تبادلۂ خیال:محمد بن عبد الوہاب

یادہانی:اردو ویکیپیڈیا یا ویکیمیڈیا فاؤنڈیشن کا، صارفین کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

براہ مہربانی متنازع موضوعات پر تبادلۂ خیال کرتے وقت تہذیب و شائستگی کا مظاہرہ کریں، فرقہ وارنہ گفتگو سے گریز کریں اور اپنی رائے کو شستہ الفاظ میں پیش کریں، نیز تاریخی واقعات کو فیصلہ کن انداز میں غلط یا درست قرار دینے کے بجائے غیر جانبداری کے ساتھ بیانیہ انداز میں تحریر کریں۔ خیال رہے کہ یہاں مذہبی، سیاسی اور تاریخی موضوعات میں فریقین اور بنیادی/ثانوی/ثلثی مآخذ سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، چناں چہ اگر اس مضمون میں محض ایک نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے تو اسے جانبدار باور کرنے کے بجائے آپ دوسرا نقطہ نظر با حوالہ شامل کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ویکیپیڈیا پر کسی بھی طرح کی جانبداری کو تخریب کاری سمجھا جاتا ہے۔

نہیں جناب اس مضمون میں کو ئی بات غلط نہیں ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے اس مضمون کی ایک یاک بات درست ہے، جناب محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ جو حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے کی اصلاحی تحریک نے اُس دور کی استعماری، مشرک اور لادین قوتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، حالانکہ مصر، ترکی اور ہندوستان وغیرہ میں نام نہاد اسلامی حکومتیں قائم تھیں لیکن حقیقت میں انہوں نے صرف اسلام کا لیبل استعمال کیا ہوا تھا اور عملاً اسلام سے رتی برابر تعلق نہ تھا، آج کے ناقدین کی طرح وہ بھی دین میں نئی نئی ایجادات کرنے والے تھے۔ ہندوستان کے بدنام زمانہ عیاش صوفی حکمران اکبر بادشاہ کی لادینیت کے قصے اور دین اسلام کے نام پر لادینت کو داخل کرنے کی کوشش کے طور پر لکھی جانے والی "دینِ الٰہی " نامی کتاب سے کون واقف نہیں۔ اسلام کے یہ دعویدار اگر حقیقتا اہل ایمان میں سے ہوتے تو یہ وسیع عریض ملک کہ جہاں آج مزارات تو انگنت ہیں لیکن اسلامی حکوتیں نہیں اور مسلمان قسم پرسی کی زندگی گزار رہیں صورت حال یکسر مخلتف ہوتی۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ترکی کی سلطنت عثمانیہ سے ہندوستان تک یہی قبر پرست صوفی حاکم تھے جنہوں نے اسلام کو بالائے طاق رکھ کر شرک اور عیاشی کو اپنا شیار بنایا، تاج محل محل اور مینار تو کئی بنا لیے لیکن اسلام سے کوسوں دور رہے اور پھر دنیا اور آخرت میں ذلیل خوار ہوئے ۔ آج بھی قرآن و سنت کے ماننے والوں کو یہ قبر پرسٹ ٹولا برا بھلا کہتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھتا وہ خود تو علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی مثال بنے بیٹھے ہیں کہ جس میں انہوں نے کہا تھا

میں کٹھکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح اور تو فقط اللہ ہو اللہ ہو

==کوئی مانے یا نہ مانے اس مضمون کی ایک یاک بات درست ہے، جناب محدو کہ حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے تھے کی اصلاحی تحریک نے اُس دور کی استعماری، مشرک اور لادین قوتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، حالانکہوغیرہ میں نام نہاد اسلامی حکومتیں قائم تھیں لیکن حقیقت میں انہوں نے صرف اسلام کا لیبل استعمال کیا ہوا تھا اور عملاً اسلام سے رتی برابر تعلق نہ تھا، آج کے ناقدین کی طریہ دعویدار اگر حقیقتا اہل ایمان میں سے ہوتے تو یہ وسیع عریض ملک کہ جہاں آج مزارات تو انگنت ہیں لیکن اسلامی حکوتیں نہیں اور مسلمان قسم پرسی کی زندگی گزار رہیں صورت حال یکسر مخلتف ہوتی۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ترکی کی سلطنت عثمانیہ سے ہندوستان تک یہی قبر پرست صوفی حاکم تھے جنہوں نے اسلام کو بالائے طاق رکھ کر شرک اور عیاشی کو اپنا شیار بنایا، تاج محل محل اور مینار تو

السلام علیکم

السلام علیکم عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ کے تعارف میں ان کی سیرت بیان کی گئی ہے لیکن کسی بد بخت نے اس سیرت میں یہ پیرا گراف شامل کر دیا ہے اسے اس مضمون سے حذف کیا جائے

ُمحمد بن عبد الوہاب نے اپنے مختلف مضامین چھاپ چھاپ کر اسلام میں نئی اختراعات نکالنا شروع کر دیں۔ اُس وقت محمد بن عبد الوہاب نے لوگوں کو ان کاموں سے روکا جو شریعت کے عین مطابق تھے۔ محمد بن عبد الوہاب تعلیم ختم کرنے کے بعد دینِ اسلام کے ختم کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر پڑے۔ انہوں نے لوگوں کو کتاب و سنت سے دور کیا اور خالص توحید کے معنی تبدیل کر دیے۔ محمد بن عبد الوہاب ایک انگریز ایجنٹ تھے۔ انہوں نے ایک انگریز جس نے نقلی طور پر مسلمان کا روپ دھارا تھا کہ ساتھ مل کر قرآن پاک کی تفسیر کی جو حتی الامکان غلط تھی۔ بعد ازاں اس انگریز نے ان چیزوں کا انکشاف اپنی ایک کتا ب میں کیا۔ ان کاموں سے سارے ملک میں ان کی مخالفت کا طوفان اٹھ گیا۔

واپس "محمد بن عبد الوہاب" پر