خوش آمدید!

ترمیم
ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں:   اور  

(?_?)
ویکیپیڈیا میں خوش آمدید
 

جناب علیم طاہر کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 215,018 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



 

یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس ( ) زریہ پر طق کریں۔

 


 

ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 09:57، 1 نومبر 2023ء (م ع و)

افسانہ :سانپ پکڑا گیا، افسانہ نگار: علیم طاہر

ترمیم

افسانہ نمبر 01 :

       "سانپ پکڑا گیا "

افسانہ نگار : علیم طاہر

             آج صبح شہر کے بھنگار بازار میں دکانیں کھلنی شروع ہو رہی تھیں. اکا دکا دکانیں کھل چکی تھیں.. ایک دکاندار نے شٹر کھولا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھیلتی چلی گیئں کیونکہ ایک موٹا بھدا اور خوفناک لمبا سانپ سر سر کرتے ہوئے دکان کی دیوار سےسٹ کر رکھے سامان کی آڑ میں گھس گیا. دکاندار ہڑبڑا کر پیچھے ہٹا اور گرتے گرتے سنبھلتا ہوا دکان کے باہر سڑک پر آ گیا ہانپتے کانپتے کچھ دکانداروں کو پکار کر بلا لیا اور سانپ کے اندر چھپنے کی خبر دی. آٹھ دس افراد اکٹھا ہوچکے تھے. سب کے چہرے پر خوفناک تجسّس مسلط تھا. جتنے منہ اتنی باتیں، کسی نے کہا

"گبھراؤ نہیں. ابھی سانپ پکڑنے والے کو کال کرتا ہوں وہ پکڑ کر لے جائے گا.

دوسرے نے کہا کہ

" جلدی بلاؤ بھائی. کسی کو ڈس لیا تو؟

تیسرے نے کہا کہ

"لگتا بہت زہریلا ہے."

کال کرتا ہوا شخص " بھائی بھنگار بازار دکان نمبر 36 میں ایک زہریلا سانپ دیکھا گیا.

ہاں ہاں اندر گھس گیا ہے، اسی دکان میں جس میں ایک درخت کی جڑیں اور تنا چھوڑ کر دیوار اٹھائی گئی ہے..

اچھا، دس منٹ میں، ٹھیک ہے آجاؤ..."

فون کٹ ہوتے ہی سب کے چہرے پر دس منٹ انتظار کی بے چینی صاف دیکھی گئی.. کچھ دیر میں....

ایک نوجوان آیا، جس کا چہرا جنگلی ادیواسی جیسا تھا مگر جینس اور شرٹ میں وہ مداریوں کے خاندان کا فرد معلوم ہو رہا تھا. آتے ہی اس نے خوفناک قہقہہ لگایا. اس کے کئی دانتوں پر سونا رنگ چڑھا ہوا تھا. جو اسے اور بھی بھیانک بنا کر پیش کر رہے تھے. سب نے اسے راستہ دیا وہ آتے ہی دکان میں گھس گیا اور ایک

سانپ کو ہینڈل کرنے والی چھڑی لے کر سانپ کو چھیڑنے لگا سانپ فوراً سامان سے باہر نکل آیا اور پھنکارتے ہوئے حملہ آور ہوا مگر مگر سپیرا بہت منجھا ہوا چالاک تھا بچتے ہوئے چند منٹ اس سانپ سے کھیلتا رہا اور پکڑنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ سانپ نے زہر کی پھوار اچھال دیا جو نیچے کم از کم انسانی چند گھونٹ کی طرح سفید رنگت جیسی گر پڑی تھی، جیسےچار بگلوں نے شاخ پر بیٹھ کر نیچے سفید رنگ کی ٹٹی کر دی ہو.

            آخر کار اسے سپیرے نے اپنے قابو میں کرتے ہوئےمضبوط پلاسٹک کے اندر قید کرکے باندھ لیا.

چائے منگوا کر سپیرے کی آؤ بھگت کی گئی. چائے پینے سے پہلے اس نے اچھی طرح پانی سے ہاتھ منہ دھویا اور سکون سے چائے نوش فرمائی.

     سپیرے سے فیس پوچھ کر دو سو روپے دے دیے گئے. لوگوں کی آنکھوں میں اطمینان کی چمک صاف نظر آرہی تھی.

         بازو کی دکان میں لوگ باگ باتیں کرنے لگے.

ایک فرد، " سانپ کا نکلنا دکان میں بڑا منحوس ہے.

دوسرا فرد،" سانپ بڑا زہریلا تھا"

تیسرا فرد" ہاں یار زہریلی پھنکار کے ساتھ زہر تھوکا تھا وہ "

چوتھا فرد" زہر بہت مہنگا بکتا ہے، کم از کم دو لاکھ کا "

پہلا فرد" بالکل بھائی، یہ بات سہی ہے. مداری کے ہاتھ لگ جائے تو اس کے دانت نکال کر پورا پریوار پالنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں. "

دوسرا فرد" یہ سانپ، سانپ کے روپ میں خبیث، اور جن، ہوتے ہیں.

تیسرا فرد " جتنے لوگ دیکھے  ہیں آج وہ بڑے خوش نصیب ہیں"

چوتھا فرد "وہ کیوں؟

تیسرا فرد" کیونکہ سانپ کو پکڑتے دیکھنا یعنی اپنے دشمن پر قابو پاناہے. "

پہلا فرد" ابے چھوڑو سب باتیں.. جیسے اعمال ویسے حالات.. یہ سب اوپر والے کا عذاب ہے.."

دوسرا فرد" لگتا ہے اس سانپ کے رشتے دار رات کو اسے ڈھونڈنے نکلیں گے"

تیسرا فرد" میں نے اپنے موبائل فون میں ویڈیو بنایا ہوں "

پہلا فرد،" ابے جلدی ڈیلیٹ کر، کہیں رات وات کو تیرے گھر سانپوں کی ٹولی نہ آجائے. "

تیسرا فرد" ہاں بھائی ڈیلیٹ کر رہا ہوں.. یہ لو کر دیا، موبائل دکھاتے ہوئے..... "

تقریباً تمام دکانیں کھل چکی تھیں اور سانپ کے متعلق جتنے منہ اتنی باتیں.. شام تک ہر کوئی اس موضوع میں منہمک تھا...

سپیرا سانپ کو لے کر جا چکا تھا مگر اپنے پیچھے ڈھیر ساری باتیں خود بخود چھوٹ گئی تھیں. .....


(C) : Fiction Writer


.Aleem Tahir


ir

Mobile no. 9623327923. علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:46، 15 نومبر 2023ء (م ع و)

علیم طاہر کا تعارف

ترمیم

"علیم طاہر کا تعارف"

میں علیم طاہر (انڈیا)...... ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر میں ایک دھرن گاؤں نامی گاؤں ضلع جلگاوں میں میں نے آنکھیں کھولیں جو میرا ننھیال اور ددھیال ہے ۔ چونکہ والد محترم ارشد مینانگری صاحب بحیثیت اسکول ہیڈماسٹر سرکاری ملازمت پر مالیگاؤں میں فائز تھے ۔  جہاں انہوں نے اپنے پورے  خاندان کو   منتقل کرلیا اور وہیں کے ہوکر رہ گئے غالباََ وطن ثانی  کے طور پر مالیگاؤں کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہیں  آج تک شاد و آباد ہیں ۔

والد محترم ارشد مینانگری صاحب نہ صرف کئی ایوارڈ یافتہ صدر مدرس رہے بلکہ اردو ،ہندیاور مراٹھی تینوں زبانوں کے بہترین ممتاز مشہور و معروف شاعر و ادیب بھی ہیں بچپن ہی سے ان کی تربیت میں خاکسار نے اپنے شب و روز گزارے اور شعری شعور پایا۔ ان گنت مشاعروں میں ان کے ساتھ بچپن ہی سے شرکت کے مواقع نصیب ہوئے۔ بے شمار اسٹیج ہے سے والدمحترم ارشد مینانگری صاحب کو مشاعرے لوٹتے ہوئے دیکھا اور تو اور آہستہ آہستہ میں بھی فطری طور پر شاعری کی طرف راغب ہو گیا۔ چونکہ ارشد مینانگری نہ صرف تحت اللفظ بلکہ ترنم کے بھی کامیاب ترین شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔

انیس سو اسی میں شاعری کی ابتدا ہوئی باقاعدہ شعر کہنے لگا اور استاد الشعراء ارشد  مینا نگری  سے اصلاح لینے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ انیس سو تراسی سے  آل انڈیا مشاعروں میں شرکت ہونے لگی اور تحت اللفظ  کے کامیاب ترین شاعرکی حیثیت سے ایک شناخت بن گئی۔ ہنستے کھیلتے میرا بچپن گزرتا رہا۔ میرا غزلوں کی طرف شروع میں رجحان زیادہ رہا آہستہ آہستہ ہمہ اصناف شاعری کی تمام ہنرمندیاں محترم ارشد مینا نگری سے  سیکھنے کو ملنے لگیں ۔  مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرنے کے مواقع نصیب آئے ۔ اب تک ہر صنف سخن پر خاکسار نے طبع آزمائی کر کے الگ تھلگ اور منفرد شناخت بنا لی ہے۔

ماشاءاللہ تعلیمی لیاقت میں اضافہ ماحول کی دین اور والد محترم ارشد مینانگری اور والدہ محترمہ حلیمہ بی کی تربیت کا بہترین نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

2003 میں ایم اے پونا یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس اردو میتھڈ میں کامیابی مل چکی تھی،  بعد میں دوسرا ایم اے اردو ہسٹری

اور تیسرا ایم اے ایم اے ان  ایجو کیشن کے بعد بی ایڈ اردو ہسٹری ۔۔۔ پونے یونیورسٹی سے نمایاں کامیابی حاصل کر لی۔  ساتھ ہی ساتھ راجستھان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے ایڈمیشن لے کر نئی اصناف سخن موضوع پر پی ایچ ڈی بھی مکمل کر لی۔ صرف ڈگری کا ہاتھ آنا باقی ہے۔

      صحافت بھی کالج عہد سے نمایاں طور پر جاری رہی اور باقاعدہ صحافت پر بھی ڈپلومہ کورس کر کے جرنلزم کی سند حاصل کر لی۔ کمپیوٹر کے ایم ایس سی آئی ٹی،  کورس اور ڈی ٹی پی ، کورس بھی سرکاری طور پر  مکمل کر لئے۔

        2008 سے ممبئی میں ایک ڈی ٹی ایڈ کالج میں بحیثیت لیکچرار اپوائنٹمنٹ ہوگیا ۔ جہاں مشہور فکشن رائٹر اور ناول نگار رحمن عباس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد انجمن خیرالاسلام کے ایک کالج اور اردو  ہائی اسکول میں اپوائنمنٹ ہوگیا جہاں 7 سال ایچ او  ڈی اور اسسٹنٹ ٹیچر کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ گزرے۔ بعدازاں دا بھول رتناگری میں ٹرانسفر ہو گیا۔ یہاں آنے کے بعد ترقی کی راہیں مزید ہموار ہوں گیء ۔ اس ہائی اسکول کی پچاس سالہ تاریخ میں ایک نئی تاریخ مرتب ہوئ  پونے ایس ایس سی بورڈ میں باقاعدہ خاکسار کو نصابی میٹنگوں میں دعوت دی گئی اور بحیثیت اصلاح کار دسویں کی کتاب میں مشیر خاص کے حیثیت سے نوازا گیا۔اور ضلع رتناگری میں ٹیچر اور ہیڈ ماسٹرز کی رہنمائی کے لئے آر پی کے عہدے سے بھی سرفراز کیا گیا مختلف پروگراموں میں خاکسار نے  نئی تعلیمی پالیسیوں پر اپنے لیکچرز کے ذریعے تعلیمی بیداری پیدا کی ۔  واٹس اپ گروپ کے بےشمار آن لائن مشاعروں کی نظامت اور اون لاین کتابوں کی نثر و اشاعت خاکسار کے ذریعہ عمل میں آئی۔ مختلف دینی و ادبی تنظیموں کی سربراہی نصیب ہوئی۔ موجودہ دور میں برائیوں پر قدغن لگانے کے لیے بھی میری شناخت تسلیم کی گئی۔ محترمہ دعا علی صاحبہ کے ساتھ  آون لاین ماہ نامہ  باب دعا کراچی اور آفتاب احساس انٹرنیشنل میگزینز   کی اشاعت میں بحیثیت نمایاں مدیر اعلیٰ ،  مدیر، اصلاح کار اور مشیر خاص کے طور پر   کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ اور مزید مفید و اہم  سرگرمیاں اب بھی جاری و ساری ہیں ۔

        کالج کے زمانہ طالب علمی  سے ہی  مجھے ممبئی جیسے عروس البلاد شہر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بے شمار مواقع نصیب ہوئے چونکہ صحافتی اور تصنیفانہ  مزاج بڑا کام آیا۔ کئی فلموں میں گیت لکھنے کے مواقع نصیب ہوئے، کیء سریلیس میں مکالمے لکھنے کے مواقع نصیب ہوئے اداکاری اور ہدایتکاری کے بھی  مواقع نصیب ہوئے، مالیگاؤں جیسے صنعتی شہر میں انیس سو ستانوے میں ایک پیروڈی فلم مالیگاؤں کے شعلے بنائی گئی جس میں خاکسار نے ہیرو دھرمندر کا رول ادا کیا اور تو اور اس میں چیف ہدایت کار کے طور پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس فلم کو ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل ہوئی  اس کے ڈایریکٹر میرے دوست ناصر شیخ تھے ۔ مختلف ملکوں اور شہروں کی  تنظیموں سے بےشمار انعامات حاصل ہوئے ۔ خاکسار کو بہترین اداکار اور ہدایت کار کے طور پر بھی گہری شناخت حاصل ہوئی۔

      خاندیش کے دل والے دلہنیا لے جائیں گے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہوں ۔ ٹارزن کی بارات میں چیف ڈایریکٹر اور ایکٹر رہا ۔ ۔۔توسے کا کرے کے ، فلم میں بھی مہمان خصوصی کے طور پر شامل رہا ۔  گبر چاچا ، فلم میں بھی ہیرو کا کردار نبھایا۔ اور بھی کئی  فلمیں ہیں جن میں خاکسار کی نمایاں شمولیت رہیں۔

خاکسار نے اے ایم این پروڈکشن انٹرنیشنل کے زیر نگرانی فلمیں بھی بنائیں جس میں مالیگاؤں ٹو دبئی،   women, اور ریکامے  پوریا کےبول بچن  وغیرہ اہم اور بنیادی  فلمیں بہت  مقبول عوام ہوئیں ۔

انٹرنیشنل ساؤتھ  فلم " آج کا لا وارث" کے تمام گیت خاکسار کے قلم سے تحریر ہوئے "ابھی تو رات ہے" انیس جاوید کی  فلم  {ظلم کے خلاف} , کے گیتوں میں بھی خاکسار کا حصہ رہا.  اس فلم میں نہ صرف اداکاری بلکہ معاون ہدایت کاری کے فرائض بھی  انجام دیے۔۔ "چارمینار بوائز" حیدرآبادی فلم میں بھی خاکسار نے اداکاری کے جوہر دکھلائے۔ ... جو کافی مقبول عوام ہوئی۔

      **   علیم طاہر کی مطبوعہ تصنیفات کے نام. **

01..دنیا مسافر راستے

غزلیں نظمیں قطعات

02...منظر پس منظر

علیم طاہر  پر تحریر کردہ مضامین اور مختلف اصناف سخن پر شاعری

03۔۔۔۔ سر، سنگم، سنگیت

300 گیتوں پر مشتمل مجموعہ۔۔

04.... شاعری، موسیقی، نغمگی

ستر سے زائد اصناف سخن پر مشتمل گیتوں کا مجموعہ۔

05.... یہ عشق کا سفر ہے

اون لاین شعری مجموعہ دعا علی ویب سائٹ کراچی. پاکستان۔

06.... کرچی کرچی خواب

آن لائن شعری مجموعہ دعا علی ویب سائٹ کراچی. پاکستان۔

07.... اگلا موسم

شعری مجموعہ دعا علی ویب سائٹ کراچی پاکستان۔

08  لمحہ لمحہ عشق

... شعری مجموعہ دعاعلی ویب سائٹ کراچی پاکستان .

فیس بک پر تقریبا 10 شعری  مجموعے ۔۔۔

09...ابا ابا آج ہے سنڈے

ادب اطفال۔۔

10...عورت کچے کان کی

ناول۔۔۔۔

11..۔۔یادگار لمحے

مضامین پر مشتمل  مجموعہ ۔

12.۔۔۔میں ذرہ ذرہ بکھرا ہوں ۔

سانیٹ پر مشتمل مجموعہ.

** علیم طاہر پر تحریر کردہ کتابیں..

01..گیتوں کا شہزادہ علیم طاہر ۔۔۔

مصنف ۔۔ ڈاکٹر سیفی سرونجی

02... علیم طاہر کے گیت کا نیا منظر نامہ مصنف پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی۔

** علیم طاہر پر شائع شدہ  رسایل میں گوشے۔۔

ماہ نامہ ۔۔شاعر۔۔۔بیباک۔۔۔۔ اورنگ آباد۔۔۔۔۔۔

اور اس جیسے درجنوں شعری مجموعے اور تصنیفات اون لاین فیس بک اور ویب سایٹس پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

آفتاب احساس انٹرنیشنل گروپ بھی تشکیل دیا گیا ہے جس کا بانی اور چیرمن خاکسار ہے ۔  جس میں عالمی شہرت یافتہ شعراء کرام کی شمولیت ہے  اور آئے دن اس گروپ کے ذریعے مختلف اصناف سخن پر مشتمل عالمی مشاعروں  کا انعقاد عمل میں آتا رہتا ہے جس کی نظامت خاکسار  بخوبی انجام دیتا آیا  ۔

اسی طرح میری زندگی کا سفر جاری و ساری ہے مختلف مرحلوں سے کامیابی کے ساتھ گذرتے ہوئے مختلف موڑ سے کامیابی کے ساتھ مڑتے ہوئے میں  منزل کی جانب گامزن ہوں ۔ ابھی سفر جاری ہے اور بے شمار خواب تعبیر پانےکے لئے بے قرار و مضطرب بھی ۔

              دعاؤں کا طالب

              علیم طاہر (انڈیا)


AleemTahir India Ka taaruf

AleemTahir India ki zubani... علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:49، 15 نومبر 2023ء (م ع و)

" قوس قزح کا جلوہ " ( ادب اطفال پر مشتمل علیم طاہر کی "بارہ" نظموں کا دلچسپ مجموعہ) ________________________________ نام کتاب:" قوس قزح کا جلوہ" (ادب اطفال پر مشتمل بارہ نظموں کا دلچسپ مجموعہ) شاعر: علیم طاہر سن اشاعت : 06/11/2023 ناشر: علیم طاہر موبائل نمبر: 9623327923 ای میل: aleemtahir12@gmail.com ________________________________ ادب اطفال نمبر:01 نظم نمبر: 01 "دیکھو جی اسکول چلے ہم" علیم طاہر دل کی راحت پانے کو شہرت ، عزت پانے کو اچھی عادت پانے کو علم کی دولت پانے کو دیکھو جی اسکول چلے ہم نئی نئی ٹیکنالوجی سیکھ رہے بائیولوجی ہر پیریڈ معلوماتی ہمیں سکھائے ہشیاری دیکھو جی اسکول چلے ہم ایم بی، جی بی سرور کا ہر فنکشن کمپیوٹر کا ہنر سکھائے فیوچر کا بہت شکریہ ٹیچر کا دیکھو جی اسکول چلے ہم کیا ہوتا ایپلیکیشن ویب سائٹ کی سچویشن حاصل ہوگا ہر اک فن نہیں رہے گا پھر ٹینشن دیکھو جی اسکول چلے ہم بن کے بڑے دکھلائیں گے اپنی منزل پائیں گے بھارت کو مہکائیں گے ہم دنیا پر چھائیں گے دیکھو جی اسکول چلے ہم علیم طاہر ________________________________ (C): Adab e Atfaal no:01 Nazm no:01 By Aleem Tahir Email id aleemtahir12@gmail.com Mobile no:9623327923. _______________________________ ادب اطفال نمبر :02 نظم نمبر :02 " جاؤ تم اسکول " (مکالماتی نظم). علیم طاہر (ماں) صبح ہو گئی، بجی الارم ، دیکھو نا جلدی چھوڑو بستر، اپنی آنکھیں ،کھولو نا جلدی پردہ کھینچو،کھولو کھڑکی جھانکوناجلدی جھنڈ بنا کر، آسمان میں اڑتے ہیں پنچھی ننھے بابو یوں نہ روٹھو، جاؤ تم اسکول (بیٹا) "ممی ممی ، سونے دونا ، نہیں جگوں گا آج من اٹھنےکا نہیں ہےمیرا نہیں اٹھوں گا آج روز جگا دیتی ہو ممی ، ایسی کیسی ہو نیند مجھے اتنی پیاری ہے ، دشمن لگتی ہو جاؤ ممی نہیں جاؤنگا آج تو میں اسکول " ( ماں) پڑھ لکھ کر ہی ہوگی ترقی، بڑے بنو گے تم دکھ ہاریں گے بیٹا تم سےسکھی رہو گے تم دیکھو یہ اسکول کا جانا خوشیاں لائے گا جاؤ گے اسکول , تو تم کو , جینا آئے گا ننھے بابو یوں نہ روٹھو ، جاؤ تم اسکول" ( بیٹا) "کھول دی ممی آنکھیں میری ہوتا ہوں تیار جاؤں گا اسکول میں ہر دن کیسا یہ انکار اپنے دیش کا نام کرونگا سکھی رہونگا میں اب سمجھااسکول کی طاقت بڑابنونگامیں پیاری ممی "اللہ حافظ "، جاتا ہوں اسکول" علیم طاہر (C) :Adab e Atfaal no: 02 Nazm no:02 "Jaao Tum School " By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no:9623327923. ________________________________ ادب اطفال نمبر :03 نظم نمبر: 03 "یہ پیارا اسکول ہمارا ہے" علیم طاہر صدر گیٹ پر ایک محافظ پاؤ گے ہر دم آتے ہی دیکھو گے اندر ، تعلیمی موسم کھیل کود کا پیارا میداں استقبال کرے گا ہرا بھرا ہر پیڑ تمہیں تو مالا مال کرے گا یہ پیارا اسکول ہمارا ہے۔۔۔ آؤ دیکھو, دیواروں پر کیا کیا لکھا ہے ہم نے پڑھ کر جینے کا اسٹائل سیکھا ہے دیکھو وہ اقوال زریں، یہ دنیا کا نقشہ پڑھ لو یہ اشعار، ملے گا ہر منزل کا رستہ یہ پیارا اسکول ہمارا ہے۔۔۔ سجےہوئے بارونق اس کےکمرے ہیں سارے ٹیبل کرسی بینچ اور پھر تختے ہیں پیارے نئے اجالے،چلتےپنکھے،کھلی ہراک کھڑکی تازہ ہوائیں ،اندر باہر ، کرتی ہیں مستی یہ پیارا اسکول ہمارا ہے۔۔۔ یہ ہے دیکھو لائبریری ، کتب خزانہ ہے ہر موضوع کاحصہ اس میں ہر اک زمانہ ہے جم بھی ہے اسکول کا، اور لیبارٹری بھی ہے باغ سے گزرو، کنٹین آؤ، پھر کافی بھی ہے یہ پیارا اسکول ہمارا ہے۔۔۔ علیم طاہر (C): Adab e Atfaal no: 03 Nazm no:03 By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. ________________________________ ادب اطفال نمبر 04 نظم نمبر 04 "ہم بچے من کے سچے ہیں" علیم طاہر ہم بچے من کے سچے ہیں غم میں بھی ہنستے رہتے ہیں ہم بھارت کے باشندے ہیں گرم خون ہے جوشیلے ہیں چیتے جیسے پھرتیلے ہیں پھولوں جیسے مہک رہے ہیں ہم بھارت کے باشندے ہیں مستقبل ہیں ہم بھارت کا ہم میں دم ہے دم بھارت کا ڈگر کٹھن ہے پر چلتے ہیں ہم بھارت کے باشندے ہیں گیان ہمیں ہیں کمپیوٹر کا دھیان ہمیں ہے اب فیوچر کا ٹیکنالوجی کو سمجھے ہیں ہم بھارت کے باشندے ہیں فوجی اور سالار بنیں گے لڑنے کو تیار رہیں گے سینہ تا نے یہ کہتے ہیں ہم بھارت کے باشندے ہیں محنت ہے فطرت میں اپنی طوفاں ہیں ہمت میں اپنی بھارت کی خاطر جیتے ہیں ہم بھارت کے باشندے ہیں علیم طاہر (C): Adab e Atfaal no.04 Nazm no.04 "Hum bachche Mann ke sachche hain" By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. ________________________________ ادب اطفال نمبر : 05 نظم نمبر : 05 " ٹیچر اپنے پیارے پیارے" علیم طاہر ٹیچر اپنے پیارے پیارے پڑھنا لکھنا ہمیں سکھاتے قدر باپ کی ان سے جانی ماں کی عزت ان سے سیکھی بڑوں کا کہنا جو ہم مانیں ٹیچر ہی سے سب کچھ جانیں سچ بھی کہنا سیکھا ان سے جھوٹ سے بچنا سیکھا ان سے جانی وقت کی قیمت ان سے سیکھی ہم نے محنت ان سے ہم جو پھرتیلے رہتے ہیں ٹیچر سے ورزش سیکھے ہیں کھیل کود میں ہم ہیں آگے ٹیچر کے کہنے پر جاگے اچھا رہنا ان سے سیکھا کیا ہے دنیا ان سے جانا دنیا پر احسان ہیں ٹیچر ہم بچوں کی شان ہیں ٹیچر (C): Adab e Atfaal no:05 Nazm no.05 "Teacher Aapne Peyare Peyare " By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. ________________________________ ادب اطفال نمبر: 06 نظم نمبر :06 " آسمان " علیم طاہر کیا ہے نیلا آسمان ،ذرا ،سوچو , بچو دور تلک اک خلا ہے اوپر دیکھو بچو زمیں کے اوپر دور فضا، وہ آسمان ہے سورج چاند ستارے بادل جس کی شان ہے تارے اور سیارے جس میں تیر رہے ہیں سورج، چندا اپنی ذات میں کیاچمکے ہیں زہرا، عطارد، اور زمیں ، سیارے سارے زحل، مشتری ,یورینس، ہیں پیارے سارے اور مریخ زمیں سے لیکن دور بہت ہے وہ سیارہ نیپ چون مشہور بہت ہے نظام شمسی کہلاتا ہے نظام فلکی دور تلک اک کائنات ہے اس کی اپنی آسمان کو دیکھو ،جانو ،سمجھو بچو اس تحقیقی موضوع کو تم پرکھو بچو علیم طاہر (C): Aleem Tahir Adab e Atfaal no: 06 Nazm no: 06 By Aleem Tahir. Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. ________________________________ ادب اطفال نمبر :07 نظم نمبر: 07 "زمین" علیم طاہر آؤ بچو،سمجھو، جانو، زمین کیا ہے نظام شمسی، کا وہ واحد ،سیارہ ہے ہے موجود ،جہاں پر دیکھو ،پیاری زندگی پانی ،مٹی، ہوا ،ہے اس میں، نیاری روشنی اس کی ہر بیرونی سطح، سجی ہوئی ہے مٹی، ریت پہاڑوں سے جو، بنی ہوئی ہے جب آغاز کیا تھا اس نے، اپنے سفر کا سیارہ تھا، آگ کا گولا ، خواب نگر کا پنچم سب سے بڑا یہی ، تو سیارہ ہے کائناتی خود میں کیسا ، یہ پیارا ہے گھوم رہی ہے لٹو سی اپنے محور پر سورج کے بھی گرد لگاتی جائے چکر ساڑھے چار ارب سالوں کی عمر رکھے ہے کتنی تہوں سے بننے والی نئی لگے ہے سچ پوچھو تو مقناطیس ہے گھوم رہا ہے رب کی یاد میں جیسے ہر پل جھوم رہا ہے علیم طاہر (C): Adab e Atfaal no:07 Nazm.no:07 " Zameen " By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. ________________________________ ادب اطفال نمبر :08 نظم نمبر :08 " سورج" علیم طاہر آؤ سورج کے بارے میں جانیں بچو کیا ہے نظام شمسی یہ پہچانیں بچو جو مجموعہ ہوتا ہے اجرام فلکی ہم اس کو ہی کہتے ہیں نظام فلکی اک سو باسٹھ چاند ، آٹھ ہیں، سیارے جڑے ہیں اس سےجتنے بھی اجرام سارے ہے یہ نظام شمسی کا مرکزی ستارا بن اس کے کیا ممکن ہے ہم سب کا گزارا سمجھو اسکے بارے میں پھر پرکھو اسکو اگر پہیلی لگے تمہیں تو بوجھو اس کو صبح سویرے دیکھو کتنا پیارا سورج اول آبادی کا ایک ستارا سورج علیم طاہر (C) Adab e Atfaal no:08 Nazm no :08 "Suraj" By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no 9623327923.. ________________________________ ادب اطفال نمبر: 09 نظم نمبر :09 "بادل" علیم طاہر آؤ بچو جانیں , بادل کیسے بنتے ہیں آسمان میں دور تلک جو پھیلے پھیلے ہیں بادل کیا ہے جمے ہوئے ہیں پانی کے قطرات برف کےٹھہرےٹھہرے ٹکڑے پانی کے ذرات ندیاں جھرنے جھیلیں دریا یا پھر ہو تالاب سورج کی کرنوں سے پانی بھاپ بنے نایاب سمندروں پرگرم دھوپ جب دن بھرپڑتی ہے لہر لہر پانی کی اڑ کر بادل بنتی ہے نمی ہوا میں جتنی ہوگی گھنے بنیں گےبادل آسمان میں دیکھو گے توبھلےلگیں گے بادل بادل کو پھر فضا اڑا کر لاتی ہے نیچے بنتے برف کے ٹکڑے یا پھر پانی کے قطرے علیم طاہر (C) : Adab e Atfaal no:09 Nazm no:09 "Baadal" By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. ________________________________ اداب اطفال نمبر :10 نظم نمبر :10 "دھنک" علیم طاہر رکتے ہی بارش کے آئی دھنک وہاں سترنگی سترنگی ایک پٹا لائی دھنک وہاں سترنگی قوس قزح بھی کہلاتی ہےمظہرہےفطرت کا منظر منظر سترنگی ہے جلوہ ہے قدرت کا کام کرےپانی کےقطرےاک منشور کے جیسا ان قطروں سےکرنیں گزرےابھرےمنظرایسا کمان بنتی آسمان پر اکثر وہ سترنگی قوس قزح یادھنک کہووہ ہےتومست ملنگی کرنیں گزریں جھرنوں میں تو سترنگوں میں بٹتیں داخل ہوتیں مڑ جاتیں پھر مڑ مڑکر وہ کٹتیں اس طرح وہ سترنگوں میں ہو جاتیں تقسیم دیکھنے والی آنکھیں اس کی کرتی ہیں تعظیم قوس قزح کا جلوہ بچو اک نظری مظہر ہے حقیقتاً موجود نہیں ہے آنکھوں کا محور ہے علیم طاہر (C): Adab e Atfaal no: 10 Nazm no: 10 "Dhanak" By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. _______________________________ ادب اطفال نمبر: 11 نظم نمبر :11 "چاند" علیم طاہر اندھیارے میں کیا اجلا ہے چاند نظر فلک پر آ جاتا ہے چاند رات سہانی کر دیتا ہے چاند زمیں کا اک سیارچہ ہے چاند ہوا نہیں ہے نہ ہی اس میں پانی رہ نہیں سکتی کوئی زندگانی کھوئی علم میں اس کی ہر کہانی چند ریان کا تجربہ ہے چاند اپنی زمیں کا ایک کرہ ہے چاند اندھیارے میں کیا اجلا ہے چاند روشن کر دیتا ہے اپنی راتوں کو مدد جزر سی اجلی مدھم باتوں کو رکھتا ہے دنیا کے سر پر ہاتھوں کو پو نم رات کا جب چمکا ہے چاند گول گول موٹا تازہ ہے چاند اندھیارے میں کیا اجلا ہے چاند گرد زمین کے روز لگائے چکر بہت قیمتی اس کے تن کا پتھر بنا اناستھروسائٹ سے یہ ملکر سب کو ہی اپنا لگتا ہے چاند اللہ کا پیارا بندہ ہے چاند اندھیارے میں کیا اجلا ہے چاند علیم طاہر (C): Adab e Atfaal no: 36 Nazm no:36 By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. ________________________________ ادب اطفال نمبر: 12 نظم نمبر :12 "درخت" علیم طاہر آؤ ذکر کریں گے ہم ، آج درختوں کا کاش کہ چاروں جانب ہو ،راج درختوں کا پھل ,سبزی، چھاؤں، لکڑی، دیتے ہیں ہم کو دیتے ہیں آکسیجن بھی، لے کر ہر غم کو کاربن ڈائی آکسائیڈ ، جذب کرے اندر ہو جائے جو آلودہ ، ہوا کرے بہتر جڑوں سے جا کر پانی کا ،کرے ہے انتظام مٹی کے کٹاؤ کی، کردے روک تھام جو جنگلی تھی زندگی، اس کو دیا سماج سوچو ذرا درختوں کا ، کتنا ہے کام کاج سیلابوں کے خطروں سے ،یہی بچاتے ہیں قحط نہیں پڑنے دیتے، فرض نبھاتے ہیں کم کرتے ہیں ڈپریشن، دیتے ہیں صحت جذب کرے ہر شور کو، دیتے ہیں راحت ان کی شاخیں اور پتے، کام کریں دن رات آؤ انہیں لگائیں ہم ، بن جائے گی بات یہ جو رہیں گے ہر جگہ، مہکے گا موسم خوشحالی کے عالم میں، زندہ رہیں گے ہم علیم طاہر Adab e Atfaal no:12 Nazm no:12 "Darakht " By Aleem Tahir Email id: aleemtahir12@gmail.com Mobile no.9623327923. (C): ________________________________ ادب اطفال پر مشتمل علیم طاہر کی کتابیں: 01) ابا ابا آج ہے سنڈے 02) میں بولوں گا اردو (ادب اطفال پر مشتمل) 03) قوس قزح کا جلوہ 04) فلک فلک اڑتے پنچھی 05) علیم طاہر کی نظمیں ________________________________ Kitaab ka Naam: "Qaus e Qazah ka Jalwa " (Adab e Atfaal par mushtamil) ( بچوں کے شاعر و ادیب ) علیم طاہر

ترمیم

" قوس قزح کا جلوہ "

( ادب اطفال پر مشتمل

علیم طاہر کی "بارہ" نظموں کا

دلچسپ مجموعہ)

________________________________

نام کتاب:" قوس قزح کا جلوہ"

(ادب اطفال پر مشتمل

بارہ نظموں کا

دلچسپ مجموعہ)

شاعر: علیم طاہر

سن اشاعت :    06/11/2023

ناشر: علیم طاہر

موبائل نمبر: 9623327923

ای میل: aleemtahir12@gmail.com

________________________________

ادب اطفال نمبر:01

نظم نمبر: 01

"دیکھو جی اسکول چلے ہم"

                             علیم طاہر

دل کی راحت پانے کو

شہرت ، عزت پانے کو

اچھی عادت  پانے کو

علم کی دولت پانے کو

           دیکھو جی اسکول چلے ہم

نئی   نئی  ٹیکنالوجی

سیکھ رہے بائیولوجی

ہر   پیریڈ   معلوماتی

ہمیں سکھائے ہشیاری

           دیکھو جی اسکول چلے ہم

ایم بی، جی بی سرور کا

ہر فنکشن کمپیوٹر کا

ہنر سکھائے فیوچر کا

بہت  شکریہ  ٹیچر  کا

            دیکھو جی اسکول چلے ہم

کیا     ہوتا    ایپلیکیشن

ویب سائٹ کی سچویشن

حاصل ہوگا   ہر  اک  فن

نہیں رہے گا پھر  ٹینشن

           دیکھو جی اسکول چلے ہم

بن کے بڑے دکھلائیں گے

اپنی  منزل  پائیں  گے

بھارت کو مہکائیں گے

ہم دنیا پر چھائیں گے

            دیکھو جی اسکول چلے ہم

                                 علیم طاہر

________________________________

(C):

Adab e Atfaal no:01

Nazm no:01

By

Aleem Tahir

Email id aleemtahir12@gmail.com

Mobile no:9623327923.

_______________________________

ادب اطفال نمبر :02

           نظم نمبر :02

      " جاؤ تم اسکول "

         (مکالماتی نظم).           علیم طاہر

                        (ماں)

صبح ہو گئی، بجی الارم ،  دیکھو نا  جلدی

چھوڑو بستر، اپنی آنکھیں ،کھولو نا جلدی

پردہ کھینچو،کھولو کھڑکی جھانکوناجلدی

جھنڈ بنا کر، آسمان میں اڑتے  ہیں  پنچھی

ننھے بابو یوں نہ  روٹھو،  جاؤ  تم  اسکول

                         (بیٹا)

"ممی ممی ، سونے دونا ، نہیں جگوں گا آج

من اٹھنےکا نہیں ہےمیرا  نہیں اٹھوں گا آج

روز جگا  دیتی ہو  ممی ،  ایسی کیسی ہو

نیند مجھے اتنی پیاری ہے ، دشمن لگتی ہو

جاؤ ممی نہیں جاؤنگا آج تو میں اسکول "

                      ( ماں)

پڑھ لکھ کر ہی ہوگی ترقی، بڑے بنو گے تم

دکھ ہاریں گے بیٹا تم سےسکھی رہو گے تم

دیکھو یہ اسکول کا جانا خوشیاں لائے  گا

جاؤ  گے  اسکول , تو  تم  کو , جینا آئے گا

ننھے بابو یوں نہ روٹھو  ، جاؤ تم  اسکول"

                   ( بیٹا)

"کھول دی ممی آنکھیں میری ہوتا ہوں تیار

جاؤں گا اسکول میں ہر دن کیسا یہ انکار

اپنے دیش کا نام کرونگا سکھی رہونگا میں

اب سمجھااسکول کی طاقت بڑابنونگامیں

پیاری ممی "اللہ حافظ "، جاتا ہوں اسکول"

                                             علیم طاہر

(C) :Adab e Atfaal no: 02

Nazm no:02

"Jaao Tum School "

By

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no:9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر :03

      نظم نمبر: 03

     "یہ پیارا اسکول ہمارا ہے"

                            علیم طاہر

صدر گیٹ پر ایک محافظ  پاؤ  گے  ہر  دم

آتے ہی  دیکھو  گے اندر ،   تعلیمی  موسم

کھیل کود کا پیارا میداں استقبال کرے گا

ہرا بھرا ہر پیڑ تمہیں تو مالا مال کرے گا

یہ پیارا اسکول ہمارا ہے۔۔۔

آؤ دیکھو, دیواروں  پر  کیا کیا  لکھا  ہے

ہم نے پڑھ کر جینے کا اسٹائل سیکھا ہے

دیکھو وہ اقوال زریں،  یہ دنیا کا  نقشہ

پڑھ لو یہ اشعار، ملے گا ہر منزل کا رستہ

یہ پیارا اسکول ہمارا ہے۔۔۔

سجےہوئے بارونق اس کےکمرے ہیں سارے

ٹیبل کرسی بینچ اور پھر تختے ہیں پیارے

نئے اجالے،چلتےپنکھے،کھلی ہراک  کھڑکی

تازہ ہوائیں ،اندر باہر ، کرتی  ہیں  مستی

یہ پیارا اسکول ہمارا ہے۔۔۔

یہ  ہے  دیکھو  لائبریری ،  کتب  خزانہ  ہے

ہر موضوع کاحصہ اس میں ہر اک زمانہ ہے

جم بھی ہے اسکول کا، اور لیبارٹری بھی ہے

باغ سے گزرو، کنٹین آؤ، پھر کافی بھی  ہے

یہ پیارا اسکول ہمارا ہے۔۔۔

                                 علیم طاہر

                           

(C): Adab e Atfaal no: 03

Nazm no:03

By

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر 04

نظم نمبر 04

"ہم بچے من کے سچے ہیں"

                                علیم طاہر

ہم  بچے  من   کے  سچے  ہیں

غم میں بھی ہنستے رہتے ہیں

ہم  بھارت کے   باشندے   ہیں

گرم خون ہے  جوشیلے  ہیں

چیتے  جیسے  پھرتیلے  ہیں

پھولوں جیسے مہک رہے ہیں

ہم  بھارت  کے  باشندے  ہیں

مستقبل  ہیں  ہم  بھارت  کا

ہم میں دم ہے دم  بھارت  کا

ڈگر کٹھن ہے  پر چلتے  ہیں

ہم بھارت کے  باشندے  ہیں

گیان  ہمیں  ہیں  کمپیوٹر  کا

دھیان ہمیں ہے اب فیوچر کا

ٹیکنالوجی کو سمجھے  ہیں

ہم  بھارت کے  باشندے  ہیں

فوجی اور سالار بنیں گے

لڑنے  کو   تیار   رہیں  گے

سینہ تا نے  یہ کہتے  ہیں

ہم بھارت کے باشندے ہیں

محنت ہے فطرت میں اپنی

طوفاں ہیں ہمت میں اپنی

بھارت کی خاطر جیتے ہیں

ہم بھارت کے  باشندے  ہیں

                                 علیم طاہر

(C): Adab e Atfaal no.04

Nazm no.04

"Hum bachche Mann ke sachche hain"

By

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر : 05

نظم نمبر : 05

" ٹیچر اپنے پیارے پیارے"

                            علیم طاہر

ٹیچر  اپنے  پیارے  پیارے

پڑھنا لکھنا ہمیں  سکھاتے

قدر  باپ  کی  ان  سے  جانی

ماں کی عزت ان سے سیکھی

بڑوں  کا  کہنا  جو   ہم  مانیں

ٹیچر ہی سے سب کچھ جانیں

سچ بھی  کہنا  سیکھا  ان  سے

جھوٹ سے بچنا سیکھا ان سے

جانی وقت کی قیمت ان سے

سیکھی ہم نے محنت ان سے

ہم   جو  پھرتیلے   رہتے  ہیں

ٹیچر سے ورزش سیکھے ہیں

کھیل کود میں ہم ہیں آگے

ٹیچر  کے  کہنے   پر   جاگے

اچھا رہنا ان سے سیکھا

کیا ہے  دنیا ان  سے  جانا

دنیا پر احسان  ہیں  ٹیچر

ہم بچوں کی شان ہیں ٹیچر

(C):

Adab e Atfaal no:05

Nazm no.05

"Teacher Aapne Peyare Peyare "

By

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 06

نظم نمبر :06

                    "  آسمان "

                                 علیم طاہر

کیا ہے  نیلا آسمان ،ذرا ،سوچو , بچو

دور تلک اک خلا ہے اوپر دیکھو بچو

زمیں  کے  اوپر  دور  فضا،  وہ  آسمان  ہے

سورج چاند ستارے بادل جس کی شان ہے

تارے اور سیارے جس  میں تیر   رہے  ہیں

  سورج، چندا اپنی ذات میں کیاچمکے ہیں

زہرا، عطارد،  اور  زمیں  ،  سیارے   سارے

زحل، مشتری ,یورینس، ہیں پیارے سارے

اور مریخ زمیں سے لیکن دور بہت  ہے

وہ سیارہ نیپ چون  مشہور  بہت  ہے

نظام شمسی  کہلاتا  ہے  نظام   فلکی

دور تلک اک کائنات ہے اس  کی  اپنی

آسمان کو  دیکھو ،جانو  ،سمجھو  بچو

اس تحقیقی موضوع کو تم پرکھو بچو

                                       علیم طاہر

(C): Aleem Tahir

Adab e Atfaal no: 06

Nazm no: 06

By Aleem Tahir.

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر :07

نظم نمبر: 07

                    "زمین"

                         علیم طاہر

آؤ بچو،سمجھو، جانو، زمین  کیا  ہے

نظام شمسی، کا وہ واحد ،سیارہ ہے

ہے موجود ،جہاں پر دیکھو ،پیاری  زندگی

پانی ،مٹی، ہوا ،ہے اس میں، نیاری روشنی

اس کی ہر بیرونی سطح، سجی ہوئی ہے

مٹی، ریت پہاڑوں سے جو، بنی  ہوئی  ہے

جب آغاز کیا تھا اس نے، اپنے سفر کا

سیارہ تھا، آگ کا گولا ، خواب نگر  کا

پنچم سب سے بڑا یہی ، تو سیارہ  ہے

  کائناتی خود میں کیسا ، یہ  پیارا  ہے

گھوم رہی ہے لٹو سی اپنے محور  پر

سورج کے بھی گرد لگاتی جائے چکر

ساڑھے چار ارب سالوں کی عمر رکھے ہے

کتنی تہوں سے  بننے  والی  نئی  لگے  ہے

سچ پوچھو تو مقناطیس ہے گھوم  رہا  ہے

رب کی یاد میں جیسے ہر پل جھوم  رہا ہے

                                            علیم طاہر

(C):

Adab e Atfaal no:07

Nazm.no:07

" Zameen "

By

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر :08

نظم نمبر :08

                     " سورج"

                                 علیم طاہر

آؤ سورج کے بارے میں  جانیں  بچو

کیا ہے نظام شمسی یہ پہچانیں بچو

جو  مجموعہ ہوتا ہے  اجرام   فلکی

ہم اس کو ہی کہتے ہیں نظام فلکی

اک  سو  باسٹھ  چاند ، آٹھ   ہیں،  سیارے

جڑے ہیں اس سےجتنے بھی اجرام سارے

ہے  یہ   نظام  شمسی  کا  مرکزی  ستارا

بن اس کے کیا ممکن ہے ہم سب کا گزارا


سمجھو اسکے بارے میں پھر پرکھو اسکو

اگر پہیلی لگے  تمہیں  تو  بوجھو  اس  کو

صبح سویرے دیکھو کتنا پیارا سورج

اول   آبادی   کا   ایک   ستارا   سورج

                                       علیم طاہر

(C)

Adab e Atfaal no:08

Nazm no :08

"Suraj"

By

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no 9623327923..

________________________________

ادب اطفال نمبر: 09

   نظم نمبر :09

                "بادل"

                      علیم طاہر

آؤ  بچو   جانیں ,  بادل  کیسے   بنتے   ہیں

آسمان میں دور تلک جو  پھیلے پھیلے ہیں

بادل کیا ہے جمے ہوئے ہیں پانی کے قطرات

برف کےٹھہرےٹھہرے ٹکڑے پانی کے ذرات

ندیاں جھرنے جھیلیں دریا یا پھر ہو تالاب

سورج کی کرنوں سے پانی بھاپ بنے نایاب

سمندروں پرگرم دھوپ جب دن بھرپڑتی ہے

لہر   لہر  پانی  کی  اڑ  کر  بادل   بنتی   ہے

نمی ہوا میں جتنی ہوگی گھنے بنیں گےبادل

آسمان میں دیکھو گے توبھلےلگیں گے بادل

بادل کو  پھر فضا  اڑا  کر  لاتی  ہے  نیچے

بنتے برف کے ٹکڑے یا پھر پانی کے قطرے

                                               علیم طاہر

(C) :

Adab e Atfaal no:09

Nazm no:09

"Baadal"

By Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

اداب اطفال نمبر :10

نظم نمبر :10

                   "دھنک"

                         علیم طاہر

رکتے ہی بارش کے آئی دھنک وہاں سترنگی

سترنگی ایک پٹا لائی دھنک وہاں سترنگی

قوس قزح بھی کہلاتی ہےمظہرہےفطرت کا

منظر منظر سترنگی  ہے جلوہ ہے قدرت  کا

کام کرےپانی کےقطرےاک منشور کے جیسا

ان قطروں سےکرنیں گزرےابھرےمنظرایسا

کمان  بنتی  آسمان  پر اکثر  وہ  سترنگی

قوس قزح یادھنک کہووہ ہےتومست ملنگی

کرنیں گزریں جھرنوں میں تو سترنگوں میں بٹتیں

داخل ہوتیں مڑ جاتیں پھر مڑ مڑکر وہ کٹتیں

اس طرح وہ سترنگوں میں ہو جاتیں تقسیم

دیکھنے والی آنکھیں اس کی کرتی ہیں تعظیم

قوس قزح کا جلوہ بچو اک نظری مظہر ہے

حقیقتاً موجود نہیں ہے آنکھوں کا محور ہے

                                               علیم طاہر

(C): Adab e Atfaal no: 10

Nazm no: 10

"Dhanak"

By

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

_______________________________

ادب اطفال نمبر: 11

   نظم نمبر :11

                "چاند"

              علیم طاہر

اندھیارے میں کیا اجلا ہے چاند

نظر  فلک پر آ  جاتا   ہے   چاند

رات سہانی کر دیتا   ہے   چاند

زمیں کا اک سیارچہ  ہے  چاند

ہوا نہیں ہے نہ ہی اس میں پانی

رہ  نہیں  سکتی  کوئی  زندگانی

کھوئی علم میں اس کی ہر کہانی

چند ریان  کا  تجربہ  ہے  چاند

اپنی زمیں کا ایک کرہ ہے چاند

اندھیارے میں کیا اجلا ہے چاند

روشن کر  دیتا ہے  اپنی  راتوں  کو

مدد جزر سی اجلی مدھم باتوں کو

رکھتا ہے دنیا کے سر پر ہاتھوں کو

پو نم رات کا جب چمکا ہے  چاند

گول   گول  موٹا  تازہ    ہے  چاند

اندھیارے میں کیا اجلا ہے چاند

گرد زمین کے  روز  لگائے  چکر

بہت قیمتی اس کے تن کا پتھر

بنا اناستھروسائٹ سے یہ ملکر

سب  کو ہی  اپنا لگتا  ہے چاند

اللہ   کا  پیارا  بندہ   ہے    چاند

اندھیارے میں کیا اجلا ہے چاند

                                     علیم طاہر

(C):

Adab e Atfaal no: 36

Nazm no:36

By Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 12

نظم نمبر :12


                  "درخت"

                            علیم طاہر

آؤ   ذکر  کریں  گے  ہم ،  آج   درختوں  کا

کاش کہ چاروں جانب ہو ،راج درختوں کا

پھل ,سبزی، چھاؤں، لکڑی، دیتے ہیں ہم کو

دیتے ہیں آکسیجن بھی، لے کر  ہر  غم  کو

کاربن  ڈائی آکسائیڈ ، جذب  کرے اندر

ہو  جائے  جو  آلودہ ،  ہوا    کرے  بہتر

جڑوں سے جا کر پانی کا ،کرے ہے انتظام

مٹی کے کٹاؤ کی،    کردے  روک  تھام

جو جنگلی تھی زندگی، اس کو دیا سماج

سوچو  ذرا  درختوں کا ، کتنا ہے کام کاج

سیلابوں کے خطروں سے ،یہی بچاتے ہیں

قحط نہیں پڑنے دیتے، فرض  نبھاتے  ہیں

کم کرتے ہیں ڈپریشن، دیتے ہیں صحت

جذب کرے ہر شور کو، دیتے ہیں راحت

ان کی شاخیں اور پتے، کام کریں دن رات

آؤ  انہیں  لگائیں ہم ،  بن  جائے  گی  بات

یہ جو رہیں گے ہر جگہ،  مہکے گا  موسم

خوشحالی کے عالم میں، زندہ رہیں گے ہم

                                           علیم طاہر

Adab e Atfaal no:12

Nazm no:12

"Darakht "

By Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

(C):

________________________________

ادب اطفال پر مشتمل علیم طاہر کی  کتابیں:

01) ابا ابا آج ہے سنڈے

02) میں بولوں گا اردو

   (ادب اطفال پر مشتمل)

03)  قوس قزح کا جلوہ

04) فلک فلک اڑتے پنچھی

05) علیم طاہر کی نظمیں

________________________________

Kitaab ka Naam:

"Qaus e Qazah ka Jalwa "

(Adab e Atfaal par mushtamil)

       ( بچوں کے شاعر و ادیب )

                   علیم طاہر علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 10:57، 15 نومبر 2023ء (م ع و)

"فلک فلک اڑتے پنچھی "ادب اطفال پر مشتمل علیم طاہر کی نظمیں ۔

ترمیم

(ٹایٔٹل) :

" فلک فلک اڑتے پنچھی"

(ادب اطفال پر مشتمل ،

علیم طاہر کی نو نظموں کا ،

دلچسپ مجموعہ)

________________________________

نام کتاب: "فلک فلک اڑتے پنچھی "

شاعر : علیم طاہر

سن اشاعت: 06/11/2023

ناشر: علیم طاہر

________________________________


ادب اطفال نمبر 01

  نظم نمبر 01۔۔۔صبح سویرے

آنکھیں کھولو، چھوڑو بستر, صبح سویرے

پیارے  بچو  ،  دیکھو  باہر , صبح  سویرے

بابا امبر، صوفی دھرتی ,  اڑتے  پنچھی

کیا کیا ہے ،نورانی منظر,  صبح سویرے

غسل سے فارغ، ہو کر لو ،تھوڑی ورزش

کام یہی ہے ،سب سے بہتر, صبح سویرے

فجر نمازیں ادا کرو ، مسجد میں جا کر

کرو دعائیں ہاتھ اٹھا کر , صبح سویرے

جو مانگو گے ،تمہیں ملے گا،کرو دعائیں

سب کے لئے ہے،  اللہ اوپر,  صبح سویرے

جلد اٹھے جو، نہیں پڑے بیمار  کبھی  وہ

ہاتھ پھرے قدرت کا سرپر , صبح سویرے

رات کو  جلدی   سونا ہو گا  ،پیارے بچو !

آنکھ کھلے گی تب ہی جاکر ,صبح سویرے

                   

                                          علیم طاہر

(C)Aleem Tahir

Adab e Atfaalno. 01

Nazm no.01

"Subh Sawere "

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no:

9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر 02

: نظم نمبر : 02 " جھاڑو والا "

                       * علیم طاہر

دیکھو  جھاڑو  والا   آیا

اچھی اچھی جھاڑو لایا

لمبی ،چھوٹی،موٹی،  پتلی

کتنی جھاڑو ،اچھی، اچھی

گلی گلی   آواز      لگا   کر

پھرتا ہے سائیکل پر آ   کر

رک رک کر آگے بڑھ جا ۓ

گردن  پر  جھاڑو   لٹکاۓ

کوئی  بلاۓ  تو   رک  جائے

رک کر ہر  جھاڑو  دکھلاۓ

لمبی،  پتلے  ریشے  والی

یہ ہے فرش پہ دینے والی

آنگن    والی  موٹی  جھاڑو

لے لو اچھی چھوٹی جھاڑو

خوبی  جھاڑو  کی  گنواۓ

دل جیتے  اور  قیمت  پاۓ

                             علیم طاہر

(C):Adab e Atfaal: no.02

Nazm no.02

  "Jhadu wala"

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر.03

نظم :03

"میرا پیارا پیارا گاؤں"

                          *  علیم طاہر

میرا   پیارا   پیارا   گاؤں

جنت   کا   نظارا   گاؤں

جب بھی گھر سےنکلوں میں

کیا کیا منظر  دیکھوں  میں

چاروں جانب ٹیلے ہیں

سب منظر رنگیلے ہیں

صبح نکلتا وہ سورج

کھلا ہوا ہے ہر پنکج


پگڈنڈی   ہے   کھیتوں  میں

سوندھی خوشبورستوں میں

برگد  کے  نیچے    ٹھہرو

پنگھٹ   کا منظر  دیکھو


فلک فلک اڑتے پنچھی

دھرتی پر باجے بنسی

جھرنوں سے گرتا پانی

ندیا بھی  ہے  مستانی

جھیل کی اپنی دنیا ہے

منظر  منظر  سپنا   ہے

پیڑوں کے گہرے سائے

گرمی میں ٹھہرے ساۓ

جب  چھاۓ   کالے  بادل

فلک سے برسے ٹھنڈا جل

جب ہو سردی کا موسم

تب   ہو  خوابیدہ  عالم

لہکے  ،    مہکے     ہریالی

مرے گاؤں میں خوشحالی

میرا  پیارا   پیارا    گاؤں

جنت   کا   نظارا    گاؤں

                     علیم طاہر

_______________________________

"ادب اطفال نمبر 04"

      نظم نمبر 04:میری اردو زباں

                               علیم طاہر

دنیا کی زبانوں میں دیکھا تجھ جیسی کوئی بھی ملی کہاں ؟

میری پیاری زباں ،میری اردو زباں ،میری پیاری زباں میری اردو زباں


رہتی دنیا تک رہے صدا ایسے ہی ہیں سرتال ترے

حالی ,والی ,اعجاز, داغ, میر و غالب, اقبال, ترے

محفوظ ہیں تجھ میں تاریخیں, خود میں رکھے، صدیوں کے نشاں

میری پیاری زباں, میری اردو زباں, میری پیاری زباں میری اردو زباں


تیرا لہجہ ہے جادو جیسا, گھنگرو تجھ میں خوشبو تجھ میں

گل ،شبنم، تتلی، تجھ میں ہے, چندہ تارے جگنو تجھ میں

محفوظ ہیں تجھ میں تاریخیں، خود میں رکھے، صدیوں کے نشاں

میری پیاری زباں میری اردو زباں میری پیاری زباں میری اردو زباں

                              علیم طاہر

(C) Abab e Atfaal no.04

Nazm:"Meri Urdu zubaa "

By Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

9623327923.

_______________________________

ادب اطفال نمبر: 05

نظم نمبر05:

              'بیٹیاں '

                    علیم طاہر

پریاں  ہیں پیاری پیاری، پریاں،  بیٹیاں

ننھی شاخوں پہ کھلتی، کلیاں، بیٹیاں

ان کے  آنے  سے  آیا,  نور , خدا  کا

ان کے ہونے سے چمکا, رنگ, وفا کا

ان کے رہنے سے مہکا , باغ,  ادا  کا

پریاں ہیں پیاری پیاری پریاں، بیٹیاں

ننھی شاخوں پہ کھلتی کلیاں، بیٹیاں

ان کے سبب سب گھر میں اجالے ہیں

ان  کے  سبب  جنت  کے  حوالے  ہیں

ان  کے  سبب  تقدیر  میں  نوالے  ہیں

پریاں ہیں پیاری پیاری پریاں ، بیٹیاں

ننھی شاخوں پہ کھلتی ,کلیاں ،بیٹیاں

ماؤں کے ہونٹوں  مسکان ان سے ہے

باپوں کی آن, بان, شان, ان سے ہے

اپنے گھروں کی, پہچان, ان سے ہے

پریاں ہیں پیاری پیاری ، پریاں ،بیٹیاں

ننھی شاخوں پہ کھلتی ،کلیاں، بیٹیاں

(C):Adab e Atfaal no:05

Nazm no:05

By Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com.

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 06

نظم نمبر 06:

                   "چڑیا اور جگنو"

                      علیم طاہر

صبح ہوئی اور گھونسلے سے نکلی چڑیا

اڑتے  اڑتے   دور   جنگل   پہنچی   چڑیا

کھانے پینے میں گزرا دن سارا  اس  کا

آ ہی گیا بن کر دشمن  اندھیارا  اس  کا

اس نے سوچا اب میں کیسےگھر جاؤں گی

اندھیارے  میں کہاں کہاں پر  ٹکراؤ ں  گی

جب وہ چڑیا بہت دکھی تھی دیکھااس کو

اک جگنو نے   ہمدردی سے  پوچھا  اس کو

بی چڑیا غمگین ہو اتنی کیوں تم بولو ؟

کیا ہے غم کا راز ذرا یہ  مجھ پر کھولو

بولی  چڑیا "  بھائی  کتنا    اندھیارا   ہے "

"گھر جاؤں گی کیسے اس کا دکھ سارا ہے"

جگنو بولا  "بی  چڑیا بس  بات ہے  اتنی"

" میں رستہ دکھلاؤں گا یہ رات ہے جتنی"

جگنو کہہ کر اڑا ہی  تھا کہ  ہوئی  روشنی

پیچھے پیچھے اڑی تھی چڑیا ملی روشنی

آہی گیا  پھر  اڑتے  اڑتے  گھر  چڑیا  کا

ختم ہوا تھا دل میں جو تھا ڈر چڑیا کا

بولی چڑیا ، " جگنو بھائی  !   تم اچھے  ہو"

نیک بھی ہو ہمدرد بھی ہو اور اک سچے ہو

جو اچھے رہتے ہیں وہ آتے ہیں کام

اچھائی کا رب سے پاتے  ہیں  انعام

ہنس  کر  اڑتے   اڑتے  نکلا   آگے  جگنو

" ننھا نور فرشتہ "   جیسا   لاگے  جگنو

(C): Adab e Atfaal no.06

Nazm no:06.

"Chidiya Aur Jugnoo"

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 07

       نظم نمبر: 07

                  " دھوپ "

                           علیم طاہر

روز سورج سے ہوتا جنم دھوپ کا

ہے خُدا کے کرم سے کرم دھوپ کا

دھوپ بهی جلتی رہتی ہے غم میں سدا

دُھوپ میں جلتا رہتا ہے غم دُھوپ کا

دھوپ سردی میں ملتی رہے تو مزا

لطف گرمی میں ملتا ہے کم دھوپ کا

بھاگ جائے گی ظلمت بھی تب رات کی

جب بھی بکھرے گا دھرتی پہ دم دھوپ کا

اپنی  اسکول   پھر  جلد  کل  جائیں گے

صبح دیکھیں گے چہرہ جو ہم دھوپ کا

دھوپ رکھے ہیں سب کا بھرم دوستو

اور رکھا ہے سب نے بھرم دھوپ کا

اس میں ملتا نہیں ہے تعصب کبھی

صرف انسانیت ہے  علم  دھوپ  کا

دل لگی کتنی گہری ہے جگ سے  اسے

جیسے طاہر یہ جگ ہے  حشم دھوپ کا

(C):Adab e Atfaal no.07

A Nazm"Dhoop" no.07

by ALEEM TAHIR

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر :08

نظم نمبر: 08

          "طوطا "

                      علیم طاہر

مٹھو مٹھو سب کہتے ہیں میں طوطا  ہوں

ساتھ مرے، بچے رہتے ہیں میں طوطا  ہوں

چونچ  لال  ہے  ,جسم ہرا  ہے,  پیلے   پاؤں

میری آنکھیں, رنگ بدلتی, دھوپ ، چھاؤں

دہراؤں گا , نقل کروں  گا,  جو    بولو  گے

پیرو مجھ کو, بہت پسند ہے, لا کر دو گے؟

مجھ کو "پنجرہ گھر"، دے کر تم پال رہے ہو

  وقت  وقت  پر  ، کھانا  پانی ،ڈال  ر ہے ہو

کیا لینا  دینا  ہے  مجھ  کو  اب  جنگل  سے

میں توخوش ہوں آیا ہوں پچھلے منگل سے


تم اچھے انسان ہو, میں ہوں, اچھا, پنچھی

دل  بہلانے   والا ,  دل  کا  ,  بچہ ,  پنچھی

بولو پیار سے مٹھو مٹھو  منہ تو کھول

بولو    پیار   سے    اللہ   اللہ  اللہ    بول

(C) Adab e Atfaal no: 08

Nazm no: 08

"Tota "

By:Aleem Tahir

Email id aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 09

نظم نمبر: 09

            "پیارےگاندھی جی"

                                          علیم طاہر

آن،بان اور شان  تھے  پیارے  گاندھی  جی

بھارت کی پہچان تھے پیارے گاندھی جی

دھوتی، لاٹھی، چشمہ، چپل، تھی پہچان

اک رہبر انسان تھے  پیارے  گاندھی  جی

چپل  پہنے   میلوں   پیدل   چلتے  تھے

وہ پختہ ارمان تھے پیارے گاندھی جی

ان   کا   ہر  اک   کام   کرشمہ   جیسا   تھا

ہم سب پر احسان تھے پیارے گاندھی جی

سارے   فرنگی  ہار   گئے   ان   کے   آگے

دشمن کو نقصان تھے پیارے گاندھی جی

پیار سے ان کو باپو بھی کہتے ہیں سب

نفرت سے انجان تھے پیارے گاندھی جی

وہ  چرخے  سے  سوت  کو  کاتا  کرتے  تھے

محنت کی پہچان تھے پیارے گاندھی جی

امن  و  سکوں  کے   سچے   پکے   شیدائی

صبر و عمل کا گیان تھے پیارے گاندھی جی

بھارت      کو     آزاد      کرایا       زندہ  باد

بھارت کی سنتنان تھے پیارے گاندھی جی

ستہ گرہ ہو،    مون برت،    یا     آندولن

ہمت میں بلوان تھے پیارے گاندھی جی

ہر   مذہب  سے   الفت  ان  کا   شیوہ  تھا

انساں کی پہچان تھے، پیارے گاندھی جی

سب  کو    جہالت     سے   دلوائی    آزادی

علم کی اعلیٰ شان تھے پیارے گاندھی جی

ہندو ، مسلم      اتحاد    کے  حامی    تھے

یکجہتی کی جان تھے، پیارے گاندھی جی

علم کے  اک ہتھیار  سے  جیتا  جنگوں کو

سمجھو تو آسان تھے، پیارے گاندھی جی

اچھی   اسکیموں   کے    پرچم    لہرائے

طاہر  عالیشان تھے ، پیارے گاندھی  جی

(C): Adab e Atfaal no :09

Nazm:no:09

"Peyare Gandhi Ji "

By:Aleem Tahir

Email id:

aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال پر مشتمل،

علیم طاہر کی کتابیں:

(فیس بک پر اون لائن دکھیۓ)

01) ابا ابا آج ہے سنڈے

02) قوس قزح کا جلوہ

03)میں بولوں گا اردو

04) فلک فلک اڑتے پنچھی

05) علیم طاہر کی نظمیں

________________________________

       "  بچوں کے شاعر و ادیب "

                 علیم طاہر

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no:9623327923.

________________________________

Kitaab ka Naam:

"Falak Falak Udte Panchi "

(Adab e Atfaal par mushtamil)

                      علیم طاہر علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:01، 15 نومبر 2023ء (م ع و)

"میں بولوں گا اردو " ادب اطفال پر مشتمل علیم طاہر کی نظمیں

ترمیم

"میں بولوں گا اردو"

     ( ادب اطفال پر مشتمل,

آٹھ نظموں کا ,

دلچسپ مجموعہ)

                      علیم طاہر

________________________________

کتاب کا نام:

"میں بولوں گا اردو"

(ادب اطفال پر مشتمل،

آٹھ نظموں کا ،

دلچسپ مجموعہ)

شاعر: علیم طاہر

سن اشاعت:06/11/2023

ناشر: علیم طاہر

Email id:

aleemtahir12@gmail.com

Mobile no:

9623327923.

________________________________


( ادب اطفال)

نمبر 01:

حمد........................علیم طاہر

قلب میں دھڑکن بن کر اترا نام ترا

سارے ناموں میں ہے پہلا نام ترا

ساگر ساگر بولیں موجیں یا اللہ

ورد کرے ہے دریا دریا نام ترا

رات اور دن پر تیرا نام مسلط ہے

لے کر نکلے سورج چندا نام ترا

صبح ہوئی تو پھول پھول کے چہرے پر

شبنم کے قطروں میں چمکا نام ترا

بادل بادل سرد ہوا کے جھو نکو ں سے

قطرہ قطرہ بول کے برسا نام ترا

اڑتے اڑتے پنجھی ہر دم لیتے ہیں

وادی وادی صحرا صحرا نام ترا

کیڑوں کو دی تو نے غذائیں پتھر میں

پتھر کے اندر بھی گونجا نام ترا

مستانے انداز میں پل پل یاد کرے

شجر شجر کا پتہ پتہ نام ترا

روشن لعل و گوہر تیرے نام سے ہیں

لے کر چمکے پل پل مولا نام ترا

جگنو تتلی بھنو رے تیرا ذکر کرے

ہر گل میں ہیں مہکا مہکا نام ترا

صدف کھلی تو پھیلا نور اندھیرے میں

طاہر نے بھی روشن پایا نام ترا

(C):Aleem Tahir

Adab e Atfaal

Hamd no.01.

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

.._______________________________

02:( ادب اطفال )

نظم نمبر:02۔۔۔۔۔" بچہ اور اردو "

                                       علیم طاہر

تو  چاہت سکھاتی  ہے،  چاہوں گا  اردو

ترے   ساتھ   رشتہ   نبھاؤں   گا   اردو

دیوانہ ہوں تجھ کو ہی سوچوں گا اردو

لکھوں گا پڑھوں گا میں بولوں گا  اردو۔۔۔۔۔

بزرگوں کا ماضی تجھی  سے  ملے  گا

مرا دل ہے غنچہ ،تجھی سے  کھلے گا

جو دل زخمی ہو گا تجھی سے سلے گا

چلوں گا  ترے  ساتھ  ٹھہروں گا  اردو

لکھوں گا پڑھوں گا میں بولوں گا اردو۔۔۔۔۔

زمانے  میں   یوں  تو کئی  ہیں  زبانیں

تجھی  پر  مگر سب لٹاتے  ہیں  جانیں

سبھی تجھکو بولے سبھی تجھکو مانیں

ترانوں سے  تیرے  میں بہلوں گا  اردو

لکھوں گا پڑھوں گا میں بولوں گا اردو۔۔۔۔۔۔

زباں  مادری  میری   تو  ہی  زباں  ہے

زباں ترے جیسی کوئی بھی  کہاں ہے

تو ہی میرا دل ہے  تو میرا  جہاں  ہے

لگا کر گلے تجھ کو  چوموں  گا  اردو

لکھوں گا پڑھوں گا میں بولوں گا اردو۔۔۔۔۔۔۔

                       علیم طاہر

(C: 02:

Aadab e Atfaal

Nazm no:02

"Bachcha Aur Undu"

Aleem Tahir.

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

  ( ادب اطفال ):03

        نظم ۔۔۔۔۔نمبر 03  " بارش  "

                                  علیم طاہر

دھوم مچائے رنگ جمائے

رنگ   برنگے  گل  مہکائے

جنگل جھومے اور مسکائے

پنچھی پنچھی شور مچائے

ہر جانب جل  تھل ہو جائے

جب بھی چھم چھم بارش آئے

دریا   دریا  آئی  روانی

ہر ذرے پر چھائی جوانی

یوں ہی دنیا نہیں دیوانی

بارش کی خوش رنگ کہانی

خوشیوں کے سب تحفے لائے

جب بھی چھم چھم بارش آئے

فلک   فلک    بادل   گرجے   ہیں

دھنک دھنک جلوے بکھرے ہیں

چھنک چھنک قطرے ٹپکے ہیں

مور      تھرکتے   پر     پھیلائے

جب بھی چھم چھم  بارش آئے

امبر پر ہلکی لالی ہے

ہر سو چھائی ہریالی ہے

رنگ برنگی خوشحالی ہے

شاخیں جھومیں ،کوئل گاۓ

جب بھی چھم چھم بارش آئے

(C) : 03

(Aadab e Atfaal)

Nazm no.03

Aleem Tahir.

Mob no.9623327923

Email id: aleemtahir12@gmail.com

________________________________

نمبر 04:ادب اطفال

         نظم نمبر 04:مثالی مدرس

                                       علیم طاہر

خدا کی ہے رحمت مثالی مدرس

ہےدولت ہی دولت مثالی مدرس

منور کرے علم کی روشنی سے

مشرف کرے دل کو ہر اک خوشی سے

کرے ہم میں پیدا جو خود اعتمادی

قدم ہر قدم جس نے  ہم کو  دعا  دی

بحسن عمل   جو    فرائض   نبھائے

ہمیں سچ کی راہوں پہ چلنا سکھائے

جو ماہر ہے تحریر و تقریر میں بھی

جو ظاہر ہے ہستی کی تفسیر میں بھی

رکھے قوت فیصلہ بھی جو محکم

کرے پست ہمت نہ جس کی کوئی غم

جو طلبہ کی فکروں کو پہچانتا ہو

عبادت جو تدریس کو جانتا ہو

بدل دے جو فکروں کو حسب ضرورت

جو ہم کو سکھائے معیاری خطابت

جو واقف رجحان تعلیم سے بھی

رکھے منسلک خود کو تسلیم سے بھی

رہے  باخبر  سب کی  سرگرمیوں  سے

مخاطب جو طلبہ سے ہو نرمیوں سے

جو صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑے

کرے جو بھی وعدہ تو وعدہ نہ توڑے

جو ہے باشعور اور وسیع النظر بھی

جو ہے مستند علم کا ہم سفر بھی

جو مرکز ہے علم و عمل کے جہاں کا

اہم ایک کردار ہے داستاں کا

کرے استفادہ جو ہر تجربے سے

بڑھے ہر قدم  علم کا حوصلے سے

لچکدار جس کا رویہ ہو سب سے

کرم پائے مخصوص جو اپنے رب سے

سراپا شرافت مثالی مدرس

اے طاہر حقیقت مثالی مدرس

( C )Aleem Tahir.

04:Aadab e Atfaal

Nazm no 04: Misali Mudarris

By Aleem Tahir.

Mobile no.9623327923

Email id.aleemtahir1@gmail.com.

_______________________________

نمبر 05(ادب اطفال)

        نظم نمبر 05 " گھوڑا اور بکرا "

                             نظم نگار : علیم طاہر

اک   گھوڑا    ہٹا   کٹا  تھا

ساتھ اسکے مالک رہتا تھا

گھوڑا  اب  بیمار  ہوا  جو

صحت  سے لاچار  ہوا  جو

مالک  نے  ڈاکٹر  کو   بلایا

پھر گھوڑے  کا  ڈاکٹر  آیا

دیکھا , پڑا   ہوا  ہے  گھوڑا

لاغر  سا , ادھمرا ہے گھوڑا

ڈاکٹر نے پھر کھولا, جھولا

دوا دیا ، دس دن  کی، بولا

دس دن میں ہو ٹھیک تو، بہتر

مار دو  ورنہ ، زہر  ہی  دے  کر

ساتھ   وہیں ،  بکرا    بیٹھا   تھا

غور سے سب کچھ دیکھ رہا تھا

گھوڑا  اٹھ  پایا  نہ، دوا   سے

بولا  بکرا  کان  میں   جا   کے

بھائی  تھوڑی  کوشش کر  کے

کھڑا ہی ہو جا ،جان کے ڈر  سے

مار ہی دیں گے، ورنہ، تجھ   کو

فکر   لگی  ہے   تیری  مجھ   کو

اٹھا نہ گھوڑا ،دس دن  بیتے

مالک   نکلا  ، زہر    کو   لینے

ایک  دفعہ ،  پھر   بولا   بکرا

مرے گا اب تو، کھڑا ہی ہو جا

مار ہی دیں گے , آج  تجھے  یہ

خبر ہوئی ہے, ابھی مجھے  یہ

گھوڑے میں کچھ  ہمت   آئی

موت  کے  ڈر  سے  قوت   آئی

دھیرے دھیرے کھڑا ہوا  وہ

ذرا چلا ،  پھر  دوڑ   پڑا  وہ

مالک   زہر   جو  لے   کر   آیا

دوڑ   رہا   ہے   گھوڑا    دیکھا

جھوم اٹھا, خوشیوں میں آ کر

بولا    یاروں    سے،   چلا    کر

اچھی  گھوڑے  کی  صحت  ہے!

رات کو  بکرے  کی   دعوت  ہے!

اس  قصے  سے  سیکھا  ہم   نے

عقل  کے  ذریعے  دیکھا  ہم   نے

خوب  کرو   اوروں   کی    پروا

اپنی   پرواہ   بھول   نہ     جانا

                   

(C):

(05)Aadab e Atfaal

"Ghoda Aur Bakra "

By Aleem Tahir

Email id:

aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

_______________________________

ادب اطفال 06:

(باپ).....نظم نمبر 06...علیم طاہر

(ماں کے موضوع پر کافی شاعری اور نثردنیائے ادب میں موجود ہے  لیکن باپ کے موضوع پر خال خال ہی مواد ملتا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ  ماں کے قدموں کے نیچے جنّت ہے تو باپ جنّت کا دروازہ ـ  یہ گیت باپ کے نام ،  فخر و انبساط کے ساتھ ـ ( علیم طاہر ).....

(ادب اطفال) نظم۔نمبر 06 ......…...  " باپ "

                                علیم طاہر

    رنگ برنگے ہیں کھلونے باپ سے

    پیارے سپنے ہیں سلونے باپ سے

    باپ سے جواں ہیں سارے حوصلے

    باپ  سے  آسان   اپنے    راستے

      گھر کی  جگمگاتی  شان  باپ ہے

   خواب، فخر اور دھیان باپ  ہے

  باپ ہی ہے  دیپ باپ تیل ہے

  باپ ہی سے ہنستے گاتے کھیل  ہے

  آرزؤ ں   کا   ہے   آسمان   باپ

  ہر گھڑی  ہے  ہم پہ مہربان  باپ

       مسکراہٹوں کی جان  باپ ہے  

     گھر کی  جگمگاتی شان باپ ہے

      خواب،فخر اور دھیان باپ ہے

  باپ ہی سے زندگی کے رنگ و روپ

  باپ ہی سے چھاؤں بنے ،سخت دھوپ

  باپ  دکھ  کو سہہ  کے سکھ عطا کرے

  رحمتیں  ہوں  با پ    پر   خدا  کرے

    ماں  کے  اپنے  درمیان  باپ   ہے

     گھر کی جگمگاتی شان  باپ  ہے

     خواب، فخر اور دھیان باپ ہے

(C):Adab e Atfaal no: 06

Nazm: (Baap)

  by Aleem Tahir .

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

(ادب اطفال) نمبر 07

        نظم نمبر  : 07    (ماں)

                                     علیم طاہر

گھنیرے پیڑ کی ٹھنڈی ہوا سی چھاؤں لاگے ماں

سدا سورج نکلنے سے ہی پہلے گھر میں جاگے ماں

نہیں کھانے کی ضد میں بھاگ پڑتا ہے کبھی بچّہ

نوالہ لے کے اس بچّے کے پیچھے دیکھو بھاگے ماں

سنبھالےرہتی ہےکس طرح نا زک رشتے ناطوں کو

کبھی بھی ٹوٹنے  دیتی نہیں  یہ کچےّ  دھا گے  ما ں

بہو  بیٹی  ہو  یا   پھر  ہو  بہن   بیو ی  ،  کوئی  رشتہ

قطاروں میں بھی  رشتوں کی یہاں ہے سب سے آگے ماں

اے  طاہر  جو  ملا  ہم  کو ، ملا  ما ں  کی  دعا ؤ ں  سے

جو  تیری  قدر  نہ  جانے  وہ  ہے  کتنے   ا بھاگے  ماں

(c):

Adab e Atfaal no:07

(maan)...by...AleemTahir.

Email id: aleemtahir12@gmail.com

________________________________

ادب اطفال نمبر 08 ۔۔

   نظم نمبر ٨ "شیر اور خرگوش"

                                 علیم طاہر

جنگل کی ویران راہ سے اک خرگوش چلا تھا

شیر ادھر جو آ نکلا تو رک کر بہت ڈرا تھا

شیر نے پھر خرگوش سے پوچھا کہاں چلے خرگوش

تھر تھر تھر تھر کانپ کےچپ تھا اڑے تھے اس کے ہوش

سمجھ گیا تھا خیر نہیں ہے جائے گی اب تو جان

اک ترکیب سمجھ میں آئی کہنے لگی زبان

کنویں کے ایک شیر نے مجھ کو بلوایا ہے آج

کنویں میں رہ کر کرتا ہے وہ جنگل پر راج

شیر دہاڑا، کنویں کا بھی کوئی شیر یہاں ہے ؟

کبھی تو ہم نے نہیں سنا تھا اور دیکھا بھی کہاں ہے؟

تب خرگوش نے بات بنائی! بولا  مرے حضور!

وہ کنویں میں رہتا, ورنہ آتا نظر ضرور

اک اک کر کے سب کو بلاتا ،کھاتا ،موج اڑاتا

اب جو یقیں نہ آئے تو خود چل کر میں دکھلاتا

شیر نے پوچھا کیسے آیا وہ کنویں کا شیر

بولا پھر خرگوش ،نہ جانوں، چلیے ہوگی دیر

گرجا! بولا, شیر گرج کر۔ ," مزہ چکھاؤں گا"

جس نے سب کوکھایا اس کو موت دکھاؤں گا

بولا یہ خرگوش ادب سے وہاں چلیں نہ آپ

بہت ہی موٹا تازہ ہے وہ، کیے ہیں اس نے پاپ

کہیں آپ کو وہ کوئی نقصان نہ پہنچا دے

یہی  سوچ  کر  دل  میرا  اندر  اندر  کانپے

چلا کر پھر  شیر نے  بولا  ہمیں  ڈراتے  ہو

چلو بتاؤ کہاں ہے وہ ،کیوں وقت بتاتے ہو

نہیں مانتے آپ تو  چلیے،  ابھی بتاؤں گا

پاس کنویں کے لےجا کرمیں اسے دکھاؤں گا

ایک کنویں کے پاس رکا، اور بولا پھر خرگوش

اس میں رہتا ہے وہ دیکھو، بھرا ہے اس میں جوش

شیر نے کنویں میں جو جھانکا ،اپنا عکس ہی پایا

وہ سمجھا کوئی دوسرا  شیر  ہے اس کو غصہ آیا

دیکھ کے اس نے خوب دہاڑا، جیسے ہی وہ ٹھہرا

ویسی ہی آواز  آئی تھی کنواں بہت تھا گہرا

یہ سن کر غصے میں آیا  اور   کودا   اندر

احمق شیر تو  ڈوب گیا پر سبق دیا مر کر

پیارے بچو! جوش میں اپنا ہوش نہیں کھونا

احمق شیر کی طرح جان سے ہاتھ نہیں دھونا

(C)

Adab e Atfaal no:08

Nazm:08

"Sher Aur khargosh "

By:

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

________________________________

علیم طاہر کی، ادب اطفال پر مشتمل ،

کتابیں:

01: ابا ابا آج ہے سنڈے,

02:قوس قزح کا جلوہ,

03:میں بولوں گا اردو,

04: علیم طاہر کی نظمیں,

(ادب اطفال پر مشتمل)

________________________________

Kitaab ka Naam:

"Main bolun ga Urdu "

(Adab e Atfaal par mushtamil)

________________________________

         بچوں کے شاعر و ادیب

                 علیم طاہر علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:05، 15 نومبر 2023ء (م ع و)

"ابا ابا آج ہے سنڈے " ادب اطفال پر مشتمل علیم طاہر کی آٹھ نظمیں ۔

ترمیم

(ابّا ابّا آج ہے سنڈے)

فہرست

01.......شیر اور چوہا

02.......تتلی اور بچّہ

03.........پیاسا کوّا

04..... اک بچّے نے چاند سے بولا

05......... ابّا ابّا سنو تو ابّا

06.........چیتا اور گدھا

07...........ایک بیٹی کی پیاری باتیں

08..........دو بلّیاں

                   ٹا ئیٹل

--------------------------------------------------------

     

   ( ابّا ابّا آج ہے سنڈے)    ....( شعری مجموعہ )

                ( آٹھ نظموں پر مشتمل )

.(.بچّوں کی نظمیں)........... ...علیم طاہر.............انڈیا ...

[6/11, 2:22 AM] Aleemtahir: (بچوں کی نظم) ....  ( شیر اور چوہا ) نمبر01

سویا   تھا   جنگل   کا   راجہ   اک  برگد   کے   نیچے

پڑا   ہوا   تھا  ضدّی   چوہا   یوں   ہی اس کے  پیچھے

شیر کے تن  پر  اُچھل  اُچھل  کر   چوہا   دوڑ   لگا تا

لیکن   شیر   کے   پنجّے   میں  وہ  جلد  ہی  پکڑا جاتا

شیر  نے  بولا  چھوٹے  چوہے  تیری  اتنی    جراءت

نیند  سے  تُو  نے   مجھے  جگایا   ایسی    تیری    ہمّت

اب میں  تجھ  کو  کھا  جاؤں  گا  کروں  گا قصّہ پاک

چوہا  بولا مجھ  چوہے  سے  بھوک   مٹے   گی   خاک

آج  مجھے  جو  چھوڑو   گے  تو  کل   آؤں  گا   کام

رحم   کرو   جنگل    کے    راجہ  اور    کرو   آرام

چوہے سے یہ سن کر چھوڑا بخش  دی اس  کی  جان

شیر  نے  اپنی  نیند  کی   چادر   دوبارا    لی    تان

اُس   دن   ایک   شکاری   آیا   شیر  پہ  ڈالا  جال

شیر  جال  میں پھنس کر  تڑپا  برا  تھا اس  کا  حال

گیا   شکاری   سرکس  کی   اک   لاری   کو   لانے

تھوڑی   دیر  ہی گزری  ہو گی  بس  اس  کو جانے

اپنی    بل   سے    چوہا    نکلا    دیکھا    یہ    منظر

سب چوہوں کو  دعوت  دی  کہ  آؤ  سارے  مل کر

میرا  اک  احسان   چکا    دو   آج    کتر   دو   جا ل

جس  نے  میری  جاں بخشی تھی برا ہے  اس کا  حال

سب  چوہوں   نے  جال  کو  کترا   شیر   ہوا   آزا د

رحم کے  بدلے  رحم  ہی    پایا   ہوا    کہاں    بربا د

ایک سبق  ملتا  ہے  اس   سے    رحم  کرو    سب   پر

رب  بھی  ہم  پر  رحم   کرے  گا یقیں  رکھو  رب  پر

(Bachchon ki nazm)( sher aur chuhaa)...no.02....by..Aleem Tahir.

[6/11, 2:24 AM] Aleemtahir: بچّوں کی نظم..(تتلی اور بچّہ) ..نمبر......02

تتلی    بولی    ننّھے    راجہ یوں   بھاگو    نہ    پیچھے

گرِ   نہ   جاؤ    دائیں    بائیں    دیکھو    اوپر   نیچے

رنگ برنگے  باغ  میں میر ے پیچھے  پڑ گئے   کیوں؟

مجھ کو چُھُونے  کی  خواہش میں ضد پر  اڑ گئے کیوں؟

بولا    بچّہ    پیاری   تتلی   سنو     نا    میری   بات

میرے دل میں  خواہش جا گی   تمہیں   لگاؤں    ہاتھ

رنگ  برنگی    پیاری    پیاری   تم   وہ    رنگیلی    ہو

چُھونے  کی  خواہش  جاگی   ہے  تم   وہ    چمکیلی    ہو

بولی    تتلی     اچّھے    بچّے      دیکھو     لطف     اٹھاؤ

کچّے  رنگ ہیں  میرے  مجھ  کو  ہاتھ    ذرا    نہ   لگاؤ

چُھونے   کی   ضِد  چھوڑو    اور   کرو     ِمرا    دیدا ر

رنگ  برنگی   دِکھتی  ہوں   تو    دِکھنے     دو    نا   یا ر

بولا     بچّہ      تتلی       رانی      سمجھ     مجھے      آیا  

میری    نادانی    تھی   تم    کو   چُھُو نے     کو      للچایا

بس   تم  کو   دیکھوں    گا     ا پنا   جی      بہلاؤں     گا   

اب  ہر گز   کچّے    رنگوں  کے   پاس    نہ     آؤں    گا

اُڑتے     اُڑتے      ُگل     پر     بیٹھی      تتلی   مسکا   ئی

اپنے   پروں   کو    پھیلا  کر  پھر   رنگ     نئے     دکھلائی

تتلی     نے    پر     پھیلائے     تو    فضا     ہوئی    متوالی

چمک   اٹھیں  بچّے   کی   آنکھیں   بجا     دیا     پھر      تالی

(Bachchon ki nazm)  titli aur bachcha....no.003...by...Aleem Tahir...

.......    ......نمبر ۰۳.............پیاسا کّوا.......علیم طاہر

اڑتے اڑتے جنگل سے اک کوّا آیا

پانی پینے کی خواہش وہ ساتھ ہی لایا

کچّے گھر کے باہر تھا اک مٹکا خالی

لیکن اس کے اندر دیکھا تھوڑا پانی

مٹکے میں جب چونچ کو ڈالا چونچ نہ پہنچی

لگی ہوئی تھی زور کی اس کو پیاس بھی ایسی

اس نے سوچا چونچ میں پانی کیسے آئے

پیاس کی شدّت دیکھو کیسے عقل جگائے

ڈال رہا تھا مٹکے میں وہ اک اک کنکر

اِس تدبیر سے تھوڑا پانی آیا اوپر

جی بھر کے کوّے نے اپنی پیاس بجھائی

کیسے سوچ سمجھ کے من کی منزل پائی

پیارے بچّو سوچ سمجھ کر کام کرو سب

تدبیروں سے ہو جاتا ہے چاہے جو رب

(Bachon ki nazm) payasa kawwa...no.004...by...Aleem Tahir....

[6/11, 2:26 AM] Aleemtahir: (بچّوں کی نظم) نمبر 04  "اک بچّے نے چاند سے بولا".................علیم طاہر

اک    بچّے  نے   چاند  سے    بولا   چندا  ماما  سُن

جب  آتی ہے رات   اندھیری   سب   گائیں ترے گُن

بدلی   میں  تُو چھپ  جائے  تو  ناچ  دکھائے تارے

جگمگ جگمگ جگمگ جگمگ چاندنی جیسے سارے

تُو بدلی  سے جب   نکلے تو    تارے    منہ    لٹکائے

تیرے   اجیاروں   کے   آگے   شرما   کے چھپ جائے

دل   تاروں  کا   تُو  نے   دُ کھایا   کر لے  یہ احساس

مانا   تاروں   سے   بھی   زیادہ  نور  ہے تیرے پاس

اپنا   سمجھے جو  اوروں  کو   وہی  بڑا   ہے   چاند

تاک رہا ہے سُن  کے ابھی  تک   اور   کھڑا   ہے   چاند

جا   جا   کر   تاروں   کو   منا لے   تیرے   اپنے   ہیں

ان  بیچاروں  کے  دل  میں  بھی  پیارے  سپنے  ہیں

تُو     نے    میرا     کہنا      مانا    جاتا    ہے    ما ما

میر ا    دل    بھی اب   تیرے گن    گاتا    ہے  ما ما

(bachchon ki nazm) no...05...by...Aleem Tahir.

[6/11, 2:27 AM] Aleemtahir: (بچّوں کی نظم).."ابّاابّا سنو  توا بّا"..نمبر..  .......۲..علیم طاہر.

ابّا   ابّا   سُنو   تو   ابّا !

  گاؤں   میں   اک   میلا   آیا

میں نے سُنا ہے اس میلے نے

دنیا بھر کی خوشیاں لایا

چھُک چھُک کرتی ریل وہاں ہے

بندوقوں کا کھیل وہاں ہے

جھولے بجلی سے چلتے ہیں

بچّے رسّی پہ چلتے ہیں

اچھل کود کو سُرکنڈی ہے

نئے کھلونوں کی منڈی ہے

ایک کنواں ہے موت کا گہرا

چاروں جانب اس کے پہرا

اس میں موٹر سائیکل والا

نیچے سے اوپر کو آتا

اوپر سے نیچے کو جاتا

ہاتھ چھوڑ کے  خوب  چلاتا

اک بچّوں کی دنیا بھی ہے

رستہ بھول بھلیّا بھی ہے

اک آئینہ خانہ بھی ہے

بس ہنستے ہی جانا بھی ہے

میری  دلچسپی کا  سبب ہے

بولو آپ کو چھٹّی کب ہے؟؟؟

ابّا ابّا  سنو  تو ابّا!

گاؤں میں اک میلا آیا

میں نے سنا ہے اس میلے نے

دنیا بھر کی خوشیاں لایا

سنڈے  کو پکّا جی ابّا

وعدہ ہے وعدہ جی ابّا

(Bachchon ki nazm)A nazm no 06......................     by Aleem Tahir......

[6/11, 2:40 AM] Aleemtahir: (بچّوں کی نظم) ( چیتا اور گدھا )...نمبر..۰۶..علیم طاہر

گدھے سے بولا اک چیتا بیٹھ جا میرے سنگ

اور   بتا  دے  کیسا   ہے  آسمان  کا  رنگ

میرا یہی سوال ہے دے دے سہی جواب

اپنی عقل کا پا لے تُو مجھ سے بڑا خطاب

گدھے  نے  بولا  کالا ہے آسمان  کا  رنگ

چیتا  بولا  نیلا  ہے عقل  ہوئی  تری  بھنگ

بحث بڑھی جب دونوں کی پھر یہ طئے پایا

دھیان   شیر  سے  ملنے   کا   چیتا  کو آیا

جنگل  کا  ہے  راجہ  شیر  چیتا  بولا  چل

وہی نکالے  گا  اپنی  اس  اُلجھن  کا  حل

شیر نے  دیکھا دونوں کو بولا  کیا ہے  بات؟

تم دونوں ملنے  مجھ سے کیوں آئے ہو ساتھ؟

چیتے   نے    فریاد   کی   مائی  باپ   سرکار

آسمان  ہے   نیلا   پر  گدھا  کرے    انکا ر

گدھے سے میں نے پوچھا  تھا فلک کا کیسا  رنگ

بول  رہا  ہے   کالا ہے  بحث کرے مرے سنگ

دودھ  کا    کر دو   دودھ  تم    پانی    کا   پانی

پھر جنگل میں  کوئی  بھی  کرے  نہ من    ما نی

سُن  کر    چیتے    کی  باتیں ،   غصّے    میں    آیا  

حکم   دیا  اور   چیتے  کو ،   جیل    میں    ڈلو ا یا

گدھے   سے  بولا  شیر  نے    جاؤ     تم    آزاد

یہی  مرا   انصاف   ہے   رکّھو    مجھ    کو   یا د

چیتا  بولا   شیر   سے    دل    کو  کیا  سمجھا ؤ ں؟

سچ  بھی میں ہی  بولوں اور جیل بھی میں ہی جاؤں!

بولا  شیر  نہیں  ہے  یہ  سچ  اور  جھوٹ  کی بات!

بحث گدھے سے  کی تم  نے گدھے کی  کیا اوقات؟

بحث  گدھے  سے  نہ  کرتے  نہ  پاتے  تم  جیل

سزا  جیل  میں    کا ٹو   اب  ختم  ہوا  یہ  کھیل

اس    قصّے   سے    بچّو   تم   ایک   سبق   لینا

جس  کی  جتنی   عزّت   ہو    اُتنی    ہی    دینا

(Bachchon ki nazm) (cheeta aur gadha)...no 07...by.....AleemTahir

[6/11, 2:42 AM] Aleemtahir: (بچّوں کی نظم )" اک بیٹی کی پیاری باتیں" نمبر ..   ۳                       علیم طاہر

ابّا   ابّا   آج   ہے   سنڈ  ے

پورے کرنے ہوں گے وعدے

صبح سے میں تیاّر ہوئی ہوں

دیکھو میں کیسی لگتی ہوں

امّی چائے  بنا رہی  ہے  

پاؤ پہ  مسکا  لگا  رہی ہے

آنکھیں کھولو اٹھو نا جلدی

سرکس میں ہو جائے گی گردی

سنا ہے سرکس بہت بڑی ہے

تمبو  گاڑے  دور کھڑی  ہے

کیا کیا سرکس میں جلوے ہیں

چلیے ناں جلدی چلتے ہیں

سنا ہے  رہتے ہیں مل جل کے

جنگل کے خوںخوار درندے

بھا لو  بندر چیتے بھی ہیں

کار میں کھاتے پیتے بھی ہیں

شیر ڈرائیور بن جاتا  ہے

ساتھ ہی بندر تن جاتا  ہے

اک   رسّی   پر   چلتی   لڑکی

دیکھیں کیسے سنھبلتی لڑکی

الگ الگ بجلی کے جھولیں

یوں لگتا ہے فلک کو چھو لیں

بچوّں کا کشمیری  گھر ہے

اندر برف کا ہر منظر ہے

سنا ہے موت کا ایک کنواں ہے

جس میں ہمّت والا جواں ہے

وہ کنواں کی دیواروں پر

بائیک سے کاٹے ہے چکّر

خدا کرے وہ رہے سلامت

وہ کتنی رکھتا  ہے ہمّت

خوب دکانیں لگی ہوئیں ہیں

رنگ برنگی سجی ہوئیں ہیں

موسیقی کا رقص وہاں  ہے

جوکر جیسا شخص وہاں ہے

گرتا   ہے اور سنبلتا ہے وہ

پھُدک پھُد ک کر چلتا ہے وہ

امّی  بھی تیّار ہوئی ہے

آپ کی ٹائی خوب لگی ہے

یاد کرو کیا کچھ بھولے ہیں

میں نے سینڈل پہن لئے ہیں

چلو   لگا   دو   تالا    باہر

نظر  رکھیں  گی  خالہ باہر

ابّا    ابّا       آج   ہے   سنڈ ے

پورے  کرنے  ہوں  گے  وعدے ....

Bachchon ki nazm...no.08...by..Aleem Tahir.

[6/11, 2:45 AM] Aleemtahir: بچّوں کی نظم..نمبر ۰8و بلیاّں....علیم طاہر.....

رات کو اک گھر کی کھڑکی سے کودی بلّی

اس کے پیچھے دھم سے آئی دوجی بلّی

چپکے چپکے کچن کے اندر دونوں پہنچیں

ان  دونوں نے گیہوں کی اک روٹی پائیں

روٹی لے کر پیڑ کے نیچے دونوں بیٹھیں

یہ میری روٹی ہے مل کر دونوں بولیں

پہلی بلّی بولی اس کو میں کھاؤں گی

دوجی بولی دے دے ورنہ لڑ جاؤں گی

دیکھ رہا تھا پیڑ پہ بیٹھا بھورا بندر

بولا میں انصاف کروں گا نیچے آکر

ایک ترازو لے کر آیا بندر نیچے

اک اک پلڑے میں رکھّے دو ٹکڑے کر کے

جو پلڑا جھکتا تھا اس کا ٹکڑا توڑے

توڑ کے ٹکڑا بندر اپنے منہ میں ڈالے

دھیرے دھیرے پوری روٹی کھائی اس نے

اپنی عقل سے اپنی بھوک مٹائی اس نے

منہ تکتے رہ گئیں دونوں بھورے  بندر کا

جھانک رہا تھا آنکھ سے ان کے غم اندر کا

بچّو آپس میں لڑنے سے ہوتا ہے نقصان

مل جل کر رہنے سے ہوتا جینا بھی آسان

Bachchon ki nazm ..do billiyaan ...no.08..by...Aleem Tahir.

Abba abba aaj hai sunday......sheri majmuaa....

Adab e atfaal

by

Aleem Tahir. علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:08، 15 نومبر 2023ء (م ع و)

"علیم طاہر کی نظمیں" ادب اطفال پر مشتمل پچیس نظموں کا دلچسپ مجموعہ

ترمیم

ٹایٔٹل:

"علیم طاہر کی نظمیں" (ادب اطفال)


(بطور خاص بچوں کے لئے، علیم طاہر کی پچیس نظموں کا دلچسپ مجموعہ)


کتاب کا نام:  "علیم طاہر کی نظمیں"

           (ادب اطفال)


فہرست:

01...........حمد

02...........بچہ اور اردو

03۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بارش

04۔۔۔۔۔۔۔۔مثالی مدرس

05۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھوڑا اور بکرا

06۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باپ

07۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماں

08۔۔۔۔۔۔۔‌شیر اور خرگوش

09۔۔۔۔۔۔۔۔۔صبح سویرے

10۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھاڑو والا

11۔۔۔۔۔۔۔۔میرا پیارا پیارا گاؤں

12۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مری اردو زباں

13۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹیاں

14۔۔۔۔۔۔۔۔۔چڑیا اور جگنو

15۔۔۔۔۔۔۔۔۔دھوپ

16۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طوطا

17۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیارے گاندھی جی

18.......شیر اور چوہا

19.......تتلی اور بچّہ

20.........پیاسا کوّا

21..... اک بچّے نے چاند سے بولا

22......... ابّا ابّا سنو تو ابّا

23.........چیتا اور گدھا

24...........ایک بیٹی کی پیاری باتیں

25............دو بلیاں

________________________________

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

( ادب اطفال)

نمبر 01:

حمد........................علیم طاہر

قلب میں دھڑکن بن کر اترا نام ترا

سارے ناموں میں ہے پہلا نام ترا

ساگر ساگر بولیں موجیں یا اللہ

ورد کرے ہے دریا دریا نام ترا

رات اور دن پر تیرا نام مسلط ہے

لے کر نکلے سورج چندا نام ترا

صبح ہوئی تو پھول پھول کے چہرے پر

شبنم کے قطروں میں چمکا نام ترا

بادل بادل سرد ہوا کے جھو نکو ں سے

قطرہ قطرہ بول کے برسا نام ترا

اڑتے اڑتے پنجھی ہر دم لیتے ہیں

وادی وادی صحرا صحرا نام ترا

کیڑوں کو دی تو نے غذائیں پتھر میں

پتھر کے اندر بھی گونجا نام ترا

مستانے انداز میں پل پل یاد کرے

شجر شجر کا پتہ پتہ نام ترا

روشن لعل و گوہر تیرے نام سے ہیں

لے کر چمکے پل پل مولا نام ترا

جگنو تتلی بھنو رے تیرا ذکر کرے

ہر گل میں ہیں مہکا مہکا نام ترا

صدف کھلی تو پھیلا نور اندھیرے میں

طاہر نے بھی روشن پایا نام ترا

(C):Aleem Tahir

Adab e Atfaal

Hamd no.01.

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

.........................................۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

02:( ادب اطفال )

نظم نمبر:02۔۔۔۔۔" بچہ اور اردو "

                                       علیم طاہر

تو  چاہت سکھاتی  ہے،  چاہوں گا  اردو

ترے   ساتھ   رشتہ   نبھاؤں   گا   اردو

دیوانہ ہوں تجھ کو ہی سوچوں گا اردو

لکھوں گا پڑھوں گا میں بولوں گا  اردو۔۔۔۔۔

بزرگوں کا ماضی تجھی  سے  ملے  گا

مرا دل ہے غنچہ ،تجھی سے  کھلے گا

جو دل زخمی ہو گا تجھی سے سلے گا

چلوں گا  ترے  ساتھ  ٹھہروں گا  اردو

لکھوں گا پڑھوں گا میں بولوں گا اردو۔۔۔۔۔

زمانے  میں   یوں  تو کئی  ہیں  زبانیں

تجھی  پر  مگر سب لٹاتے  ہیں  جانیں

سبھی تجھکو بولے سبھی تجھکو مانیں

ترانوں سے  تیرے  میں بہلوں گا  اردو

لکھوں گا پڑھوں گا میں بولوں گا اردو۔۔۔۔۔۔

زباں  مادری  میری   تو  ہی  زباں  ہے

زباں ترے جیسی کوئی بھی  کہاں ہے

تو ہی میرا دل ہے  تو میرا  جہاں  ہے

لگا کر گلے تجھ کو  چوموں  گا  اردو

لکھوں گا پڑھوں گا میں بولوں گا اردو۔۔۔۔۔۔۔

                       علیم طاہر

(C: 02:

Aadab e Atfaal

Nazm no:02

"Bachcha Aur Undu"

Aleem Tahir.

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

03:  ( ادب اطفال )

        نظم ۔۔۔۔۔نمبر 02  " بارش  "

                                  علیم طاہر

دھوم مچائے رنگ جمائے

رنگ   برنگے  گل  مہکائے

جنگل جھومے اور مسکائے

پنچھی پنچھی شور مچائے

ہر جانب جل  تھل ہو جائے

جب بھی چھم چھم بارش آئے

دریا   دریا  آئی  روانی

ہر ذرے پر چھائی جوانی

یوں ہی دنیا نہیں دیوانی

بارش کی خوش رنگ کہانی

خوشیوں کے سب تحفے لائے

جب بھی چھم چھم بارش آئے

فلک   فلک    بادل   گرجے   ہیں

دھنک دھنک جلوے بکھرے ہیں

چھنک چھنک قطرے ٹپکے ہیں

مور      تھرکتے   پر     پھیلائے

جب بھی چھم چھم  بارش آئے

امبر پر ہلکی لالی ہے

ہر سو چھائی ہریالی ہے

رنگ برنگی خوشحالی ہے

شاخیں جھومیں ،کوئل گاۓ

جب بھی چھم چھم بارش آئے

(C) : 03

(Aadab e Atfaal)

Nazm no.03

Aleem Tahir.

Mob no.9623327923

Email id: aleemtahir12@gmail.com

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نمبر 04:ادب اطفال

         نظم نمبر 04:مثالی مدرس

                                       علیم طاہر

خدا کی ہے رحمت مثالی مدرس

ہےدولت ہی دولت مثالی مدرس

منور کرے علم کی روشنی سے

مشرف کرے دل کو ہر اک خوشی سے

کرے ہم میں پیدا جو خود اعتمادی

قدم ہر قدم جس نے  ہم کو  دعا  دی

بحسن عمل   جو    فرائض   نبھائے

ہمیں سچ کی راہوں پہ چلنا سکھائے

جو ماہر ہے تحریر و تقریر میں بھی

جو ظاہر ہے ہستی کی تفسیر میں بھی

رکھے قوت فیصلہ بھی جو محکم

کرے پست ہمت نہ جس کی کوئی غم

جو طلبہ کی فکروں کو پہچانتا ہو

عبادت جو تدریس کو جانتا ہو

بدل دے جو فکروں کو حسب ضرورت

جو ہم کو سکھائے معیاری خطابت

جو واقف رجحان تعلیم سے بھی

رکھے منسلک خود کو تسلیم سے بھی

رہے  باخبر  سب کی  سرگرمیوں  سے

مخاطب جو طلبہ سے ہو نرمیوں سے

جو صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑے

کرے جو بھی وعدہ تو وعدہ نہ توڑے

جو ہے باشعور اور وسیع النظر بھی

جو ہے مستند علم کا ہم سفر بھی

جو مرکز ہے علم و عمل کے جہاں کا

اہم ایک کردار ہے داستاں کا

کرے استفادہ جو ہر تجربے سے

بڑھے ہر قدم  علم کا حوصلے سے

لچکدار جس کا رویہ ہو سب سے

کرم پائے مخصوص جو اپنے رب سے

سراپا شرافت مثالی مدرس

اے طاہر حقیقت مثالی مدرس

( C )Aleem Tahir.

04:Aadab e Atfaal

Nazm no 04: Misali Mudarris

By Aleem Tahir.

Mobile no.9623327923

Email id.aleemtahir1@gmail.com.

________________________________

نمبر 05(ادب اطفال)

        نظم نمبر 05 " گھوڑا اور بکرا "

                             نظم نگار : علیم طاہر

اک   گھوڑا    ہٹا   کٹا  تھا

ساتھ اسکے مالک رہتا تھا

گھوڑا  اب  بیمار  ہوا  جو

صحت  سے لاچار  ہوا  جو

مالک  نے  ڈاکٹر  کو   بلایا

پھر گھوڑے  کا  ڈاکٹر  آیا

دیکھا , پڑا   ہوا  ہے  گھوڑا

لاغر  سا , ادھمرا ہے گھوڑا

ڈاکٹر نے پھر کھولا, جھولا

دوا دیا ، دس دن  کی، بولا

دس دن میں ہو ٹھیک تو، بہتر

مار دو  ورنہ ، زہر  ہی  دے  کر

ساتھ   وہیں ،  بکرا    بیٹھا   تھا

غور سے سب کچھ دیکھ رہا تھا

گھوڑا  اٹھ  پایا  نہ، دوا   سے

بولا  بکرا  کان  میں   جا   کے

بھائی  تھوڑی  کوشش کر  کے

کھڑا ہی ہو جا ،جان کے ڈر  سے

مار ہی دیں گے، ورنہ، تجھ   کو

فکر   لگی  ہے   تیری  مجھ   کو

اٹھا نہ گھوڑا ،دس دن  بیتے

مالک   نکلا  ، زہر    کو   لینے

ایک  دفعہ ،  پھر   بولا   بکرا

مرے گا اب تو، کھڑا ہی ہو جا

مار ہی دیں گے , آج  تجھے  یہ

خبر ہوئی ہے, ابھی مجھے  یہ

گھوڑے میں کچھ  ہمت   آئی

موت  کے  ڈر  سے  قوت   آئی

دھیرے دھیرے کھڑا ہوا  وہ

ذرا چلا ،  پھر  دوڑ   پڑا  وہ

مالک   زہر   جو  لے   کر   آیا

دوڑ   رہا   ہے   گھوڑا    دیکھا

جھوم اٹھا, خوشیوں میں آ کر

بولا    یاروں    سے،   چلا    کر

اچھی  گھوڑے  کی  صحت  ہے!

رات کو  بکرے  کی   دعوت  ہے!

اس  قصے  سے  سیکھا  ہم   نے

عقل  کے  ذریعے  دیکھا  ہم   نے

خوب  کرو   اوروں   کی    پروا

اپنی   پرواہ   بھول   نہ     جانا

                   

(C):

(05)Aadab e Atfaal

"Ghoda Aur Bakra "

By Aleem Tahir

Email id:

aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال 06:

(باپ).....نظم نمبر 06...علیم طاہر

(ماں کے موضوع پر کافی شاعری اور نثردنیائے ادب میں موجود ہے  لیکن باپ کے موضوع پر خال خال ہی مواد ملتا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ  ماں کے قدموں کے نیچے جنّت ہے تو باپ جنّت کا دروازہ ـ  یہ گیت باپ کے نام ،  فخر و انبساط کے ساتھ ـ ( علیم طاہر ).....

(ادب اطفال) نظم۔نمبر 06 ......…...  " باپ "

                                علیم طاہر

    رنگ برنگے ہیں کھلونے باپ سے

    پیارے سپنے ہیں سلونے باپ سے

    باپ سے جواں ہیں سارے حوصلے

    باپ  سے  آسان   اپنے    راستے

      گھر کی  جگمگاتی  شان  باپ ہے

   خواب، فخر اور دھیان باپ  ہے

  باپ ہی ہے  دیپ باپ تیل ہے

  باپ ہی سے ہنستے گاتے کھیل  ہے

  آرزؤ ں   کا   ہے   آسمان   باپ

  ہر گھڑی  ہے  ہم پہ مہربان  باپ

       مسکراہٹوں کی جان  باپ ہے  

     گھر کی  جگمگاتی شان باپ ہے

      خواب،فخر اور دھیان باپ ہے

  باپ ہی سے زندگی کے رنگ و روپ

  باپ ہی سے چھاؤں بنے ،سخت دھوپ

  باپ  دکھ  کو سہہ  کے سکھ عطا کرے

  رحمتیں  ہوں  با پ    پر   خدا  کرے

    ماں  کے  اپنے  درمیان  باپ   ہے

     گھر کی جگمگاتی شان  باپ  ہے

     خواب، فخر اور دھیان باپ ہے

Topic (Baap)  a geet by Aleem Tahir .

________________________________

(ادب اطفال) نمبر 07

        نظم نمبر  : 07    (ماں)

                                     علیم طاہر

گھنیرے پیڑ کی ٹھنڈی ہوا سی چھاؤں لاگے ماں

سدا سورج نکلنے سے ہی پہلے گھر میں جاگے ماں

نہیں کھانے کی ضد میں بھاگ پڑتا ہے کبھی بچّہ

نوالہ لے کے اس بچّے کے پیچھے دیکھو بھاگے ماں

سنبھالےرہتی ہےکس طرح نا زک رشتے ناطوں کو

کبھی بھی ٹوٹنے  دیتی نہیں  یہ کچےّ  دھا گے  ما ں

بہو  بیٹی  ہو  یا   پھر  ہو  بہن   بیو ی  ،  کوئی  رشتہ

قطاروں میں بھی  رشتوں کی یہاں ہے سب سے آگے ماں

اے  طاہر  جو  ملا  ہم  کو ، ملا  ما ں  کی  دعا ؤ ں  سے

جو  تیری  قدر  نہ  جانے  وہ  ہے  کتنے   ا بھاگے  ماں

(c)...(maan)...by...AleemTahir.

_______________________________

ادب اطفال نمبر 08 ۔۔

   نظم نمبر 08 "شیر اور خرگوش"

                                 علیم طاہر

جنگل کی ویران راہ سے اک خرگوش چلا تھا

شیر ادھر جو آ نکلا تو رک کر بہت ڈرا تھا

شیر نے پھر خرگوش سے پوچھا کہاں چلے خرگوش

تھر تھر تھر تھر کانپ کےچپ تھا اڑے تھے اس کے ہوش

سمجھ گیا تھا خیر نہیں ہے جائے گی اب تو جان

اک ترکیب سمجھ میں آئی کہنے لگی زبان

کنویں کے ایک شیر نے مجھ کو بلوایا ہے آج

کنویں میں رہ کر کرتا ہے وہ جنگل پر راج

شیر دہاڑا، کنویں کا بھی کوئی شیر یہاں ہے ؟

کبھی تو ہم نے نہیں سنا تھا اور دیکھا بھی کہاں ہے؟

تب خرگوش نے بات بنائی! بولا  مرے حضور!

وہ کنویں میں رہتا, ورنہ آتا نظر ضرور

اک اک کر کے سب کو بلاتا ،کھاتا ،موج اڑاتا

اب جو یقیں نہ آئے تو خود چل کر میں دکھلاتا

شیر نے پوچھا کیسے آیا وہ کنویں کا شیر

بولا پھر خرگوش ،نہ جانوں، چلیے ہوگی دیر

گرجا! بولا, شیر گرج کر۔ ," مزہ چکھاؤں گا"

جس نے سب کوکھایا اس کو موت دکھاؤں گا

بولا یہ خرگوش ادب سے وہاں چلیں نہ آپ

بہت ہی موٹا تازہ ہے وہ، کیے ہیں اس نے پاپ

کہیں آپ کو وہ کوئی نقصان نہ پہنچا دے

یہی  سوچ  کر  دل  میرا  اندر  اندر  کانپے

چلا کر پھر  شیر نے  بولا  ہمیں  ڈراتے  ہو

چلو بتاؤ کہاں ہے وہ ،کیوں وقت بتاتے ہو

نہیں مانتے آپ تو  چلیے،  ابھی بتاؤں گا

پاس کنویں کے لےجا کرمیں اسے دکھاؤں گا

ایک کنویں کے پاس رکا، اور بولا پھر خرگوش

اس میں رہتا ہے وہ دیکھو، بھرا ہے اس میں جوش

شیر نے کنویں میں جو جھانکا ،اپنا عکس ہی پایا

وہ سمجھا کوئی دوسرا  شیر  ہے اس کو غصہ آیا

دیکھ کے اس نے خوب دہاڑا، جیسے ہی وہ ٹھہرا

ویسی ہی آواز  آئی تھی کنواں بہت تھا گہرا

یہ سن کر غصے میں آیا  اور   کودا   اندر

احمق شیر تو  ڈوب گیا پر سبق دیا مر کر

پیارے بچو! جوش میں اپنا ہوش نہیں کھونا

احمق شیر کی طرح جان سے ہاتھ نہیں دھونا

(C)Nazm:

"Sher Aur khargosh "

By:

Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

________________________________

ادب اطفال نمبر 09.

  نظم نمبر 09۔۔۔صبح سویرے

آنکھیں کھولو، چھوڑو بستر, صبح سویرے

پیارے  بچو  ،  دیکھو  باہر , صبح  سویرے

بابا امبر، صوفی دھرتی ,  اڑتے  پنچھی

کیا کیا ہے ،نورانی منظر,  صبح سویرے

غسل سے فارغ، ہو کر لو ،تھوڑی ورزش

کام یہی ہے ،سب سے بہتر, صبح سویرے

فجر نمازیں ادا کرو ، مسجد میں جا کر

کرو دعائیں ہاتھ اٹھا کر , صبح سویرے

جو مانگو گے ،تمہیں ملے گا،کرو دعائیں

سب کے لئے ہے،  اللہ اوپر,  صبح سویرے

جلد اٹھے جو، نہیں پڑے بیمار  کبھی  وہ

ہاتھ پھرے قدرت کا سرپر , صبح سویرے

رات کو  جلدی   سونا ہو گا  ،پیارے بچو !

آنکھ کھلے گی تب ہی جاکر ,صبح سویرے

                   

                                          علیم طاہر

(C)Aleem Tahir

Adab e Atfaalno. 09

Nazm no.09.

"Subh Sawere "

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no:

9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر:10

: نظم نمبر  10 " جھاڑو والا "

                       * علیم طاہر

دیکھو  جھاڑو  والا   آیا

اچھی اچھی جھاڑو لایا

لمبی ،چھوٹی،موٹی،  پتلی

کتنی جھاڑو ،اچھی، اچھی

گلی گلی   آواز      لگا   کر

پھرتا ہے سائیکل پر آ   کر

رک رک کر آگے بڑھ جا ۓ

گردن  پر  جھاڑو   لٹکاۓ

کوئی  بلاۓ  تو   رک  جائے

رک کر ہر  جھاڑو  دکھلاۓ

لمبی،  پتلے  ریشے  والی

یہ ہے فرش پہ دینے والی

آنگن    والی  موٹی  جھاڑو

لے لو اچھی چھوٹی جھاڑو

خوبی  جھاڑو  کی  گنواۓ

دل جیتے  اور  قیمت  پاۓ

                             علیم طاہر

(C):Adab e Atfaal: no.10

Nazm no.10:  "Jhadu wala"

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر 11.

نظم نمبر: 11

"میرا پیارا پیارا گاؤں"

                          *  علیم طاہر

میرا   پیارا   پیارا   گاؤں

جنت   کا   نظارا   گاؤں

جب بھی گھر سےنکلوں میں

کیا کیا منظر  دیکھوں  میں

چاروں جانب ٹیلے ہیں

سب منظر رنگیلے ہیں

صبح نکلتا وہ سورج

کھلا ہوا ہے ہر پنکج


پگڈنڈی   ہے   کھیتوں  میں

سوندھی خوشبورستوں میں

برگد  کے  نیچے    ٹھہرو

پنگھٹ   کا منظر  دیکھو


فلک فلک اڑتے پنچھی

دھرتی پر باجے بنسی

جھرنوں سے گرتا پانی

ندیا بھی  ہے  مستانی

جھیل کی اپنی دنیا ہے

منظر  منظر  سپنا   ہے

پیڑوں کے گہرے سائے

گرمی میں ٹھہرے ساۓ

جب  چھاۓ   کالے  بادل

فلک سے برسے ٹھنڈا جل

جب ہو سردی کا موسم

تب   ہو  خوابیدہ  عالم

لہکے  ،    مہکے     ہریالی

مرے گاؤں میں خوشحالی

میرا  پیارا   پیارا    گاؤں

جنت۔  کا   نظارا    گاؤں

                     علیم طاہر

(C): Nazm no.11.

Email id:

aleemtahir12@gmail.com.

________________________________

"ادب اطفال نمبر 12"

      نظم نمبر 12:میری اردو زباں

                               علیم طاہر

دنیا کی زبانوں میں دیکھا تجھ جیسی کوئی بھی ملی کہاں ؟

میری پیاری زباں ،میری اردو زباں ،میری پیاری زباں میری اردو زباں


رہتی دنیا تک رہے صدا ایسے ہی ہیں سرتال ترے

حالی ,والی ,اعجاز, داغ, میر و غالب, اقبال, ترے

محفوظ ہیں تجھ میں تاریخیں, خود میں رکھے، صدیوں کے نشاں

میری پیاری زباں, میری اردو زباں, میری پیاری زباں میری اردو زباں


تیرا لہجہ ہے جادو جیسا, گھنگرو تجھ میں خوشبو تجھ میں

گل ،شبنم، تتلی، تجھ میں ہے, چندہ تارے جگنو تجھ میں

محفوظ ہیں تجھ میں تاریخیں، خود میں رکھے، صدیوں کے نشاں

میری پیاری زباں میری اردو زباں میری پیاری زباں میری اردو زباں

                              علیم طاہر

(C) Abab e Atfaal no.12.

Nazm:"Meri Urdu zubaa "

By Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com

9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 13

نظم نمبر13:

              'بیٹیاں '

                    علیم طاہر

پریاں  ہیں پیاری پیاری، پریاں،  بیٹیاں

ننھی شاخوں پہ کھلتی، کلیاں، بیٹیاں

ان کے  آنے  سے  آیا,  نور , خدا  کا

ان کے ہونے سے چمکا, رنگ, وفا کا

ان کے رہنے سے مہکا , باغ,  ادا  کا

پریاں ہیں پیاری پیاری پریاں، بیٹیاں

ننھی شاخوں پہ کھلتی کلیاں، بیٹیاں

ان کے سبب سب گھر میں اجالے ہیں

ان  کے  سبب  جنت  کے  حوالے  ہیں

ان  کے  سبب  تقدیر  میں  نوالے  ہیں

پریاں ہیں پیاری پیاری پریاں ، بیٹیاں

ننھی شاخوں پہ کھلتی ,کلیاں ،بیٹیاں

ماؤں کے ہونٹوں  مسکان ان سے ہے

باپوں کی آن, بان, شان, ان سے ہے

اپنے گھروں کی, پہچان, ان سے ہے

پریاں ہیں پیاری پیاری ، پریاں ،بیٹیاں

ننھی شاخوں پہ کھلتی ،کلیاں، بیٹیاں

(C):Adab e Atfaal no ۔13

Nazm no.13:

By Aleem Tahir

Email id: aleemtahir12@gmail.com.

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 14

                   "چڑیا اور جگنو"

                      علیم طاہر

صبح ہوئی اور گھونسلے سے نکلی چڑیا

اڑتے  اڑتے   دور   جنگل   پہنچی   چڑیا

کھانے پینے میں گزرا دن سارا  اس  کا

آ ہی گیا بن کر دشمن  اندھیارا  اس  کا

اس نے سوچا اب میں کیسےگھر جاؤں گی

اندھیارے  میں کہاں کہاں پر  ٹکراؤ ں  گی

جب وہ چڑیا بہت دکھی تھی دیکھااس کو

اک جگنو نے   ہمدردی سے  پوچھا  اس کو

بی چڑیا غمگین ہو اتنی کیوں تم بولو ؟

کیا ہے غم کا راز ذرا یہ  مجھ پر کھولو

بولی  چڑیا "  بھائی  کتنا    اندھیارا   ہے "

"گھر جاؤں گی کیسے اس کا دکھ سارا ہے"

جگنو بولا  "بی  چڑیا بس  بات ہے  اتنی"

" میں رستہ دکھلاؤں گا یہ رات ہے جتنی"

جگنو کہہ کر اڑا ہی  تھا کہ  ہوئی  روشنی

پیچھے پیچھے اڑی تھی چڑیا ملی روشنی

آہی گیا  پھر  اڑتے  اڑتے  گھر  چڑیا  کا

ختم ہوا تھا دل میں جو تھا ڈر چڑیا کا

بولی چڑیا ، " جگنو بھائی  !   تم اچھے  ہو"

نیک بھی ہو ہمدرد بھی ہو اور اک سچے ہو

جو اچھے رہتے ہیں وہ آتے ہیں کام

اچھائی کا رب سے پاتے  ہیں  انعام

ہنس  کر  اڑتے   اڑتے  نکلا   آگے  جگنو

" ننھا نور فرشتہ "   جیسا   لاگے  جگنو

(C): Adab e Atfaal no.14:

Nazm no:14.

"Chidiya Aur Jugnoo"

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 15

       نظم نمبر: 15

                  " دھوپ "

                           علیم طاہر

روز سورج سے ہوتا جنم دھوپ کا

ہے خُدا کے کرم سے کرم دھوپ کا

دھوپ بهی جلتی رہتی ہے غم میں سدا

دُھوپ میں جلتا رہتا ہے غم دُھوپ کا

دھوپ سردی میں ملتی رہے تو مزا

لطف گرمی میں ملتا ہے کم دھوپ کا

بھاگ جائے گی ظلمت بھی تب رات کی

جب بھی بکھرے گا دھرتی پہ دم دھوپ کا

اپنی  اسکول   پھر  جلد  کل  جائیں گے

صبح دیکھیں گے چہرہ جو ہم دھوپ کا

دھوپ رکھے ہیں سب کا بھرم دوستو

اور رکھا ہے سب نے بھرم دھوپ کا

اس میں ملتا نہیں ہے تعصب کبھی

صرف انسانیت ہے  علم  دھوپ  کا

دل لگی کتنی گہری ہے جگ سے  اسے

جیسے طاہر یہ جگ ہے  حشم دھوپ کا

(C):Adab e Atfaal no.15.

A Nazm"Dhoop" no.15.

by ALEEM TAHIR

Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر :16

نظم نمبر: 16۔

          "طوطا "

                      علیم طاہر

مٹھو مٹھو سب کہتے ہیں میں طوطا  ہوں

ساتھ مرے، بچے رہتے ہیں میں طوطا  ہوں

چونچ  لال  ہے  ,جسم ہرا  ہے,  پیلے   پاؤں

میری آنکھیں, رنگ بدلتی, دھوپ ، چھاؤں

دہراؤں گا , نقل کروں  گا,  جو    بولو  گے

پیرو مجھ کو, بہت پسند ہے, لا کر دو گے؟

مجھ کو "پنجرہ گھر"، دے کر تم پال رہے ہو

  وقت  وقت  پر  ، کھانا  پانی ،ڈال  ر ہے ہو

کیا لینا  دینا  ہے  مجھ  کو  اب  جنگل  سے

میں توخوش ہوں آیا ہوں پچھلے منگل سے


تم اچھے انسان ہو, میں ہوں, اچھا, پنچھی

دل  بہلانے   والا ,  دل  کا  ,  بچہ ,  پنچھی

بولو پیار سے مٹھو مٹھو  منہ تو کھول

بولو    پیار   سے    اللہ   اللہ  اللہ    بول

(C) Adab e Atfaal no: 16

Nazm no: 16

"Tota "

By:Aleem Tahir

Email id aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

ادب اطفال نمبر: 17

نظم نمبر: 17

            "پیارےگاندھی جی"

                                          علیم طاہر

آن،بان اور شان  تھے  پیارے  گاندھی  جی

بھارت کی پہچان تھے پیارے گاندھی جی

دھوتی، لاٹھی، چشمہ، چپل، تھی پہچان

اک رہبر انسان تھے  پیارے  گاندھی  جی

چپل  پہنے   میلوں   پیدل   چلتے  تھے

وہ پختہ ارمان تھے پیارے گاندھی جی

ان   کا   ہر  اک   کام   کرشمہ   جیسا   تھا

ہم سب پر احسان تھے پیارے گاندھی جی

سارے   فرنگی  ہار   گئے   ان   کے   آگے

دشمن کو نقصان تھے پیارے گاندھی جی

پیار سے ان کو باپو بھی کہتے ہیں سب

نفرت سے انجان تھے پیارے گاندھی جی

وہ  چرخے  سے  سوت  کو  کاتا  کرتے  تھے

محنت کی پہچان تھے پیارے گاندھی جی

امن  و  سکوں  کے   سچے   پکے   شیدائی

صبر و عمل کا گیان تھے پیارے گاندھی جی

بھارت      کو     آزاد      کرایا       زندہ  باد

بھارت کی سنتنان تھے پیارے گاندھی جی

ستہ گرہ ہو،    مون برت،    یا     آندولن

ہمت میں بلوان تھے پیارے گاندھی جی

ہر   مذہب  سے   الفت  ان  کا   شیوہ  تھا

انساں کی پہچان تھے، پیارے گاندھی جی

سب  کو    جہالت     سے   دلوائی    آزادی

علم کی اعلیٰ شان تھے پیارے گاندھی جی

ہندو ، مسلم      اتحاد    کے  حامی    تھے

یکجہتی کی جان تھے، پیارے گاندھی جی

علم کے  اک ہتھیار  سے  جیتا  جنگوں کو

سمجھو تو آسان تھے، پیارے گاندھی جی

اچھی   اسکیموں   کے    پرچم    لہرائے

طاہر  عالیشان تھے ، پیارے گاندھی  جی

(C): Adab e Atfaal no 17:

Nazm:no:17. "Peyare Gandhi Ji "

By:Aleem Tahir

Email id:

aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

________________________________

 


(بچوں کی نظم) ....  ( شیر اور چوہا ) نمبر: 18

سویا   تھا   جنگل   کا   راجہ   اک  برگد   کے   نیچے

پڑا   ہوا   تھا  ضدّی   چوہا   یوں   ہی اس کے  پیچھے

شیر کے تن  پر  اُچھل  اُچھل  کر   چوہا   دوڑ   لگا تا

لیکن   شیر   کے   پنجّے   میں  وہ  جلد  ہی  پکڑا جاتا

شیر  نے  بولا  چھوٹے  چوہے  تیری  اتنی    جراءت

نیند  سے  تُو  نے   مجھے  جگایا   ایسی    تیری    ہمّت

اب میں  تجھ  کو  کھا  جاؤں  گا  کروں  گا قصّہ پاک

چوہا  بولا مجھ  چوہے  سے  بھوک   مٹے   گی   خاک

آج  مجھے  جو  چھوڑو   گے  تو  کل   آؤں  گا   کام

رحم   کرو   جنگل    کے    راجہ  اور    کرو   آرام

چوہے سے یہ سن کر چھوڑا بخش  دی اس  کی  جان

شیر  نے  اپنی  نیند  کی   چادر   دوبارا    لی    تان

اُس   دن   ایک   شکاری   آیا   شیر  پہ  ڈالا  جال

شیر  جال  میں پھنس کر  تڑپا  برا  تھا اس  کا  حال

گیا   شکاری   سرکس  کی   اک   لاری   کو   لانے

تھوڑی   دیر  ہی گزری  ہو گی  بس  اس  کو جانے

اپنی    بل   سے    چوہا    نکلا    دیکھا    یہ    منظر

سب چوہوں کو  دعوت  دی  کہ  آؤ  سارے  مل کر

میرا  اک  احسان   چکا    دو   آج    کتر   دو   جا ل

جس  نے  میری  جاں بخشی تھی برا ہے  اس کا  حال

سب  چوہوں   نے  جال  کو  کترا   شیر   ہوا   آزا د

رحم کے  بدلے  رحم  ہی    پایا   ہوا    کہاں    بربا د

ایک سبق  ملتا  ہے  اس   سے    رحم  کرو    سب   پر

رب  بھی  ہم  پر  رحم   کرے  گا یقیں  رکھو  رب  پر

(Bachchon ki nazm)

( sher aurchuhaa)

Nazm no.

no.18....by..Aleem Tahir.

_______________________________

بچّوں کی نظم..

(تتلی اور بچّہ) ..نمبر.....19

تتلی    بولی    ننّھے    راجہ یوں   بھاگو    نہ    پیچھے

گرِ   نہ   جاؤ    دائیں    بائیں    دیکھو    اوپر   نیچے

رنگ برنگے  باغ  میں میر ے پیچھے  پڑ گئے   کیوں؟

مجھ کو چُھُونے  کی  خواہش میں ضد پر  اڑ گئے کیوں؟

بولا    بچّہ    پیاری   تتلی   سنو     نا    میری   بات

میرے دل میں  خواہش جا گی   تمہیں   لگاؤں    ہاتھ

رنگ  برنگی    پیاری    پیاری   تم   وہ    رنگیلی    ہو

چُھونے  کی  خواہش  جاگی   ہے  تم   وہ    چمکیلی    ہو

بولی    تتلی     اچّھے    بچّے      دیکھو     لطف     اٹھاؤ

کچّے  رنگ ہیں  میرے  مجھ  کو  ہاتھ    ذرا    نہ   لگاؤ

چُھونے   کی   ضِد  چھوڑو    اور   کرو     ِمرا    دیدا ر

رنگ  برنگی   دِکھتی  ہوں   تو    دِکھنے     دو    نا   یا ر

بولا     بچّہ      تتلی       رانی      سمجھ     مجھے      آیا  

میری    نادانی    تھی   تم    کو   چُھُو نے     کو      للچایا

بس   تم  کو   دیکھوں    گا     ا پنا   جی      بہلاؤں     گا   

اب  ہر گز   کچّے    رنگوں  کے   پاس    نہ     آؤں    گا

اُڑتے     اُڑتے      ُگل     پر     بیٹھی      تتلی   مسکا   ئی

اپنے   پروں   کو    پھیلا  کر  پھر   رنگ     نئے     دکھلائی

تتلی     نے    پر     پھیلائے     تو    فضا     ہوئی    متوالی

چمک   اٹھیں  بچّے   کی   آنکھیں   بجا     دیا     پھر      تالی

(Bachchon ki nazm) " titli aur bachcha"....no.19...by...Aleem Tahir...

________________________________

    نمبر :20.............

   پیاسا کّوا.......علیم طاہر

اڑتے اڑتے جنگل سے اک کوّا آیا

پانی پینے کی خواہش وہ ساتھ ہی لایا

کچّے گھر کے باہر تھا اک مٹکا خالی

لیکن اس کے اندر دیکھا تھوڑا پانی

مٹکے میں جب چونچ کو ڈالا چونچ نہ پہنچی

لگی ہوئی تھی زور کی اس کو پیاس بھی ایسی

اس نے سوچا چونچ میں پانی کیسے آئے

پیاس کی شدّت دیکھو کیسے عقل جگائے

ڈال رہا تھا مٹکے میں وہ اک اک کنکر

اِس تدبیر سے تھوڑا پانی آیا اوپر

جی بھر کے کوّے نے اپنی پیاس بجھائی

کیسے سوچ سمجھ کے من کی منزل پائی

پیارے بچّو سوچ سمجھ کر کام کرو سب

تدبیروں سے ہو جاتا ہے چاہے جو رب

(Bachon ki nazm) payasa kawwa...no.20

by...Aleem Tahir....

________________________________

  نمبر :21 :

"اک بچّے نے چاند سے بولا"

.................علیم طاہر

اک    بچّے  نے   چاند  سے    بولا   چندا  ماما  سُن

جب  آتی ہے رات   اندھیری   سب   گائیں ترے گُن

بدلی   میں  تُو چھپ  جائے  تو  ناچ  دکھائے تارے

جگمگ جگمگ جگمگ جگمگ چاندنی جیسے سارے

تُو بدلی  سے جب   نکلے تو    تارے    منہ    لٹکائے

تیرے   اجیاروں   کے   آگے   شرما   کے چھپ جائے

دل   تاروں  کا   تُو  نے   دُ کھایا   کر لے  یہ احساس

مانا   تاروں   سے   بھی   زیادہ  نور  ہے تیرے پاس

اپنا   سمجھے جو  اوروں  کو   وہی  بڑا   ہے   چاند

تاک رہا ہے سُن  کے ابھی  تک   اور   کھڑا   ہے   چاند

جا   جا   کر   تاروں   کو   منا لے   تیرے   اپنے   ہیں

ان  بیچاروں  کے  دل  میں  بھی  پیارے  سپنے  ہیں

تُو     نے    میرا     کہنا      مانا    جاتا    ہے    ما ما

میر ا    دل    بھی اب   تیرے گن    گاتا    ہے  ما ما

(bachchon ki nazm)

Nazm no.no.21.....by...Aleem Tahir

______________________________

(بچّوں کی نظم)..

" ابّاابّا سنو  توابّا "..نمبر..22

.علیم طاہر.

ابّا   ابّا   سُنو   تو   ابّا !

  گاؤں   میں   اک   میلا   آیا

میں نے سُنا ہے اس میلے نے

دنیا بھر کی خوشیاں لایا

چھُک چھُک کرتی ریل وہاں ہے

بندوقوں کا کھیل وہاں ہے

جھولے بجلی سے چلتے ہیں

بچّے رسّی پہ چلتے ہیں

اچھل کود کو سُرکنڈی ہے

نئے کھلونوں کی منڈی ہے

ایک کنواں ہے موت کا گہرا

چاروں جانب اس کے پہرا

اس میں موٹر سائیکل والا

نیچے سے اوپر کو آتا

اوپر سے نیچے کو جاتا

ہاتھ چھوڑ کے  خوب  چلاتا

اک بچّوں کی دنیا بھی ہے

رستہ بھول بھلیّا بھی ہے

اک آئینہ خانہ بھی ہے

بس ہنستے ہی جانا بھی ہے

میری  دلچسپی کا  سبب ہے

بولو آپ کو چھٹّی کب ہے؟؟؟

ابّا ابّا  سنو  تو ابّا!

گاؤں میں اک میلا آیا

میں نے سنا ہے اس میلے نے

دنیا بھر کی خوشیاں لایا

سنڈے  کو پکّا جی ابّا

وعدہ ہے وعدہ جی ابّا

(Bachchon ki nazm)

A Nazm no: 22.....................     by Aleem Tahir.....

________________________________

(بچّوں کی نظم)

( چیتا اور گدھا )...نمبر:23..

علیم طاہر

گدھے سے بولا اک چیتا بیٹھ جا میرے سنگ

اور   بتا  دے  کیسا   ہے  آسمان  کا  رنگ

میرا یہی سوال ہے دے دے سہی جواب

اپنی عقل کا پا لے تُو مجھ سے بڑا خطاب

گدھے  نے  بولا  کالا ہے آسمان  کا  رنگ

چیتا  بولا  نیلا  ہے عقل  ہوئی  تری  بھنگ

بحث بڑھی جب دونوں کی پھر یہ طئے پایا

دھیان   شیر  سے  ملنے   کا   چیتا  کو آیا

جنگل  کا  ہے  راجہ  شیر  چیتا  بولا  چل

وہی نکالے  گا  اپنی  اس  اُلجھن  کا  حل

شیر نے  دیکھا دونوں کو بولا  کیا ہے  بات؟

تم دونوں ملنے  مجھ سے کیوں آئے ہو ساتھ؟

چیتے   نے    فریاد   کی   مائی  باپ   سرکار

آسمان  ہے   نیلا   پر  گدھا  کرے    انکا ر

گدھے سے میں نے پوچھا  تھا فلک کا کیسا  رنگ

بول  رہا  ہے   کالا ہے  بحث کرے مرے سنگ

دودھ  کا    کر دو   دودھ  تم    پانی    کا   پانی

پھر جنگل میں  کوئی  بھی  کرے  نہ من    ما نی

سُن  کر    چیتے    کی  باتیں ،   غصّے    میں    آیا  

حکم   دیا  اور   چیتے  کو ،   جیل    میں    ڈلو ا یا

گدھے   سے  بولا  شیر  نے    جاؤ     تم    آزاد

یہی  مرا   انصاف   ہے   رکّھو    مجھ    کو   یا د

چیتا  بولا   شیر   سے    دل    کو  کیا  سمجھا ؤ ں؟

سچ  بھی میں ہی  بولوں اور جیل بھی میں ہی جاؤں!

بولا  شیر  نہیں  ہے  یہ  سچ  اور  جھوٹ  کی بات!

بحث گدھے سے  کی تم  نے گدھے کی  کیا اوقات؟

بحث  گدھے  سے  نہ  کرتے  نہ  پاتے  تم  جیل

سزا  جیل  میں    کا ٹو   اب  ختم  ہوا  یہ  کھیل

اس    قصّے   سے    بچّو   تم   ایک   سبق   لینا

جس  کی  جتنی   عزّت   ہو    اُتنی    ہی    دینا

(Bachchon ki nazm) (cheeta aur gadha)

Nazm no:

23...by.....AleemTahir

_______________________________

(بچّوں کی نظم )"

اک بیٹی کی پیاری باتیں"

نمبر .. 24                         علیم طاہر

ابّا   ابّا   آج   ہے   سنڈ  ے

پورے کرنے ہوں گے وعدے

صبح سے میں تیاّر ہوئی ہوں

دیکھو میں کیسی لگتی ہوں

امّی چائے  بنا رہی  ہے  

پاؤ پہ  مسکا  لگا  رہی ہے

آنکھیں کھولو اٹھو نا جلدی

سرکس میں ہو جائے گی گردی

سنا ہے سرکس بہت بڑی ہے

تمبو  گاڑے  دور کھڑی  ہے

کیا کیا سرکس میں جلوے ہیں

چلیے ناں جلدی چلتے ہیں

سنا ہے  رہتے ہیں مل جل کے

جنگل کے خوںخوار درندے

بھا لو  بندر چیتے بھی ہیں

کار میں کھاتے پیتے بھی ہیں

شیر ڈرائیور بن جاتا  ہے

ساتھ ہی بندر تن جاتا  ہے

اک   رسّی   پر   چلتی   لڑکی

دیکھیں کیسے سنھبلتی لڑکی

الگ الگ بجلی کے جھولیں

یوں لگتا ہے فلک کو چھو لیں

بچوّں کا کشمیری  گھر ہے

اندر برف کا ہر منظر ہے

سنا ہے موت کا ایک کنواں ہے

جس میں ہمّت والا جواں ہے

وہ کنواں کی دیواروں پر

بائیک سے کاٹے ہے چکّر

خدا کرے وہ رہے سلامت

وہ کتنی رکھتا  ہے ہمّت

خوب دکانیں لگی ہوئیں ہیں

رنگ برنگی سجی ہوئیں ہیں

موسیقی کا رقص وہاں  ہے

جوکر جیسا شخص وہاں ہے

گرتا   ہے اور سنبلتا ہے وہ

پھُدک پھُد ک کر چلتا ہے وہ

امّی  بھی تیّار ہوئی ہے

آپ کی ٹائی خوب لگی ہے

یاد کرو کیا کچھ بھولے ہیں

میں نے سینڈل پہن لئے ہیں

چلو   لگا   دو   تالا    باہر

نظر  رکھیں  گی  خالہ باہر

ابّا    ابّا       آج   ہے   سنڈ ے

پورے  کرنے  ہوں  گے  وعدے ....

Bachchon ki Nazm...

No.24...

by..Aleem Tahir.

Email id:

aleemtahir12@gmail.com

________________________________

بچّوں کی نظم..نمبر :25

دو بلیاّں....علیم طاہر.....

رات کو اک گھر کی کھڑکی سے کودی بلّی

اس کے پیچھے دھم سے آئی دوجی بلّی

چپکے چپکے کچن کے اندر دونوں پہنچیں

ان  دونوں نے گیہوں کی اک روٹی پائیں

روٹی لے کر پیڑ کے نیچے دونوں بیٹھیں

یہ میری روٹی ہے مل کر دونوں بولیں

پہلی بلّی بولی اس کو میں کھاؤں گی

دوجی بولی دے دے ورنہ لڑ جاؤں گی

دیکھ رہا تھا پیڑ پہ بیٹھا بھورا بندر

بولا میں انصاف کروں گا نیچے آکر

ایک ترازو لے کر آیا بندر نیچے

اک اک پلڑے میں رکھّے دو ٹکڑے کر کے

جو پلڑا جھکتا تھا اس کا ٹکڑا توڑے

توڑ کے ٹکڑا بندر اپنے منہ میں ڈالے

دھیرے دھیرے پوری روٹی کھائی اس نے

اپنی عقل سے اپنی بھوک مٹائی اس نے

منہ تکتے رہ گئیں دونوں بھورے  بندر کا

جھانک رہا تھا آنکھ سے ان کے غم اندر کا

بچّو آپس میں لڑنے سے ہوتا ہے نقصان

مل جل کر رہنے سے ہوتا جینا بھی آسان


(C):Bachchon ki nazm ..do billiyaan .

Nazm no.....25..by...Aleem Tahir.

Abba abba aaj hai sunday......sheri majmuaa....

Adab e atfaal

by

Aleem Tahir.

________________________________

Kitaab ka Naam:

" Aleem Tahir ki Nazmen "

(Adab e Atfaal)

(  Khas Bachchon ke liye, Pachchhees Nazmon ki Dilchasp kitaab)

________________________________

(Bachchon ke)

Shayer o Adeeb:

Aleem Tahir. علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:11، 15 نومبر 2023ء (م ع و)

== افسانہ: " چھپکلی "

افسانہ نگار: علیم طاہر  ==

افسانہ : نمبر : 02

‌.        " چھپکلی "                              علیم طاہر

        ایک ادھیڑ عمر چھپکلی  اپنے شرارتی بچے کے ساتھ انسانوں کے مکان کی بیرونی دیوار پر چڑھتے ہوئے  یوں گویا ہوئی ۔

" سورج غروب ہو رہا ہے میری بات غور سے سنو ! بڑی ہوشیاری اور چتورائی سے انسانی مکان میں داخل ہونا۔  تم بڑے شرارتی ہو، انسانوں کے زیادہ قریب جانے کی ضرورت نہیں۔  خوامخواہ  ڈیرنگ (بیباکی) دکھاؤ گے تو مارے جاؤ گے ۔ لائٹس کے ارد گرد کے کیڑے مکوڑوں، یا کچن روم میں ڈسٹ بین میں پھینکے ہوئے کھانے کھا کر، پیٹ بھرتے ہی واپس اسی جگہ پر ملنا، پیٹ میں پڑتے ہی تمہیں مستی سوجھنے لگتی ہے ۔خبردار !

انسانوں سے دور رہتے ہوئے پیٹ بھرنا، آنکھ مچولی مت کھیلنے لگ جانا۔"

چھپکلی کے شرارتی بچے نے جمائی لیتے ہوئے کہا "افوہ مما آپ بھی کتنا خوفزدہ ہو انسانوں سے۔

وہ ہمیں کیوں مارنے لگے؟

ادھیڑ عمر چھپکلی (دیدے گھماتے ہوئے طنزیہ لہجے میں) کہنے لگی ۔

" اس بھرم میں مت رہیو بیٹے!  انسانی دنیا میں نفرت بہت بڑھ چکی ہے . یوٹیوب، فیس بک ،انسٹاگرام اور گوگل، کا زمانہ ہے۔  ہماری تمام نسلوں کی معلومات رکھتے ہیں یہ انسان۔

شرارتی بچہ (منہ بناتے ہوئے)" لیکن سارے انسان ایسے نہیں ہوتے،  جو ہم سے نفرت کرتے ہیں۔"

    چھپکلی (فیصلہ کن انداز میں)"  جو ہم سے محبت کرتے ہیں۔ وہ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہے بیٹا۔  اور ان کی کون سنے گا؟ کون مانے گا ان کی؟ وہ لاکھ دلیلیں دے دیں.  ہمارے بے ضرر ہونے کی.  ہماری زہریلی نسلوں کی وجہ سے ہمیں تو مارنے تک کا حکم ہے !

ناچتے نہ پھریو ۔۔ انسانوں کے سامنے ، نہیں تو" پچاک" سے زندگی کا خاتمہ کر دیں گے۔  

شرارتی بچہ (خوفزدہ لہجے میں)" ٹھیک ہے مما ...اب تو زندگی سے ڈر لگنے لگا ہے.  آخر انسانوں کو ہمیں مار کر کیا ملتا ہوگا؟

چھپکلی (سنجیدگی کے ساتھ)" ارے بیٹا انہیں کیا ملتا ہوگا؟؟ تسکین ملتی ہے, کچھ لوگ تو "چھپکلی قاتل"  کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔  انسانوں کی فطرت کو سمجھو.  ہمیں قتل کروا کر سکون پاتی ہے۔  اکثر عورتیں ہمیں دیکھ کر ایسے اچھلتی ہیں جیسے "ملک الموت" کو دیکھ لیا.  ان کے خوف کو دور کرنے کے لیے مرد حضرات ہمارا " کچومر "بنانے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ وہ تو ہم خود اپنی ہلتی ہوئی دم توڑ کر انسانوں کو گمراہ کرکے بچ جاتے ہیں ۔ مگر ضروری نہیں کہ ہر بار بچنے کا موقع ہی نصیب  ہو جائے۔ آج کا انسان ہم سے کہیں زیادہ چالاک اور شاطر ہو چکا ہے۔ "

شرارتی بچہ (وفاداری اور فرمانبرداری کا احساس دلاتے ہوئے)

" ٹھیک ہے مما آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا۔ کیونکہ مجھے زندہ جو رہنا ہے ۔ "

  اتنی گفتگو کے بعد دونوں چوری چھپے انسانوں کے مکان میں داخل ہو جاتے ہیں ۔


_____________________________


(C): Afsanano:02 By Aleem Tahir

" Chipkali" Email id: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 04:52، 17 نومبر 2023ء (م ع و)

"کرچی کرچی خواب" علیم طاہر کی پچیس غزلوں کا دلچسپ شعری مجموعہ

ترمیم

علیم طاہر کی پچّیس غزلیں ـــــــ................(ایک سے پچّیس)

(اوّل حصہ)

پیش لفظ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ   

                       " َکرچی کرچی خواب "       

غزلوں پر مشتمل یہ شعری مجموعہ در اصل جدید ٹکنالوجی  کے متحرک کرنے کی وجہ سے پا یہء تکمیل تک رسائی  حاصل کر  رہا ہے ـ       آج اکیسویں صدی میں کمیو نیکیشن  انفارمیشن ٹکنالوجی نے غضب کی ترقّی کر لی ہے ـ  اس تر قّی کے اثرات انسانی زندگی کے ہر شعبے پر مرّتب ہوئے ہیں  ـ البتہ شعبئہ اردو بھی اس جدید ٹکنالوجی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا  ـ اور فروغِ اردو کا مسافر  برق رفتاری سے اپنی منزلِ مقصود  کی جانب گامزن  ہو گیا ـ فیس بک،  واٹس اپ،  گوگل،  انسٹا گرام ٹیوٹر ، یو ٹیوب،  وغیرہ برقی  ذرائع نے اردو زبان  کو ہر خاص و عام تک پہنچا دیا ـ

        متین شہزاد کے    گرمیوں کی تعطیلات میں دیے  گئے   سرد مشورے نے بھی  ذہن کو گر ما  دیا ـ

کم و بیش دیڑھ برسوں سے  فیس بک پر اپنی نئی غزلیں سلسلہ وار ارسال کرتا رہا ہو ں ـ جنہیں  کافی عوامی مقبولیت  بھی حاصل ہوئی ـ دوران ِ گفتگو چند دوستوں  نے برقی شعری مجموعے کی شکل دینے پر زور دیا ـ اور کہا کہ علیم طاہر کی شاعری  کو لوگ باگ برقی شعری مجموعے  کی شکل میں بھی  دیکھنے کے لئے بیتابی سے منتظر ہیں ـ

" کرچی کرچی خواب " شعری مجموعے کی غزلوں  میں  انسانی  ، تخیّلات و تصورّات ، نفسیات و  تفکرّات، تاثراّت و جذبات،  احساسات و   نظریات کی ایک کائنات  پوشیدہ ہے ـ

عہد بہ عہد شاعری اپنے رنگ روپ کے اعتبار سے تبدیل ہوتی رہتی ہے ـ میں نے بھی کاوش کی ہے کہ  انفرادی اسلوب اختیار کرتے ہوئے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کروں ـ تا کہ اردو کے شیدائیوں کی  دلچسپی،  کشش، کھنچاؤ  اور مقناطیسیت برقرار رہ سکے ـ اور ہجوم ِ جہان میں تہذیب وتمدّن ، اخلاص،  ہمدردی،  ملنساری،  پیار، محبّت اور انسانیت کے جذبات پروان چڑھ سکیں ـ

بالخصوص انسانی  حسا سیت جو مفقود ہوتی جارہی ہے وہ دوبارہ بحال ہو سکے ـ  تا کہ انسان  جنگوں سے اجتناب برتے اور امن سکون کی جانب متوجہ ہو ـ جو حقیقتاٍ فطری سلیقہ مند عمل ہے ـ جنگوں کی  کئی صورتیں و شکلیں ، کئی رنگ و روپ،اور کئی اقسام ہیں ـجنگیں محدودیت کے حصار میں مقّید نہیں ـ انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر مختلف جنگوں کا سامنا ہے ـ اپنی بقا و شناخت کی جنگ، اپنے تحفّظِ نظریات کی جنگ، تحفّط ِ ماحولیات کی جنگ،   اپنے ایمان و  عقا ئد  کی جنگ ، اپنی  حیات کے متعدد تقاضوں کی جنگ ، آئین و سیاست کی  جنگ،  مسا و ا ت کی جنگ،    متعصّب رجحا نا ت کی جنگ،  وغیرہ ان گنت جنگوں سے جوجھنےکے لیے انسان مجبور ہے ـ  مگر ادھر عہد بہ عہد اس عمل سے بیزاری کے نظارے دنیا کی تواریخ میں اہمیت کے حامل دکھائی دیتے ہیں ـ یہ بے حد تشویشناک مر حلہ ہے ـ اس کگار تک پہنچ کر  ہر فنکار کی ذمہ داری  مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنی بساط بھر کا وش کے لیے کمر کس لے ـ

اسی اہم مقصد کی تکمیل  کے لیے ان غزلوں میں جا بجا تعمیری ذہن و مزاج  کی جھلکیاں جھلکتی ہیں  ـ   جو منصوبہ بندی کے تحت عمل میں لائی گئی ہے ـ

اس سے پہلے "دنیا مسافر راستے" ـ منظر پس منظر" ـ "سُر سنگم سنگیت" ـ نامی شعری مجموعوں نے کافی عوامی مقبولیت حاصل کی ـ اور تو اور میرے فن پر ڈا کٹر مناظر عاشق ہر گانوی کی کتاب "علیم طاہر کے گیت کا نیا منظر نامہ" اور ڈاکٹر سیفی سرونجی کی کتاب "گیتوں کا شہزادہ علیم طاہر " بھی مقبولِ عوام ہیں ـ ایک ششماہی خالص ادبی میگزین "احساس" جو اب"  آفتاب ِ احساس " کے نام سے بین الا قوامی پیمانے پر میری ادارت میں  چند برسوں سے  جاری ہے اور  مقبولِ عوام  بھی ـ

                   "کرچی کرچی خواب " میرے نزدیک ایک علامت اور استعارہ ہے کہ ہمارے اسلاف نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر بالکل بر عکس اور بر خلاف  نکلی ـ یا انسان جو چاہتا تھا ویسا نہیں ہو سکا  ـ انسان کا ہر خواب پاش پاش ہو گیا ـ کرچی کرچی ہو گیا ـ یہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا المیہ قرار دیا جا سکتا ہے ـ یہ نہ صرف گزشتہ ادوار کی داستانیں ہیں بلکہ ہر عہد کی حقیقت بھی ـ اور مستقبل قریب و بعید میں بھی اس کیفیت میں خوشگوار تبدیلیاں واقع ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ـ توقعات یا امیدیں ضرور وابستہ کی جا سکتی ہیں  ـ کہا گیا ہے  کہ امیّد پر دنیا قائم ہے ـ یہ تخّیل  زندہ رہنے کے لیے خوشگوار وسیلہ  و حوالہ ہے ـ اور اس وسیلے و حوالے سے ہر  مثبت روّیہ  و نظریہ منسلک و و ا بستہ   ہے ـ

                  میں والدِ محترم ارشد مینا نگری کا بھی ممنون و مشکور   ہوں کہ انہوں نے ہمہ وقت میرے حوصلوں میں  جوش و خروش برقرار رکھا ـ   اور برادران ِعزیز عظیم ارشد، نعیم ارشد،مقیم ارشد،  ،کلیم ارشد،  ندیم ارشد،   کی تگ و دو اور مخلصانہ کوششوں کا بھی معترف ہوں ،  جنہوں نے مجھے ایک نیا حوصلہ بخشا  ـ اور کتاب کی تکمیل کے آخری مراحل  تک اپنے مفید مشوروں سے میرا حوصلہ بڑھاتے رہے ـ

برخوردار فہیم الدین کے لیے بھی دعائیں کہ  معصوم کے مشورے اور حوصلے کی شمولیت  بھی باعثِ برکت رہی  ـ

                      میں تما م دوستو ں  کا   بھی شکریہ  ادا کرتا ہوں  ـ کہ انہوں نے بھی  اپنے  سرد مشورے سے  اردو ادب میں ایک اور مجموعے کا اضافہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ـ

                                                 علیم طاہر ـــــــــ انڈیا ـ

19/5/2017......

( شعری مجموعہ...".کرچی کرچی خواب "  سے ماخوذ)

Aleem Tahir ka shery majmoaa...."kirchi kirchi khwab "  anqareeb manzazar e aam par..........

--------------------------------------------------------

                    01

حکم  کرو  تعمیل   کے  بعد

جھرنا ڈھونڈو جھیل کے بعد

روح سکوں  پا  جا تی  ہے

مقصد  کی  تکمیل  کے  بعد

سونی  سونی   ہے    اسکول

بچّوں  کی  تعطیل  کے  بعد

وحشت  بنتی   ہے    معیا ر  

فکروں  میں تحلیل  کے  بعد

ظلِّ     ا  لہی    حکم     کریں

ہوش  میں  ہیں  تحویل  کے  بعد

محو ِ   تکّلم      رہتے       ہیں

لوگ  کروڑوں  میل   کے بعد

ہر    سُو    چھا ئی    خا موشی

لفظوں  کی  ترسیل  کے  بعد

کوئی   کیل   نہ  ٹھونک  سکا

آپ  کی  اوّل  کیل  کے  بعد

ہر  خواہش مٹھی  میں  رکھ

رو ئے  گا  تذلیل  کے  بعد

ہا تھ  پسا رے   رہتا   ہے

پھٹی  ہوئی  زمبیل  کے  بعد

ہر    تمثیل     پڑی      پھیکی

آپ کی  اک  تمثیل  کے  بعد

ِسل  گئے  میرے  لب   دیکھو

کیا   کہنا    تفصیل    کے    بعد

غز لو ں    کو   تحریر   کر و

شعروں  کی  ترتیل  کے  بعد

آج  تلک  ہے  قتلِ  عام

ہابیل  اور  قابیل  کے  بعد

سنبھلو    طاہر    اللہ    بھی

رسّی  کھینچے  ڈھیل کے بعد

                    A gazal no.    02 by  Aleem Tahir

ہر پل مرے احساس میں شدّت تھی پیاس کی

پھر بھی سمندروں سے کہاں میں نے آس کی

ہے  ا عتما د  مجھ   کو  یوں  میرے  یقین  کا

عزّت  یقین  کر تا  ہے  میر ے  قیا س  کی

یوں  ا س  نے  لفظیات کو  برتا  سرِ محفل

لہجے  سے   ٹپکتی  رہی   لذّ ت  مٹھاس  کی

معیا ر  نہ   کھونا کبھی محفل  میں  ظرف  کا  

ٹیبل  پہ  حیثیت  ہی کیا   خا لی   گلا س  کی


خوش  پوشی  خوش  لباسی  کا  مظہر  نہیں  بنتا  

سیرت  سے  خوشنما  نہیں صورت  لباس  کی

پختہ  جڑوں  سے  ہوتا  ہے   پختہ  شجر  شجر

تعمیر   پّکی     ہو   گی  نہ   کچّی  ا ساس   کی  

موسم   کا   پہلو    پہلو    خطر نا ک    ہو    گیا  

ہر  دل  پہ  فضا  چھائی  ہے  خوف  و  ہراس  کی

اس  چھا ؤ ں   میں تو  آکے  مرا  جسم  جل  گیا

پچھتا  رہا  ہوں  دھوپ  سے   کیوں   التماس  کی

طاہر    کسی    انجان    پہ    با و ر  نہیں   کر نا

نیت    سمجھ    نہ  پا ؤ   گے    تم  سپا س    کی   

A gazal no. 03...by...aleem tahir

گھنیرے پیڑ کی ٹھنڈی ہوا سی چھاؤں لاگے ماں

سدا سورج نکلنے سے ہی پہلے گھر میں جاگے ماں

نہیں کھانے کی ضد میں بھاگ پڑتا ہے کبھی بچّہ

نوالہ لے کے اس بچّے کے پیچھے دیکھو بھاگے ماں

سنبھالےرہتی ہےکس طرح نا زک رشتے ناطوں کو

کبھی بھی ٹوٹنے  دیتی نہیں  یہ کچےّ  دھا گے  ما ں

بہو  بیٹی  ہو  یا   پھر  ہو  بہن   بیو ی  ،  کوئی  رشتہ

قطاروں میں بھی  رشتوں کی یہاں ہے سب سے آگے ماں

اے  طاہر  جو  ملا  ہم  کو  ملا  ما ں  کی  دعا ؤ ں  سے

جو  تیری  قدر  نہ  جانے  وہ  ہے  کتنے   ا بھاگے  ماں

A gazal no.04....(maan)...by...AleemTahir.

تری   جفاؤں   کو   ا ب   کے شما ر کرتے  ہوئے

میں  رو  پڑا  ہوں تجھے دل  سے پیار  کرتے ہوئے

تھکے گا تُو  ہی ،  ترے  ہا تھ   ہا ر   آئے   گی

ذرا تو سوچ ، ہوا ؤ ں پہ   وا ر  کرتے   ہو ئے

بکھرتا   جا   ر ہا  ہو ں ،  اب کوئی    سمیٹے    بھی

میں  دل  کے  رشتوں  کو پھر  پائیدار  کرتے ہوئے

مجھے  یقیں  ہے  تُو   چل  کر کے خود ہی آئے   گی

ا مید    کھو یا    نہیں  ،   انتظا ر   کرتے   ہو ئے

یہاں  سے  میں  تو  نبھاؤں  گا  دل  کے  رشتے  کو

ذرا   بھی   سو چا   نہیں   ا عتبا ر   کر تے   ہوئے

یہ  زندگی  ہے  ہزاروں  ہیں  رنگ  و  روپ  اس  کے

ہو ا    شکا ر  بھی   طا ہر    شکا ر     کر تے     ہو ئے

Gazal...no. 05. By Aleemtahir: غزل...نمبر...علیم طاہر..

جگہ جگہ سے مجھے تُو تو توڑ دیتا ہے

ِِمرا خدا ہے، مگر مجھ کو جوڑ دیتا ہے

جو سنگ رہتاہے میرے مرا خدا ہے وہ

تُو تھوڑی دور ہی چلتا ہے چھوڑ دیتا ہے

عجیب تیرا   ہے  پتّھر مزاج  بھی  ایسا

تُو  شیشے جیسے مرے دل کو پھوڑ دیتا ہے

میں تنہا زندہ  ہوں کس طرح ایک مدّت سے

تر ی   جد ا ئی   کا   لمحہ  نچو ڑ    د یتا   ہے

سلام  کرتا  ہوں  طا ہر میں  حو صلے  کو  ترے

جو    ظلم   ظلم   کا    پنجہ   مروڑ    دیتا   ہے

A gazal....no.06......by....Aleem Tahir Aleemtahir: غزل...نمبر ..06

شعر   سُنتی   رہی    غزل   کوئی

شعر   کہتی    رہی   غزل   کو ئی

سب  پہ  سکتہ  سا  ہو  گیا  طاری

ایسے    بیٹھی  رہی    غزل    کوئی

پھول  ہی  پھول  شا ہرا ہوں   پر

ُا س   چلتی    رہی     غزل   کوئی

چاندنی  تھی  کنا رِ   آب   و ہا ں

اور    لیٹی    رہی    غزل     کوئی

تیری  آنکھوں  میں  اشتعال تھا  یوں

جیسے    دہکی    رہی     غزل     کوئی

خواب میں محو   تھا   میں   بستر    پر

مجھ   سے   لپٹی   رہی   غزل    کوئی

و ہ    سرا پا    خلو ص   تھے    ا یسے

مجھ   سے   ملتی    رہی    غزل   کو ئی

ایسے   تالاب   میں  وہ  اترے  تھے

جیسے   ٹھہر ی   رہی    غزل     کوئی

لڑ کھڑ ا نا   بھی  تھا   عجب   ان    کا

جیسے     بہکی     رہی      غزل     کوئی

ان  کے  گیسو   یوں   گھنگر یا لے  تھے

جیسے     الجھی     رہی      غزل      کوئی

آہ   ! اس  نے  بھرا  تھا  یوں   کہ  بس

سانس !    لیتی      رہی      غزل    کوئی

اس    کی    آنکھوں    کی   گفتگو    ایسی

رنگ    بھرتی    رہی     غز ل      کوئی

میں   تو    طا ہر    اُ د ا س   بیٹھا    تھا

مجھ    کو    تکتی     رہی    غزل     کوئی

A gazal no.07...by...alleem Aleem Tahir.

تجھ  میں دھڑکتا دل پاگل

مجھ   میں  ندیا  سی  چنچل

تجھ  میں مسلسل  خالی  پن

مجھ  میں  ہے  جیسے  دلدل

تجھ میں مہک  گلزاروں  کی

مجھ   میں  سُونا  اک  جنگل

تجھ  میں "آج"  مچلتا  ہے

مجھ  میں  بیت  چکا ہے کل

تجھ  میں چیخ رہی ہے  پیاس

مجھ   میں  بنجا رے   با دل

تجھ    میں  پتّھر   کی   سختی

مجھ  میں  نرمی   ہے   مخمل

تجھ  میں نفرت   کی   آتش

مجھ    میں   مہکے اک صندل

تجھ  میں  طا ہر  بستا  ہے

مجھ میں  نکلے عشق  کا  حل

A gazal no08...by ...Aleem Tahir.

[5/19, 2:11 PM] Aleemtahir: غزل....نمبر.08..علیم طاہر

خود سے روٹھ جا تا ہوں ہر دن

ٹوٹ پھوٹ  جا تا ہوں ہر  دن

مجھ کو ترے  ہاتھ  پکڑ لیتے  ہیں

خود ہی چُھو ٹ  جاتا  ہوں ہر دن

کِرچی  کِرچی  تُو  سمیٹ  لیتا  ہے

میں  تو  ٹوٹ  جاتا  ہوں  ہر  دن

چند لمحے  تجھ  کو  دیکھتا  ہوں بس

اور  لوُ ٹ   جا تا  ہو ں   ہر  دن

لوٹ کے  آ  جاتا  ہوں  طاہر  میں

جھوُ ٹ مو ٹ  جاتا  ہوں  ہر  دن

A gazal no...09...by...Aleem Tahir.

[5/19, 2:11 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر.09...علیم طاہر

تمہیں پاتا ہے وہ کھو تا نہیں ہے

دھڑکتا دل  یہاں سوتا نہیں ہے

بھلا پھر فصل اُ گ پائے  گی  کیسے ؟

زمیں  میں  بیج  تُو  بوتا  نہیں  ہے

مکمل ہو  چکا  ہوں میں تو  تیرا

مگر کیوں تُو  ِمرا  ہوتا نہیں ہے

رہے گا ہو کے جو ہونا ہی ہوگا

نہیں ہونا ہے جو ہوتا نہیں ہے

یہ طاہر ہے ہزاروں غم بھی سہہ کر

بڑا   خودّا ر   ہے  روتا  نہیں  ہے

A gazal no.10.....by...Aleem Tahir.

[5/19, 2:12 PM] Aleemtahir: ۱10غزل....(ذوقا فیہ ) نمبر.....

سفر تو جاری ہے پر ،ہمسفر !  اندھیرا ہے

نکال دل سے ہر اک ڈر ،اگر اندھیرا ہے

شدید دھوپ میں روشن چمکتی سڑکیں ہیں

تمہارے دل میں سراسر ، مگر اندھیرا ہے

ہر  ایک  موڑ  پہ تحلیل  کا  اندیشہ  ہے

شریر   لمحے   برا بر، گذر ،  اندھیرا  ہے

یہاں  یہ  روشنی   کسقدر  تیز   ہونے  لگی

تو میری آنکھوں  کے  اندر، اثر، اندھیرا ہے

نہ جانےکس طرف جاکر بسے  ہیں جگنو بھی

اجالا  کر دے   تُو  آکر، قمر ، ا ندھیرا  ہے

چلا  آ  نُور کی  آ غو ش   منتظر   ہے   تری

تُُو  جا  رہا  ہے   جِدھر، ا ُدھر، اندھیرا   ہے

دیا  جو  اس  نے  اک  اخبار  کہا  طا ہر  لے

یہ  تیرے   ہاتھ  میں  دھر ،خبر،  اندھیرا  ہے

A gazal no..11...by...Aleem Tahir

[5/19, 2:13 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر....11...علیم طاہر

اے  مغنّی تُو گا  جد ید  غزل

نہ  ہو  دو چا ر  تو  خرید غزل

موسموں سا  مزاج  بدلے ہے

ہے محّر م   تو  کبھی  عید غزل

ظلم   رکتا  نہیں  جو   ظالم  کا

پھر تو بنتی  ہے  یہ  وعید غزل

قفل  کوئی  ہو  مسئلے  کا  یہاں

کھول  دیتی  ہے یہ  کلید  غزل

حو صلہ   ہا رنے    نہیں    دیتی

نا امیدی  میں  ہے  اُ مید  غزل

دل میں اپنے  ہے اک مہک جیسی

دھڑکنوں  کے  لیے   نو ید   غزل

جب  ہوئے  غمزدہ  تو   طاہر  بھی

بیٹھ  کے  کہتے  ہیں  مز ید   غزل

A gazal no.12...by....Aleem Tahir.

[5/19, 2:14 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر..12...علیم طاہر

  پیا ر  کا  فلسفہ  سمجھایا  اشارے  میں  مجھے

   تم نے پہنچا دیا خوابیدہ  نظارے میں مجھے

  اتنا تو علم مجھے  خود بھی نہیں  تھا خود  کا

تم سے معلوم ہوا خود مرے بارے میں مجھے

میں منافع ہوں تمہیں سے  یہ مجھے علم ملا

ورنہ لوگوں نے دِکھایا تھا خسارے میں مجھے

اس کے ہاتھوں کا کرشمہ تھا کہ مورت یہ بنی

ورنہ کچھ بھی تو نہیں دِکھتا تھا گارے میں مجھے

آج  بے  رنگ ہے دنیا  جو سنگ تم ہی نہیں

دنیا  آتی  تھی  نظر  با با  تمہارے  میں  مجھے

A gazal no .13....by... Aleem Tahir

[5/19, 2:15 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر..13علیم طاہر

تم کو پانے کے لیے مجھ کو زمانے لگ جائے

اور تم مل نہ سکو، ہوش  ٹھکانے  لگ  جائے

ہم تو وہ راہی  ہیں منزل کے  لیے  چلتے  ہیں

کیوں بھلا بیٹھ کے بس اشک بہانے لگ  جائے

میں تو اس آس میں بیٹھا ہوں تری رحمت بھی

چاندنی بن کے مری کھڑکی سے آنے لگ جائے

ایسی غفلت میں پڑے  ہیں کہ کوئی ہوش نہیں

اے  خدا  کوئی  تو  لمحہ ہو  جگانے  لگ  جائے

ذمہّ  داری  تو ہر  اک   فرد  لیے   بیٹھا   ہے

ذمہّ داری  کو  مگر   کاش  نبھانے   لگ   جائے

یہ  کوئی   بات  ہے   طاہر  یہ کوئی   بات  نہیں

کام کچھ  بھی  نہ  کرے شور  مچانے  لگ   جائے

A gazal no.14....by....Aleem Tahir.

[5/19, 2:16 PM] Aleemtahir: (دوہا) غزل...نمبر..14..علیم طاہر...

دھوئیں پریت کے جل سے ہم  اب آشا کا مکھڑا

یوں دھوئیں  اندھیارے میں  لاگے  چاند  کا ٹکڑا

بلما   چل  کر  بیٹھیں   ہم   برگد  کے   نیچے

سجنی  بولی    کا ہے کو  موڈ  ہے   اُکھڑا  اُکھڑا

کرنی  ہو  تو  بات  کرو  ہم  سے  پیا ر  بھری

ا پنے  پاس  ہی  رکّھو  تم  جیون  کا   یہ  دکھڑا

کیوں   ایسا   ہے   جیون   میں  سمجھے  نہ  کوئی

وقت  ہے    جیسے  با غیچہ  ہر   لمحہ  ہے  اُ جڑا

a ( doha) a gazal no. 15...by.....AleemTahir.

[5/19, 3:00 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر..15.علیم طاہر

پلکوں کو پہ تجھ کو اپنی  بٹھانے سے اب رہا

ترکِ  تعلّقا ت    چُھپانے  سے ا ب   رہا

کیوں جبرکروں دل کا ہے اپنا ہی اک مزا ج

روٹھے  ہوئے سجن  کو منانے سے  اب  رہا

دولت  تمام جھونک دی تیرے ہی عشق میں

دل   ہو  گیا   فقیر   کمانے    سے  اب  رہا

مٹھّی میں  مرے  بند  ہے  دنیا  مرے  بچّے

مٹھّی کو کھول کر بھی دکھانے  سے  اب  رہا

ساحل  پہ کھڑا  رہ  کے دعا  مانگ رہا   ہوں

طوفان   سے کشتی  کو  بچانے  سے   اب  رہا

تیری    جفا   نے   دل   میرا    پتّھر  بنا   دیا

تنہائی  میں   بھی  اشک  بہانے  سے  اب  رہا

دل  میں مرے  غموں  کا  سمندر   ا داس   ہے

ہونٹوں  پہ  تبّسم    بھی   سجانے  سے  اب  رہا

طاہر  کو  یا د  آ تی  ہے  کیا  فرق  پڑے   ہے

دل  تجھ کو اپنے  دل سے بھلانے سے  اب رہا

A gazal no.16...by.....Aleem Tahir.

[5/19, 3:05 PM] Aleemtahir: غزل....نمبر.16....علیم طاہر

مرا ہر جذبہ  تری  ذات  سے  جڑا ہوا  ہے

ہر اک خیال بھی دن رات سے جڑا ہوا ہے

یہ کاوشوں کا  کبھی کارواں کہاں  بنتا

میرا ہر غم ترے ساتھ  سے جڑا  ہوا  ہے

جہانِ قلب  ابھی  مُنتشر  ہو ا  ہے  بہت

یہ بکھرا لہجہ بھی حالات سے جڑا ہوا ہے

مرا ہر جذبہ تھا معصوم سو معصوم رہا

جب کہ ہر لمحہ تری گھات سےجڑا ہوا  ہے

مگر دلوں کی خلیجوں کو کون پاٹے گا

ہاتھ میرا تو ترے ہاتھ سے جڑا  ہوا  ہے

کہیں کردار میں ملتا نہیں ہے نام و نشاں

یہ عشق وشق  تری  بات سے جڑا  ہوا  ہے

مخالفت  تو  نمائش ہے  سُن لے طاہر  تُو

اداس  لہجہ  تری  مات  سے  جڑا  ہوا ہے

A gazal no. 17 ....by Aleem Tahir.

ٰ

[5/19, 3:07 PM] Aleemtahir: غزل نمبر ......17..علیم طاہر

یہ دل میں کیوں سما گئیں ہیں رنگ برنگی لڑکیاں

یہ رونقوں سی لگ رہی ہیں پیاری پیاری لڑکیاں

یوں ہی نہیں یہ خوشبوئیں بکھر رہی ہواؤں میں

یہاں گلوں سی پھر رہی ہیں یہ سنہری لڑکیاں

یوں ہی نہیں  ہے  خوشگوار  اس  بہار  کا  مزاج

مہکتی  وادیاں لگے ہیں سلجھی سلجھی لڑکیاں

ہر ایک موج ہو گئی نشیلی چُھو کے ان کے پاؤں

یہ مستیوں سی ساحلوں پہ بھیگی بھیگی لڑکیاں

یوں ہی  نہیں  سڑک  پہ  بھیڑ  آگئی  ہے   اسقدر

ہیں رنگ برنگی تتلیوں سی ان میں چلتی لڑکیاں

یوں ہی نہیں  سُریلی یہ  فضائیں ہو گئیں  ابھی

لگے ہیں کوئیلوں سی ساری چہکی چہکی لڑکیاں

وہ  گاؤں  میں  سویرے  کا  اجالا  ہو  رہا  ابھی

وہ گھر سے کھیت کو  چلی ہیں بھولی بھالی لڑکیاں

یہ سردیوں کی شام میں بھی کپکپا رہے ہیں ہم

وہ ہلکی دھوپ جیسی لاگے اُجلی اُجلی  لڑکیاں

عجب  سکون  روح  میں  اتر  رہا  ہے  نور  سا

فضائیں  معتدل  رکھے  یہ چلتی پھرتی لڑکیاں

A gazal no.18 by...aleemTahir.

[5/19, 3:08 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر......18...علیم طاہر

پھول سی کھلتی ہوئی پیاری سی مہکی ہوئی لڑکی

دل میں ست رنگی دھنک جیسی ہے ٹھہری ہوئی لڑکی

آج    میں  صبح  سے  پگڈنڈی  کا   دیدار  کروں

ہرنی صحرا میں پھرے ویسے  ہے  چلتی ہوئی لڑکی

دل میں ہے  سپنے لیے سوچ  کے  گلشن  میں مگن

شاخ پر چڑیا سی آفس میں ہے بیٹھی ہوئی لڑکی

جانے  کس  گُتھّی  کو   سلجھا نے  میں مصروف لگے

کوئی ریشم کی طرح اُ لجھی سی  سُلجھی ہوئی لڑکی

کھیت  سے  گھر  کی  طرف  جاتے  ہوئے  یوں  لاگے

جیسے اک ڈھلتی ہوئی شام سی ہاری ہوئی لڑکی

در بدر   بھٹکے  کسی  کام  کو   پانے  کے  لیے

اپنے  کنبے  سے  الگ  شہر  میں  آئی  ہوئی  لڑکی

بھیگے  موسم  میں  کھڑی  پیڑ  کے  نیچے طاہر

جیسے دریا کی ہو مچھلی کوئی، بھیگی ہوئی لڑکی

A gazal no.19...by....Aleem Tahir.

[5/19, 3:21 PM] Aleemtahir: غزل. نمبر...19...(ذوقافیہ غزل)...

ٹکڑے نہیں ہیں کانچ کے یہ کرچیاں انا کی ہیں

قربانیاں  د ینی  پڑیں  تب  شہرتیں وفا کی ہیں

میں خوش مزاج  ایسا کہ   رہتا  ہوں مطمیئن سا

میرے تصوراّت میں یہ فرحتیں سدا کی ہیں

خمیا ز ہ بھی   بھگتنا  ہے   پھر کوئی   قیل  و  قا ل  کیا

خود میں جو چیختی ہیں یہ اذیتیّں  خطا  کی ہیں

کوئی  ہے  خیر   خواہ     جو  رکھتا  ہے  محبّت

ہم خوش جو تمہیں لگتے ہیں سب راحتیں دعا کی ہیں

جو  سوچیئے  ہو  جائے  گا  ایسا  نہیں  طاہر  یہاں

بندے ہیں سوچتے ہیں ہم سب چاہتیں خدا کی ہیں

A gazal no........20..by...Aleem Tahir.

[5/19, 3:23 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر......20........

جو بھی ہوا ہے اب کیا اس کا غم کرنا

خوش رہنا ہے کیوں آنکھوں کو نم کرنا

میں تو پہلے جیسا   خوش و  خُرّم  ہوں

تُو نے چاہا  تھا  مجھ  کو ہی بے دم  کرنا

لے  میں  نے  ہی  ترک ِ تعلّق  کر   ڈ ا  لا

لاکھ  کہا  تھا  تجھ  کو نخرے کم کرنا

اس دنیا  میں  کسی  کسی   کو   آتا   ہے

جو  دشمن  ہے  اس  کو  بھی  ہمدم  کرنا

جو چاہو  وہ  بند  آنکھوں  سے  دکھتا  ہے

اپنی   آنکھوں   کو   ہی  جامِ   جم    کرنا

A gazal...no. 21...by..Aleem Tahir.

[5/19, 3:34 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر.....21...علیم طاہر ...

ترے دل کو دل سے جوڑ نا، مجھے یاد کر مجھے یاد کر

مرے عشق سے منہ موڑ نا، مجھے یاد کر مجھے یاد کر

ترے واسطے کیا کِیا نہیں، ترے بِن کبھی میں جیا نہیں

مرے سنگ چل مجھے چھوڑ نا، مجھے یاد کر مجھے یاد کر

بتا کیا ترا دلبر نہیں ، مرا دل کوئی پتھّر نہیں

مرے دل کو اب تُو توڑ نا  ،مجھے یاد کر مجھے یاد کر

مرا مشورہ ہے  جانِ جاں،  مرا عشق ہے اک آئینہ

مرے آئینے کو پھوڑ  نا  ، مجھے یاد کر مجھے یاد کر

مری ہر خوشی تجھ کو دیا ،ترے غم خوشی سے لے لیا

مری جان دل جھنجھوڑ نا  ،مجھے یاد کر مجھے یاد کر

A gazal no.22 by.....Aleem Tahir..

[5/19, 3:35 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر  22...علیم طاہر..

پرواہ نہیں جاں  کی  دیوانے  کی  جنگ  ہے

اب خود کو ترے شر سے بچانے کی جنگ ہے

اک میں  ہوں  بے  نیاز  مگر  جیت  رہا  ہوں

دل میں ترے  جنوں ہے ہَرانے  کی  جنگ  ہے

وہ  مشتعل  ہے  یوں  کہ  منائے  نہیں  مَنتا

روٹھے  ہوئے  دلبر  کو  منانے  کی  جنگ  ہے

دل   کو نہیں یقین  کہ  دشمن  ہے  مِرا   تُو

دل  سے  ترے  نُقوش  مٹانے  کی  جنگ   ہے

یہ جنگ عِشق و حُسن کی صدیوں سے ہے جاری

یہ  جنگ   نہیں  میر ی   زما نے  کی   جنگ   ہے

A gazal no.23 ....by..Aleem Tahir

[5/19, 3:36 PM] Aleemtahir: غزل....نمبر...23..علیم طاہر...

شام ہوتے ہی فلک پر  جب  قمر  روشن  ہوا

یوں ہوا پھر چھت پہ میرا ہمسفر روشن ہوا

دل بجھا ہے آؤ تم جو روشنی اس پر  پڑے

برسا ساون جھوم کر تو ہر شجر روشن ہوا

یاد کا سورج تو چمکا ذہن میں میرے ابھی

آنکھ روشن ہو گئی پھر دل نگر  روشن  ہوا

جس طرح جھلکے  ہجومِ ابر میں مہتاب بھی

خواب میں محبوب ایسے  اک نظر  روشن ہوا

میری طرح وہ دِیا بھی بجھ سکا نہ دیکھئے !

لاکھ آندھی میں بھی آخر وہ مگر روشن ہوا

آپ  کے بِن  کاٹتی تھی  بس  اداسی رات دن

آپ  مہماں  کیا  بنے  ہیں میرا گھر روشن ہوا

عشق بھی ہے اک عبادت جان لو طاہر میاں !

عشق میں مجنوں دیوانہ در بدر روشن  ہوا

A gazal no...24 .....by....Aleem Tahir...

[5/19, 3:37 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر....24... علیم طاہر...

سنہرا "کل" جو جا چکا وہ آج "کل" نہیں رہا

ارادہ  تجھ  کو کھونے  کا مگر بدل نہیں رہا

محبتّوں  کا  تیر  جو   تیرے  خیال  کو  لگا

گذر  گئیں  ہیں  مدّتیں  مگر  نکل نہیں   رہا

چلو کہ دونوں بیٹھ کر بچھڑ ہی جائیں عمر بھر

الجھ گیا ہے مسئلہ  کو ئی  بھی  حل  نہیں  رہا

ترے  بغیر  بھی ابھی میں جی رہا  ہوں شان  سے

یہ دیکھ میرے ماتھے پر  کوئی بھی بل  نہیں رہا

وہ میرا چاند چُھپ  گیا  ہے  بادلوں کی  آڑ  میں

امید کا  کوئی  بھی اب  چراغ   جل   نہیں    رہا

طویل   انتظار    سے  اداس    ہو  گیا   ہے   دل

مصیبتوں  کا  وقت  ہے  مگر  یہ  ٹل  نہیں  رہا

یہ کاوشوں کا مہر  بھی  جلا  ہوا ہے دیر   سے

وہ  دل  ہوا ہے برف  کا  مگر   پگھل  نہیں  رہا

کوئی تو بات ہے ابھی کوئی توچال اس میں ہے

ترے   خلاف   وہ   ابھی   زہر   اگل   نہیں   رہا

A gazal  no.25...by....Aleem Tahir

[5/19, 3:38 PM] Aleemtahir: غزل...نمبر.25...علیم طاہر

آج میں خود کو ڈھونڈتا ہی رہا

شام تک خود سے لا پتہ ہی  رہا

دل میں ویرانیاں تھیں میرے بہت

بے سبب  خو ب    بو لتا  ہی   رہا

کیوں دیا  تُو  نے کیوں فریب  دیا؟

تیرے بارے میں سو چتا   ہی  رہا

زندگی!پھر بھی تجھ  کو پا نہ سکا

تیرے  پیچھے  میں  بھاگتا  ہی  رہا

جان   پایا   نہ  پھر  بھی   آج   تلک

تیرے   بارے   میں   جانتا   ہی  رہا  

اُتنی  شدّت  سے    یاد    آ تی   رہی

جس  قدر  تجھ  کو  بھولتا   ہی  رہا

میں  بھی  راہی  ہوں  چلتا  جاتا ہوں

راستہ    تھا    وہ    راستہ    ہی   رہا

کو ئی   تھا    ہی   نہیں   د لا سے  کو

عمر  بھر  خود  میں   چیختا  ہی   رہا

اپنے   ماضی   کے   ہر   اک   لمحے  کو

بند  آنکھوں   سے   د یکھتا    ہی    رہا

جانے  طاہر  کو    کب    ملے    گی   تُو

بس  دعاؤں   میں    مانگتا   ہی    رہا

gazal  no..01.....to...25......by....Aleem Tahir. علیم طاہر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 05:43، 17 نومبر 2023ء (م ع و)


2402:8100:23CF:8C35:AC4E:75D6:7E73:1056 14:18، 17 نومبر 2023ء (م ع و)

"سانیٹ رنگ " علیم طاہر کا پچیس سانیٹ گیتوں، پر مشتمل دلچسپ مجموعہ ۔

ترمیم

(علیم طاہر کا برقی شعری   مجموعہ )...

..( سانیٹ رنگ)

( پچّیس  سانیٹ گیتوں پر مشتمل )

                (سانیٹ رنگ )

                                             علیم طاہر


                                   01

او میرے پیارے پیارے چاند

چا ندی  سی چاندنی لایا ہے

تُو میرے دل کو بھایا ہے

کالی راتوں کے سہارے چاند

کیا تُو بنا ہے پیارے نُور کا

اتنا حسیں ہے کیا راز ہے

سب سے جدا انداز ہے

کیوں ہے مسافر دور کا

تجھ سے ملنے کے لیے آتا ہے

خواب میں دیکھوں تیرے بارے میں

نیند سے جاگوں تو خسارے میں

آنکھوں سے خواب روٹھ جاتا ہے

دنیا کا ہر وعدہ توڑ دوں

تُو جو ملے تو جگ چھو ڑ دوں

                                                             02

او  سورج  میری قسمت کے سورج

مری شب سا مقّدر چمکا دے

مرے تشنہ لبوں کو مہکا دے

او سورج میری چاہت کے سورج

ترے پاس آئی میں پیاس لیے

تُو رات رات روشن کردے

اک گل ہوں مجھے گلشن کر دے

میں جیتی ہوں بس آس لیے

دل دیوانہ تجھ پر آیا

کیا تجھ سے کہوں کیوں دور رہوں

مجھے تجھ سے سکوں مجھے تجھ سے جنوں

دل مستانہ تجھ پر آیا

میں پیار کروں تُو پیار کرے

ہم ایک ہیں جگ اقرار کرے

                                                03

اندھیارے میں ساجن لاگے جگنو

کبھی شہر سے آجا چھُٹی میں

میں کر لوں تجھ کو مٹھُّی میں

پت جھڑ میں  بکھرے گہری گہری خوشبو

سونی پگڈنڈی زیرِ لب مسکائے

اب ٹیلوں پر خاموشی ہے

اب کھیتوں میں مد ہوشی ہے

سب رستہ تاکے جانے تُو کب آئے

آنکھوں میں بسا ہے سامنے آجا تُو

دیدار کو ترسے اک عالم

دل دل سے ملے گا کب جانم

ترا پیار چاہیئے پیار لٹا جا تُو

تری خواہش مچلے دل کے سمندر میں

کیا مستی چھائی دیکھ قلندر میں

                                               04

تُو جو دل میں ہے تو تری راہ چلے

مجنوں عاشق مستانہ ہے

کیوں دل یہ ترا دیوانہ ہے

ترے بِن دھڑکے بِن آگ جلے

کچھ سمجھے نا کیا سمجھاؤں

کیا ضدّی ہے مجھے مانے نا

تجھے جانے مجھ کو جانے نا

غمگین رہوں یا مسکاؤں

کیوں ہو گی نہ حیرت مجھ کو

مرا دل ہے مگر تری سنتا ہے

تری ڈگر کے کانٹے چُنتا ہے

کیا دکھلائے چاہت مجھ کو

یہ عشق عجب سا جادو ہے

جسے ہو جائے بے قابو ہے

   

                                         05

حسرت کی لیے میں روشنی

او چاند مرے تری چاہت میں

نکلا ہوں گھر سے ظلمت میں

بکھرا دے پیار کی چاندنی

ترے پیار کے پیارے ہاتھ سے

مجھے چاندنی کی وہ شال دے

جو غموں سے مجھ کو نکال دے

میں جیوں تری سوغات سے

سوغات ہو تیری رہنما

ٹھوکر ہے میری راہ میں

چلتا ہوں مگر تری چاہ میں

ملاقات ہو تری رہنما

لگ جائے نا دنیا کی نظر

او چاند مرے تُو مجھ میں اتر

                                                          06

دل کے فلک کا تارا تُو ہے

جھلمل جھلمل روشن روشن

تُو ہی دھڑکے دھڑ کن دھڑکن

میرا  سچّا  یارا تُو ہے

تُو ہی بادل بادل بکھرے

تُو ہی رواں ہے فضا فضا میں

تُو ہی مستی ادا ادا میں

تُو ہی منظر منظر نکھرے

دل تجھ کو ہر سُو پاتا ہے

تُو ہی جگنو جگنو چمکے

تُو ہی خو شبو خوشبو مہکے

خود کو بے قابو پاتا ہے

جانے کتنے راز  بنا ہے

اک چپ سی آواز بنا ہے

                                         07

مرے عشق کی پیاری زمین سے

جو اُ گا  وہی  تو پھول ہے تُو

ترا تن احساس کی ہے خو شبو

تری یاد کے لمحے،  حسین سے

تُو آنکھوں میں امّید  مری

تُو چہرے پر شادابی ہے

تُو زلفوں کی آزادی ہے

ہر لمحہ دل میں عید مری

تُو چھلکے میرے رنگوں سے

ہر ادا میں میری شامل تُو

میرا ساحل تُو میری منزل تُو

تُو چھلکے مری امنگوں سے

ترے عشق میں کتنا نکھرا ہوں

میں ذرّہ ذرّہ  بکھرا ہوں

                                                            08

تری یادوں کا اک شور ہے

مرے دل میں ہجومِ غم چھایا

آنکھوں نے دریا چھلکایا

ترے پیار کا کتنا زور ہے

ترے پیار میں وہ تاثیر ملی

جو چٹّانوں کو موڑ دے

جو پتّھر دل بھی توڑ دے

تقدیر سے کیا تقدیر ملی

ترے پیار پہ دل جھکتا ہے مرا

ترے پیار جو سچّائی ہے

مرے سامنے اب تک آئی ہے

بجلی سا قدم رکتا ہے مرا

دل بچھڑا تو یہ جانا ہے

تُو منزل ہے تجھے پانا ہے

                                                               09

سمجھ نہ پایا پیار کیا تو

پیار سے بڑھ کر کون یہاں ہے

پیار سا رہبر کون یہاں ہے

منزل پایا پیار کیا تو

پیار سے مہکے رنگیں گلشن

خوابوں کی تعبیر پیار میں

لفظوں کی تصویر پیار میں

پیار دھڑکتے دل کی صدائیں

آنکھوں آنکھوں پیار ملے گا

پلکوں پلکوں یار ملے گا

پیار حسیں ہونٹوں کی دعائیں

پیار زمیں سے فلک تلک ہے

پیار جہاں سے الگ تھلگ ہے

                                                   10

عشق کی لے پر جھومے ہستی

عشق بھی اک جادو لاگے ہے

ہر سو مجھ میں تُو لاگے ہے

عشق نہ ہو تو ٹھرے ہستی

عشق کی خوشبو بکھری ہر سُو

رگ رگ میں تُو رواں دواں ہے

ہر لمحہ بس جواں جواں ہے

عشق کے منظر منظر  میں تُو

عشق پہ اپنا سر خم کرنا

عشق میں جینا عشق میں مرنا

                                                           11

انجام سے کیوں ڈرنا اس کام سے  کیوں ڈرنا

یہ عشق کا سفر ہے یہ عشق کی نظر ہے

جب راہ پُر خطر ہے یہ عشق ہمسفر ہے

الزام سے کیوں ڈرنا اس کام سے کیوں ڈرنا

دل ایسا مسافر ہے جو عشق کی راہ چلے

ہم قدم ہے یہ ہمدم بس عشق سے یاری ہے

شانے سے لگے شانہ اک جنوں سا طاری ہے

یا چڑھتی صبح رہے یا ڈھلتی شام ڈھلے

یہ فلک فلک پنچھی یہ سُر سرگم بنسی

یہ دریا کا  دھارا یہ موسم آوارہ

یہ جھیلوں کا عالم یہ گلشن سا پیارا

یہ زلفوں کی لہریں یہ صدا ہے پائل کی

یہ لب کی خموشی ہے آنکھوں کا ترنّم ہے

دھڑکن کو سُنے دھڑکن یہ ایسا ترنّم ہے

                                                         12

عجب اضطرابی عجب کیفیت ہے

مری دھڑکنوں میں فقط اک صدا ہے

میں اس کا ہوا ہوں جو دل میں بسا ہے

اے دنیا تری اب کہاں حیشیت  ہے

وہ پہلے سے مجھ میں ہے معبود میرا

اسی سے زمانے کی گردش ہے جاری

اسی سے مری دھڑکنوں کی ہے یاری

وہ دوڑے ہے رگ رگ میں موجود میرا

اُسی کے شب و روز شمش و قمر ہے

اُسی کے ہیں منظر اُسی کی نظر ہے

                                               13

اک دیے سا جل رہا ہوں لمحہ لمحہ عشق میں

خواب کیوں آئیں گے مجھ کو نیند جب آتی نہیں

جاگتی آنکھیں کوئی رنگ دکھلاتی نہیں

دھڑکنوں سا چل رہا ہوں لمحہ لمحہ عشق میں

لمحہ لمحہ عشق میں مشکل سفر ہونے لگا

تنہا تنہا زندگی اب خوں رلاتی ہے مجھے

دن ہی کیا اب رات بھی اکثر جگاتی ہے مجھے

میری فکروں کا خزانہ در بدر ہونے لگا

کیا جنوں ہے عشق میں بڑھتا ہے میرا حوصلہ

کس قدر ہے جان لیوا یہ جدائی کا ستم

لِپٹی ہیں کیسی بلائیں راہ میں ہر ہر قدم

کم نہیں ہوتی اذیّت سلسلہ در سلسلہ

اک مسلسل درد میری دھڑکنوں میں بس گیا

بن کے خوشبو کا شکنجہ اس جہاں کو کس  گیا

                                                           14

سجنی دیکھے ساجن کا رستہ

کیوں شہر کی رنگینی میں کھویا ہے

تری یاد  میں میرا تن من رویا ہے

من میں بولے اتنا نہ تڑپا

تری  یاد کی ہر اک لہر مچلتی ہے

کہیں آنکھوں سے نہ چھلک پڑے اب تُو

مجھے ہوش کہاں اور دل ہے بے قابو

تجھے سوچ کے دنیا دل کی بہلتی ہے

کیوں پیار میں ایسی سزا ملی مجھ کو

کیوں ساجن مجھ سے ملنے آئے نا

کیوں ساجن کو مری یاد ستائے نا

کیوں وفا کے بدلے جفا ملی مجھ کو

بے چین رہوں تری راہ تکوں آجا

اب روپ سے میں دیوانی لگوں آجا

                                        15

پیار کے رن میں قدم رکھتے ہیں

پیار  رہتا ہے اپنی باہوں میں

سمٹا رہتا ہے بس نگاہوں میں

دل کے رشتے کا بھرم رکھتے ہیں

دل کے رشتے میں پیار کا عالم

پیار ہی زندگی کا حاصل ہے

پیار ہی ہر خوشی کا ساحل ہے

دل کے رشتے میں پیار کا موسم

دل کے رشتے میں چاند سورج ہیں

دل کے رشتے میں جگنوؤں کا سماں

دل کے رشتے میں خوشبو ؤں کے نشاں

دل کے رشتے میں اجلے پنکج ہیں

دل کے رشتے کو چومتا جائے

دل دیوانہ ہے جھومتا  جائے

                                    16

کیا مہک ان ہواؤں پہ لکھنے لگی

پیار ہے تیرا میرا جہاں میں امر

لگ نہ جائے زمانے کی اس کو نظر

ابھری ابھری یہ تحریر دکھنے لگی

پا نیو ں پہ بھی  لکّھا  ہواؤں نےکیا

عشق دونوں نے دنیا میں سچّا کیا

پڑ ھ کے آنکھوں نے میری تبسّم دیا

یہ کرشمہ کیا ہے دعاؤں نے کیا

بادلوں کے تکّم کا کیا  راز ہے

صبح کی منچلی روشنی نے کہا

باغ میں کھلتی ننھی کلی نے کہا

سب سے پیارا محبّت کا انداز ہے

سارے عالم میں پھیلا ہوا نور سا

اے صنم  پیار ہے کتنا مخمور سا

                                      17

یہ پیار بھی اک بنجارا ہے یہ پیار بھی اک بنجارا

ہو لاکھ اذیّت راہوں میں گرتا ہے اور سنبھلتا ہے

یہ راہی مجنوں جیسا ہے منزل کی دھن میں چلتا ہے

یہ  پیار  بڑا  آوارا ہے  یہ  پیار  بڑ ا    آوارا

یہ دل کو منزل مانے ہے یہ دل کو سب کچھ جانے ہے

یہ کرتا ہے من مانی بھی یہ ضدّی ہے دیوانہ ہے

یہ صبر سکوں کو جھڑکے ہے یہ عاشق ہے دیوانہ ہے

یہ تاک میں میں دل کی رہتا یہ دل پہ کماں کو تانے ہے

جس دل کو لگے گھائل کردے یہ جادو ہے پاگل کر دے

ہو ضدّی تو یہ آندھی ہے یا جوشیلا طوفان کہو

یہ عاقل بھی یہ دانا بھی یا بچّہ اور نادان کہو

اک روپ ہے اس کا  مجنوں سا یہ شہروں کو جنگل کر دے

یہ کائنات پر چھایا ہے ہر ذرّے میں یہ شامل ہے

یہ تیرا دل میرا دل ہے یہ تنہا ہے یہ محفل ہے

                                          18

تری آنکھوں کے پیمانے

کیوں چھلکے میں نہ جانوں

دکھ پہنچا تجھ کو مانوں

تُو مانے یا نہ مانے

اتنا نہ سوچا کرنا

بے کار ہیں فکریں ساری

یہ دنیا کتنی پیاری

جیتے جی یوں نہ مرنا

کیا سوچ رہی ہو بولو

کیوں ہو الجھی الجھی سی

کیوں ہو بکھری بکھری سی

کیا راز ہے دل میں کھولو

کیوں جوجھ رہی الجھن سے

نہ شرماؤ ساجن سے

                                                  19

کیا عید مناؤں بِن تیرے

ہم ملے کہاں ہیں مدّت سے

تم  یاد جو آئے شدّت سے

مجھ پر ہنستے آنسو میرے

ہر لمحہ صد یوں جیسا ہے

میں جلتا اور پگھلتا ہوں

مٹتا ہی نہیں ہے چلتا ہوں

یہ فاصلہ  جانے کیسا ہے

اب تنہائی دشمن سی ہے

جی بھاری بھاری رہتا ہے

ہر دم غم طاری رہتا ہے

اب الفت بھی الجھن سی ہے

گل امیّد کے سب کھلتے

اے کاش کہ عید کو ہم ملتے

                                                        20

دل میں پھیلی ہے اب پیار کی روشنی

عشق موجود ہے مجھ میں طوفان سا

اک جنوں سا ہے یہ اور ایمان سا

چمکے آنکھوں میں اب یار کی دلبری

ہر قدم ہے امنگوں کا عالم جواں

ہر قدم زندگی کی ہیں نیرنگیاں

ہر قدم واشقی کی ہیں ست رنگیاں

لمحہ لمحہ محبّت کا موسم رواں

ہر طرف پنچھیوں کے ترانے سُنے

ہر طرف ان فضاؤں میں خوشبو ملی

روبرو تیری چاہت بھی جادو لگی

ہر طرف گل ہی گل دل نے گل ہی چُنے

عشق ہی دل سے ابھرا تو روشن ہوا

عشق بکھرا فضا میں تو گلشن ہوا

                                                      21

تُو نہیں ہے تو ہم کتنے  بے چین ہیں

آس ہے کہ تُو آئے گی اک دن یہاں

برسوِ ں  بیتے مگر دل یہ بھولا کہاں

تری راہوں پہ ا ب بھی ٹکے نین ہیں

لمحہ لمحہ جدائی بھی قاتل لگے

وقت نشتر سا ہے اب تو اپنے لیے

اپنی آنکھوں میں جیتے ہیں سپنے لیے

بِن ترے زندگی کتنی بے چین ہیں

سانس ہر سانس اب یاد آنے لگی

بکھری بکھری سی ہے دل کی تنہائیاں

الجھی الجھی سی آنکھوں میں بیتا بیاں

ہر خوشی چھوڑ کر ساتھ جانے لگی

اب بھروسہ نہیں جانے کیا ہو کبھی

جتنی جلدی ہو ممکن  چلی آ  ابھی

                                    22

پنچھی جیسی اڑ جاتی ہے پھُر سے آس

مچھلی جیسا ہانپ رہا ہے خواب صدا

رخ ہاتھوں سے ڈھانپ رہا ہے خواب مرا

تھک کر چور ہوا ہے تن کا ہر احساس

دل کے ساحل  پر کیسی ویرانی ہے

غم کی موجیں آتی ہیں تھک جاتی ہیں

سانسیں جیسے نیندوں سے  جگ جاتی ہیں

منظر منظر نظروں میں حیرانی ہے

چیخ رہا ہے من کا جنگل صدیوں سے

سونے سونے رستوں پر مایوسی ہے

فضا فضا کی سر سر میں مد ہوشی ہے

گذرا نہ امبر سے بادل صدیوں سے

ساگر جیسی دل کی لذّت کھاری  ہے

پھر بھی امیّدوں سے اس کی یا ری ہے

                                                              23

ترے خیالوں کی روشنی میں

اجلا اجلا ہے من کا آنگن

بہکا بہکا ہے تن کا گلشن

شعائیں پھوٹے ہیں  شاعری سے

عجیب دل کا ہے مست موسم

عجیب کہرا بکھر رہا ہے

کہ لمحہ لمحہ نکھر رہا ہے

تری ہی یا دوں سے آج ہمدم

یہ دھوپ چھائی جو پیلی پیلی

ترے تصور کا ہے اشارا

تری محبّت کا ہے سہارا

ہے دل کی دنیا بڑی  رنگیلی

کبھی تو خوابوں سے تو ُ نکل کر

قریب آ میرے یار چل کر

                                                     24

اس دیش کا دل باشندہ ہے

جس دیش میں سب بھائی بھائی

ہندو مسلم سکھ عیسائی

اس دیس میں ہر کوئی زندہ ہے

پڑے وقت تو لڑتے ہیں مل کر

سرحد کی حفاظت کرتے ہیں

ہم دیش سے الفت کرتے ہیں

جیتے ہیں گل جیسا کھِل کر

ہم دیش کے عاشق سچّے ہیں

ہم جان لٹانے والے ہیں

ہم مستانے متوالے ہیں

ہم من کے بلکل پکّے ہیں

جو ہم نے کہا وہ کرتے ہیں

پڑے وقت تو اس پر مرتے ہیں

                                                     25

قدم ملا کر مرے رستے پر سنگ مرے اب چلتی ہے تنہائی

میں جو رکوں تو رکے خموشی ہنسی اڑائے ہنستی جائے

کڑی دھوپ ہے چھیڑ رہی ہے جانے مجھ سے کیا وہ پائے

دل جلتا ہے تنہا جیسے اب ویسی ہی جلتی ہے تنہائی

نہ جانے کیوں ہر اک خوشی ہے روٹھی روٹھی ساتھ رہے بس غم

ویرانی ہے حیرانی ہے تم سے بچھڑ کر لٹ گئی ہے دنیا

سفر سفر میں بھٹک رہے ہیں منزل کا اب ملتا کہاں رستہ

اب جیون کا کتنا مشکل سفر ہوا ہے کرے حوصلہ کم

مرے لبوں سے گہری خموشی کیوں چپکی ہے میں کچھ نہ جانوں

تنہا ئی سے دل کی یاری ناممکن ہے سنگ چلے دشمن

جب بھی یاد آجائے ظالم بڑھ جاتی ہے کیوں دونوں کی الجھن

شور بہت ہے دل کے اندر دھڑک رہی ہے بس تُو ہی مانوں

جانے کب تک چلے کھیل یہ دور ہے منزل میں بھی چلتا جاؤں

جب آنکھوں سے ٹپکے آنسو بن کر موتی میں بھی ڈھلتا جاؤں

ـــــ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


Aleem Tahir ka barqi sheri majmuaa

(Sonnet Rang)

  (25 ,Sonnet par mushtamil) .......

By.....AleemTahir

Mobile no.9623327923

Email: aleemtahir12@gmail.com 2402:8100:23CF:8C35:AC4E:75D6:7E73:1056 14:26، 17 نومبر 2023ء (م ع و)

" کتابوں کا سرور " علیم طاہر کے مقالات ،مضامین، تبصروں ،پر مشتمل مجموعہ ۔

ترمیم

"کتابوں کا سرور "

(علیم طاہر کے تبصروں کا مجموعہ)

انتساب  : ادباء  کے نام

(تبصرہ نمبر 01)

"چراغ ادب آفتاب ادب"

                                   مبصر: علیم طاہر

       

                  چراغ ادب توصیفی نظموں کا بہترین مجموعہ ہے جسے شاز رمزی نے فخرو انبساط کے ساتھ دنیائے ادب میں پیش فرمایاہے. شاز رمزی کا تعلق قصبہ علی گنج ضلع بریلی یو پی سے ہے. حضرت شمس رمزی (مرحوم) ان کے استاد تھے. شمس رمزی صاحب کے 500 شاگردوں میں شاز رمزی کو فوقیت حاصل ہے. رمزی نسبت کو بھی اسی اعلی اعزاز سے منسلک کیا جا سکتا ہے. اس مجموعے میں ساگر ترپاٹھی، تنویر وصفی، روف صادق، اکرم نگینوی، قمر الدین قمر، نے اظہار خیال فرمایا ہے. اردو ادب میں توصیفی نظموں کا یہ مجموعہ اپنی مثال آپ ہے، کہ یہ ایک خوشگوار پہل بھی قرار دی جا سکتی ہے. درباری عہد میں قصیدوں کا رواج اپنی ایک روشن تاریک رکھتا ہے. اکیسویں صدی میں چہرے سے آشنائی بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے. لیکن ایسے عہد میں بھی چراغ ادب کے نام سے توصیفی نظموں کا مجموعہ منظر عام پر آنا واقعی خوشگوار پہل کے مترادف ضرور ہے. کیونکہ جب تک کوئی فنکار منکسرالمزاج،  وسیع القلب، وسیع الذہن، نہ واقع ہو تب تک وہ کسی بھی شخص پر توصیفی کلام نہیں کر سکتا. شاذ رمزی نے اس مجموعے کے ذریعے انسان دوستی کا ثبوت پیش کر دیا ہے. حمد، نعت، ماں، باپ، کے  عنوانات کے بعد، باقاعدہ مجموعے میں توصیفی نظموں کی فہرست بالحاظ حروف تہجی پیش کی گئی ہے. جو آفتاب جونپوری  سے یوسف دیوان تک اپنی آب و تاب سے جگمگا رہی ہے. جو 81 ناموں پر منحصر ہے توصیفی نظموں کے اس مجموعے میں اشخاص کی منظوم سوانح جھلکیاں بھی محسوس کی جا سکتی ہے. ہر نظم  کی ابتدا سے اخیر تک شخص شخصیت بن کر پایہ تکمیل تک رسائی حاصل کرتا ہے. اور یہ کام ہنر مندی سے شاذ رمزی نے پیش فرمایا ہے. اکیاسی اشخاص کے روشن پہلوؤں کو الفاظ کے سہارے اجاگر کرنا واقعی قابل توصیف عمل ہے.فنی اعتبار سے بھی صاف و شفاف زبان، معیاری انداز بیان، سہل ممتنع، کی خوبیوں سے مزین فطری و رواں دواں لب و لہجہ، وزن، بحر، ردیف قافیوں کے دائروں میں مقید ان توصیفی نظموں میں بلا کی دلچسپی اور مقناطیسی قوت در آئی ہے، کہ قاری پڑھتے ہوئے کہیں بھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا بلکہ اس ایک کتاب چراغ ادب سے قاری کا ذہن وسیع الذہنی سے منسلک ہوتے ہوئے وسیع القلبی تک پہنچتا ہے. اور اپنے فکری نگار خانے میں آفتاب ادب کی تیز روشنیوں کی جگمگاہٹ میں محو ہو جاتا ہے.

    اس قسم کی طلسماتی کیفیت کا طاری ہونا بھی عین فطری ہے. بلکہ  اسے شاعر کی ہنر مندی کا نقطہ عروج بھی قرار دیا جا سکتا ہے.

        امید کی جا سکتی ہے کہ اس قسم کی مجموعے آئیں گے، اور اس خوشگوار پہل کے بعد اپنی منفرد تاریخ بھی مرتب کریں گے. ہم شاذ رمزی کو بہت مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک اہم کام کر کے اردو ادب کی چمک دمک میں مزید اضافہ کیا ہے.

            اس کتاب کو شاز رمزی پلاٹ نمبر 10 روم نمبر 11 گیٹ نمبر 5 مالونی، ملاڈ سے حاصل کیا جا سکتا ہے. قیمت 300 روپے ہے کتاب خوبصورت اور مجلد ہے.

                               

(C) :  مبصر :علیم طاہر

Aleem Tahir.

Mobile no. 9623327923

Email: aleemtahir12@gmail.com.

(تبصرہ نمبر 02)

" فشار ریگ میں انور سلیم کی جذبات نگاری"

                                   مبصر :علیم طاہر

فشار ریگ 176 صفحات پر مشتمل انور سلیم کا شعری مجموعہ ہے. جس میں  حمدیہ دوہے ، نعتیں نعتیہ دوہے، سلام، دوہے، منقبت، صفر نظمیں، نظمیں، غزلیں گیت، دوہے، ماہیے، کی شمولیت ہیں. ساتھ ہی پروفیسر شیو کے کمار کرشن کمار طور، جمیل شیدائی، نے اپنی آرا کا اظہار فرمایا ہے. جو متاثر کن ہے. ڈاکٹر فاروق، شکیل اور سردار سلیم، نے مختلف صنعتوں میں قطعات تاریخ قلمبند فرمایا ہے.. جو فنی رنگوں میں رنگے ہوئے انور سلیم کے فن پر مزید روشنی ڈالتے ہیں. انور سلیم کہتے ہیں، "مجھے کچھ نہیں کہنا ہے، مجھے اب کچھ نہیں کہنا ہے، کہ اب یہ شے میری نہیں رہی اب یہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچا دی گئی. اب آپ کہتے جائیں اور میں سنتا جاؤں گا. اس کے تعلق سے سوالات بھی آپ کو کرنے ہیں. اور جوابات بھی اپ کو دینے ہیں." (انور سلیم)

               انور سلیم کی شاعری کا باغ خوبصورت رنگا رنگ خوشگوار ہے ان کے لہجے میں دریا کی سی روانی ہے شعروں میں برجستگی ہے،

میں خطا کار ہوں میں گنہگار ہوں

میں ہوں اسی سیا بخت بدکار ہوں

تو رحیم اور رحمان ہے پاک ہے

تیری بخشش کرم کا طلبگار ہوں

            انور سلیم کی شعری صلاحیتوں کا اظہار نعت غیر منقوط سے چند اشعار

آسودہ حال ہوں کہ ملا ہے در رسول

ہر درد ہر علم کی دوا ہے در رسول

صحرائے گمراہی کی ہوا گرم اگ ہے

رحم و کرم کی سرد گھٹا ہے در رسول

     حور و ملک کا ورد ہے اسم محمدی

آدم کے روح و دل کی دعا ہے در رسول

    انور سلیم کا دل مست قلندر ہے صوفی رنگ چڑھتا ہے تو ان کی شاعری تصوف سے منسلک ہو جاتی ہے.

نعتیہ دوہے دیکھیے،

نبی نبی کی رٹ ہو ایسے میں نکلے یہ جان

    ایک یہی ارمان ہے میرا ایک یہی ارمان

کالی کملی کی چھیاں کی سیما ہےنہ چھور

دھرتی اور آکاش میں پھیلی ہے یہ چاروں اور

  سلام :

اٹھائے سر کوئی باطل تو خود ہی مٹ جائے حسین کا ہے جہاں میں یہ واقعہ زندہ منقبت غوث اعظم:

اس مکاں تااس مکاں پیران پیر

سبز جھنڈے کا نشاں پیران پیر

کفر کی آندھی نہ لے ڈوبے ہمیں

تھام لیجے بادباں پیران پیر

انور سلیم نے اپنے اپ کو اپنی جڑوں سے جوڑے رکھا وہ روایتوں کے امین ہیں. بزرگی کا احترام ان کی فطرت میں موجود ہیں. ان کے مزاج کی جھلکیاں ان کی شاعری میں جا بجا دکھائی دیتی ہیں. وہ نہ صرف اچھے فنکار ہیں بلکہ ایک اچھے انسان بھی ہیں. "صفر" کو استعارہ بنا کر تقریبا 16 نظمیں انہوں نے اس کتاب میں پیش فرمائی ہے. جس میں "صفر" کے حوالے سے ایسی ایسی معنی خیز گفتگو محسوس کی جا سکتی ہے جسے سمجھ کر حقیقی رب کی قربت کا احساس مزید شفاف ہو جاتا ہے. اور ہر ذی شعور اپنی  اپنی استطاعت کے مطابق معنی و مطالب اخذ کرنے میں خود مختار نظر آتا ہے.

                انور سلیم کی شاعری میں تشبیہات،استعارے، تکرار لفظی، ترتیب الفاظ شریعت رمزیت اشاریت معنویت، برجستگی، روانی، بہاؤ، جیسی تمام خوبیاں جھلملاتی ہیں. انور سلیم نے شہر آشوب میں آج کے حالات کی کامیاب ترجمانی فرمائی ہے.

ہزارہ ایک نیا ہے یہ

شرارہ جنگ کا ہے یہ

            ان ابتدائی مصروں سے شہر آشوب اختتام تک باندھے رکھتی ہے. جس میں فنی تمام خوبیاں موجود ہیں. آخر میں امن و سلامتی کے مشورے اور گہری نیند سے جگنے کا درس متاثر کن ہے. انور سلیم اپنی غزلوں کے حوالے سے بھی کامیاب نظر اتے ہیں.

اڑادے ہوش جو سب کے غزل وہ لائے ہیں

کہ سیر کر کے  پرستان  کی  ہم  ائے  ہیں

        انور سلیم کی غزلوں میں جذبات نگاری کا کینواس جذباتیت سے منسلک ہے. وہ فطرتا جذباتی واقع ہوئے ہیں. غزل کے کینواس پر جب وہ ایک رو میں تصویر غزل کے عمل سے گزرتے ہیں تو ہزارہا رنگ صف باندھے منتظر رہتے ہیں. الہامی ہاتھ نئے نئے رنگوں کو سلیقے سے برتنے کا کام انجام دیتے ہیں. تکمیل تصویر غزل کے بعد ششدر احساس کے کینواس کی تصویر تکتا رہتا ہے. کیونکہ کہیں کہیں یہ تصویر طلسماتی لگنے لگتی ہے.

نام کتاب: فشار ریگ

شاعر :انور سلیم

سن اشاعت :2012

قیمت: 250

ملنے کے پتے :

سنتوش نگر حیدراباد

شب خون کتاب گھر 313 رانی منڈی، الہ آباد

ہدا بک ڈسٹریبیوٹرز پرانی حویلی حیدراباد

مکتبہ الانصار :18/8/223 /12/A

ریاست نگر حیدراباد 59

          اس کتاب کو حاصل کیجئے اور انور سلیم کے شعری فن سے مزید واقفیت حاصل کیجئے.

                 مبصر : علیم طاہر

(تبصرہ نمبر03)

شعری مجموعہ، " نئے مزاج کا ساون".     میں ارشاد مظہری کی فنی کاوشیں:

         * مبصر : علیم طاہر

شاعر ارشاد مظہری ایک منکسرالمزاج، حلیم الطبع، وسیع الذہن ، وسیع النظر، فنکار ہیں نئے مزاج کا ساون ان کا اولین شعری مجموعہ ہے. اس مجموعہ میں 136 صفحات پر انہوں نے اپنی فنی کاوشات قلمبند فرمائی ہیں. عرض حال میں انہوں نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مغربی بنگال اردو اکادمی کے ارباب حل و عقد اور شعبہ نشرو اشاعت کے ذمہ داران کا بھی شکریہ ادا کیا ہے. اپنی بات میں نزہت زینب نے اردو زبان و ادب کے فروغ کو اولین مقصد بتایا ہے، جو واقعی قابل توصیف ہے.                     ارشاد مظہری کا فن متاثر کن ہے. وہ غزلوں کے حوالے سے اپنے مزاج کو پرت در پرت پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں. ان کی شاعری میں صاف ستھری زبان ادبی روایات کی پاسداری، سلیقہ مند تراکیب لفظی، جذبات نگاری، عصر حاضر کے مسائل کی پیشکش، قلبی واردات کا ادبی اظہار، تفکرات کی نیرنگیاں، تصورات کی سرمستیاں، اظہار دیوانگی، اظہار ذمہ داری، احساسات کی جلوہ آرائیاں ، تعقل پسندانہ رویہ، غرض کہ ایسی بے شمار خوبیاں دکھائی دیتی ہیں، جو ایک سچے اور اچھے شاعر میں ہونی چاہیے. یہ بہت بڑی بات ہے کہ ارشاد مظہری ایک اچھے اور سچے شاعر ہیں. اور ان کا یہ پہلا پڑاؤ واقعی کامیابی سے منسلک قرار دیا جا سکتا ہے.

کسی کو سر پہ بٹھائے کسی کو رد کر دے

  زمانہ چاہے جسے یار مستند کر دے

تمام کھیل فقط وقت کے مزاج کا ہے

کسی کو نیک بنائے کسی کو بد کر دے

کاش کہ دودھ کے دھلے ہوتے

ہم بھی بازار میں سجے ہوتے

تھی ہواؤں کی سازشیں ورنہ

شاخ در شاخ ہم کھلے ہوتے

ایسے اور بے پناہ متاثر کن اشعار اس کتاب کے صفحہ قرطاس پر جگمگا رہے ہیں. اخر میں نو نظمیں اور تین قطعات بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں. اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے مغربی بنگال اردو ایک ادمی 2/75، اے رفیع احمد قدوائی روڈ کلکتہ 700016  پر رابطہ کیا جا سکتا ہے. قیمت صرف 98 روپے ہے.

                               *   مبصر علیم طاہر

9623327923

(تبصرہ نمبر 04)

"میری بستی میرے لوگ " وکیل نجیب کا

خاکہ نمامضامین کا منفرد مجموعہ.....     

    مبصر :

  علیم طاہر

      " وکیل نجیب " ایک تیز رفتار قلمکار کی حیثیت سے دنیائے اردو ادب میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں، انہوں نے بہت کم وقت میں بہت زیادہ کام کیا ہے. جس کا سبب بھی ان کی زودگوئی کو قرار دیا جا سکتا ہے. انہوں نے ادب اطفال پر بھی کافی توجہ دی ہے.

       " میری بستی میرے لوگ" خاکہ نما مضامین کا منفرد مجموعہ ہے. سماج میں اپنے اردگرد مختلف کردار اپنا شناختی وجود رکھتے ہیں. اکثرو بیشتر ان کرداروں پر فنکار کی نگاہیں نہیں پڑتی ہیں. لیکن وکیل نجیب صاحب نے اس کتاب میں تقریباً 35 شخصیات کو قلمبند فرمایا ہے. اور تمام شخصیات کو تاریخی بنا دیا ہے.

           انتساب برادر معظم محمد سعید (بمبیا پہلوان) کے نام ہے.

        تفصیلی شناس نامہ سے وکیل نجیب کی تعلیمی قابلیت، سماجی تعلیمی و ادبی سرگرمیوں کا روشن منظر نامہ اجاگر ہوتا ہے. ایک سے چھبیس تصانیف برائے اطفال ہیں. جس میں ناول، کہانیوں کے مجموعے ہیں. ڈرامے سفر نامے ہیں. اور تو اور شاعری بھی. بڑوں کے لیے تصانیف افسانے سفرنامے ناول تذکرہ ہیں. ڈاکٹر الیاس صدیقی (مالیگاؤں) نے "سیاہ آسمان کے روشن ستارے " عنوان کے تحت ایک مضمون قلمبند فرمایا ہے جو اس کتاب اور وکیل نجیب، دونوں پر تیز روشنی ڈالتی ہے.

         ہر زندگی ہر کردار، اپنی ایک کہانی سے منسلک ہوتا ہے.، جب اس زندگی یا کردار کے متعلق جانکاری حاصل کی جائے تو بے شمار تگ و جدوجہد جوش و خروش زندگی جینے کی للک کے جگمگاتے منظر نامے ابھرنے لگتے ہیں ان منظر ناموں سے قاری کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے ایسی تحریروں سے یقیناً قاری متحرک ہوتا ہے. وکیل نجیب نے اپنے بچپن سے جن جن اشخاص کا مشاہدہ کیا ہے وہ اشخاص اس کتاب میں تاریخی کردار بن گئے ہیں. ایک ایک شخص کی زندگی کے نشیب و فراز مختلف سرگرمیاں ترتیب و تہذیب و بے ترتیبی کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے یہ وکیل نجیب صاحب  کا ہی حصہ ہے. زندگی مختلف رنگ و روپ میں ہمارے روبرو ہیں اس کتاب کے مضامین سے بے شمار رنگ انگنت روپ سے آشنائی ہوتی ہے. یہاں تک کہ اختتامیہ منظر نامہ بھی سامنے آتا ہے. انسانی خوبیاں اور خامیاں حماقتیں اور عقلمندیاں، ناکامیاں اور کامیابیاں دکھائی پڑتی ہیں دوسروں کے جذبات سے حاصل ہونے والے تجربات بھی اہمیت رکھتے ہیں.

    اس کتاب میں مرحومین حاجی بشیر ممبر صاحب محمد سعید بمبیا پہلوان اور برادران جناب جلیل ساز صاحب، مولانا اکبر علی صاحب، شہادت حسین کربلائی، حاجی عبدالرزاق منشی عابد علی استاد، اور برادران صدیق انصاری، حاجی محمد ادریس، عرف محمد حاجی، مرحوم نسیم ناگپور، ہارون پٹیل، عبدالستار مرکو والے، تکیہ دار سلیمان پٹیل، حاجی رفیق بابو، اسماعیل انصاری کانگرسی، اسحاق کپتان صاحب، مرحوم غفار بابو، مرحوم سیف الرحمن، بھیا، بابو قاسم انصاری، محمد حسین عارف، رؤف بھیا، نیاز ملا خیرابادی، نیاز لیڈر مرحوم، جناب رشید پٹیل موجودہ حضرات میں افضل علی حیدری، ماسٹر غوث، ظہیر عالم جمیل، سروس، خلیل چیکر، بیرونی حضرات میں حاجی مسعود احمد صاحب، حیدر علی حیدری، وکیل پہلوان، خورشید احمد بن محمد اسحاق سیٹھ، ظہیر پہلوان، بابو محمد سلام، ان تمام اشخاص پر وکیل نجیب صاحب نے خوبصورت انداز میں اظہار خیال فرمایا ہے. یہ تمام اشخاص اب شخصیات میں تبدیل ہو چکے ہیں، اس کتاب کا ہر مضمون دلچسپ ہے اس کتاب کی اشاعت پر ہم وکیل نجیب صاحب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں. 192 صفحات کی کتاب کی قیمت 200 روپے ہے جسے اس پتے سے منگوایا جا سکتا ہے

" وکیل نجیب، نجیب منزل، نزد لال اسکول مومن پورہ، ناگپور، 18-

(C) : Mubassir : Aleem Tahir

Mobile no. 9623327923

(تبصرہ نمبر 05)

مقالہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔157 واں عالمی بیسٹ اردو پویٹری کا  "رمضان عید " پر مشتمل پروگرام ۔۔۔۔۔۔۔۔  

                                     علیم طاہر ( انڈیا )

                  آج مورخہ 10/06/2018کو  عالمی بیسٹ اردو پویٹری کے زیر اہتمام ایک بے مثال پروگرام بعنوان "رمضان و عید" منعقد کیا گیا ۔ جو بے پناہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔ اس پروگرام میں بین الااقوامی شہرت یافتہ شاعر   محترم ارشد مینا نگری صاحب کے شعری  مجموعے " عید "کی رسم رونمائی بھی پایہء تکمیل کو پہنچی ۔ جسے خوب پزیرائی حاصل ہوئی ۔ یہ شعری مجموعہ جہان ادب میں موضوع عید پر اولین شعری مجموعہ ہے ۔   

                     عالمی بیسٹ اردو پویٹری کے بانی و سرپرست محترم توصیف ترنل صاحب کو ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔ کہ انہوں نے فروغ اردو میں  منفرد اضافے اور معیار اردو کو بلند کرنے کا بیڑا اٹھا یا  ہے ۔ اور مسلسل اس اہم مقصد کی تکمیل میں شب وروز سرگرداں رہتے ہیں ۔ منفرد تنقیدی  پرورامس کروانا  اور ہر پروگرام میں  مین آف دی پروگرام  انعام و سند سے بھی نوازتے ہیں ۔ جس سے شعراء و ادباء کی پذیرائی و حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ یہ بھی ادب کی ایک عظیم خدمت قرار دی جا سکتی ہے ۔

                              کمال کی بات یہ ہے کہ رمضان او ر عید ایک ایسا خوش گوار  ، ہمہ گیر  ہمہ جہت، موضوع ہے جس پر جتنا لکھا کہا جائے کم ہے ۔ سماج کی اصلاح شاعری کے حوالے سے ہمیشہ سے  کی جاتی رہی ہے ۔ ایسا کوئی موضوع نہیں جو شاعری کے توسط  سے بیان نہ کیا گیا ہو ۔ آج کے اس پروگرام میں رمضان اور عید دونوں موضوعات پر شاعری اور تنقید کے حوالوں سے گفتگو کی گئی ۔ اس گفتگو میں سماج کی اصلاح  کو مقدم گردانا گیا ۔ رمضان کی اہمیت ، روزوں کی افادیت ، عبادات و ورد وظائف کی افادیت ، اور عید کی مسرتوں اور غموں کا تذکرہ ، حالات حاضرہ کی عکاسی و ترجمانی ، فنکارانہ ہنر مندیوں کے ساتھ پیش کی گئی ۔

                          سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج اس با برکت رمضان کے  مہینے میں اسی سے منسلک موضوع "  رمضان اور عید " کا انتخاب ، کیا گیا ۔ اور اعلانیہ اس موضوع پر اپنے کلام  بھی پیش کئے گئے ۔ جن پر کھلی تنقیدی گفتگو بھی کروائی  گئی ۔ یہ عمل انفرادیت سے منسلک ہے ۔ بیباکی و بے خوفی سے وابستہ ہے ۔  اس عمل کی وجہ سے عالمی بیسٹ اردو پویٹری کی منفرد شناخت عالم ادب میں مانند آفتاب ضو فشاں ہے ۔

                          اور تو اور اس پروگرام میں شامل ہر کلام کو داد و تحسین سے نوازا گیا ۔ تنقیدی حوالوں سے محترم مسعود حساس صاحب نے نہ صرف تبصرہ فرمایا بلکہ رہنمائی بھی فرمائی ۔ جو تعمیری ذہنیت کی بھر پور ترجمانی ہے ۔ فنی باریکیوں  کو مد نظر رکھ کر تنقید کی گئی ۔ جس سے  شعراء کے حوصلوں کو استحکام  حاصل ہوا ۔  

                               آخر میں ضیا شادانی صاحب جو اس پروگرام کی صدارت اور تنقید  فرما رہے تھے ۔ انہوں نے مین  آف دی پروگرام امین جس پوری صاحب کو قرار دیا ۔ سب نے امین جس پوری صاحب کو  خوب مبارکباد پیش فرمائی ۔

              رمضان و عید کے موضوع پر یہ پروگرام رمضان اور عید کے مقاصد کا ترجمان ہے جو زندگی کی افادیت میں اضافہ کرنے کا محرک ضرور  بنے گا  ۔  اس پروگرام کے پیش کردہ محترم توصیف ترنل اور معاونین لاءیق ستائش ہیں ۔  

                                                     

                 مقالہ نگار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علیم طاہر ( انڈیا )

(تبصرہ نمبر 06)

دیباچہ.....نمبر ۲...................علیم طاہر  (انڈیا)

         " بھاشاؤں کا سنگم " ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے زیرِ اہتمام شائع کردہ تقریباً آٹھویں کتاب ہے ـ اس ادارے کے ۱۱۲  ایک  سو بارہ منفرد پروگرام مقبولِ عوام ہو چکے ہیں ـ اس ادارے کے بانی اور چیف محترم توصیف ترنل صاحب ہیں ـ جو واقعی برقی رو کی طرح اپنا سفر کرتے ہوئے منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں ہیں ـ محترم توصیف ترنل  صاحب نے دنیائے اردو ادب میں اپنے ایسے انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں جنہیں صدیاں فراموش نہ کر سکے گی ـ تقریباً پچاس سے زیادہ گروپ میں بیس ہزار سے زا ئد شعرائے کرام کی شمولیت ہے ـ ہر دن کوئی نہ کوئی منفرد پروگرام کرنے اور نئی نئی تراکیب  (ideas) نکالنے میں بانی اور چیف محترم توصیف ترنل صاحب کو غضب کا خدا داد کمال اور ملکہ حاصل ہے ـ نہ صرف منفرد آئیڈیاز  وہ پیش کرتے ہیں بلکہ انہیں بروئے کار لانے یا پائہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے شعراء و ادباء کو متحرک کرنے کی بے شمار ہنر مندیوں سے بھی  واقفیت  رکھتے ہیں ـ

         انہوں نے اپنی قابلیتوں ،محنتوں، کاوشوں ،  نئے افکار، منفرد اندازِ فکر سے ا ردو برقی جہان میں کہرام اور تہلکہ مچا دیا ہے ـ جہاں جہاں دنیا میں اردو والے آباد ہیں ان سے منسلک ہیں ـ اور ان کے شانے سے شانہ ملا کر چلنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں ـ انہوں نے اپنی منفرد صلاحتوں کا لوہا منوا لیا ہے ـ

         اس سے پہلے ادارہ عالمی بیسٹ اردو کے زیرِ اہتمام انتہائی قلیل مدّت میں سات کتا بیں منظرِ عام پر آچکی ہیں ـ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ انہوں نے برقی میڈیا کے ذریعے افرادِ جہان کو ششدر کر دیا ہے ـ

       " بھاشاؤں کا سنگم" شائع کرنے کا ان کا اپنا منفرد آئیڈیا ہے ـ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں ایک کروڑ سے زائد لوگ باگ ہندی جانتے ہیں ـ اور اسے سرکاری درجہ بھی حاصل ہے ـ تو کیوں نہ اردو شعراء کی تخلیقات ہندی والوں تک بھی رسائی حاصل کرے ـ

             اکثر و بیشتر ان کے  میوزک ڈائرکٹر  دوست حضرات  جب  ان کی روا نہ کردہ اردو تخلیقات دیکھتے ہیں تو وہ اس زبان کو پڑھنے سے قاصر ہونے اور ہندی بھاشا میں کنورٹ نہ ہونے  کی شکایتیں بھی کرتے ہیں  ـ  اور بھی دیگر اہم وجوہات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ان کے ذہن میں یہ منفرد آئیڈیا آیا کہ  "بھاشاؤں کا سنگم " نام سے کتاب تشکیل دی جائے  اور ٹیم کے ساتھ انہوں نے اسے شیئر کیا سب نے اس نایاب اور منفرد آئیڈیا پر لبیک کہا  ـ اتّفاق کیا ـ تب کہیں اس کتاب کے تشکیل دینے کا سفر شروع ہوا ـ

        صرف ہندی زبان میں زیادہ تر سنسکرت  زبان کی شمولیت ہے ـ جو  ہندی کے شعراء و ادباء ادب تخلیق کرتے سمئے استعمال کرتے ہیں ـ "بھاشاؤں کا سنگم " میں  اردو غزلوں کو ھندی (دیو ناگری )  لیپی  میں ٹارا نسفر  کیا گیا ہے ـ یہ ترجمے کی کتاب ہر گز نہیں ہے ـ بلکہ اردو غزلوں کو ہندی بھاشا میں پیش کیا گیا ہے ـ یہ بھی ایک بڑا منفرد اور عظیم کام ہے ـ  اب برقی میڈیا سے ہندی والے بھی اردو شعرائے کرام کی غزلوں سے مستفید اور فیضیاب ہو سکیں گے ـ جس کی کامیابی کا سہرا بھی ہمارے برادر  محترم توصیف ترنل صاحب کے ہی سر بندھتا ہے ـ

           اردو زبان کی ترویج و ترّقی میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں نے بھی بہت کام کیا ہے ـ شمالی ہند کے تمام علاقے حیدرآباد،  دکن،  پنجاب،  لکھنئو  وغیرہ  کی شمولیت نا قابلِ فراموش رہی ہے ـ مختلف بے شمار نشیب و فراز کے با وجود اردو زبان کی شان و شوکت برقرار ہے ـ جس کا اعتراف ہندی شعراء و ادباء اور لوگ باگ بھی کرتے ہیں ـ دیو ناگری میں پچاس حروف ہیں، ۳۳ حروف صحیح مفرد، ۴ مرکب، اور ۱۳ حروف علّت ہیں ـ اردو والوں کے لیے ہندی سیکھنا بڑا آسان ہے ـ بلکہ سہل طور پر اسے سیکھا جا سکتا ہے ـ اور سیکھا جانا چاہیئے ـ تا کہ رابطے کی اس زبان سے کثیر تعداد میں افراد سے منسکک ہونے میں یا اپنی تخلیقات اور اپنے مافی الضمیر کو ہندی والوں تک پہنچانے میں برقی سہولت فراہم ہو ـ یہ ایک اچھا مفید عمل ہو گا ـ جس سے ادب کو مزید فروغ حاصل ہو گا ـ   

         محترم توصیف ترنل صاحب نے یہ ایک اچھی روایت اور نیو  ڈالی ہے ـ کہ اس  برقی ابتدا سے اردو ھندی کی دوریاں بھی ختم ہوں گی ـ اور قومی یکجہتی کا ماحول بھی پروان چڑھے گا ـ ہمیں  ایکدوسرے  افراد کو سمجھنے میں معاونت ملے گی ـ اردو زبان  ، اردو ادب کا فروغ ہوگا ـ

ترویج ِ زبان کا معیار بھی  بلند ہو گا ـ یہ بہت بڑا کرشماتی اور معیاری کام،  ادارہ بیسٹ اردو پوئٹری کے زیرِ اہتمام انجام دیا جارہا ہے ـ جس کی کامیابی کے لیے پوری ٹیم مبا رکباد کی مستحق ہے ـ میرے لیے مسر ّت کی بات یہ بھی ہے کہ میں اس ادارے کا امسال نا ئب مدیر منتخب کیا گیا ہوں ـ

              با الخصوص بانی اور چیف محترم توصیف ترنل صاحب، محترمہ دعا علی صاحبہ،  جو سیٹنگ کرکے پی ڈی ایف فائل اور  کتابوں کے دلکش ٹائیٹل بھی بناتی ہیں ـ تمام شعرائے کرام  اور میڈیا تک پہچانے والے صحافی  محمد عثما ن  عاطس صاحب،  اور  پرنٹاس کے پبلشر  ، دیگر برقی ذرائع کے ذ مہّ اران وغیرہ ،  اراکین مبارکباد  کے مستحق قرار دئے جاتے ہیں ـ جو وا قعی زبان کی ترویج و فروغ کا مشن لے کر مستعد و سرگر داں ہیں ـ امید کی جاسکتی ہے کہ محترم توصیف ترنل صاحب کئی سو منفرد پروگراموں کے مشن کو لے کر اپنے سفر کی شاہراہوں پر منزلِ مقصود کی جانب گامزن ہیں ـ خدا ان  کے حو صلو ں کو مزید بلندیاں عطا فرمائے ـ اور شاد و آباد رکھتے ہوئے سلامت رکھّے ـ

                    علیم طاہر ( ا نڈیا )

Beebaacha.....by.....Aleem Tahir.(india)

(تبصرہ نمبر 07) ..........( دیباچہ ).....نمبر..۰۱ــــــــــــــــــــــ

                          " اپنی تلاش میں"

                         "نسیم خان سیما "کی شاعری

                                       علیم طاہر (انڈیا)

                          نسیم خان سیما کی شاعرانہ اور نثری  خدمات کا دائرہ رفتہ  رفتہ وسعت اختیار کر رہا ہے ـ دنیائے اردو ادب میں انہوں نے اپنے فکر و شعور سے تہذیبی اقدار کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھا لیا ہے ـ آئے دن ان کے مضامین مختلف اخبارات اور رسائل میں نمایاں رہتے ہیں ـ اور تو اور ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کی تیاری میں بھی منہمک ہیں ـ فنکار کا فن سرحدوں کو نہیں مانتا ـ اس کے فن کی خوشبو ایسی مسافر ہوتی ہے جو سرحدوں کو پھلانگ کر ملکوں ملکوں سفر کرتی رہتی ہے ـ جسے روکنا انسانوں کے بس میں نہیں ـ ایسی ہی ایک فنکارہ  محترمہ نسیم خان سیما بھی ہیں ـ جو فیصل آباد  پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں ـ لیکن  ان کے فن کی خو شبو  سر حدوں کو پھلانگتے ہوئے اپنے معطّر  وجود کا نہ صرف احساس  دلا رہی ہے،  بلکہ ملکوں ملکوں سفر کرتے ہوئے اردو کے شیدائیوں کے ذہنوں اور دلوں  کو معطّر بھی کر رہی ہے   ـ

اب تک ان کے  اپنے دو شعری مجموعے " بکھرنے سے ذرا پہلے " اور    "بونسائی "  منظرِ عام پر آچکے ہیں ـ  اور مقبولِ عوام بھی ہو رہے ہیں ـ

                 نسیم  خان سیما   کا اب تیسرا شعری مجموعہ " اپنی تلاش میں " منظرِ عام پر ہے ـ  اس مجموعے میں ان کی غزلوں  میں سادگی و سلاست کے ساتھ رنگینی و رعنا ئی بھی ہے ـ انہوں نے عامیانہ فرسودہ روایات سے گریز کرنے کی کاوش کی ہے ـ ان کے شعری لب و لہجے سے   ندرت و لطافت  کا احساس ہو تا ہے ـ جس میں خلوص و صداقت کی آمیزش ہے ـ وہ اپنی بات صاف لفظوں میں کہنے کا اچھوتا ہنر رکھتی ہیں ـ  

          نسیم خان سیما کی غزلوں میں جذ بے کی صداقت ہے ـ لفظ و معنی کی وہ حسین دنیا آبا د ہے جس میں تہہ در تہہ در  انسانی احساسات و تخیّلات  ، زندگی کے نئے پہلوؤں اور زاویوں  کی کیفیات محسوس کی جا سکتی ہیں ـ  وہ لفظوں کے طلسمی کھیل سے آگے اپنے  اندرونی کرب کا اظہار کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ـ اس اظہار کی  وجہ سے جو اثر انگیز  مجموعی فضا اپنا خا ص تاثّر احساسات  پر ثبت کرتی ہے اسے  آرٹ کا ایک عظیم نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے ـ ان کا کرب  سطحی اور روایتی نہیں ہے بلکہ اس کے پسِ پشت ایک دانشورانہ ذہن کار فرما ہے ـ  ان میں لفظیات کی انتخابی صلاحیت اور تخلیقی قوّت بدرجہء اتم موجود ہے ـ جو ذہنی تسکین کا ذریعہ بنتی  ہے ـ

      نسیم خان سیما  کی غزلوں میں فنّی رچاؤ ہے ـ جس میں مسرّت و شادمانی،  آغاز و انجام کا تفّکر زندگی کے ہمہ گیر تجربات کا ذخیرہ،  نغمگی،  موسیقیت، صحت مند رجحانات ،  شگفتہ تصوّرات ، اور کیف و نشاط کی شمولیت ہے ـ جس میں دلاآویزی،  اثر انگیزی ، معصومیت و دلکشی، سوز و گداز و سنجیدگی،  فہم و فراست کے مختلف پہلوؤں کا علاماتی و تشریحی اظہار ملتا ہے ـ

           نسیم خان سیما کے فن میں استعا رات و تشبیہات کی بھر مار نہیں اور نہ ہی  مصنوعی لفظی بازیگری یا بے جا تکلّف و تصنع نظر آتا ہے  بلکہ شادابی و نشاطیہ کیفیت کے اثرات جھلکتے ہیں ـ اس کیفیت میں فطری شرافت اور پاکیزگی مختلف  احساسات کی تصوراتی مصوّری ہمارے ذہن  کے اسکرین پر ڈیجیٹل انداز میں پیش کرتی ہے ـ  اس مصّوری میں لفظوں کے گہرے رنگوں کا استعمال کیا گیا ہے ـ جس کے سبب ہمہ گیر تاثیر پیدا ہو گئی ہے ـ اور یہ مصوّری کے نمونے احساسات کی آنکھوں کے دریچوں سے اترکر  دھڑکنوں کی آہٹوں کو مَس  کرنے لگتے ہیں ـ

            نسیم خان سیما نے نسوانی جذبات و احساسات کا بر ملا اظہار کیا ہے ـ وہ اظہار ـــــ شدّتِ برانگیختگی کے شکنجوں میں کستا نہیں ہے بلکہ شدّتِ احساس سے مغلوب ہو کر انسانی تخیّلات کے حسین و جمیل پیکر تشکیل دیتا ہے ـ یہ آرٹ کوئی معمولی آرٹ نہیں ہے ـ فن کی خوبصورت ہنر مندی  ہے ـ جو ہر کس و نا کس میں نہیں پائی جاتی ـ  اظہار کی اس توانائی سے ان کی شاعرانہ صلاحتوں کا پتہ چلتا ہے ـ

               نسیم خان سیما کی شاعری یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کا تقاضہ کرتی ہے ـ ان کی غزلوں میں صرف  حقیقت پسندانہ معنویت کے عناصر ہی نہیں بلکہ ادبی روایات کے ساتھ فنکارانہ بصیرت بھی اپنی شناخت رکھتی ہیں ـ وہ شناخت ہمارے قدامت پرست  معاشرے کی پیداوار ہے ـ آج بھی مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہو گا کہ نسوانی آواز دبی دبی  اپنے کرب میں ہی مبتلا رہتی ہے ـ وہ کرب لمحوں یا سالوں کا  نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے ـ اس کرب کی زنجیروں کو تو ڑ کر نسیم خان سیما نے بغاوت نہیں کیں  بلکہ نفسیاتی خوف پر فتح  پا لیا ـ  تب کہیں اپنے فن کو منظرِ عام پر لا سکی ہیں ـ  یہ ایک بڑا کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے ـ

           نسیم خان سیما کے فن میں دردمندی، جذبات نگاری، کے کئی روپ نظر آتے ہیں ـ جن میں نئے امکانات تلاش کئے جا سکتے ہیں ـ وہ روپ صدیوں کی مخالفت کے باوجود خوفزدہ یا مایوس نہیں ـ بلکہ  بے پناہ ہشاّش بشاّش، مستعد ، چاق و  چوبند،  تروتازہ اور نئی جہت سے آشنا  دکھائی دیتے  ہیں ـ

      "اپنی  تلاش میں " شعری مجموعے کا نام بھی متاّ ثر کن ہے ـ جو شعوری تصوّرات  کے جہانوں کی سیر کرواتا ہے ـ انسان کو اپنے آپ کو سمجھنے کے لیے  اپنی شناخت کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ـ اپنی شناخت ، بغیر اپنی تلاش کے، حا صل  نہیں ہو سکتی ـ خاص طور  پر معاملہ جب صنفِ نازک کا آجائے تو  وہاں  ،"اپنی تلاش  میں "  نام ، نئے  تخیّلاتی رنگ و آہنگ  اورصدیوں کی تواریخ سے فہم و فراست کو منسلک کرتا ہے ـ  کیا مستورات اپنی شناخت  سے آج بھی محروم نہیں ہے؟ ؟؟

یہ سوال دعوتِ فکر  دینے کے  علاوہ ہر ذی شعور کو متحرّک بھی کرتا ہے ـ اور نسیم خان سیما کی شاعری کا گرویدہ بھی بناتا ہے ـ بلا شبہ یہ ایک خوش آئند علامت ہے ـ ہم مبارکباد پیش کرتے ہوئے محترمہ نسیم خان سیما کو  سلامتی کی دعائیں بھی دیتے ہیں کہ وہ اسی طرح نسائی ادب میں اپنے نایاب شعری سرمائے سے مزید اضافہ کرتی رہے گی ـ

                    علیم طاہر  ( انڈیا)

A deebacha.... by.....AleemTahir ( India )

............................................................................مقالہ.....نمبر.....۰۲...

(اردو ادب کو زندہ رکھنا ہے).............علیم طاہر (انڈیا)


اردو ادب زبان یا اردو ادب کو زندہ رکھنا ہر اردو سے محبّت کرنے والے کی ذمہّ داری  ہے یعنی ہر شاعر و ادیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ کس طرح اردو ادب کو زندہ رکھے ـ اس فکر کو لے کر اردو کو فروغ  دینے والی ہر سر گرمی اردو ادب کو زندہ رکھنے میں معاون ہو گی ـ

       اردو زبان کا فروغ اردو ادب کا فروغ ہے ـ اردو اد ب کا فروغ ہماری تہذیب کا فروغ  اور تحفّظ ہے ـ آج اکیسیویں صدی میں ہمیں اردو ادب کو فروغ دینےکے لیے ............      اپنے کمپیو ٹر اور اسمارٹ فون میں اردو کو نصب کرنا ہو گا ـ تا کہ آپ کبھی بھی کسی بھی جگہ اردو ٹائپ کرنے کے قابل ہو سکے ........................ انٹرنیٹ سرچ اردو میں  .........پیٍغا ما ت  اور شوشیل میڈیا   سرچ اردو میں ........اردو کی پیڈیا پر لکھیں ..........گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد کریں ـ....... اپنا اردو بلاگ لکھیں ـ...   وغیرہ  عمل کے ذریعے  بھی آپ اردو ادب کو زندہ رکھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں ـ  

            آج  اردو ادب کو زندہ رکھنے کے  مشن کو  لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے ـ ہمیں ہماری لسانی ، تہذیبی ثقا فتی شناخت کو زندہ رکھنا ہے ـ ہماری تاریخ ، ہمارا قومی تشخص اردو زبان میں محفوظ ہے ـ کئی زبانیں مردہ تھیں مگر حکومتوں نے انہیں سرکاری درجہ دے کر زندہ کر دیا ـ یونانی عبرانی سنسکرت اس کی عمدہ مثالیں ہیں ـ ہمیں بھی اردو کو زندہ رکھنے کے لیے اسے اہمیت دینا لازمی ہے ـ

          اردو ادب کو زندگی دینے والے شعراء و ادباء  کی حوصلہ افزائی کرنی بہت ضروری ہے ـ تا کہ مزید ادب فروغ پانے میں کوئی بڑی  دشواری پیش نہ آئے ـ اردو کی کتابیں،  رسالے،  اخبارات،  کی اشاعت کے لیے مالی امداد مہیّا کرنا بھی ضروری ہے ـ ساتھ ہی انہیں خرید کر پڑھنے کا ما حول بنانا بھی لازمی ہے ـ تب کہیں جا کر اردو ادب زندہ رکھنے میں ہم کامیاب ہو سکتے ہیں ـ       جاری...

A mazmoon by........ Aleem Tahir   ( india)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

دیباچہ....نمبر .۰۲...............علیم طاہر  (انڈیا)

         " بھاشاؤں کا سنگم " ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے زیرِ اہتمام شائع کردہ تقریباً آٹھویں کتاب ہے ـ اس ادارے کے ۱۱۲  ایک  سو بارہ منفرد پروگرام مقبولِ عوام ہو چکے ہیں ـ اس ادارے کے بانی اور چیف محترم توصیف ترنل صاحب ہیں ـ جو واقعی برقی رو کی طرح اپنا سفر کرتے ہوئے منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں ہیں ـ محترم توصیف ترنل  صاحب نے دنیائے اردو ادب میں اپنے ایسے انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں جنہیں صدیاں فراموش نہ کر سکے گی ـ تقریباً پچاس سے زیادہ گروپ میں بیس ہزار سے زا ئد شعرائے کرام کی شمولیت ہے ـ ہر دن کوئی نہ کوئی منفرد پروگرام کرنے اور نئی نئی تراکیب  (ideas) نکالنے میں بانی اور چیف محترم توصیف ترنل صاحب کو غضب کا خدا داد کمال اور ملکہ حاصل ہے ـ نہ صرف منفرد آئیڈیاز  وہ پیش کرتے ہیں بلکہ انہیں بروئے کار لانے یا پائہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے شعراء و ادباء کو متحرک کرنے کی بے شمار ہنر مندیوں سے بھی  واقفیت  رکھتے ہیں ـ

         انہوں نے اپنی قابلیتوں ،محنتوں، کاوشوں ،  نئے افکار، منفرد اندازِ فکر سے ا ردو برقی جہان میں کہرام اور تہلکہ مچا دیا ہے ـ جہاں جہاں دنیا میں اردو والے آباد ہیں ان سے منسلک ہیں ـ اور ان کے شانے سے شانہ ملا کر چلنے پر فخر محسوس کر رہے ہیں ـ انہوں نے اپنی منفرد صلاحتوں کا لوہا منوا لیا ہے ـ

         اس سے پہلے ادارہ عالمی بیسٹ اردو کے زیرِ اہتمام انتہائی قلیل مدّت میں سات کتا بیں منظرِ عام پر آچکی ہیں ـ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ انہوں نے برقی میڈیا کے ذریعے افرادِ جہان کو ششدر کر دیا ہے ـ

       " بھاشاؤں کا سنگم" شائع کرنے کا ان کا اپنا منفرد آئیڈیا ہے ـ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں ایک کروڑ سے زائد لوگ باگ ہندی جانتے ہیں ـ اور اسے سرکاری درجہ بھی حاصل ہے ـ تو کیوں نہ اردو شعراء کی تخلیقات ہندی والوں تک بھی رسائی حاصل کرے ـ

             اکثر و بیشتر ان کے  میوزک ڈائرکٹر  دوست حضرات  جب  ان کی روا نہ کردہ اردو تخلیقات دیکھتے ہیں تو وہ اس زبان کو پڑھنے سے قاصر ہونے اور ہندی بھاشا میں کنورٹ نہ ہونے  کی شکایتیں بھی کرتے ہیں  ـ  اور بھی دیگر اہم وجوہات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ان کے ذہن میں یہ منفرد آئیڈیا آیا کہ  "بھاشاؤں کا سنگم " نام سے کتاب تشکیل دی جائے  اور ٹیم کے ساتھ انہوں نے اسے شیئر کیا سب نے اس نایاب اور منفرد آئیڈیا پر لبیک کہا  ـ اتّفاق کیا ـ تب کہیں اس کتاب کے تشکیل دینے کا سفر شروع ہوا ـ

        صرف ہندی زبان میں زیادہ تر سنسکرت  زبان کی شمولیت ہے ـ جو  ہندی کے شعراء و ادباء ادب تخلیق کرتے سمئے استعمال کرتے ہیں ـ "بھاشاؤں کا سنگم " میں  اردو غزلوں کو ھندی (دیو ناگری )  لیپی  میں ٹارا نسفر  کیا گیا ہے ـ یہ ترجمے کی کتاب ہر گز نہیں ہے ـ بلکہ اردو غزلوں کو ہندی بھاشا میں پیش کیا گیا ہے ـ یہ بھی ایک بڑا منفرد اور عظیم کام ہے ـ  اب برقی میڈیا سے ہندی والے بھی اردو شعرائے کرام کی غزلوں سے مستفید اور فیضیاب ہو سکیں گے ـ جس کی کامیابی کا سہرا بھی ہمارے برادر  محترم توصیف ترنل صاحب کے ہی سر بندھتا ہے ـ

           اردو زبان کی ترویج و ترّقی میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں نے بھی بہت کام کیا ہے ـ شمالی ہند کے تمام علاقے حیدرآباد،  دکن،  پنجاب،  لکھنئو  وغیرہ  کی شمولیت نا قابلِ فراموش رہی ہے ـ مختلف بے شمار نشیب و فراز کے با وجود اردو زبان کی شان و شوکت برقرار ہے ـ جس کا اعتراف ہندی شعراء و ادباء اور لوگ باگ بھی کرتے ہیں ـ دیو ناگری میں پچاس حروف ہیں، ۳۳ حروف صحیح مفرد، ۴ مرکب، اور ۱۳ حروف علّت ہیں ـ اردو والوں کے لیے ہندی سیکھنا بڑا آسان ہے ـ بلکہ سہل طور پر اسے سیکھا جا سکتا ہے ـ اور سیکھا جانا چاہیئے ـ تا کہ رابطے کی اس زبان سے کثیر تعداد میں افراد سے منسکک ہونے میں یا اپنی تخلیقات اور اپنے مافی الضمیر کو ہندی والوں تک پہنچانے میں برقی سہولت فراہم ہو ـ یہ ایک اچھا مفید عمل ہو گا ـ جس سے ادب کو مزید فروغ حاصل ہو گا ـ   

         محترم توصیف ترنل صاحب نے یہ ایک اچھی روایت اور نیو  ڈالی ہے ـ کہ اس  برقی ابتدا سے اردو ھندی کی دوریاں بھی ختم ہوں گی ـ اور قومی یکجہتی کا ماحول بھی پروان چڑھے گا ـ ہمیں  ایکدوسرے  افراد کو سمجھنے میں معاونت ملے گی ـ اردو زبان  ، اردو ادب کا فروغ ہوگا ـ

ترویج ِ زبان کا معیار بھی  بلند ہو گا ـ یہ بہت بڑا کرشماتی اور معیاری کام،  ادارہ بیسٹ اردو پوئٹری کے زیرِ اہتمام انجام دیا جارہا ہے ـ جس کی کامیابی کے لیے پوری ٹیم مبا رکباد کی مستحق ہے ـ

              با الخصوص بانی اور چیف محترم توصیف ترنل صاحب، محترمہ دعا علی صاحبہ،  جو سیٹنگ کرکے پی ڈی ایف فائل اور  کتابوں کے دلکش ٹائیٹل بھی بناتی ہیں ـ تمام شعرائے کرام  اور میڈیا تک پہچانے والے صحافی  محمد عثما ن  عاطس صاحب،  اور  پرنٹاس کے پبلشر  ، دیگر برقی ذرائع کے ذ مہّ اران وغیرہ ،  اراکین مبارکباد  کے مستحق قرار دئے جاتے ہیں ـ جو وا قعی زبان کی ترویج و فروغ کا مشن لے کر مستعد و سرگر داں ہیں ـ امید کی جاسکتی ہے کہ محترم توصیف ترنل صاحب کئی سو منفرد پروگراموں کے مشن کو لے کر اپنے سفر کی شاہراہوں پر منزلِ مقصود کی جانب گامزن ہیں ـ خدا ان  کے حو صلو ں کو مزید بلندیاں عطا فرمائے ـ اور شاد و آباد رکھتے ہوئے سلامت رکھّے ـ

                    علیم طاہر ( ا نڈیا )

Beebaacha.....by.....Aleem Tahir.(india)

(تبصرہ نمبر 08)

(بیگم اختر کی سوانحی جھلک) (مقالہ) نمبر 01.

                                         علیم طاہر

ھندوستان کا معروف شمالی علاقہ اتّر پردیش، وہاں ایک تاریخی اور مشہور و معروف مقام فیض آباد  کے ایک چھوٹے سے شہر میں سات اکتوبر انّیس سو چودہ کو بیگم اختر نے اپنی آنکھیں کھولی ـ وہ ایک اعلیٰ خانوادے سے منسلک تھیں ـ خدا نے انہیں ایسا گلا دیا تھا کہ جس کے بل پر  وہ ایسی مشہور گلوکارہ بنیں جس نے چار دہائیںوں تک اپنی پُر کشش و جادو بھری آواز سے دلوں پر حکومت کیں ـ

ان کے بچپن میں موسیقی کا ماحول انہیں میّسر نہیں تھا ـ لیکن بیگم اختر کا شوق،  بیگم اختر کی دلچسپی، بیگم اختر کے جنون، نے انہیں ملکئہ ترنّم بنا دیا ـ بیگم اختر کو اللہ نے بے حد سُریلی اور خنکدار آواز عطا کی تھی ـ انہیں گانے کا بے حد شوق تھا ـ اسی لیے ان کے چچا نے پٹنہ کے مشہور سارنگی کے استاد امداد علی خان کی زیرِ تربیت بھیج دیا ـ جہاں انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کیں ـ اس کے بعد ان کی تربیت میں چار چاند پٹیالہ کے عطا محمّد خان نے لگا دیے ـ

                               بیگم اختر نے محض پندرہ برس کی عمر میں کلکتہ میں ایک فلاحی پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا   ـ یہ پروگرام بہار کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے منعقد کیا گیا تھا ـ ان کی فنّی مہارت کو دیکھ کر بلبلِ ھند سروجنی نائیڈو نے کہا تھا " آپ کے گلے کی تربیت تو قدرت نے خود کی ـ اس میں جو سوز و ساز ہے بالکل فطری ہے،  اور انسان کو مسحور کر دیتا ہے ـ "

                                       بیگم اختر کو کلاسیقی موسیقی پر عبور حاصل تھا ـ انہیں ٹھُمری اور دادررا گانے میں غضب کا یدِ طولیٰ حاصل تھا ـ لیکن اصل شناخت غزل گائیکی کے سبب ہوئی ـ ان کی غزل گائیکی کمال تھا کہ مشہور شاعر کیفی اعظمی کہتے تھے " میرے نزدیک غزل کے دو معنیٰ ہیں ایک تو لغوی یعنی معشوق سے باتیں کرنا اور دوسرے بیگم اختر ـ

                           یوں تو انہوں نے کئی شعراء  کی غزلیں پیش کیں لیکن سب سے زیادہ جسس شاعر کی غزلوں نے انہیں متاّثر کیا وہ ہیں بہزاد لکھنوی ـ

           بیگم اختر نے بہزاد لکھنوی کی سو سے زیادہ غزلوں کو اپنی مخملی،  نشیلی، اور ریشمی آواز کے ذریعے تارخی بنا دیا ـ یہ کمال بیگم اختر کی انتخابی صلاحیت کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے ـ

              بیگم اختر کا فن اپنے عروج پر تھا تب ہی انہوں نے اپنی زندگی کے حسین دور میں قدم رکھّاـ  1945 میں لکھنؤ کے مشہور و ممتاز بیرسٹر اشتیاق احمد عباسی سے رشتئہ ازدواج سے منسلک ہو گئیں ـ

     عباسی صاحب کا خانوادہ فرسودہ تخیّلات کا پیروکار تھا ـ چنانچہ انہوں نے بیگم اختر کے گانے بجانے پر پابندی عائد کر دی ـ اس طرح بیگم اختر ساز و آواز سے الگ تھلگ ہو کر کرب و انتشار میں مسلسل مبتلا رہیں ـ

     لیکن بیگم اختر کے اندر کی موسیقی اور سُر تال لے کی تحریک نے دم توڑا ـ اور اس فن سے  انہیں الگ ہونا بھی قطعی گوارا نہیں تھا ـ

   چنانچہ اسی شش پنج میں ایک دن شدید بیمار پڑ گئیں ـ ڈاکٹروں نے بھی نا امیدی کا اظہار کر دیا ـ تب ہی لکھنؤ کے ریڈیو اسٹیشن پر ایک پروگرام میں شرکت کا موقعہ ملا ـ  انہوں نے تین غزلیں گائیں ـ وہاں وہ دادرا پیش کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے پڑیں ـ لیکن یہی دادرا فن ان کی صحت کے لیے تریاق ثابت ہوا ـ اور وہ صحت یاب ہو کر دوبارہ گانے بجانے کے جہان میں لوٹ آئی ـ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا ـ

          بیگم اختر نے فلموں میں بھی کام کیا ـ 1930... میں فلم "ایک دن کا بادشاہ"

1934 میں فلم ممتاز بیگم. فلم.. امینہ...اور فلم روپ کماری.....

19 35 میں جوانی کا نشہ...

1936 میں نصیب کا چّکر...

  1937 میں نلد ینتی

19 40 انار کلی

1942 میں روٹی

1953 میں دانا پانی

1954 میں احسان

1958.میں جلسہ گھر جیسی بیشتر فلموں میں کام کیا ـ

یہ وہ دور تھا جب ٹیکنالوجی اس قدر ترقّی پزیر تھی اور اسی وجہ سے فنکاروں کو بڑی دقتّوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ـ اپنی آواز کا live فن پیش کرتے ہوئے صلاحتوں کا جادو جگانا  پڑتا تھا ـ

          اسی لیے بیگم اختر نے جتنی بھی فلمیں کیں ـ  سب میں اپنی آواز کا جادو جگایا ـ اپنی صلاحتوں کا لوہا منوایا ـ

             1958 کے بعد انہوں نے فلم نگری سے کنارہ کشی اختیار کر لی ـ مختلف کمپنیوں کے لیے گانوں کی صدائیں بلند کرتی رہیں ـ

     میر تقی میر سے لے کر غالب، سودا،مومن ، کے علاوہ ہم عصر شعرائے کرام کی غزلیں بھی انہوں نے پیش کیں ـ    بالخصوص فیض اور شکیل بدایونی کی متعدد غزلوں کو اپنی آواز کے ذریعے سجایا ـ مثلا" فیض کی یہ غزل.....

"  آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے

   اس  کے بعدآئے جو عذاب آئے"

شکیل بدایونی کی یہ غزل ـــــــــ

کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا

اے محبّت ترے انجام پہ رونا آیا

        غزل اور موسیقی کا یہ سفر اسی طرح جاری تھا کہ 30 اکتوبر 1974 کو احمدآباد میں ایک پروگرام میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ اس کی تاب نہ لا سکی ـ یک لخت یہ مخملی، سریلی، نشیلی، اور ریشمی آواز ہمیشہ کے لیے تھم گئی ـ لیکن دنیائے موسیقی میں اپنی ایک منفرد تایخ اپنا ایک جدا گانہ اثر چھوڑ گئیں ـ

         سب سے آخری غزل جو انہوں نے گائی تھیں وہ کیفی اعظمی کی تھی ـ اور اس کے بول تھے ــــــــــ

          سنا کرو مری جاں ان سے ان کے افسانے

سب اجنبی ہے یہاں کون کس کو پہچانے

گورنمنٹ آف انڈیا نے بیگم اختر کے فن کی پذیرائی کرتے ہوئے داد و تحسین سے نوازتے ہوئے معترف ہو کر سنگیت ناٹک اکیڈیمی ایوارڈ اور پدم شری،  پدم بھوشن ایوارڈس سے نوازا ـ اور ملکئہ غزل queen of Gazal جیسے خطابات سےبھی عزّت افزائی فرمائی ـ

            بیگم اختر کی آواز صرف آواز نہیں بلکہ ایک تاریخی کارنامہ اور قدرتی کرشمہ ہے ـ

  بیگم اختر کا انتخابِ شاعری صرف انتخابِ شاعری نہیں بلکہ معیارِ انتخاب اوردلچسپی و بلندئی انتخاب بھی ہے ـ

بیگم اختر کی موسیقی ہنر مندیاں صرف موسیقی مندیاں نہیں بلکہ نمونئہ دادرا اور مثالِ ٹُھمری کا جادو بھرا اور کرشماتی اظہارِ پیشکش بھی ہے ـ

بیگم اختر کی غزلوں کا مخملی سریلا و نشیلا لب و لہجہ صرف دلوں میں قیام نہیں کرتا بلکہ دھڑکنوں میں مچلنے لگتا ہے ـ بیگم اختر کی آواز کا خمار سننے والوں کو خوابیدہ جہان میں پہنچا دیتا ہے ـ

بیگم اختر کی صداؤں کے جنون ذاٹی کرب کا اظہار سُر تال لے میں ڈھل کر کائناتی کرب بن جاتا ہے ـ جسے ان کی ہر الاپ میں محسوس کیا جا سکتا ہے ـ

بیگم اختر کی گائی ہوئی غزلوں کا زیرو بم معنوی و وضاحتی تاثرات کا اظہار کہلاتا ہے ـ

بیگم اختر کی آوازوں کے خدّوخال کو شعورِ سماعت محسوس کر سکتا ہے ـ

بیگم اختر دنیائے موسقی کی عظیم اور ناقابلِ فراموش فنکارہ ہیں ـ

آج بھی بیگم اختر کے فن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ـ

بیگم اختر نے اپنی آواز کے ذریعے دنیا میں امن سکون کو فروغ دینے کا کام کیا ہے ـ ان کی آواز کی روحانیت میں محبتوں کا ایک لامتناہی جہان آباد ہے ـ

بیگم اختر نے دادرا اور ٹُھمری کی وہ مثال قائم کیں کہ رہتی دنیا تک سماعتیں فخر کرتی رہے گی ـ

ان کی غزلوں کو سننے کے بعد انسانی انتشار سکون و اطمینان میں تبدیل ہو جاتا ہے ـ

بیگم اختر نہ صرف گزشتہ عہد کی مایہ ناز فنکارہ ہیں بلکہ ہر عہد میں ان کی آواز اپنی ایک منفرد شناخت قائم  رکھے گی  اور آنے والے تمام ادوار میں بھی اپنا معیار و اعتبار بر قرار رہے گا ـ

بیگم اختر کی آواز لازوال اور بے مثال ہی نہیں بلکہ لاجواب دلاآویز ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی معتبر و لاثانی بھی ہے ـ

ہم فخر کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایسی فطری فنکارہ بیگم اختر نے جنم لیا ـ

بیگم اختر صاحبہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک عورت ہونے کے باوجود انہوں نے زندگی کے تمام نشیب و فراز سے شان و شوکت سے گزرتے ہوئے نسوانی وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا ـ

نسوانی ادب میں اپنی آواز کے ذریعے وہ انمٹ تاریخ مرتّب کر دی نسوانیت کا معیار وقار اور رتبہ مزید بلندیاں سے ہمکنار ہو گیا ـ

بیگم اختر نے اپنے فن کا استعمال انسانی زندگی کے کرب و انشار کو کم کرنے کے لیے کیا یہ ان کا سب سے بڑا کمال گردانا جاتا ہے ـ

ہم برائے  راست تمام مکرّم سامعین سے بیگم اختر صاحبہ کو مزید سننے کی دعوت دیتے ہیں ـ


A maqaala  ......"begam akhtar ki sawanihee jhalak" by.........AleemTahir.

(تبصرہ نمبر 09)

مقالہ..............نئی ردیف ...

                      مقالہ نگار

         **     علیم طاہر ( انڈیا)

             ادارہ یالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے زیرِ اہتمام  ایک سو ستائیس واں منفرد پروگرام بعنوان "  نئی ردیف" کا انعقاد عمل میں آگیا ہے ـ اس عنوان کے تحت تمام شعرائے کرام اپنی غزلیات سے ایسی غزل پیش کریں گے جو ان کے مطابق یا حقیقتاً بالکل نئی اور منفرد ہو ـ کمیٹی تین ایسی غزلوں کا انتخاب عمل میں لائے گی جو بہترین اور نئی ہو ـ پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے شاعر کو احمد فراز ایوارڈ سے بھی نوازا جائے گا ـ اور دوسرے تیسرے نمبر پانے والے شعراء کو اسناد سے سرفراز کیا جائے گا ـ ایسی منفرد شرائط پر آج کے  عظیم الشان مشاعرہ  کا انعقاد بھی عمل میں آیا ہے ـ یہ بہت بڑی بات ہے ـ

      برادر توصیف ترنل صاحب کی کاوشوں اور محنتوں سے بھی  ادارہ مسلسل آگے کی  سمت برق رفتاری سے روں دواں ہے ـ "آسمانِ ادب " ایک ماہ نامہ بھی کافی مقبولِ عوام ہو رہا ہے ـ جو اس ادارے کی شناخت قرار دیا جا سکتا ـ ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں ادارے کے تمام اراکین اور برادر توصیف ترنل صاحب کو ـ  

           آئیے اب ہم گفتگو کریں "نئی ردیف " کے متعلق ـ شاعر کا کلام شاعر کی اپنی شناخت کہلاتا ہے ـ شاعر کی کہی ہوئی  غزل میں اس غزل کا قافیہ، اس غزل کا مواد، اس غزل کی ردیف، اس غزل کے فنّی تقاضے، اس غزل کی صحتِ  زبا ن، اس غزل کی روانی،اس غزل کی برجستگی،  اس غزل میں شعریت، اشاریت ،رمزیت، معنویت، کلاسیکیت، موسیقیت،  کی جاذبیت، وغیرہ تمام خوبیاں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ـ  

ان تمام خوبیوں میں نئی ردیف کی خوبی کو  نظر انداز قطعی نہیں کیا جا سکتا   ـ کیونکہ نئی ردیف کو نبھانے کے لیے بھی فنّی مہارت کی ضرورت پیش آتی ہے ـ زبان و بیان کی  علمیت کے  بغیر نئی ردیف کو بہتر سلیقے سے نبھایا نہیں جا سکتا ـ اکثر وبیشتر مشاہدے کے مطابق شعراء حضرات سینئر شعراء کی زمینوں اور ردیفوں میں طبع آزمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ـ اپنی نئی  ردیف نکالنے کی  زحمت نہیں کرتے ـ تقلیدی عمل میں سہولت کے سبب انہیں لطف محسوس ہوتا ہے ـ یا یوں کہہ لیجئے کہ پکا پکایا کھانا کھاتے ہیں ـ انسانی فطرت آسانیوں کی جانب زیادہ مائل ہوتی ہے ـ مگر سلام ان صلاحتوں کو جو ہمہ وقت نئے راستے تلاشنے اور ان پر نئی منزلیں کھوجنے میں مشغول رہتی ہیں ـ ایسی ہی صلاحتیں جب سے دنیا وجود میں آئی تب سے نہ صرف مقبولِ عوام رہی بلکہ قابلِ تقلید اور قابل ِ رشک بھی رہی ہیں ـ

              آج   نئی ردیف پر توجہ مرکوز کرنے کا اہم مقصد یہ بھی ہے کہ شعرائے کرام  خودکفیل بنے ـ اپنی زمینیں اپنی ردیفیں اپنے قافیے نکالنے کی جانب پیش قدمی کریں ـ

       ہر عہد کے شعری منظر نامے تبدیل ہوتے رہتے ہیں ـ لیکن فنّی تقاضے اپنی جگہ قائم رہتے ہیں ـ شعرائے کرام کو چاہیئے کہ اردو ادب کو مزید دلچشپ بنانے کے لیے انہیں ابھی مزید محنتیں درکار ہیں ـ اور اپنے تخلیقی الاؤ کو مزید دہکانے کی ضرورت ہے ـ

         ہم برادر توصیف ترنل صاحب  کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ وہ مسلسل ادارہ عالمی بیسٹ اردو  کے ذریعے اردو زبان و ادب کی خدمت کئے جارہے ہیں ـ برق رفتاری کے ساتھ مختلف پروگر امس دیئے جارہے ہیں ـ یہ واقعی تاریخی کارنامہ اور ناقابلِ فراموش خدمتِ اردو ادب ہے ـ جسے وقتِ مستقبل بھی وقتِ حال کی طرح سنہرے حرفوں سے یہ تحریر کرنے میں فخر محسوس کرے گا کہ " محترم توصیف ترنل صاحب  ناقابلِ فراموش شخصیت ہیں ـ "   

     میں آج کے اس مشاعرے میں شریک تمام شعرائے کرام کا شکریہ ادا کرتا ہوں ـ کہ اس منفرد پروگرا م سے ادبی دنیا میں نئی ردیف نکالنے اور نئی ردیف کو اہمیت دینے کا مزاج اور ماحول بنے گا ـ جو ادب کے فروغ ہی کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہے ـ ہم آخر میں اس پروگرام کا  آئیڈیا دینے والے محترم امین اڈیرائی صاحب کو بہت مبارکباد پیش کرتے ہیں ـ


              مقالہ نگار

    **   علیم طاہر ( انڈیا )

(تبصرہ نمبر 10)

***   دیباچہ .. ...................علیم طاہر  (انڈیا)

                                  عالمی پیمانے پر انتخاب شدہ نعتوں کا مجموعہ" نورِ سحر " منظرِ عام پر ہے ـ ماشاء اللہ ـ اس کامیابی کا  دیدہ زیب،  حسین و جمیل اور خوبصورت پاکیزہ سہرہ  محترمہ  دعا علی صاحبہ کے سر بندھتا ہے ـ کہ انہوں نے مسلسل لگاتار یکے بعد دیگرے اردو ادب کے شعری و نثری خزانے میں اضافہ کرنے کا بیڑا اٹھا لیا  ہے ـ وہ آئے دن کوئی نہ کوئی کتاب اپنی ویب سائیٹ پر شائع کرتی رہتی ہیں ـ اور نہ صرف اپنی کتاب بلکہ دیگر  عالمی شہرت یافتہ شعرائے کرام کا انتخاب بھی پیش کرتی ہیں ـ یہ کوئی آسان کام نہیں ـ وقت اور محنت طلب کام ہے ـ ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں ـ اور سلامتی کی دعائیں بھی کرتے ہیں ـ

               دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ یہ اہم کام اپنی مختصراً اہم صلاحتوں پر مبنی ٹیم کے ذریعے انجام دیتی ہیں تاکہ کسی قسم کی کوئی خطا نہ ہونے پائے ـ کیونکہ نعت گوئی بہت ہی احتیاط برتنے والی صنفِ سخن ہے ـ ذرا سی خطا کفر کے دائرے میں پہنچا دیتی ہے ـ

                          اسی لیے  محترمہ دعا علی  صاحبہ نے نظر ثانی کی ذمہ داری محترم شہزاد نیّر صاحب کو سونپی تھی جو انہوں نے بہ حسن وخوبی نبھائی ـ شہزاد نیّر صاحب بھی بے شمار مبارکباد کے حقدار ہیں ـ

                  معاونِ اشاعت محترمہ افروز  رضوی صاحبہ اور صائمہ  جبیں مہک صاحبہ بھی قابلِ مبارکباد ہیں ـ کہ انہوں نے اپنے قیمتی وقت اور صلاحتوں کو کتاب "نورِ سحر " کے لیے وقف کیا ـ

                      محترمہ دعا علی صاحبہ  کا یہ کمال نہ صر ف کمال  ہے بلکہ کارنامہ قرار دیا جانا چاہیئے کہ باقاعدہ ترتیب و پیشکش کے علاوہ منتخب نعتیہ کلاموں کو  کتابی سانچے  میں  کنورٹ کرنا اور ابتدا سے انتہا تک کتاب کو بے شمار بار اپنی کہنہ مشق نگاہوں سے سرچ کرنا اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو مکمل کرتے ہوئے نایاب وقت نکال کر اردو ادب کی خدمت انجام دینا واقعی قابلِ رشک ، قابلِ توصیف اور قابلِ مبارکباد ہے ـ ابھی مزید ان کی کتابوں کا اردو شیدائیوں کو انتظار ہے ـ اللہ انہیں سلامت رکھے ـ

                            علیم طاہر  (انڈیا )

Deebacha ..for.......(kitab noor e saher)...

..by.....aleem tahir. India

(تبصرہ نمبر 11)

دیباچہ ................................علیم طاہر

"بہارِ سخنوراں" تمام عالم کے نظم گو شعرائے کرام کا ایک نایاب  مجموعہ ہے ـ جو ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے چیف اور بانی محترم توصیف ترنل صاحب کا ایک اور نیا کارنامہ ہے ـ انہوں نے ایسے کئی کارنا موں کو انجام دیا ہے ـ

  آج اکیسویں صدی میں الیکٹرانک میڈیا کی رفتار سے سفر کرنے اور اردو زبان کو فرو غ و ترویج دینے والے محترم  توصیف ترنل صاحب  واقعی قابلِ مبارکباد ہیں کہ انہوں نے مختلف الخیال ، مختلف المزاج  شعراء و ادبا ءکو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا اور فروغِ اردو کے مشن کو پا یئہ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرداں ہیں ـ اور بے پناہ کامیاب بھی ـ

"بہارِ سخنوراں" کا انتساب  شہزاد  نیّر  کے نام ہے ـ  جو نظم کے ماہر اور کہنہ مشق ممتاز و عظیم شاعر ہیں ـ

نظم شاعری کی وہ منفرد صنف ہے جس میں کوئی اہم موضوع سے مر بوط تسلسل و تعلق کے ساتھ خیال  کا اظہار کیا جاتا ہے ـ اس طرح یہ غزل کے بر خلاف ہوئی ـ غزل کا ہر شعر دو مصروں میں  اپنی ذات میں  مکمل کہلاتا ہے ـ نظم کے تمام ہی اشعا ر ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہیں ـ

غزل سے ہٹ کر دیگر اصنافِ ِ ادب نظم کی حدود میں ہوتی ہے ـ

         نظمیں مختلف ہیتوں (فارمس) مختلف اسلوب اور مختلف رنگوں میں کہی جا تی ہیں ـ جن میں پابند نظمیں، آزاد نظمیں، معر ّیٰ نظمیں، نثری نظمیں،   وغیرہ کی شمولیت ہے ـ اردو نظم نگاری کی وہی تاریخ ہے جو اردو شاعری کی تسلیم کی جاتی ہے ـ

    "  بہارِ سخنوراں " میں شامل تمام نظمیں مختلف ہیتوں میں کہی گئی ہیں  ـ جنہیں ماہر اور سینئر شعراء کی نظر ِ ثانی سے بھی گذ ارا گیا ہے ـ ہر نظم  جذبات نگاری کے فن سے مزیّن ہے ـ یقین ہے کہ اردو ادب میں اس مجموعے کی پذیرائی ہو گی ـ  

دعا علی صاحبہ  بھی خاص طور پر مبارکبا د  کی مستحق ہے ـ کہ وہ پی ڈی ایف فائل بنا کر اپنی ویب سائٹ پر شائع بھی فر ماتی ہیں ـ امیر الدین امیر صاحب، مائل پالدھوی صاحب، مختار تلہری صاحب  ، کی جہاں دیدہ اور پارکھی نگاہوں سے گزرتے ہو ئے تمام نظموں کا انخاب عمل میں لایا گیا ـ جو قا بلِ مبارکباد ہے   ـ  اس کتاب کے تمام پبلشرز " پرنٹا س" کے مدیر اور الیکٹرانک میڈیا کے اون لائن ویب سائٹ کے چیف  عثمان عاطس صاحب    ،  محترمہ دعا علی صاحبہ بھی قابلِ مبارکباد ہیں ـ

سب سے اہم کردار ادا کرنے والے کہنہ مشق،  تجربہ کار، جہا ں دیدہ،  برق رفتار،  بانی اور چیف محترم  توصیف ترنل صاحب ہیں جنہوں نے اس کتاب کی ترتیب و تہذیب کی ـ اور تو اور  ہم سب کو متحرک کرتے ہوئے نظم کا نام تجویز فرمایا ـ  اور تیز رفتاری کے ساتھ ایک اور تاریخ  نئی مرّتب  کر دی ـ  جو کبھی  فراموش نہیں کی جا سکتی ـ  ہم ان کو مبارکباد دیتے ہوئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں کہ وہ شاد وآباد رہیں اور اسی طرح بے شمار کارناموں سے اردو ادب کو مالا مال  کر نے کا عمل جاری رکھے ـ آمین ـ

                   علیم طاہر  (انڈیا  )

تبصرہ نمبر 12

"علیم طاہر کا تعارف"

"علیم طاہر کی زبانی"

میں علیم طاہر (انڈیا)...... ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر میں ایک دھرن گاؤں نامی گاؤں ضلع جلگاوں میں میں نے آنکھیں کھولیں جو میرا ننھیال اور ددھیال ہے ۔ چونکہ والد محترم ارشد مینانگری صاحب بحیثیت اسکول ہیڈماسٹر سرکاری ملازمت پر مالیگاؤں میں فائز تھے ۔  جہاں انہوں نے اپنے پورے  خاندان کو   منتقل کرلیا اور وہیں کے ہوکر رہ گئے غالباََ وطن ثانی  کے طور پر مالیگاؤں کو تسلیم کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہیں  آج تک شاد و آباد ہیں ۔

والد محترم ارشد مینانگری صاحب نہ صرف کئی ایوارڈ یافتہ صدر مدرس رہے بلکہ اردو ،ہندیاور مراٹھی تینوں زبانوں کے بہترین ممتاز مشہور و معروف شاعر و ادیب بھی ہیں بچپن ہی سے ان کی تربیت میں خاکسار نے اپنے شب و روز گزارے اور شعری شعور پایا۔ ان گنت مشاعروں میں ان کے ساتھ بچپن ہی سے شرکت کے مواقع نصیب ہوئے۔ بے شمار اسٹیج ہے سے والدمحترم ارشد مینانگری صاحب کو مشاعرے لوٹتے ہوئے دیکھا اور تو اور آہستہ آہستہ میں بھی فطری طور پر شاعری کی طرف راغب ہو گیا۔ چونکہ ارشد مینانگری نہ صرف تحت اللفظ بلکہ ترنم کے بھی کامیاب ترین شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔

انیس سو اسی میں شاعری کی ابتدا ہوئی باقاعدہ شعر کہنے لگا اور استاد الشعراء ارشد  مینا نگری  سے اصلاح لینے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ انیس سو تراسی سے  آل انڈیا مشاعروں میں شرکت ہونے لگی اور تحت اللفظ  کے کامیاب ترین شاعرکی حیثیت سے ایک شناخت بن گئی۔ ہنستے کھیلتے میرا بچپن گزرتا رہا۔ میرا غزلوں کی طرف شروع میں رجحان زیادہ رہا آہستہ آہستہ ہمہ اصناف شاعری کی تمام ہنرمندیاں محترم ارشد مینا نگری سے  سیکھنے کو ملنے لگیں ۔  مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرنے کے مواقع نصیب آئے ۔ اب تک ہر صنف سخن پر خاکسار نے طبع آزمائی کر کے الگ تھلگ اور منفرد شناخت بنا لی ہے۔

ماشاءاللہ تعلیمی لیاقت میں اضافہ ماحول کی دین اور والد محترم ارشد مینانگری اور والدہ محترمہ حلیمہ بی کی تربیت کا بہترین نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

2003 میں ایم اے پونا یونیورسٹی سے فرسٹ کلاس اردو میتھڈ میں کامیابی مل چکی تھی،  بعد میں دوسرا ایم اے اردو ہسٹری

اور تیسرا ایم اے ایم اے ان  ایجو کیشن کے بعد بی ایڈ اردو ہسٹری ۔۔۔ پونے یونیورسٹی سے نمایاں کامیابی حاصل کر لی۔  ساتھ ہی ساتھ راجستھان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لئے ایڈمیشن لے کر نئی اصناف سخن موضوع پر پی ایچ ڈی بھی مکمل کر لی۔ صرف ڈگری کا ہاتھ آنا باقی ہے۔

      صحافت بھی کالج عہد سے نمایاں طور پر جاری رہی اور باقاعدہ صحافت پر بھی ڈپلومہ کورس کر کے جرنلزم کی سند حاصل کر لی۔ کمپیوٹر کے ایم ایس سی آئی ٹی،  کورس اور ڈی ٹی پی ، کورس بھی سرکاری طور پر  مکمل کر لئے۔

        2008 سے ممبئی میں ایک ڈی ٹی ایڈ کالج میں بحیثیت لیکچرار اپوائنٹمنٹ ہوگیا ۔ جہاں مشہور فکشن رائٹر اور ناول نگار رحمن عباس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد انجمن خیرالاسلام کے ایک کالج اور اردو  ہائی اسکول میں اپوائنمنٹ ہوگیا جہاں 7 سال ایچ او  ڈی اور اسسٹنٹ ٹیچر کی حیثیت سے کامیابی کے ساتھ گزرے۔ بعدازاں دا بھول رتناگری میں ٹرانسفر ہو گیا۔ یہاں آنے کے بعد ترقی کی راہیں مزید ہموار ہوں گیء ۔ اس ہائی اسکول کی پچاس سالہ تاریخ میں ایک نئی تاریخ مرتب ہوئ  پونے ایس ایس سی بورڈ میں باقاعدہ خاکسار کو نصابی میٹنگوں میں دعوت دی گئی اور بحیثیت اصلاح کار دسویں کی کتاب میں مشیر خاص کے حیثیت سے نوازا گیا۔اور ضلع رتناگری میں ٹیچر اور ہیڈ ماسٹرز کی رہنمائی کے لئے آر پی کے عہدے سے بھی سرفراز کیا گیا مختلف پروگراموں میں خاکسار نے  نئی تعلیمی پالیسیوں پر اپنے لیکچرز کے ذریعے تعلیمی بیداری پیدا کی ۔  واٹس اپ گروپ کے بےشمار آن لائن مشاعروں کی نظامت اور اون لاین کتابوں کی نثر و اشاعت خاکسار کے ذریعہ عمل میں آئی۔ مختلف دینی و ادبی تنظیموں کی سربراہی نصیب ہوئی۔ موجودہ دور میں برائیوں پر قدغن لگانے کے لیے بھی میری شناخت تسلیم کی گئی۔ محترمہ دعا علی صاحبہ کے ساتھ  آون لاین ماہ نامہ  باب دعا کراچی اور آفتاب احساس انٹرنیشنل میگزینز   کی اشاعت میں بحیثیت نمایاں مدیر اعلیٰ ،  مدیر، اصلاح کار اور مشیر خاص کے طور پر   کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ اور مزید مفید و اہم  سرگرمیاں اب بھی جاری و ساری ہیں ۔

        کالج کے زمانہ طالب علمی  سے ہی  مجھے ممبئی جیسے عروس البلاد شہر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے بے شمار مواقع نصیب ہوئے چونکہ صحافتی اور تصنیفانہ  مزاج بڑا کام آیا۔ کئی فلموں میں گیت لکھنے کے مواقع نصیب ہوئے، کیء سریلیس میں مکالمے لکھنے کے مواقع نصیب ہوئے اداکاری اور ہدایتکاری کے بھی  مواقع نصیب ہوئے، مالیگاؤں جیسے صنعتی شہر میں انیس سو ستانوے میں ایک پیروڈی فلم مالیگاؤں کے شعلے بنائی گئی جس میں خاکسار نے ہیرو دھرمندر کا رول ادا کیا اور تو اور اس میں چیف ہدایت کار کے طور پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ اس فلم کو ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل ہوئی  اس کے ڈایریکٹر میرے دوست ناصر شیخ تھے ۔ مختلف ملکوں اور شہروں کی  تنظیموں سے بےشمار انعامات حاصل ہوئے ۔ خاکسار کو بہترین اداکار اور ہدایت کار کے طور پر بھی گہری شناخت حاصل ہوئی۔

      خاندیش کے دل والے دلہنیا لے جائیں گے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہوں ۔ ٹارزن کی بارات میں چیف ڈایریکٹر اور ایکٹر رہا ۔ ۔۔توسے کا کرے کے ، فلم میں بھی مہمان خصوصی کے طور پر شامل رہا ۔  گبر چاچا ، فلم میں بھی ہیرو کا کردار نبھایا۔ اور بھی کئی  فلمیں ہیں جن میں خاکسار کی نمایاں شمولیت رہیں۔

خاکسار نے اے ایم این پروڈکشن انٹرنیشنل کے زیر نگرانی فلمیں بھی بنائیں جس میں مالیگاؤں ٹو دبئی،   women, اور ریکامے  پوریا کے بول بچن۔ وغیرہ ۔


(C)


Aleem Tahir"

Email: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923


Email"

: 2402:8100:23CF:8C35:AC4E:75D6:7E73:1056 14:40، 17 نومبر 2023ء (م ع و)

" ہائیکو رنگ" علیم طاہر کا ہائیکو پر مشتمل دلچسپ مجموعہ ۔

ترمیم

ہائیکو.......علیم طاہر...........(..ھائیکو رنگ .)....سے ماخوذ...

                *   ہائیکو رنگ *

                      (شعری مجموعہ ).......علیم طاہر

                           

                                                                 25

کیا کھویا کیا پایا

آؤ جشن منائیں ہم

نیا سال آیا

                                                                 26

دنیا کی دشمن

آؤ اس سے لڑنا ہے

دہشت ہے الجھن

                                                                27

تیرے ہونٹوں میں

دل کھویا  ہے جانِ من

تیری زلفوں میں

28

تجھ سے چاہت ہے

ڈھونڈ رہا ہوں مل جا تُو

دل میں حسرت ہے

29

نئے برس پر ہم

منفی سوچیں کیوں رکھیں

بھولیں سارے غم

30

اس بے دردی کو

آؤ مل کر ختم کریں

دہشت گردی کو

31

ہر لمحہ اک جنگ

کرتا ہے انسان یہاں

ہستی تیرے سنگ

32

ہر دھڑکن معروف

سینے میں دھڑکے ہر پل

دل کتنا مصروف

33

برساتوں میں دھول

دور گئے سارے بادل

کھلیں گے کیسے پھول

34

کب بدلے منظر

کٹتے ہیں انسان یہاں

ریل کی پٹری پر

35

عام ہوا یہ کھیل

پٹری کے اوپر دیکھو

دوڑ رہی ہے ریل

36

ہم دونوں کا میل

ہو جائے تو کیوں بولوں

یہ جیون ہے جیل

37

تنہا نہ جلنا

اپنا کر دعت میری

سنگ مرے چلنا

38

کھیل نہ کھیلو تم

جو چاہو میں دیتا ہوں

آؤ لے لو تم

39

خوشیاں ہیں من میں

آئے جب سے تم ساجن

میرے جیون میں

40

آنسو آنسو میت

غم جس کو مل جائیں گے

ہو گی اس کی جیت

41

مجھ کو چھوڑ دیا

روح سے میری سانسوں نے

رشتہ تور دیا

42

چل آگے کو چل

راہی کیوں رکتا ہے تُو

کہتا ہے ہر پل

43

تم پر ہے وشواس

چھوڑ گئے سارے ساتھی

تم ہو میرے پاس

44

روح معّطر ہے

تیرے ریشم لہجے سے

چہرہ سندر ہے

45

شدّت کی ہے پیاس

کب برسے گا بادل تُو

روتا ہے احساس

46

پڑھتا جا لا حول

دل کے اندر پائے گا

نورانی ماحول

47

دل میرا معصوم

پیار کرے ہے دشمن سے

پیار سے ہے محروم

48

کرتے کرتے کام

اب تو تھک جاتے ہیں ہم

صبح سے ہو گئی شام

49

جانے کیوں مرے یار

دل میں کھڑی کر لیتے ہو

نفرت کی دیوار

50

جاؤ آگے جاؤ

پیچھے مڑ کر مت دیکھو

پاؤ منزل پاؤ

51

سچ تو ہوتا سچ

بول کے پگلے جھوٹ ابھی

کیوں تُو کھوتا سچ

52

تنہا ہو کر پیڑ

گاتا ہے نغمہ غم کا

دیکھو رو کر پیڑ

53

وعدہ توڑ گئے

پت جھڑ میں تنہا ہے پیڑ

پنچھی چھوڑ گئے

54

قلب کرے مخمور

جانم تیرا سچّا پیار

اندھیارے میں نور

55

مخلص بن کر جی

عیب نہ گنوا لوگوں کے

اب ہونٹوں کو سی

56

بول مگر یوں بول

سوچ لے پہلے کہنے سے

لفظ لفظ کو تول

57

ہم دونوں اک سنگ

مل کر خوب جمائیں گے

رنگ برنگے رنگ

58

من مانی نہ کر

اک دن تجھ کو مرنا ہے

مرنے سے تو ڈر

59

ہرگز یہ نہ بھول

توڑ کے لاتا ہے مالی

گلدستے کے پھول

60

گزرا پچھلا سا ل

دل کو ہے امیّد یہی

اب بدلے گا حال

61

تجھ سے بچھڑ کر دل

تڑپ تڑپ کر روتا ہے

ڈھونڈے ہے منزل

62

سایہ سایہ دھوپ

کیسی قسمت پائی ہے

سکھ بھی غم کا روپ

63

نفرت کے منظر

آنکھوں آنکھوں چھلکے ہے

ہر دل ہے پتّھر

64

کب تک دیکھیں خواب

لمحہ لمحہ امّیدیں

دنیا سہے عذاب

65

دشواری ہر پل

میلوں چلنا ہے لیکن

چلتے ہیں پیدل

66

آؤ میرے پاس

دنیا سے کیا مطلب ہے

تم ہو مجھ کو راس

67

دل کا سونا پن

اب آ جاؤ جلدی تم

ہر پل ہے الجھن

68

سپنے بنتے ہیں

ہم پھولوں کی آس لیے

کانٹے چنتے ہیں

69

بادل چھا جائے

دھرتی ہے پیاسی کب سے

بارش آجائے

70

دل تو ہے انمول

تُو اس کے اندر ناداں

زہر کبھی نہ گھول

71

پیار کے دیپ جلا

کبھی بجھا نہ پائے گی

گاؤں کی تیز ہوا

72

خوش ہے میرا من

پیپل کے نیچے طاہر

آئے گا ساجن

73

گلشن گلشن دھول

گر بارش آجائے تو

کھل جائیں گے پھول

74

بیٹھو میرے پاس

دنیا نے ٹھکرایا ہے

تم پر ہے وشواس

75

دل میں ہے اک راز

بولو تو میں کھولوں گا

تم ہو دھوکے باز

76

فن میرا ہتھیار

میں شعروں سے کرتا ہوں

دشمن پر یلغار

77

ندیا کے اس پار

کیوں کرتی ہے گوری تُو

چلنے سے انکار

78

برگد کے نیچے

بابو کب سے آیا تُو

کٹیا کے پیچھے

79

کیا تیرا لہجہ

دوپہر کی گرمی میں

جھرنوں کا نغمہ

80

اب کس کو چاہوں

مجھ کو لوٹ کے جاتا ہے

میں جس کو چاہوں

81

دنیا اس کے پاس

لیکن وہ ہمدرد نہیں

پھر کیوں رکھو ں آس

82

تُو ہے میرے سنگ

آجا مل کر ہم دونوں

خوب جمائے رنگ

83

کر لوں ہر وعدہ

دل تجھ کو دل سے مانے

دل کا شہزادہ

84

پیار بڑا انمول

نادانی نہ کر اس میں

زہر کبھی نہ گھول

85

کتنا ہے مسرور

اس کا روشن چہرہ ہے

جو نفرت سے دور

86

مجھ کو کہہ کر یار

نہ جانے کیوں لفظوں کی

وہ مارے  تلوار

87

جو جانی دشمن

من میرا پاگل اس کو

مانے ہے ساجن

88

رک جاؤ نہ یار

پیار سے میری آنکھوں میں

بس دیکھو اک بار

89

میں تو گیا دل ہار

جانے کیا جادو مجھ میں

دشمن میرا یار

90

دل نے کھائی مات

آنکھوں سے شب بھر طاہر

پھر ہو گی برسات

91

تُو ہمّت نہ چھوڑ

تیری ہمّت سے لڑنے

آئیں گے کچھ موڑ

92

ہوگی تیری جیت

تنہا تنہا جینا کیا

چن لے اپنا میت

93

تیرا میرا پیار

جب تک رہے سلامت تو

باقی ہے سنسار

94

خود میں کر ترمیم

ہر خامی سے نا طہ توڑ

بن جا اک تنظیم

95

نفرت ہے تذلیل

پیار محبّت کے اجزاء

دل میں کر تحلیل

96

کرتا ہوں تعظیم

تُو جیسا بھی ہے دلبر

مجھ کو ہے تسلیم

97

اب کیسی الجھن

لوٹ کے نہ جاؤں گا میں

اے میرے ساجن

98

کوئی نہیں معصوم

کب ٹوٹے سانسوں کی ڈور

کس کو ہے معلوم

99

میں تم سے مل کر

کیسا خوش ہوں دیکھو تو

گل جیسا کھل کر

100

گرمی کا موسم

جانے کب آئے بارش

گاؤں میں ہے غم

101

دنیا بدلے رنگ

کیوں وعدوں سے پھر جاؤں

آؤ میرے سنگ


(Haaeko).................101..........by  Aleem Tahir

(C ).

Aleem Tahir

Email: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no.9623327923.

106.66.28.88 15:52، 17 نومبر 2023ء (م ع و)

" لفظ لفظ چنگاری جیسا " علیم طاہر کی پچیس محاکاتی غزلوں کا دلچسپ مجموعہ ۔

ترمیم

" لفظ لفظ چنگاری جیسا "

                  (شعری مجموعہ)

(علیم طاہر کی محاکاتی پچیس غزلوں کا مجموعہ)

پیش لفظ :

اکیسویں صدی میں غزل نے میرے پاس آکر اپنے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لیا ہے.. اور محاکاتی رنگ و روپ دھار کر ایسے الفاظ جو اپنا کوئی روپ یا اپنی کوئی شکل نہیں رکھتے ان کو تخلیق کار روپ اور شکل سے آراستہ و پیراستہ کرے. میرے نزدیک یہ محاکاتی منظر نامہ ہے. جیسے نیند کی کوئی شکل نہیں ہے یاخواب کا ایک روپ نہیں ہے تو شاعر اسے شکل اور روپ سے مزین کرے وہ محاکاتی پیکر کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے مثلاً...

نیند لٹکی ہوئی رہتی ہے کلینڈر پہ مری

روز بستر پہ مرا خواب پڑا رہتا ہے

شاعری ہر عہد میں اپنی الگ تھلگ شناخت پیش کرتی ہے. حکایت، محاکات اور محاکاتی الفاظ ایک دوسرے سے منسلک ہیں. ان کے ذریعے  محاکاتی غزل یامحاکاتی کلام کا ہر شعر اپنی نئی شناختی تصویر پیش کرتا ہے. جسے پڑھنے، سننے کے بعد قاری یا سامع کو ایک الگ لطف ملتا ہے بلکہ دعوتِ فکر بھی ملتی ہے، کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق لفظی معنیٰ اخذ کر لے، اور سوچ کینوس کی کائنات میں خوشگوار سفر کرتا رہے.. نہ تخلیق کار کی جانب سے کوئی دباؤ پڑے نہ سکہ بند محدود نظریات اور غیر ضروری نفسیاتی پابندی عائد ہو،  کہ ایک محاکاتی شعر سے پھوٹنے والی ہزارہا کرنیں اپنی منفرد آب و تاب رکھتی ہیں.

                     علیم طاہر

                    11 /04/2023

فہرست :

01 سے 25.... محاکاتی کلام

::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

01:  محاکاتی غزل..... ..علیم طاہر  ( انڈیا)

  میں نے پھینکے تھے اجالے، بہہ رہے ہیں نور سے

  وقت جیسے  بُت  بنا ہے ، لمحے   ہیں  مخمو ر سے

میں  اندھیروں کی  گپُھاؤ ؤں  سے  نکل کر آ گیا

دیکھتا  ہوں  چاروں  جانب غم بڑے مسرور  سے

شام  ہوتے ہی  صدائیں رقص کرتی  ہیں یہاں

اچھّے لگتے  ہیں سہانے  ڈھول سارے  دور   سے

اے ترقّی!   وقت جب سے ساتھ  تیرے  چل پڑا

سارے  لمحے  ہو  گئے   ہیں   کسقدر  معذور   سے

قتل  کر  لیتے  ہیں   خود  کا   ، قتل کرنے  کے لیے

  ہم اجالوں  کو  اندھیرے   دیکھتے   ہیں   دور   سے

اشک  کے  سیلاب  طاہر    روک  رکھّے  ہیں  ابھی

اور   ہے  الزام  ان  کا  ،  ہم  بڑے  مغرور   سے

02: محاکاتی غزل

                علیم طاہر

یاد تری اک لوکل ٹرین کے جیسی ہے

لمحہ   لمحہ   آتے   جاتے    رہتی   ہے

چرچ گیٹ کا اسٹیشن  ہے  دل  میرا

فضا فضا میں تیری خوشبو بہتی ہے

چنچل زلفوں جیسا ساحل ممبئی کا

پانی کی ہر  لہر  لہر  میں  مستی  ہے

مٹرو  جیسا  سفر  ہے ، تیرا  اور  میرا

مالیگاؤں سا میں ہوں اور تو ممبئی ہے

ٹکٹیں  لے  کر اکثر   میں  آ   جاتا    ہوں

پی وی آر سی تجھ میں پکچر چلتی ہے

بیٹھ کے چسکی چسکی پیتا رہتا ہوں

انفینٹی  کی  گرم   گرم  تو  کافی  ہے

پب  کی  موسیقی  سا  رنگیں  تیرا دل

رم کے جیسی دل کی خواہش بہکی ہے

دادر کی اک بھیڑ  کے  جیسا  تیرا  غم

نیرول اسٹیشن سی مجھ میں چپپی ہے

مجھ میں نالا سوپارا سا ہے  پھیلاؤ

میرا روڈ سی تو بھی ملتی جلتی ہے

تو  ہے  پیور  دودھ  طبیلے  کا  طاہر

وہ بھی ناگوری کی چائے میٹھی ہے

03: محاکاتی غزل

علیم طاہر

ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے

تانے بانے جملوں سے

دل سے دل جو بچھڑ رہا تھا

رنگ اڑے تھے لفظوں سے

لفظ لفظ چنگاری جیسا

دل پر لگتا جاتا تھا

تم تو بچھڑ گئی تھی، میرے

لمحے کھڑے تھے بیلوں سے

ہلکی ہلکی موسیقی سے

تجھ میں مجھ میں دھوم مچی

دھوپ کے جیسا تیرا چہرا

روپ بدلتا کرنوں سے

تو نے اپنی روح الٹ دی

میری روح کے پیالے میں

اس کے بعد تو جشن بپا ہے

خاموشی کے لہجوں سے

تیری میری رگ رگ میں اب

عشق پھرے محلول بنا

فلک دھواں سا ابھر رہا ہے

ہم دونوں کے رشتوں سے

تیرے لیے تو میں لایا تھا

کائنات کے جیسا خواب

اور دل کی دنیا ٹپکا دی

تو نے نازک پلکوں سے

میرے سفر کی ہر رفتار میں،

خواب بندھے ہیں بجلی سے

میری اٹیچی میں لمحے ہیں،

سورج چاند ستاروں سے

موبائیل نے باندھ لیا ہے

انسانوں کی آنکھوں کو

بچوں جیسے بہل رہے ہیں،

بوڑھے برقی کھیلوں سے

دنیا، دولت، خواب، خزانہ،

جاؤ رکھو اپنے پاس

دل تو اوب چکا ہے طاہر

ان چمکیلی چیزوں سے

04 :محاکاتی غزل ۔۔۔علیم طاہر

الفاظ سے لہجوں کے رویّے خفا  سے  ہیں

خوش رنگ تخیل کے جزیرے دعا سے ہیں

میرا   نظام ، ضم  ہے  ،  ترے  ہر  نظام   سے

سانسوں کے گہرے رابطے تیری ہوا سے  ہیں

جانے    یہ  کس   کگار  تلک  آ  گیا  جنون !

اب تو زہر کے گھونٹ بھی میٹھی دوا سے ہیں

قسمت کے چاک پر ، ابھی رکھی  ہے   کائنات

اس پہ ستم کہ  لمحے بھی کرب وبلا سے ہیں

وہ گل رخاں سے لگتے ہیں  مسرور جہاں میں

طاہر وہ  جو  بھی  منسلک  ا پنے خدا  سے ہیں

05:محاکاتی غزل ۔۔علیم طاہر (انڈیا)

عشق کی دھن میں آوازوں کا پیکر کھوتا جاتا ہے

لفظوں کے شیتل  پانی  سے  لہجہ  دھوتا  جا تا ہے

دستک تھک کر ہانپ  رہی ہے امیدیں دم توڑ  رہیں ،

سبز ،سنہرا موسم مجھ میں پت جھڑ  ہوتا جاتا ہے

سوچ  کینوس  پر ماضی  کے منظر  آتے  جاتے ہیں

خوابوں کا احساس اونگھتا نیند میں سوتا جاتا ہے

ہریالی سے  رنگ برنگے  پنچھی  نغمے  گاتے   ہیں

تیری  جدائی کا ہر  لمحہ مجھ  میں روتا جاتا ہے  

طاہر دھڑکن دھڑکن دل میں آس لیے سونے چاندی کی

کھلیانوں  کا وقت  زمیں  میں محنت بوتا جاتاہے

06:محاکاتی غزل ۔۔۔علیم طاہر (انڈیا )

ادھڑی ادھڑی نیندوں میں ہیں  بکھرے بکھرے خواب

ملبے   جیسے   ادھر  ادھر   ہیں  سہمے   سہمے   خواب

وقت بھی اب  تو  میرے  جیسا  لاگے   دیوانہ

پلک جھپکتے دیکھ رہا ہے بیٹھے بیٹھے خواب

لمحہ لمحہ کنول کنول سا روپ لیے مسکاءے

جھیل جھیل کے پانی جیسے ٹھہرے ٹھہرے خواب


فضا فضا غمگین سروں میں گاتی ہیں نغمے

آنسو جیسے ہنس پڑتے ہیں بہتے بہتے خواب

بچوں جیسے جھانک رہے ہیں بوڑھی آنکھوں سے

بچپن جیسے کچے پکے اچھے اچھے خواب  

رستے رستے ڈھونڈ رہی ہیں  امیدیں تعبیر

میرا  تصور دیکھ  رہا ہے چلتے چلتے خواب

تھکی تھکی سی  حسرت دوڑے خوابوں کے پیچھے

آگے آگے میں چلتا ہوں پیچھے پیچھے خواب

مجھ کو محبوبہ سے ملنے چاند پہ جانا ہے

میں  سستا ہوں پھر بھی دیکھوں مہنگے مہنگے خواب


خوابوں کی تعبیر کے پیچھے منطق کا عالم

سیدھا رستہ دکھلائیں گے بہکے بہکے خواب

کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ دستک سن کر جاگی ہے امید

میرے در تک آ پہنچے ہیں پھرتے پھرتے خواب

میرے ذہن کا حکم ملا ہے ان کو سلجھاؤں

میری میز پہ کس نے رکھے الجھے الجھے خواب

07:محاکاتی غزل ۔۔۔۔۔۔۔علیم طاہر

ہو بہو , ہرا بھرا  ،  مرا  خواب  ہے

ترے حسین روپ سا،  مرا خواب ہے

مری نیند طاقچے کی اک ، چراغ سی

ہوا ہوا  گھلا  ہوا  ،     مرا  خواب  ہے

کوئی دستکیں تو دے رہا ہے، دیر سے

وہ دھڑکنوں سا جاگتا، مرا خواب  ہے

مری یاد کی تو اوٹ سے ، نکل بھی اب

نظر  نظر   ہجوم  سا ،   مرا  خواب  ہے

سسک رہی ہیں حسرتیں ، ہر ایک پل

سراپا اک امید  سا ،     مرا خواب ہے

میں گھر میں قید جیل سا ،  پڑا ہوا

دریچے سے وہ جھانکتا مرا خواب ہے

یہ زندگی ہے دھوپ گرم،  صحرا کی

وہ سائے سا گھنا گھنا،  مرا خواب ہے

میں آسماں دھنک دھنک، دکھائی دوں

زمیں کا رنگ  برنگا ،     مرا خواب ہے

ہوا  ہوا   سفر   کروں ،     میں  " کائنات "

رہوں میں سانس سانس کا ، مرا خواب ہے

وہ   "طاہر۔ ہوا " سا  مجھ  میں  گھل   گیا

مری آنکھ میں کیا دیکھتا ،  مرا  خواب  ہے

08:محاکاتی غزل۔۔۔۔علیم طاہر (انڈیا)

ظرف  ہر بار  ا گر ضد پہ  اڑ ا  رہتا  ہے

حق بہ جانب ہے جو دنیا سے لڑا رہتا ہے

کچی بستی میں رہے یا کہ رہے محلوں میں

رتبہء  عشق   بہر   حال     بڑا     رہتا    ہے

نیند لٹکی ہوئی رہتی ہے کلینڈر پہ مری

روز بستر پہ  مرا   خوا ب  پڑا  رہتا  ہے

بےحسی ہے کہ نہیں کھولتی دروازے کو

دے کے دستک مرا احساس کھڑا رہتا ہے

تھام  لیتا  ہے  ترا  ہاتھ  مرے  ہاتھوں  کو

جب کوئی وقت کبھی مجھ پہ کڑا رہتا ہے

ذہن و دل سے وہ نکلتا ہی نہیں ہے طاہر

پھانس کی طرح تخیل میں گڑا  رہتا ہے

09:محاکاتی غزل  ...علیم طاہر

جھیلوں سی آنکھوں سے چھلکے سرگم  سا احساس

تم آ ئے تو خوشی بنا ہے ہر  غم سا احساس

لوبانوں سی خوشبو جیسی مہکے تیری یاد

دھڑکن دھڑکن سلگ رہا ہے مدھم سا احساس

ماضی کے لمحوں کو دیکھوں رنگ برنگا میں

میرے تخیل کے پردے پر البم سا احساس

گرگٹ جیسا اکثر مجھ سے رنگ بدلتا ہے

روٹھ رہا ہے دیکھو مجھ سے بالم سا احساس

نفرت اپنی آنکھیں پھاڑے طیش دکھاتی ہے

پتھر جیسا سخت ہوا ہے ریشم سا احساس

میرے سارے زخم مٹے ہیں تیرے چھونے سے

تیرے طلسمی ہاتھ میں پایا مرہم سا احساس

مجھ کو تیرے سنگ چلائے جانے کتنی دور

تیری پیاری باتوں میں ہے  ہمدم سا احساس

میرے دہکتے جذبے جس سے برف ہوئے طاہر

جگنو جیسے آنسو  میں ہے  شبنم سا احساس

10:محاکاتی غزل۔۔۔۔۔۔علیم طاہر (انڈیا)

بات بے رنگ ہے لفظوں میں دلکشی بھی نہیں

تیرے لہجے میں طلسماتی روشنی بھی نہیں

کھردرا بھدا سا  پھیکا سا کیوں لاگے ماضی

تیری یادوں میں کچھ احساس مخملی بھی نہیں

رت  جگے  رات کو کٹنے  کہاں  دیتے   جلدی

اونگھتی صبح  ہے  اور  شام  منچلی بھی نہیں

  موسموں   کا  بھی ہے کردار   رقیبوں  جیسا

کوئی موسم  کو طبیعت سے دلبری بھی نہیں

اپنی آنکھوں میں اداسی ہے خزاؤں جیسی

اپنے اندر کوئی وادی ہری بھری بھی نہیں

چلتے پھرتے ہوئے انسان ہیں طاہر دیکھو

زندہ آتے ہیں نظر اور زندگی بھی نہیں

11: محاکاتی غزل.... علیم طاہر

اندھیرا  اوڑھ  کے ، بیٹھا  اجالا

بدل    کر    آ  گیا  ، چولا،  اجالا

مسلسل دوڑتی ہے سوچ   میر ی

تصور   میں   نیا    پھوٹا  ، اجالا

اندھیرا  دل مرا  روشن  ہوا  ہے

انوکھا   ہے   ترا     لہجہ   اجالا

مرا اندر سے دم گھٹنے لگا  تھا

مری آنکھوں سے بہہ نکلا اجالا

اندھیرے دیر تک رہتے نہیں ہیں

اندھیری شب کٹی ، چہکا اجالا

مرے دل نے مجھے دھوکا دیا ہے

تجھے اے دوست سمجھا تھا ، اجالا

وہ اک آواز کیا اتری ہے مجھ میں

  میں سر سے پا ہوا  پورا اجالا

یہ دنیا  جگمگا  اٹّھی  ہے  طاہر

مری مٹھی سے کیا پھسلا اجالا

12:محاکاتی غزل  علیم طاہر (انڈیا)

لگے ہے صدیوں کا،  ہے تو ابھی کا  سنّاٹا

تیرے جاتے  ہی ،  بڑھا  زندگی  کا  سنّاٹا

برابر  چیختا رہتا  ہے  کسی " پاگل"  سا

یہ میرے کمرے میں تیری کمی کا سنّاٹا

ترے   بغیر  سماعت کو جلاتا  ہے  مری

کسی چرواہے کی اک بانسری کا سنّاٹا

یہ اپنی ذات میں کیا شور ہے سناٹوں کا

ابھی سے چیخ  پڑا اس صدی  کا  سنّاٹا

یہ مجھ  میں جیسے  تپسیا  کرےکوئی دوجا

بڑے   سکون    سے  بیٹھا    کبھی   کا   سنّاٹا

خموش  ہو  گیا  چنچل  سا اک   گھنا جنگل

سنا  جو  دور   سے   بہتی  ند ی  کا   سنّاٹا

ابھی بھی گونج رہا ہے میری سماعت   میں

تیری  ویرا ن سی  زخمی ہنسی   کا   سناٹا

یہ تو نے  ریل کی  کھڑکی  سے  بس  ہلایا  ہاتھ

  یہ مجھ میں  گو نجے ہے دل کی  گلی کا  سناٹا


13 :محاکاتی غزل۔۔۔۔علیم طاہر (انڈیا)

دل کی حسرت پھر رہی ہے روشنی پہنے ہوئے

آس چھپ کر ہنس رہی ہے تیرگی پہنے  ہوئے

میں اداسی اوڑھ کر لیٹا ہوا ہو ں ریت پر

وقت مجھ سے ملنے آیا زندگی پہنے ہوئے

کاش لمحو ! آئینے پر ا ک نظر ہی  ڈالتے

کتنے بوجھل لگ رہے ہو تم خوشی پہنے ہوئے

میں تو اک امید ہوں سنجیدگی میرا مزاج

ہنس پڑی بینائی میری پھر نمی پہنے ہوئے

حسن نکلا گھر سے باہر مشتہر ہونے لگا

پھر شرافت آگئی آوارگی پہنے ہوئے

کچھ مشن لے کر چلے ہیں دائروں میں سوچ کے

ہر شرارت دیکھئے بےچارگی پہنے  ہوئے

ان گنت فتنوں سے طاہر کس طرح بچ پائے گی

زندگی عورت کے جیسی  آدمی پہنے  ہوئے

14 :محاکاتی غزل۔۔۔۔علیم طاہر

جب پڑ جائے پھیکا لہجہ، دبے دبے  الفاظ

پیلے پیلے پڑ جاتے ہیں ہرے بھرے الفاظ

بے دم  ہو کر  رستے  میں  ہی  سستانا پڑتا

منزل کیسے پا جائیں گے تھکے تھکے الفاظ

دل میں جا کر وار کرے ہیں ہر دھڑکن پر یہ

نشتر ،خنجر، تلواروں سے جلے کٹے الفاظ

کر لیتے ہیں دھڑکن دھڑکن اپنی مٹھی میں

مخمل اور ریشم کے جیسے سجے سجے الفاظ

سکھ پانے کو دنیا ان سے  بھاگے کوسوں دور

جو من کی جھولی میں رکھے سڑے گلے الفاظ

بند کرو  بکواس تمہاری ،  دیوانے کی بڑ

پھر آواز میں لے کر آئے گھسے پٹے الفاظ

آنکھوں سے بھی عیاری کے رنگ چھلکتے ہیں

کیسے دیں گے ساتھ تمہارا ڈھکے چھپے الفاظ

سامنے آکر جب ہم دونوں کہتے ہیں دل کی

گڈ مڈ گڈ مڈ ہو جاتے ہیں ترے مرے الفاظ

دن جیسا روشن کرتے ہیں دل کی دنیا کو

اجلے اجلے جگمگ جگمگ کھلے کھلے الفاظ

ہیرے  جیسے  تیرے  دل کا   ایک  تعارف  ہے

پاک چمکتے دودھ کے جیسے دھلے دھلے الفاظ

نرم شگفتہ سرگوشی سی آوازوں میں تم

برسوں بعد بھی آئے لے کر کٹے پھٹے الفاظ

جن سے عزت پا جاتے ہیں ان کو دے  عظمت

عزت کی خواہش رکھتے ہیں گرے پڑے الفاظ

بے الفاظ کی آوازیں ہیں شورو غل طاہر

لہجوں کی پہچان بنے ہیں نپے تلے الفاظ

  15 :محاکاتی (ریختی نظم)

عورت کی فریاد        علیم طاہر (انڈیا)

میں ہوں عورت مری فریاد سنو

میں  نے  ہر گھر کیا  آبا د  سنو

بہو بیٹی ہوں  بہن ماں ، میں  ہی

رشتے رشتے کے درمیاں ، میں ہی

میں  ہی قربا نیوں کا  پیکر  ہوں

میں  ہی  ا نسانیت  کا  زیور ہوں

پھیکی  پھیکی  ہے  زندگی  مجھ  بِن

غم کے  جیسی  لگے خوشی مجھ  بِن

ہر اک خاکے میں رنگ میرا ہے

ز ند گا نی  کو   سنگ  میرا   ہے

پھر بھی ہر امتحاں سے  گزروں میں

سوچتی  ہوں  کہاں سے گزروں میں

بعد  صدیوں  کے  میں  محفوظ نہیں

پر سکوں   کوئی  تو  مسکن   ہو  کہیں

کرب  سمجھے   ہر  ایک  فرد   مرا  

درد   سمجھے  ہر  ایک   مرد   مرا  

نہ   کہانی   نہ   ہی   فسانہ    میں

مجھ  کو  سمجھو  نہیں  معمّہ    میں

میں  ہوں  انسان  ایک  عورت  ہوں

میں  محبّت  ہوں  ،   میں  محبّت  ہوں


  16:محاکاتی غزل... علیم طاہر

آنکھ میں نیند کو لاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

خواب آنکھوں سے اڑاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

لاکھ دھواں سے بھی تصویر نہ بن پائی تری

اب میں سگریٹ بجھاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

واٹس ایپ پر ترا مسیج بھی نہیں آتا ہے

تجھ کو میں کال لگاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

دستکیں کون یہ دیتا ہے  مسلسل دل پر

میں تو اندازہ لگاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

مدتیں بیتیں بھلا کیوں نہیں چھوٹے امید

خود کو بستر پہ  میں لاتے ہوئے تھک جاتا ہوں

17 :محاکاتی ضوقافیہ غزل.... علیم طاہر

مفلسی کے دور میں تھا معتبر کیسا لباس

عیش  ہے  اب تو  مقدر دربدر  اپنا  لباس

بھوک دیکھو، پیرہن تبدیل کر کے  آ گئی

جسم چمکے آسماں سا مختصر اجلا لباس

تیری آنکھیں داستان عشق کا روشن ثبوت

خوبصورت شخصیت کا سر بہ سر چہرا لباس

ہم لباسوں کے حوالے باخبر خوش باش ہیں

ہر صدی میں تن بدن کا راہبر ٹھہرا لباس

محنتوں کا دیوتا ہے عطر میں بھیگا ہوا

جسم پر مزدور کے ہے تر بتر ایسا لباس

18 :غزل..(ماں)..نمبرعلیم طاہر

گھنیرے پیڑ کی ٹھنڈی ہوا سی چھاؤں لاگے ماں

سدا سورج نکلنے سے ہی پہلے گھر میں جاگے ماں

نہیں کھانے کی ضد میں بھاگ پڑتا ہے کبھی بچّہ

نوالہ لے کے اس بچّے کے پیچھے دیکھو بھاگے ماں

سنبھالےرہتی ہےکس طرح نا زک رشتے ناطوں کو

کبھی بھی ٹوٹنے  دیتی نہیں  یہ کچےّ  دھا گے  ما ں

بہو  بیٹی  ہو  یا   پھر  ہو  بہن   بیو ی  ،  کوئی  رشتہ

قطاروں میں بھی  رشتوں کی یہاں ہے سب سے آگے ماں

اے  طاہر  جو  ملا  ہم  کو ، ملا  ما ں  کی  دعا ؤ ں  سے

جو  تیری  قدر  نہ  جانے  وہ  ہے  کتنے   ا بھاگے  ماں

  19 :محاکاتی غزل : علیم طاہر

آس پر جب  گرا   وقت  لٹکا  ہوا

ٹوٹ کر پھر تو وہ لمحہ لمحہ ہوا

چکنی مٹھی سے جب نیند پھسلی مری

خواب موتی بنا اور اجالا ہوا

تیرے احساس کی دل نے دستک سنی

دھڑکنوں میں عجب شور برپا ہوا

لاش کمرے سے میری نکالی گئی

چھوڑ کر عشق بستر پہ روتا ہوا

میرے کمرے کی کھڑکی کھلی رہ گئی

خالی بستر کا تکیہ تھا بھیگا ہوا

میری مٹی چھوا تیرے ہاتھوں نے جب

چاک تھمتے ہی میں بھی تو پورا ہوا

20 :محاکاتی غزل... علیم طاہر

ذکر ترا مری بات میں  کوئی  فرق   نہیں

میرے دن، تری رات میں کوئی فرق نہیں

ساگر اور قطرات  میں کوئی فرق  نہیں

لمحوں اور  اوقات  میں کوئی فرق نہیں

دونوں  سیاست  کی مٹھی میں قید   ملے

اب کے جیت میں مات میں کوئی فرق نہیں

تو  ہے آگ   دھواں   ہے    تیری     پیدائش

تیرے ساتھ اور گھات میں کوئی فرق نہیں

تیرا ذہن اور موسم ایک سے لگتے ہیں

دونوں کےجذبات میں کوئی فرق نہیں

پھر کیوں فلک زمیں کا انتر دونوں میں

تیری میری ذات میں کوئی فرق نہیں

کتنی انوکھی فکر  ہے  یہ  تیرے  نزدیک

قلب میں اور سوغات میں کوئی فرق نہیں

ایک  حقیقی سوچ  نے  یہ   اعلان   کیا

خیر میں اور خیرات میں کوئی فرق نہیں

ضم ہے طاہر ذات میں اس کی دونوں ہی

جس کی وفا اور گھات میں کوئی فرق نہیں

21: جدید محاکاتی غزل.... علیم طاہر

آس کے پاؤں میں پازیب سا رشتہ باندھا

پھر کمر کس کے محبت کا نظریہ  باندھا

اس نے جانا کہ ہے آواز طلسماتی پھر

نرم لہجے سے شگفتہ سا کرشمہ باندھا

چھوٹ جائے نہ کوئی عشق لڑا کر نظریں

سرمی ء آنکھ سے ست رنگ اشارا باندھا

تیرا  دیدار کرے  جب بھی جھکائے گردن

دل کی چھاتی سے تخیل کا دریچہ باندھا

تیرے بستر پہ عقیدت کے رکھے لب پہلے

پھر کلائی میں تیرے عشق کا دھاگا باندھا

تیرے جاتے ہی رکھا ضبط کا پتھر دل  پر

اپنی آنکھوں سے کہاں اشک کا دریا باندھا

تیرے لہجے میں جو در آئے ہیں کتنے لہجے

تجھ کو بس وہم ہے کس نے ترا لہجہ باندھا

اے زباں اردو! رکھے جیسے تو  کالا  جادو

لفظ ہر لفظ میں خوش رنگ سلیقہ باندھا

یوں ہی بچے کو فضاؤں کے حوالے نہ کیا

پہلے پنچھی نے خود اپنا ہی کلیجہ باندھا

اک زمانے سے اے طاہر یہ سفر جاری  ہے!

کیا مقدّر نے مرے پاؤں میں رستہ باندھا؟


22:محاکاتی غزل......    علیم طاہر

نہ خود کا میں ہوں نہ کچھ اور میرے بس میں ہے

جہاں میں جو بھی ہے سب تیری دسترس میں ہے

مرے وجود سے کیسے تجھے نکالوں میں

ترا وجود تو میری ہر ایک نس میں ہے

ترا شہود مری دھڑکنوں سے وابستہ

تری نمود بھی میری ہر ایک نس میں ہے

تڑپ رہی ہیں ہمہ وقت مقید سانسیں

ہر ایک لمحہ تمناؤں کے قفس میں ہے

بغیر دل کے کوئی نقش ابھرتا ہی نہیں

نظر نظر کا نظارا دلوں کے بس میں ہے

یہ مشورہ ہے کہ دنیا کی آرزو نہ کر

نہ تیرے بس میں ہے دنیا نہ میرے بس میں ہے

وہ نغمگی جو بکھرتی ہے تیرے لہجے سے

مرے جنوں کی سماعت اسی کے رس میں ہے

جس انقلاب کو صدیوں کا انتظار رہا

وہ انقلاب بھی طاہر قلم کے بس میں ہے


23 :  محاکاتی غزل علیم  طاہر

بحر:

متدارک مثمن سالم

(فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

اس جہاں میں جہاں بھی رہی روشنی

ہر اندھیرے پہ غالب ہوئی روشنی

چُھو نہ پائے اندھیرے اسے پھر کبھی

ساتھ جس کو بھی لے کر چلی روشنی

ان اندھیروں کا پانی اُتر جائے گا

کاش آئے اچانک ابھی روشنی

لب کھلیں گے تو اندھیارے بھاگیں گے سب

ہر طرف ہوگی پھر روشنی  روشنی

کوئی اندھیارا مجھ کو چھُپا نہ سکا

سر پہ سایہ ہمیشہ بنی روشنی

گود میں کھیل کر مجھ سے روشن ہوئی

میری انگلی پکڑ کر چلی روشنی

میرے کاندھے پہ چڑھنے کو بے چین ہے

میں بھی راضی ہوں پائے خوشی روشنی

چاروں جانب ہیں دہشت کی تاریکیاں

کر دے نازل خدا چین کی روشنی

یوں گِھری  زندگی نفرتوں میں یہاں

جیسے ظلمت میں قیدی بنی روشنی

سارے مجرم اندھیرے میں روپوش ہے

چل مچا دے ابھی کھلبلی روشنی

رنگ برنگی امیدوں کو پہنے ہوئے

آئی ملنے ہمیں منچلی روشنی

روشنی کو پرکھنے کی کوشش کرو

تیرگی ہے مگر لگ رہی روشنی

اب تو ہم سب کی عزّت ترے ہاتھ ہے

تیرا کردار ہے مرکزی روشنی

تیرے ہوتے ہوئے بے قصوروں کی یہ

دیکھی جاتی نہیں بے بسی روشنی

پڑھ کے اشعار طاہر سے کہتے ہیں وہ

منکشف ہو گیا شاعری  روشنی  


24:محاکاتی دوہا غزل۔۔۔۔۔۔۔۔علیم طاہر

رستہ رستہ انجانہ ، سفر کہاں آسان

میں راہی ہوں مستانہ ، ہر لمحہ حیران


دنیا چھوٹے گی سب سے ، رکھنا بس یہ دھیان

میزبان ہے یہ  قدرت ،  ہر کوئی مہمان

صورت ہے انسانی پر ، کام کرے شیطان

ہر لمحہ اب چیخے ہے پہلے بن ، انسان

وقت گرج کر برسے پر  ،  ترسے  اپنا دل

امیدوں کی بارش میں پیاسے ہیں ارمان

میرے ڈھلکتے یہ آنسو ، قطرے ہیروں کے

تیری یادیں ہیں جیسے ، کوئلے کی کان

ذہن میں میرے نشے سی،  چڑھی ہے تیری یاد

عشق مرا ہے دل تیرا ،   حسن ترا مر ی جان

الگ تھلگ ہے یہ دنیا ،  الگ تھلگ ہے تو

سب کا اپنا رنگ ہے ،  سب کی اپنی شان

آؤ بیٹھو پاس تم   ،  پی کر جاؤ چایے

میں تو ایک قلندر دل ،  کیا لینا احسان

بے چینی سے باہر آ، دکھ سارے تو بھول

من کی آنکھ سے کر درشن  طاہر خدا مہان

A Doha gazal......by.... AleemTahir (India)

  25 :جدید محاکاتی غزل..

                             علیم طاہر

آڑھی ترچھی، الٹی سیدھی، رنگ برنگی دنیا ہے

کبھی آگ تو کبھی برف سے ملتی جلتی دنیا ہے

مہنگے آم کے رس جیسی بھی، کڑوے نیم کے پتوں سی

گٌڑ بھیلی سی،  کالی املی کھٹّی میٹھی دنیا ہے

اوروں کو تو بیچ رہی ہے، خود کی بھی ہے سوداگر

چوروں کی اک منڈی جیسی، لچھی اوچھی دنیا ہے

اصلی ہیرے جیسی لاگے، کانچ کے چم چم  ٹکڑے سی

پرت پرت، بدلے  ہے مکھوٹا،  کتنی  نقلی دنیا ہے

اس میں مگر کی خوںخواری ہے، ناگن کی پُھنکاری بھی

موٹی بھّدی، سخت کھال سی، گندی مچھلی دنیا ہے

گرتے پڑتے، اور  سنبھلتے، پھرتی  ہے  آوارہ سی

میخانے   سے باہر    نکلی ،     بہکی بہکی دنیا ہے

رکھتی ہے کشکول یہ خالی، بھرنے کب دیتی اس کو

خود  کو  لاغر  بتا رہی  ہے،     ہٹی کٹی      دنیا ہے

گرگٹ جیسی رنگ بدلتی چھوئی موئی فطرت سی

ریشم جیسا رکھے  لہجہ    لیکن    باغی دنیا ہے

ایک کہانی دم چھلّے  سی اپنے   پیچھے لٹکائے

آگے آگے ڈھول بجاتی     سب کو  بلاتی  دنیا ہے

اپنی دھن میں چلتا ہے تو میں چلتی اپنی دھن میں

تیرے  میرے  رستے  طاہر،     تیری ، میری دنیا ہے

(C) : LAFZ LAFZ CHINGAARI JAISA

(MAHAKATI GAZLEN) :

" Sheri Majmuaa "

By

Aleem Tahir.

Email: aleemtahir12@gmail.com

Mobile no. 9623327923 106.66.28.88 16:45، 17 نومبر 2023ء (م ع و)

"انجمن محبان اردو" کی افسانوی نست میں افسانہ "چھپکلی" پیش کرتے ہوئے علیم طاہر کا ڈرامائی انداز پیشکش۔، ۔پروگرام کی بہترین رپورٹنگ : عبد الرحمن اختر

ترمیم

"انجمن محبان اردو " کی افسانوی نشست میں افسانہ "چھپکلی" پیش کرتے ہوئے

علیم طاہر ۔

________________________________

سٹی کالج میں انجمن محبان ادب کی یادگار افسانوی نشست

نثری جمود کو توڑ نے والی انجمن،

انجمن محبان ادب (رجسٹرڈ) اور سٹی کالج مالیگاؤں کے اشتراک سے

مورخہ گیارہ نومبر بروز سنیچر شب  دس بجےسراج دلار سر کی صدارت میں بیاد ڈاکٹر الیاس صدیقی اور حمید شیخ منعقد ہوئی..

گلابی سردی میں رات دس بجے ادب کا آلاو روشن ہوا اور ادب کے پروانے جمع ہوئے محفل کا آغاز صدر انجمن ھارون اختر کی قرات سے ہوا

تحریک صدارت اور تائید آصف اقبال مرزا صاحب نے کی۔

افسانہ خوانی کے لئے ناظم نشست نعیم سلیم سر نےسب سے پہلے علیم طاہر کو مدعو کیا۔موصوف نے اپنا افسانہ چھپکلی پیش کیا۔انجمن محبان ادب کی نشست میں تنقید تبصرے کی مکمل آزادی ہوتی ہے آصف اقبال مرزا صاحب نے کہا کہ علیم طاہر ایک اچھے شاعر ہیں اور ایک اچھے ایکٹر بھی انہوں نے افسانے کی پیشکش ڈرامہ کے انداز میں کی افسانہ چھپکلی ڈر اور خوف کا المیہ ہے جسے نیم علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے......

اسی طرح صادق اسد نے اپنا افسانہ "آدھا سورج" پیش کیا

افسانے میں درد تھاجسے ہر کوئی محسوس کرتا رہا حالات حاضرہ کی بھر پور عکاسی کرتا ہوا درد کی ایک لے قاری کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھی ٹرین کی پٹری کی زبانی یہ افسانہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا ہے..

اسی طرح ڈاکٹر مختار احمد انصاری صاحب نے افسانہ" بانسری" پیش کیا

ایک کامیاب افسانہ ایک عورت... ایک بھکارن..... ماں کس طرح  بھیک مانگ کر ایک آدھے ادھورے اپاہج بچے کی پرورش کرتی ہے۔قاری کو جب پتہ چلتا ہے یہ آدھا ادھورا اپاہج بچہ اس بوڑھی ماں کا اس بھکارن کا نہیں ہے بلکہ اس کی سوتن کا بچہ ہے۔آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

یہاں ماں کی عظمت اور بلندی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔

آخری قلمکار عظمت اقبال سر

نے افسانہ "نضال" پیش کیا۔

جنت کے گھوڑے پر سوار۔

فلسطین پر ہورہی بربریت اور ظلم کی داستان یہ سچ ہے کہ افسانہ اپنی زبان لیکر آتا ہے ایک معصوم بچے کی زبانی یا اللہ یا اللہ ،اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا ہر درد مند دل کے لہو کو گرما دیتی ہے....

طاہر انجم صدیقی صاحب نے الیاس صدیقی صاحب کی شخصیت پر بہت اچھا مضمون لکھا اور پیش کیا جسے لوگوں نے بہت پسند کیا

حمید شیخ صاحب اور الیاس صدیقی صاحب کی ادبی خدمات کو ڈاکٹر اقبال برکی سر اور عمران جمیل سر نے تفصیل سے بتائی ہارون اختر نے بھی اپنے خیالات کا جذباتی اظہار کیا.....

صدر نشست سراج دلار سر نے خطبہ صدارت میں مرحومین کی یاد میں نشست کے انعقادپر انجمن وکالج کی سراہناکی۔ اور مرحوم الیاس صدیقی و حمید شیخ کے ساتھ گزرے واقعات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی۔نئے لکھنے والوں کا استقبال کرتے ہوۓ انہیں مفید مشوروں سے نوازا۔آپ نے کہا کہ ماضی کو یاد رکھو حال میں خوش اور محتاط رہو اور مستقبل پر نگاہ رکھو.سفر کرو اور اپنا مشاہدہ وسیع کرو مطالعہ کو مطالعہ کی طرح کرو اور الفاظ کا ذخیرہ اپنے پاس رکھو..

اس افسانوی نشست میں

عمران جمیل سر ،شفیق محسن صاحب، آصف سبحانی صاحب، مسعود پینٹر صاحب، طاہر انجم صدیقی صاحب ،نخشب مسعود صاحب، احمد نعیم صاحب اور عبدالرحمن اخترنے تنقید اور تبصرہ میں حصہ لیا.جبکہ دیگر شعراء ادباء و ادب نواز احباب بھی بحیثیت سامع شروع سے آخر تک موجود رہے۔

ہارون اختر کے رسم شکریہ کے ساتھ افسانوی نشست رات ایک بجے صدر نشست کی اجازت سے آئندہ ماہ کے لئے نیک خواہشات کے ساتھ ملتوی کی گئی...

عبدالرحمن اختر

سیکریٹری انجمن محبان ادب مالیگاؤں

________________________________ 106.66.29.173 07:47، 19 نومبر 2023ء (م ع و)

انتباہ!

ترمیم

آپ اپنے صارف صفحہ اور تبادلہ خیال پر سوشل میڈیا کے لنک اور اپنا رابطہ نمبر لکھ رہے ہیں، جو کہ ویکیپیڈیا پر ممنوع ہے۔ ویکیپیڈیا کوئی تشہیری پلیٹ فارم یا سوشل میڈیا نہیں ہے۔ آئندہ احتیاط سے کام کریں۔ Fahads1982 (تبادلۂ خیالشراکتیں) 14:05، 6 دسمبر 2023ء (م ع و)