محمد بن عبد الوہاب

محققین، مفسرین، مذہبی اور متقی رہنما اور قانونی ماہرین

ابو الحسین محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان بن علی التمیمی (1115ھ - 1206ھ) بمطابق (ولادت: 1703ءوفات: 21 مئی 1792ء) محقق، مفسر، مذہبی رہنما اور عالم دین اور وہابی مسلک کے بانی تھے۔[9][12][26][27][28][29][30][31][11]

محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان التیمی
(عربی میں: مُحمَّد بن عبد الوهَّاب ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1703ء [1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
العيينہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 جون 1792ء (88–89 سال)[3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
درعیہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
اولاد
فہرست ..
  • ‘علی(اول)
  • حسن
  • حسین
  • ابراہیم
  • عبد اللہ
  • علی (دوم)
  • فاطمہ
  • عبد العزیز
والد عبد الوہاب بن سلیمان   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
استاد عبد الوہاب بن سلیمان ،  عبد الله بن محمد فيروز ،  محمد حیات سندھی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب ،  علی بن محمد بن عبد الوہاب ،  حسین بن محمد بن عبد الوہاب   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [8]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں کتاب التوحید ،  اسلام کے تین بنیادی اصول   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر ابن تیمیہ[9][10][11]
ابن قیم جوزیہ[10]
محمد حیات سندھی
متاثر محمد بن سعود،
آل سعود
عبد العزیز بن باز،
محمد بن صالح عثیمین،
محمد ناصر الدین البانی،
عبد الرحمٰن السدیس،
سعود الشریم

1158ھ میں نجد کے ایک شہر درعیہ کے امیر محمد بن سعود نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے کا عہد کیا اور کتاب و سنت کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلنے پر آمادگی ظاہر کی۔

محمد بن عبد الوہاب نے پچاس سال تبلیغ کا کام انجام دینے کے بعد وفات پائی۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے جس میں کتاب التوحید سب سے زیادہ مشہور ہے۔ محمد بن عبد الوہاب کی تحریک نے اسلامی دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔

ابتدائی زندگی

ابن عبد الوہاب عرب کے علاقے نجد کے ایک قصبہ العيينہ میں پیدا ہوا۔ ایک معروف مفروضہ یہ ہے کہ 1703ء میں پیدا ہوئے، [32] لیکن محققین نے 1691ء سے لے کر 1701ء تک کے حوالے بھی دیے ہیں۔[حوالہ درکار] دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ جاکر قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ لیکن علم کی پیاس پھر بھی نہ بجھ سکی۔ پس مشہور ہے کہ اپنے والد عبد الوہاب بن سلیمان حنبلی کی اجازت سے حصول علم کے لیے شام، عراق (اور کچھ روایتوں کے مطابق اس دور کے دار الخلافہ استنبول) کا سفر بھی اختیار کیا۔[33]

نام و نسب

شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان بن علی بن محمد بن احمد بن راشد بن برید بن محمد بن مشیر بن عمیر بن مااداد بن رئیس ابن زائیر بن محمد بن علوی بن وہب بن قاسم بن موسی بن مسعود بن عقبہ بن ثناء بن نہشال بن شداد بن ظہیر بن شہاب بن ربیعہ بن ابی سعود بن مالک بن حنداللہ بن مالک بن زید منات بن تمیم التیمی۔[34][35][36][37][38][39][40] ابن وہاب کا نسب بنو تمیم قبیلہ الیاس پر نبی کریم کے نسب شریف سے جا ملتا ہے۔[41][42][43]

محمد بن عبد الوہاب کا تعلق بنو تمیم قبیلہ سے ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے[44][45]

حَدَّثَنَا هُرَيْرَةَ، قَالَ : " مَا زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلَاثٍ، سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِيهِمْ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ : هُمْ أَشَدُّ أُمَّتِي عَلَى الدَّجَّالِ، قَالَ : وَجَاءَتْ صَدَقَاتُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَذِهِ صَدَقَاتُ قَوْمِنَا، وَكَانَتْ سَبِيَّةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَ : أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّهَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ "۔

ترجمہ

ابوہریرہ نے فرمایا، تین باتوں کی وجہ سے جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میں بنو تمیم سے ہمیشہ محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ دجال کے مقابلے میں میری امت میں سب سے زیادہ سخت مخالف ثابت ہوں گے۔ انہوں نے بیان کیا کہ (ایک مرتبہ) بنو تمیم کے یہاں سے زکوٰۃ ( وصول ہو کر آئی ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ہماری قوم کی زکوٰۃ ہے۔ بنو تمیم کی ایک عورت قید ہو کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اسے آزاد کر دے کہ یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔

وفات

ابن وہاب ماہ شوال 1206ھ بمطابق 1791ء میں انتقال فرما گئے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 92 سال تھی۔ شیخ کی وفات کے بعد آپ کی دعوت کی اشاعت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا۔[46]

حوالہ جات

حواشی

حوالہ جات

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119152169 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb122717906 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6rv4s5j — بنام: Muhammad ibn Abd al-Wahhab — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. Babelio author ID: https://www.babelio.com/auteur/wd/82379 — بنام: Cheikh Mohammed Ibn Abd Al Wahab — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. عنوان : Store norske leksikon — ایس این ایل آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4342&url_prefix=https://snl.no/&id=Muhammad_Ibn_Abd_al-Wahhab — بنام: Muhammad Ibn Abd al-Wahhab
  6. عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana — گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0044734.xml — بنام: Muḥammad ibn ‘Abd al-Wahhāb
  7. بنام: Muḥammad ibn ʽAbd al-Wahhāb — De Agostini ID: https://www.sapere.it/enciclopedia/Muḥammad+ibn+ʽAbd+al-Wahhāb.html
  8. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb122717906 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  9. ^ ا ب پ ت ٹ Brown 2009, p. 245.
  10. ^ ا ب پ ت ٹ ث Haykel 2013, pp. 231–232.
  11. ^ ا ب پ Ágoston & Masters 2009, p. 260.
  12. ^ ا ب پ Esposito 2004, p. 123.
  13. H. Laoust (2012) [1993]۔ "Ibn ʿAbd al-Wahhāb"۔ $1 میں P. J. Bearman، Th. Bianquis، C. E. Bosworth، E. J. van Donzel، W. P. Heinrichs۔ Encyclopaedia of Islam (2nd ایڈیشن)۔ Leiden: Brill Publishers۔ ISBN 978-90-04-16121-4۔ doi:10.1163/1573-3912_islam_SIM_3033 
  14. "Ibn Abd al-Wahhab, Muhammad – Oxford Islamic Studies Online"۔ www.oxfordislamicstudies.com۔ Oxford University Press۔ 2020۔ 15 جولائی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولائی 2020 
  15. Halverson 2010, p. 48.
  16. Khatab 2011, pp. 57–58, 62–63.
  17. Silverstein 2010, pp. 112–113.
  18. ^ ا ب Karen Armstrong (27 نومبر 2014)۔ "Wahhabism to ISIS: how Saudi Arabia exported the main source of global terrorism"۔ New Statesman۔ لندن۔ 27 نومبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 ستمبر 2020 
  19. Khatab 2011, pp. 62–65.
  20. Delong-Bas 2004, pp. 56–65.
  21. Van Bruinessen 2009, pp. 125–157.
  22. Khatab 2011, pp. 65–67.
  23. Saeed 2013, pp. 29–30.
  24. "ترجمة الشيخ محمد بن عبد الوهاب رحمہ اللہ"۔ www.alukah.net۔ 12 جنوری 2017۔ 10 نومبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اپریل 2020 
  25. https://hadithanswers.com/the-banu-tamim-tribe/
  26. Talal Asad (2003)۔ Formations of the Secular: Christianity, Islam, Modernity۔ Stanford, California: Stanford University Press۔ صفحہ: 222۔ ISBN 978-0-8047-4768-4۔ 11 جون 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 ستمبر 2020 
  27. Alastair Crooke (30 مارچ 2017) [First published 27 اگست 2014]۔ "You Can't Understand ISIS If You Don't Know the History of Wahhabism in Saudi Arabia"۔ The Huffington Post۔ New York۔ 28 اگست 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2020 
  28. Ben Hubbard (10 جولائی 2016)۔ "A Saudi Morals Enforcer Called for a More Liberal Islam. Then the Death Threats Began."۔ The New York Times۔ New York۔ ISSN 0362-4331۔ 15 دسمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جون 2020 
  29. Michael Sells (22 دسمبر 2016)۔ "Wahhabist Ideology: What It Is And Why It's A Problem"۔ The Huffington Post۔ New York۔ 8 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 ستمبر 2020 
  30. White 2017, pp. 252–253.
  31. Moosa 2015, p. 97.
  32. تاریخ نجد و حجاز از علامہ عبد القیوم، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشن (کراچی): ص 38
  33. محمد بن عبد الوہاب(سوانح) از "سید علی طنطاوی جوھری مصری" {المتوفی1335 ھ}، ص 19
  34. حسين بن غنام، تاريخ نجد، ت/سليمان الخراشي، ط1، دار الثلوثية، 1431هـ، ص81.
  35. عبد اللطيف بن عبد الرحمن، مصباح الظلام في الرد على من كذب على الشيخ الإمام، ج3، دار العاصمة، الرياض، ص379.
  36. راشد بن جريس، مثير الوجد في أخبار نجد، ص113-114.
  37. إبراهيم بن عيسى، تاريخ بعض الحوادث الواقعة في نجد، ص125.
  38. عبد الرحمن بن قاسم، الدرر السنية، ج16، ص315.
  39. حمد الجاسرة، جمهرة أنساب الأسر المتحضرة في نجد، ج1، 427.
  40. عبد اللہ البسام، علما نجد خلال ثمانية قرون، ج1، ط1، دار العاصمة، الرياض، 1419هـ، ص126.
  41. احمد عبد الغفور عطار (1989)۔ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب۔ صفحہ: 39 
  42. محمد بن صالح عثيمين (1997)۔ Explanation of the three fundamental principles of Islaam۔ Muhammad ibin 'Abdul-Wahhaab.۔ Birmingham: Al-Hidaayah۔ صفحہ: 23۔ ISBN 1-898649-25-1۔ OCLC 40646012 
  43. زرابوزو 2003, p. 15.
  44. صحیح بخاری، حدیث: 2543
  45. صحیح مسلم، حدیث: 2525
  46. زرابوزو 2003, p. 55.

ثانوی ماخذ

مآحذ