بیان بن سمعان تمیمی، مغیرہ بن سعید عجلی کا معاصر تھا۔ فرقہ بیانیہ جو غلاة روافض کی ایک شاخ ہے اس بیان کا پیرو ہے بیان نبوت کا مدعی تھا اور کہا کرتا تھا کہ میں اسم اعظم کے ذریعہ سے زہرہ کو بلا لیتا ہوں۔ ہزارہا لوگ حسن ظن کے سنہری جال میں پھنس کر اس کی نبوت کے قائل ہو گئے۔

بیان کذاب بن سمعان
(عربی میں: بيان بن سمعان التميمي ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 7ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 737ء (36–37 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات نذر آتش   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات سزائے موت   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قومیت خلافت امویہ
عملی زندگی
تلمیذ خاص الجعد بن درہم   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل اسلامی الٰہیات   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عقیده تناسخ و حلول

ترمیم

بیان ہندوؤں کی طرح تناسخ و رجعت اور حلول کا قائل تھا۔ اس کا دعوی تھا کہ میرے جسم میں خدائے کر دگار کی روح حلول کر گئی ہے اور اس کے متبعین اس کو اسی طرح خدا کا اوتار یقین کرتے تھے جس طرح ہنود رام چندر جی اور کرشن جی کو خدائے بر تر کا اوتار گمان کرتے ہیں۔ بیان اپنے اس دعوی کے اثبات میں کہ ذات خداوندی ہر چیز میں حلول کرتی ہے۔ قرآن پاک کی متعدد آیتیں پیش کر تا تھا لیکن ظاہر ہے کہ آیات قرآنی سے اس قسم کا استدلال انوکھا اور عجیب و غریب ہے۔

بیان کا دعوی تھا کہ مجھے قرآن کا بھی بیان سمجھایا گیا ہے۔ اور آیات قرآنی کا یہ مطلب و مفهوم نہیں سمجھتے ہیں۔

فرقہ بیانیہ کا خیال ہے کہ امامت محمد بن حنفیہ سے ان کے فرزند ابو ہاشم سے ایک وصیت کی بنا پر بیان بن سمعان کی طرف منتقل ہو گئی۔ بیانیہ اپنے زعیم و مقتداء کے حقیقی منصب و مقام کے متعلق مختلف بیان ہیں۔ بعض تو اس کو نبی مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میان نے شریعت محمدی (على صاحبہ التحيۃ والسلام) کا ایک حصہ منسوخ کر دیا اور بعض اسے معبود بر حق خیال کرتے ہیں۔ بیان نے ان سے کہا تھا کہ خدا کی روح انبیا اور ائمہ کے اجسداد میں منتقل ہوتی ہوئی ابو ہاشم عبد اللہ بن حنفیہ میں پہنچی۔ وہاں سے میری طرف منتقل ہوئی۔ یعنی حلولی مذہب کے موجب خود ربوبیت کا مدعی تھا۔ اس کے پیرو کہتے ہیں کہ قرآن کی یہ آیت بیان ہی کی شان میں وارد ہوئی ہے۔ ترجمہ :-( یہ لوگوں کے لیے بیان اور محققین کے لیے ہدایت و موعظته ہے) چنانچہ خود بیان نے بھی کہا ہے۔ ترجمہ :- (میں ہی بیان ہوں اور میں ہی ہدایت و موعظہ ہوں۔)

علی بن ابی طالب کی خدائی کا اعتقاد

ترمیم

بیان حضرت علی بن ابی طالب کی خدائی کا اعتقاد رکھتا تھا اور اتحاد کا قائل تھا کہ خالق الرض و سماء کا ایک جزو علی علیہ السلام کے جد مباد ک میں حلول کر کے ان سے متحد ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان کے اندر وہی قوت الہی تھی جس کی بدولت انھوں نے دره خیبر اکھاڑ دیا تھا۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد وہ جزو الہی جناب محمد بن حنفیہ کی ذات میں پیوست ہوا۔ ان کے بعد ابو ہاشم عبد اللہ بن محمد کے جسم میں جلوہ گر ہوا۔ جب وہ بھی دار الخلد کو رخصت ہو گئے تو وہ بیان بن سمعان یعنی خود اس کی ذات کے ساتھ متحد ہو گیا۔ بیان یہ بھی کہا کرتا تھا کہ آسمان اور زمین کے معبود الگ الگ ہیں۔[1]

محمد باقر کو دعوت

ترمیم

بیان حضرت امام زین العابدین کی تکذیب کرتا تھا۔ اس نے حضرت امام محمد باقر جیسے جلیل القدر ہستی کو بھی اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت دی تھی اور اپنے خط میں جو عمر بن عفیف کے ہاتھ امام ممدوح کے پاس بھجا لکھا تھا۔ ترجمہ :-(تم میری نبوت پر ایمان لاؤ تو سلامت رہو گئے اور ترقی کرو گے۔ تم نہیں جانتے کہ خدا کسی کو نبی بناتا ہے) کہتے ہیں کہ امام محمد باقر یہ خط پڑھ کر بہت خشمناک ہوئے اور قاصد سے فرمایا کہ اس خط کو نگل جاؤ۔ وہ بے تائل نگل گیا اور معاً تڑپ کر جان دے دی۔ اس کے بعد امام نے بیان کے حق میں بد دعا کی۔ امام جعفر صادق نے بھی بیان پر لعنت کی ہے۔

ہلاکت کا بھیانک نظارہ

ترمیم

جب خالد بن عبد اللہ قسری عامل کوفہ نے مغیرہ بن سعید عجلی کو گرفتار کیا تھا۔ بیان بھی اس وقت 119ھ میں گرفتار کر کے کوفہ لایا گیا تھا۔ جب مغیرہ جل کر خاک سیاہ ہو چکا تو خالد نے بیان کو حکم دیا کہ سرکنڈوں کا ایک گٹھا بغل میں لے لے۔ یہ دیکھ کر خالد نے کہا تم پر افسوس ہے کہ تم ہر کام میں حماقت اور تعجیل سے کام لیتے ہو۔ کیا تم نے مغیرہ کا حشر نہیں دیکھا؟ اس کے بعد خالد کہنے لگا کہ تمھارا دعوی ہے کہ تم اپنے اسم اعظم کے ساتھ لشکروں کو ہزیمت دیتے ہو۔ اب یہ کام کرو کہ مجھے اور میرے عملہ کو جو تیرے در پے جان ہیں ہزیمت دے کر اپنے آپ کو بچالو مگر وہ جھوٹا تھا لب کشائی نہ کر سکا۔ آخر مغیرہ کی طرح اس کو بھی زنده جلا کر بے نشان کر دیا گیا۔[2]

امام جعفر صادق اور علامہ عبد القاہر کی رائے

ترمیم

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبد الله جعفر صادق سے عرض کیا کہ بیان آیت

  • والذي في السماء إله وفي الأرض إله

کی یہ تاویل کر تا ہے آسمان کا الله اور ہے اور زمین کا اور اور آسان کا اللہ زمین کے معبود سے افضل ہے۔ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ زمین و آسمان کا معبود ایک ہی خدائے واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور بیان دجال کذاب ہے۔ کتاب منہج المقال میں ہے کہ امام ابو عبد الله جعفر صادق فرماتے تھے کہ ارشاد خداوندی : ترجمہ :- (کیا میں بتا دوں کہ شیاطین کن لوگوں پر اترتے ہیں ؟ دروغ گوبد کر دگار پر) میں شیاطین سے مراد سات اشخاص ہیں مغیرہ بن سعید عجلی اور بیان من سمعان تھی اور اسی قماش کے پانچ اور اشخاص۔

  • علامہ عبد القاہر بغدادی کتاب ”الفرق بين الفرق میں لکھتے ہیں کہ فرقہ بیانیہ ملت اسلام سے خارج ہے کیونکہ یہ لوگ بیان کو معبود یقین کرتے ہیں اور اس گروہ کے جو افراد بیان کو نی کہتے ہیں وہ بھی اسی شخص کی مانند ہیں جو مسیلمہ کذاب کونبی گمان کرتا ہے اور یہ دونوں فریق اسلامی فرقوں سے خارج ہیں۔ “[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. جھوٹے نبی مولف ابو القاسم دلاوری صفحہ 139 تا 142
  2. (تاریخ طبری ج 8 ص )241)
  3. (الفرق ص228)