عافیہ رائے
" میری ڈائری کا ورق "
تھیٹر کا عروج و زوال ، ذمہ دار کون !!
تھیٹر کا عروج تھا وہ زمانہ جب پاکستان نیشنل آرٹس کونسل اور اکیڈمی آف لیٹرز جیسے ادبی اور ثقافتی ادارے قائم کئے گئے، الحمراء آرٹس کونسل کو نئی عمارت دی گئی تھیٹر میں غیر ملکی ادب کو ڈراموں کی صورت پیش کیا گیا، سٹوڈنٹس تھیٹر کا صحتمندانہ قیام وجود میں آیا،
اسی زمانے میں سرمد صہبائی اور نجم حسین سید نے ہم عصر تھیٹر کی بنیاد رکھی اور یہی وہ دور تھا جب پاکستان میں حقیقت پسند حالات سے مطابقت رکھنے والے کھیل پیش کیے جاتے تھے ، احمد کمال رضوی بھی اسی دور کے تھیٹر کے عروج کے ضمن میں ایک باکمال نام گنا جاتا ہے،
پھر مارشل لاء کا تاریک دور کا سامنا ہوا تھیٹر کو جب ہر قسم کی ثقافتی سرگرمیوں کو قفل لگا دیا گیا حتی کہ سٹوڈنٹ تھیٹر بھی بند ہوا اور سیاسی کارکنان کی طرح ادیب ، شاعر بھی پابندئ سلاسل کے خوف سے روپوش ہونے لگے علماء، فضلاء، شعراء اور ادیب کی دستار کو ان کی گردنوں میں ڈال کر انھیں گھسیٹا گیا،
بھٹو صاحب کی ایک یاد کو برقرار رکھتے ہوئے نیشنل آرٹس کونسل میں کمرشل مقاصد کے تحت ڈراموں کا سلسلہ رواں دواں رہا اور یہ کسی برجستہ جملے پر مبنی اور بغیر ریہرسل کے ڈرامے ہوتے تھے جنھیں سنجیدہ تھیٹر کی جانب سے حقارت کی نظر سے دیکھا گیا البتہ عوامی طبقہ جس میں تاجر طبقہ کی پسندیدگی حاصل رہی،
یہی سے آغاز ہوا کامیڈی تھیٹر کا جس کے روح رواں میں امان اللہ ، سہیل احمد اور عمرشریف جیسے قابل قدر فنکار تھے جن کے برجستہ مگر اخلاقیات کی قدروں میں پابند فقرے اور جگت عوام کی داد سمیٹتی تھی،
جگت قدیم روایت تھی کتھارسس کی جو اس خطے میں استعمال ہوتی آرہی تھی مگر آنے والے دور میں یہ جگت ٹھٹھے اور ذو معنی جملوں کی شکل اختیار کرنے والی تھی جیسے کہ جمالیاتی سینما میں گنڈاسہ اور بڑھک جیسے گھس بیٹھئے شامل ہو گئے تھے،
یوں تھیٹر زوال کی راہ پر آن کھڑا ہوا اب ادب سے لگاؤ رکھنے والوں کی جگہ تماش بینوں نے لے لی اور بیہودہ جملے بازی اور لچر پن نے ادب کو گھسیٹ کر تھیٹر سے باہر نکال پھینکا اور مہذب اور شائستگی پسند مزاح نگار اور فنکار اس تھیٹر سے راہ و رسم ختم کرتے کرتے بالکل کنارہ کش ہوگئے،
اور اسی سے راہیں کھلیں فحاشی اور لچر پسند تھیٹر کی جب محض خوبصورت چہرے اور ننگے پن کو ذوق بنا لیا گیا، اب تھیٹر کا ادب سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ رہا تھا اب تھیٹر ڈرامہ محض مجرا بن کہ رہ گیا جہاں انتہائی بیہودہ ڈانس اور فحش کلامی کا طوطی بول رہا ہے،
اب وہ تھیٹر قصہ پارینہ ہوگیا جب اجو کا تھیٹر جیسے چلانے والے مدیحہ گوہر اور انکے شوہر شاہد ندیم جیسے شستہ فنکار تھیٹر کرتے اور شرفا اپنی فیملیز کے ساتھ ڈرامے دیکھنے آتے تھے،
اب کے تھیٹر کا معیار تو شاید کسی نائکہ کے کوٹھے سے بھی ابتر ہوچکا ہے وہاں بھی شاید کوئی حد مقرر ہوگی مگر اب تھیٹر پر تو شاید اگلے کچھ وقت میں لباس کی زحمت بھی نہ کی جائے۔
خوش آمدید!
ترمیم(?_?)
جناب عافیہ رائے کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔
ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔ آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
|
-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 13:08، 12 مارچ 2022ء (م ع و)
" میری ڈائری کا ورق "
مشتعل ہجوم کے ماورائے عدالت فیصلے توہین مذہب کے نام پر اور ناموس رسالت کے نام پر ؛
پاکستان میں دن بدن بڑھتی ہیجانیت اور شدت پسندی کے واقعات ، سڑکوں پر ہوتے ماورائے عدالت فیصلے ، ناموس رسالت کے نام پر کئے جانے والے قتل یہ ہم کس ڈگر پر چل نکلے اگر یہ ہیجان پرستی غالب آتی ہے ناموس رسالت کے معاملات پر تو ایسا ہیجان محمد عربی کے صحابہ یا خلفاء میں کیوں نہ دیکھا گیا ، کفار مکہ نے جب بھی سازش اختیار کی تو محمد مصطفٰی رحمت العالمین نے ان کی شر پسندی کا سر کچلا اپنی حکمت اور تدبیر سے ، کفار کے قتل و غارت کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے مدینہ سے ہجرت کر جانا آپ کی اسوہ حسنہ ہمیں تدبر ، برداشت اور معاملہ فہمی کا درس دیتی رسول اللہ کی زندگی کا ہر دن کفار کی شورش کا سامنا کرتے گزرا مگر رحمت العالمین نے کبھی اپنی ذات پر کئے جانے والے مظالم کی بنا پر ماتھے پر شکن بھی نہ آنے دی اور نہ ہی کبھی اپنے صحابی ، خلفاء اور امت کو تیش کی جانب قدم بڑھانے دیا آپ کے اسوہ حسنہ بر عمل کرتے قدم بڑھائے فاطمہ زہرا کے لعل نے ، کربل کی زمین گواہی دیتی ہے آج تک در گزر اور انسانیت دوست درس کی لیکن آج رحمتوں کے تاج والے کی ہی امت ان کی سنت کو بھلا کر شدت پسندی ، ہیجانیت کو پروان چڑھائے ہوئے ہے اور انسان کے خون کی حرمت سے انکاری ہے ۔
2012 میں بہاولپور جیل کے اندر موجود ایک شخص کو مشتعل ہجوم نے جیل سے باہر لا کر آگ لگا دی ،
2013 میں بادامی باغ کی ایک جوزف نامی مسیحی کالونی میں 7 ہزار پر مشتمل ہجوم کی طرف سے آگ لگائی گئی 150 گھروں کو ، دکانات کو اور 2 گرجا گھروں کو ان میں سے ایک فرد پر توہین مذہب کا الزام تھا ، بعد میں تحقیقات میں ذاتی رنجش بنیاد تھی ،
2014 میں ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کی بھینٹ چڑھایا گیا ،
2017 میں ایک مشتعل ہجوم کی ہیجان خیزی کا شکار ہوئے مشال خاں یوسفزئی ان پر الزام لگا توہین مذہب کا اور جامعہ کی چار دیواری کے اندر وہ ہجوم گردی کا شکار ہوئے ، ان کی انگلیاں کاٹ دی گئیں ،
2020 میں ایک بینک مینجر کو اسی بینک کے گارڈ نے توہین مذہب کے نام پر قتل کیا جو کہ بعد میں ذاتی دشمنی کا شاخسانہ نکلا،
گزشتہ مہینوں میں سری لنکن شہری کی اندوہناک موت کا جو نظارہ دیکھا اسلامی ریاست میں وہ دل دہلا دینے والا واقعہ تھا اس کی لاش جلائی گئی اور اس ٹھڈے مارے گئے ،
ضلع خانیوال میں ہجوم گردی کا شکار ہونیولا ایک مجذوب جسے اینٹوں اور ڈنڈوں سے قتل کیا گیا، اور اس کی لاش پر بھی تشدد کیا جاتا رہا ، 12 سال پہلے قتل کئے جانیوالے 2 بھائی مغیث اور منیب آج بھی ان کے گھر والے دکھ و یاس کی چلتی پھرتی داستان ہیں جن کے بڑھاپے کے 2 جوان سہارے ایک مشتعل ہجوم کی درندگی کا شکار ہوئے،
پاکستان میں ہجوم کی شدت پسندی کا شکار صرف مسیحی یا احمدی ہی نہیں بلکہ نبی کے اپنے امتی ہی اپنے بھائیوں کے ہاتھوں توہین مذہب کے نام پر قتل ہو رہے ہیں ، 600 تک کے اعداد دیکھنے میں آئے اپنے بھائی بندوں کے ہاتھوں جان سے گزر جانے والے مسلمان بھائیوں کی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورے ہجوم میں کوئی ایسے دو چار بشر بھی نہیں ہوتے جو انھیں قانون ہاتھ میں لینے سے روک سکیں ، پورے ہجوم پر اس طرح خون سوار ہو جانا ،
کیا ہمارا خود کو مسلمان ثابت کرنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا اور امت محمد اسی شدت پسندی کی روش اختیار کر کے ہی خود کو ناموس رسالت کے محافظ ثابت کرتے رہیں گے ہمارے اعمال ، ہمارا سنت نبوی پر عمل کرنا ، حق گوئی اور حق کے ساتھ کھڑے رہنا ، عدل و انصاف اختیار کرنا ، شرم و حیا کے تقاضوں کو پورا رکھنا صلہ رحمی ، در گزر اور خندہ پیشانی کیا یہ اصول ہم اپنا کر محمد کے امتی ہونے کا حق پورا نہیں کر سکتے !! کیا خون ریزی ، شدت پسندی اور ہیجانیت یہ دین رسول (ص) ہے !! زرا سوچئے
آداب؛ Aitkaaf نامی مضمون کے متعلق یہ گفتگو جاری ہے کہ آیا یہ ویکیپیڈیا کی ہدایات اور پالیسیوں کے مطابق ہے یا اسے حذف کر دیا جائے۔
اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کرنے سے قبل یہاں اس مضمون پر آزادانہ گفتگو جاری رہے گی جس میں تمام صارفین اور آپ بذات خود شریک ہو سکتے اور اپنی رائے پیش کر سکتے ہیں۔ نیز دوران گفتگو میں صارفین کو مذکورہ مضمون میں ترمیم و تبدیلی کی اجازت ہے تاکہ حذف کے امکانات ختم ہو جائیں اور مضمون باقی رہ سکے، تاہم گفتگو مکمل ہونے سے قبل مضمون سے حذف کا ٹیگ نہیں ہٹایا جا سکتا۔
طاہر محمود (تبادلۂ خیال • شراکتیں) 04:10، 7 جنوری 2024ء (م ع و)