کی محدود آزادی ہو اور پیشہ ورانہ صحت اور حفاظت کو فیکٹریوں میں بہتر بنایا جا سکے۔ 2017ء میں حکومت نے وعدہ کیا کہ وہ مزدور انجمنوں پر عائد پابندی کو پروسیسنگ زونوں کے علاوہ اور جگہوں سے ہٹا دے گی۔[16]

جائداد کا قانون

ترمیم

آئیں نجی جائداد کی گارنٹی دیتا ہے۔ جائداد کی منتقلی قانون، 1882ء ایک بنیادی جائداد کا قانون ہے۔ تاہم کچھ سرکاری ایجنسیاں جیسے کہ راجدھانی اونایان کرتری پکھا (Rajdhani Unnayan Kartripakkha) شہری علاقوں میں جائداد کی منتقلی جو بیرونی راست سرمایہ کاری کے ذریعے محدود بناتی ہیں۔ مفاد حاصلہ جائداد (Vested Property Act) اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حکومت ان افراد اور تاسیسات کی جائداد چھین سکتی ہے جو ریاست کے دشمن ثابت ہوں۔

دانشورانہ جائداد قانون

ترمیم

پیٹنٹ اور ڈیزائن قانون 1911ء ملک کا سے سب سے پرانا کاپی رائٹ قانون ہے۔[17] پیٹنٹ اور ڈیزائن کے اصول 1933 میں متعارف ہوئے تھے۔ کاپی رائٹ قانون 2000ء، کاپی رائٹ اصول 2006ء اور نشان تجارت قانون 2009ء دیگر اہم قوانین ہیں۔[18]

عدلیہ

ترمیم

عمومی درجہ بندی میں دیوانی اور فوجداری عدالتیں دونوں شامل ہیں۔ ان میں سب سے اوپر بنگلہ دیش کا سپریم کورٹ ہے۔

عدلیہ کا جائزہ

ترمیم

عدالیے کے جائزے کا کام آئین کی دفعہ 102 کے تحت ہائی کورٹ ڈیویژن کی جانب سے تحریری درخواست کے نظام کے ذریعے انجام پاتا ہے۔

متبادل تنازعات کی یکسوئی

ترمیم

بنگلہ دیش بین الاقوامی مصالحتی مرکز ملک میں تجارتی مصالحت کی واحد عدالت ہے۔ یہ ملک کا متبادل تنازعات کی یکسوئی کا پہلا مرکز ہے۔

قانونی پیشہ

ترمیم

ایک بنگلہ دیشی ماہر قانون کو وکیل کہا جاتا ہے جب وہ بار میں شامل ہوتا ہے۔ قانونی طلبہ باہر تربیت پا سکتے ہیں، جس میں مملکت متحدہ میں بطور بیرسٹر تربیت شامل ہے؛ اس کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی وہ تربیت لے سکتے ہیں؛ اور بعد میں بنگلہ دیشی بار میں وکیل کے طور پر شامل ہو سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش بار کونسل اور بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ملک کے وکلا کی سرکردہ سوسائٹیاں ہیں۔ ایشیا کے کئی سرکردہ وکلا جیسا کہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی صدر آئرین خان بنگلہ دیشی رہے ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "A Research Guide to the Legal System of the People's Republic of Bangladesh - GlobaLex"۔ Nyulawglobal.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  2. https://worldjusticeproject.org/sites/default/files/documents/RoLI_Final-Digital_0.pdf
  3. "Constitution of the People’s Republic of Bangladesh"۔ Bdlaws.minlaw.gov.bd۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  4. "111. Binding effect of Supreme Court judgments"۔ Bdlaws.minlaw.gov.bd۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  5. "People's right to information"۔ The Daily Star۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  6. "Penal Laws - Banglapedia"۔ En.banglapedia.org۔ 2015-02-16۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  7. New anti-terror law passed - bdnews24.com
  8. "Company Law - Banglapedia"۔ En.banglapedia.org۔ 2014-09-09۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  9. "Ranking of economies - Doing Business - World Bank Group"۔ Doing Business۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  10. "Personal laws in Bangladesh: require enactment and amendment"۔ Observerbd.com۔ 2015-07-09۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  11. "Christian Marriage Act, 1872 (Act No. XV of 1872)"۔ Bdlaws.minlaw.gov.bd۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  12. "Income-tax Ordinance, 1984 (Ordinance No. XXXVI of 1984)"۔ Bdlaws.minlaw.gov.bd۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  13. http://nbr.gov.bd/uploads/acts/7.pdf
  14. http://nbr.gov.bd/uploads/acts/18.pdf
  15. "Municipal Taxation Act, 1881 (Act No. XI of 1881)"۔ Bdlaws.minlaw.gov.bd۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  16. Asif Showkat Kallol (2017-04-24)۔ "Govt to now allow trade unions in EPZ factories"۔ Dhaka Tribune۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 
  17. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 02 جولا‎ئی 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2018 
  18. "Bangladesh: IP Laws and Treaties"۔ Wipo.int۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جولا‎ئی 2017 

بیرونی روابط

ترمیم