بھانو بھکت آچاریہ
بھانو بھکت آچاریہ ایک نیپالی مصنف، شاعر اور مترجم تھے جنہیں عام طور پر نیپالی زبان کا اول مصنف سمجھا جاتا ہے. راماین والمیکی کو سنسکرت سے نیپالی میں ترجمہ کرنے والے پہلے شخص ہونے کی وجہ سے انھیں آدی کوی کا خطاب دیا گیا ہے۔ بعد میں شاعر موتی رام بھٹ نے ان کی نظموں کو شائع فرمایا تھا.
آدی کوی بھانو بھکت آچاریہ | |
---|---|
شاعر بھانو بھکت آچاریہ | |
پیدائش | 13 جولائی 1814 چوندی رمگھا، تنہوں ضلع، سلطنت نیپال |
وفات | 1868ء سیتی گھاٹ، تنہوں ضلع، سلطنت نیپال |
پیشہ | شاعر |
زبان | نیپالی |
قومیت | نیپالی |
شہریت | نیپالی |
بچپن اور تعلیم
ترمیمبھانو بھکت آچاریہ 13 جولائی 1814ء کو نیپال کے تنہوں ضلع میں واقع چوندی رمگھا میں دھننجے اور دھرماوتی کے یہاں پیدا ہوئے تھے.[1] ان کے والد ایک سرکاری ملازم تھے اور اپنے گھر میں پیدا پہلی اولاد تھے۔ آچاریہ نے سنسکرت میں ابتدائی تعلیم اپنے دادا سے اور اعلیٰ تعلیم وارانسی میں حاصل کی.[2][3]
تحریر
ترمیمقدیم اعصار میں نیپالی سمیت جنوب ایشیائی زبانیں زیادہ تر لسانی ذرائع تک محدود تھیں جس کی وجہ سے زبانوں کی تحریر کم ہی ہوتی تھی. جنوبی ایشیا میں لکھی گئی کتب کی اکثریت صرف سنسکرت میں دستیاب ہونے کی وجہ سے وہ عام عوام کے لیے ناقابل رسائی تھیں. چوں کہ استادوں، علم کی طالبوں اور پنڈتوں کے عہدے میں براہمنوں کی افضلیت تھی، سبھی مذہبی تصانیف تک کی رسائی براہمنوں اور سنسکرت میں تعلیم یافتہ اشخاص تک محدود تھی. نیپال میں سنسکرت میں شاعری تو لکھی جاتی تھی مگر آچاریہ نے نیپالی زبان میں شاعری لکھنی شروع کی جس کی وجہ سے زبان کی ترقی کے ساتھ ہی انھیں رانا حاکموں سے بھی حمایت حاصل ہوئی. رام گاتھا سننے کے بعد ان میں راماین کو نیپالی میں ترجمہ کرنے کی تمنا جاگ اٹھی. علما مانتے ہیں کہ جغرافیائی اثر و رسوخ اور ذاتی مرم و حقیقت دل کو برقرار رکھتے ہوئے ترجمہ شدہ بھانو بھکتی راماین میں راماین ولمیکی کا جذبہ موجود ہے جس کی وجہ سے یہ رچنا شاعری ہونے کے باوجود گانا جیسی سنتی ہے۔
آچاریہ نے نہ ہی کبھی مغربی تعلیم حاصل کی نہ ہی وہ بدیسی ادب سے مانوس تھے جس کی وجہ سے ان کی تصانیف میں ایک خاص نیپالی انداز پایا جاتا ہے۔ ان کی تصانیف عام طور پر مذہب، سادگی اور حب الوطن جیسی بھاری موضوعات پر بنیاد ہونے کے باوجود سلیس انداز میں پیش ہیں۔ امیر خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے انھیں زندگی میں تب تک کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوئی جب تک ان کی ایک گھاسی سے ملاقات ہوئی. اس گھاسی سے بات چیت کرنے کے بعد آچاریہ بھی اپنے معاشرے میں کوئی اہم شرکت دینے کو متاثر ہوئے. انھوں نے اپنی زندگی بھر میں کل دو بہترین رچنائیں لکھیں جن میں بھانو بھکتی راماین اور قیدخانے میں وزیر اعظم کو لکھا گیا ایک خط شامل ہوتے ہیں۔ دفتری کاغذات پر دستخط کرتے وقت ہوئی غلط فہمی کی وجہ سے انھیں سزائے قید دی گئی۔ قیدخانے میں ان کی صحت بگڑتی گئی اور انھیں رہائی کی امید تو کئی بار دی گئی مگر ان کے مدعے کی سنوائی تک نہیں ہوئی. اسی لیے انھوں نے اپنی رہائی کی گزارش کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم کو ایک خط لکھا جسے حال میں ان کی بہترین رچناؤں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ اس خط میں لکھی گئی شاعری نے نہ صرف ان کی رہائی دلائی بلکہ انھیں حکومت کی طرف سے معاوضہ بھی ملا. 1868ء میں ان کی وفات کے وقت میں انھیں معلوم نہیں تھا کہ کسی زمانے میں وہ نیپال کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک میں گنے جائیں گے. ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شائع نہیں فرمائی گئیں جس کی وجہ سے اس وقت ان کی کرتیوں کو آبرو نہیں ملی. 1887ء میں موتی رام بھٹ نے آچاریہ کی تصانیف پتہ لگا کر وارانسی میں چھپائی کے لیے لے جانے کے بعد ہی ان کی تصانیف شائع ہوئیں. آچاریہ کی رچناؤں میں سے ایک وادئ کاٹھمانڈو اور ان کی باشندوں کے ذکر کے لیے مشہور ہے۔ حالانکہ آچاریہ نیپال کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں، ان کی تصانیف نیپالی ادبی تاریخ میں باقی شاعروں کی تصانیف جیسی مقبول نہیں ہیں.
ورثہ
ترمیمبھانو بھکت آچاریہ کو نیپالی زبان کے آدی کوی کے طور پر احترم کیا جاتا ہے۔ آچاریہ کو یہ خطاب شاعر موتی رام بھٹ نے 1891ء میں آچاریہ کے سوانح لکھنے کی ترتیب میں دیا تھا۔ سو سوانح میں شائع بھٹ کی وضاحت کے مطابق آچاریہ کو آدی کوی کہلانے کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ نیپالی زبان میں لکھنے والے پہلے شاعر تھے بلکہ یہ ہے کہ وہ نیپالی میں مرم و حقیقت دل کو مد نظر پیش کر لکھنے والے پہلے شاعر تھے.[2][3][4]
ہر سال نیپالی جنتری کے مطابق آشاڑ مہینے کے انتیسویں دن میں آچاریہ کی سالگرہ کے موقع پر حکومت نیپال اور دنیا بھر موجود نیپالی عوام بھانو جینتی مناتے ہیں۔ اس موقع پر نیپال کے موقع پر مقبول مصنفین اور شعرا کی موجودگی میں مختلف ادبی کاریکرموں کی منصوبہ بندی ہوتی ہے.[3][5][6][7]
تصاویر
ترمیم-
چوندی رمگھا میں آچاریہ کا مجسمہ
-
نیپال اکادمی میں مجسمۂ بھانو
-
آدی کوی بھانو بھکت آچاریہ
-
بھانو بھکت کا اپنے بیٹے کو لکھا گیا خط (1858ء)
-
چوراستہ، دارجلنگ میں آچاریہ کا مجسمہ
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Bhanubhakta Acharya: 5 reasons why a poet became a household name in Nepal"۔ آن لائن خبر (بزبان برطانوی انگریزی)۔ 13 جولائی 2021ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولائی 2021ء
- ^ ا ب نر ناتھ آچاریہ، شیو راج آچاریہ، سامبا راج آچاریہ، جے راج آچاریہ (1979ء)۔ आदिकवि भानुभक्त आचार्यको सच्चा जीवनचरित्र۔ تنہوں: نر ناتھ آچاریہ۔ OCLC 10023122
- ^ ا ب پ "Adikabi Bhanubhakta Acharya" (بزبان انگریزی)۔ کاٹھمانڈو: باس نیپال۔ 22 فروری 2019ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019ء
- ↑ وشنو کے سی (14 جولائی 2006ء)۔ "Bhanubhakta: The First Poet Of Nepali language" (بزبان انگریزی)۔ اوہ مائی نیوز!۔ 6 نومبر 2019ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 فروری 2019ء
- ↑ "Development Boards for Kami, Damai, Sarki announced" (بزبان انگریزی)۔ دارجلنگ۔ 14 جولائی 2016ء۔ 23 جون 2018ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2019ء
- ↑ "PM Oli urges new generation to follow ideals of Bhanubhakta" (بزبان انگریزی)۔ کاٹھمانڈو۔ 13 جولائی 2018ء۔ 22 فروری 2019ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2019ء
- ↑ "Morning procession to mark Bhanu Jayanti" (بزبان انگریزی)۔ کاٹھمانڈو۔ 13 جولائی 2018ء۔ 21 فروری 2019ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 فروری 2019ء